کلام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنیں

350

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا۔ اس میں فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا پھر جامِ شہادت نوش کرلیا، پھر جھنڈا جعفر نے پکڑا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے پکڑا توو ہ بھی شہید ہوگئے۔ پھر خالد بن ولید نے جھنڈا لے لیا بغیر اس کے کہ اسے مقرر کیا گیا ہو۔ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں مذکورہ صحابہ کرامؓ ، زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ کو امیر مقرر کیا تھا، تینوں شہید ہوگئے تو خالد بن ولیدؓ نے ہنگامی بنیادوں پر جھنڈا پکڑ لیا (جھنڈا فوج کی کمان کرنے والے کے پاس ہوتا تھا اور اسی کو سربراہ اور امیر سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ صحابہؓ نے ان کو اپنا امیر سمجھ کر ان کی قیادت میں جنگ کی اور جنگ جیت لی) اور فتح پائی۔ (بخاری، کتاب الجہاد)

یہ غزوئہ موتہ کا واقعہ ہے۔۳ہزار کی تعداد میں صحابہ کرامؓ تھے اور قیصرروم کی ایک لاکھ فوج تھی۔3ہزار کی فوج نے ایک لاکھ کا مقابلہ کیا۔ ایک اور33 کی نسبت تھی۔ مسلمانوں نے اپنی قلت تعداد کے باوجود دُوردراز علاقے میں کفار کی فوجوں کا مقابلہ کیا اور انھیں شکست سے دوچار کیا۔ اس جنگ کا پس منظر یہ ہے کہ رومی سلطنت کے ساتھ کش مکش کی ابتدا فتح مکہ سے پہلے ہوچکی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے جو وفود عرب کے مختلف خطوں میں بھیجے تھے، ان میں سے ایک وفد شمال کی طرف سرحد شام سے متصل قبائل میں بھی گیا تھا۔

یہ لوگ زیادہ تر عیسائی تھے اور رومی سلطنت کے زیراثر تھے۔ ان لوگوں نے ذات الطلع یا ذات اطلاع کے مقام پر اس وفد کے 15آدمیوں کو قتل کردیا، اور صرف امیروفد کعب بن عمیر غفاری بچ کر واپس آئے۔ اسی زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بصرہ کے رئیس شرحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوت اسلام کا پیغام بھیجا تھا مگر اس نے آپؐ کے ایلچی حارث بن عمیر کو قتل کردیا۔ یہ رئیس بھی عیسائی تھا اور براہِ راست قیصرروم کے احکام کاتابع تھا۔ ان وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ 8ہجری میں3ہزار مجاہدین کی ایک فوج سرحدشام کی طرف بھیجی تاکہ آئندہ کے لیے یہ علاقہ مسلمانوں کے لیے پُرامن ہوجائے اور یہاں کے لوگ مسلمانوں کو بے زور سمجھ کر ان پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ کریں۔

یہ فوج جب ھان کے قریب پہنچی تو معلوم ہوا کہ شرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلے پر آرہا ہے۔ خود قیصرروم مقامِ حمص پر موجود ہے اور اس نے اپنے بھائی تھیوڈور کی قیادت میں ایک لاکھ کی مزید فوج روانہ کی ہے۔ لیکن ان خوف ناک اطلاعات کے باوجود 3ہزار سرفروشوں کا یہ مختصر دستہ آگے بڑھتا چلا گیا اور موتہ کے مقام پر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جاٹکرایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجاہدین اسلام بالکل پس جاتے لیکن سارا عرب اور تمام شرق اوسط یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ایک اور33 کے اس مقابلے میں بھی کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے۔

یہی چیز تھی جس نے شام اور اس سے متصل رہنے والے نیم آزاد عربی قبائل کو بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبائل کو بھی جو کسریٰ کے زیراثر تھے ، اسلام کی طرف متوجہ کردیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے(بحوالہ تفہیم القرآن، سورئہ توبہ)۔ آج بھی اس تاریخ کو دہرایا جاسکتا ہے ، مسلمان اپنی قلت تعداد اور فوج اور اسلحہ اور ٹکنالوجی میں کفار سے کم تر ہونے کے باوجود ان کو پسپا کرسکتے ہیں بشرطیکہ ان میں اسی طرح کی جاں سپاری، سرفروشی ، جرأت اور بہادری ہو اور وہ کفار سے مرعوب ہونے کے بجاے مرعوب کرنے والے ہوں۔

لیکن آج تو صورت حال یہ ہے کہ مسلمان حکمران کفار کے لیے نرم چارہ بن چکے ہیں اور ان کے سامنے جھک کر، تابع فرمان بن کر زندگی گزارنے کو اپنی زندگی کا سامان سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی قیادت آگے آئے جو صحابہ کرامؓ کے جذبۂ ایمان اور شوقِ شہادت کو زندہ کرنے والی ہو اور زمین پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کردینے کا مشن رکھتی ہو۔

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ایک درجہ تواضع کرے اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ اُونچا کرتے ہیں اور اس کو اتنا اُونچا کرتے ہیں کہ وہ علیین تک پہنچ جاتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تکبر کرے اللہ تعالیٰ اسے اسفل السافلین تک پہنچا رہے ہیں۔ (مسند احمد)

اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا اس کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرلینا عزت و رفعت کا سامان ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہم وہ قوم ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بدولت عزت دی ہے، جب ہم اسلام کے علاوہ کسی اور چیز سے عزت طلب کریں گے تو اللہ ہمیں ذلیل کردے گا۔ آج مسلمان اللہ تعالیٰ کے دین کو چھوڑ کر پستی میں گر چکے ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

دین کو چھوڑنا اور لادینی نظاموں کو قبول کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بڑا بننا ہے، جو اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: العظمۃ ازاری والکبریائی روائی فمن ناز عنی فیھما اھینۃ، ’’عظمت پر آزاری ہے اور بڑائی میری چادر ہے جس نے میرے ساتھ ان کے معاملے میں کش مکش کی میں اسے ذلیل کروں گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کے تابع کردے تاکہ ہماری ساری ذلتیں اور پستیاں ختم ہوجائیں اور ہم اس دنیا میں بھی سربلند اور آخرت میں بھی سرخرو اور کامیاب ہوجائیں۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ احسان کیا جائے تو وہ اس کا بدلہ دے۔ اگر بدلہ نہ دے سکے تو اس کا تذکرہ کرے، جس نے اس کا تذکرہ فرمایا تو اس نے اس کی شکرگزاری کردی اور جو آدمی اپنے آپ کو سیر ظاہر کرے درآنحالیکہ وہ بھوکا ہو، اس کے پاس وہ چیز نہ ہو جسے وہ اپنے پاس ظاہر کر رہا ہے تو وہ جھوٹا لباس پہننے والے کی طرح ہے۔(مسند احمد)

بہت سے لوگ بھوکے ہوتے ہیںاور وہ اپنے آپ کو سیر ظاہر کرتے ہیں، جاہل ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو عالم ظاہر کرتے ہیں۔ سیرت و کردار کے خام ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو متقی و پرہیزگار ظاہر کرتے ہیں۔ یہ دراصل نفاق میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن میں اختلاف ہے اور جس کے ظاہروباطن میں اختلاف ہو وہ منافق ہوتا ہے، یہ جھوٹا لباس ہے۔اپنے آپ کو متقی اور پرہیزگار ظاہر کرنا درآنحالیکہ اس میں تقویٰ نہ ہو ایسی بیماری ہے کہ اس کا جلداز جلد علاج کیا جائے ورنہ نفاق کی بیماری بڑھ گئی تو وہ کینسر بھی بن سکتی ہے، جو لاعلاج بیماری ہے۔

حضرت عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم مریض کی عیادت کرنے جائو تو اس سے اپنے لیے دعا کرائو۔ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے۔ (ابن ماجہ)

بیماری مسلمان کو گناہوں سے پاک وصاف کردیتی ہے۔ اگر ایک مسلمان شعوری طور پر مسلمان ہو اور دین پر عمل پیرا ہو تو بیماری اس کے لیے تزکیہ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور وہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح فرشتے گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبولیت ِدعا کا ایک دروازہ بیمار مسلمان سے دعا کرانے کا بتلا دیا ہے۔ بیمار کی عیادت کرنا، اس کے لیے دعا کرنا بھی سنت ہے اور ا س سے دعا کرانا بھی سنت ہے۔ بیمارسے دعا کرانے کی سنت کو بھی عام کرنا چاہیے جن سے لوگوں کی مشکلات اور مصائب حل ہوں۔

حضرت عیاض بن حمار مجاشعیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تواضع سے پیش آئو! کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور کوئی کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ (مسلم، مشکوٰۃ، باب المفاخرہ والعصبیت)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو پیش نظر رکھا جائے تو معاشرے میں انس و محبت کا دور دورہ ہوجائے۔ جب ہر کوئی دوسرے سے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے اور کسی پر فخر نہ کرے اور کسی کے ساتھ زیادتی سے بھی پیش نہ آئے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپس میں متصادم اور برسرِپیکار ہوں۔ اس کے برعکس ہر ایک دوسرے کا ہمدرد و غم گسار ہوگا اور دوسرے کی مصیبت میں اس کے کام آنے والا ہوگا جس کے نتیجے میں باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ آج معاشرے کو اس ہدایت کی سخت ضرورت ہے۔

حضرت ابودردائؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیزکے لیے ایک حقیقت ہے، ایمان کے لیے بھی ایک حقیقت ہے۔ اور کوئی شخص ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک یہ عقیدہ نہ رکھے کہ جو آرام اور تکلیف اسے پہنچی ہے، وہ پہنچ کر رہنی تھی اور جو آرام اور تکلیف اسے نہیں پہنچی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔ (مسند احمد)

انسان زندگی کے جن مراحل سے گزرتا ہے وہ اس کی تقدیر میں لکھ دیے گئے ہیں۔ وہ ان مراحل سے گزر کر ہی آگے بڑھتاہے۔ اس لیے وہ جس حال میں بھی ہو اسے صبروشکر کو اپنا وظیفہ بنا کر حوصلے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہے اور کبھی بھی بے حوصلہ ہوکر مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ مومن جرأت مند اور حوصلہ مند شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے ہمارے سامنے یہی نمونہ پیش کیا ہے۔ اس کو اپنانا کامیابی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب اور صحابہ کرامؓ کی خلافت راشدہ اسی کی تصویر ہے۔ آج بھی اسے دہرایا جاسکتا ہے۔

حصہ