اگر میں چور ہوتا۔۔۔

400

یہ دلی ہے۔ اس وقت رات کے آٹھ بجے ہیں۔ یہ باتیں ریڈیو پر آپ ہر روز اسی وقت سنتے ہیں۔ لیکن آپ نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ دلی اور رات کے آٹھ بجنے کا مطلب کیا ہے۔ ظاہر ہے چوری کرنے کا اچھا موقع ہے۔ دوسری بات انائونسر صاحب نے میرے متعلق فرمائی ہے یعنی میں کون ہوں۔ اس سے غالباً آپ کو اختلاف نہ ہوگا۔ مجھے بھی اختلاف نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ریڈیو الوں نے ایک ایسی بات چھیڑ دی جس سے مجھ سے تمام دنیا سے اختلاف ہوجائے، اختلاف ہی نہیں مخالفت بھی یعنی میں چور ہوتا تو کیا ہوتا۔ ظاہر ہے اس کا جواب ایک ہی ہے۔ یعنی جو سزا چور کی وہ میری۔پھر یہ بھی ہے کہ ہماری آپ کی طبیعتیں کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہیں کہ ہم سیدھی سادی بات سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ جی چاہتا ہے کہ کچھ انوکھی باتیں بھی ہوں مثلاً! ایک اچھا خاصا مرد معقول چور کی حیثیت سے پیش کیا جائے اور اچھے خاصے چور کو مردِ معقول ہونے یا بننے کا موقع نہ دیا جائے۔ اگر میں چور ہوتا تو کچھ ایسا محسوس کرتا ہوں کہ پہلی ہی چوری میں عین موقع واردات پر دھرلیا جاتا۔ اس کے بعد جو سلوک ہوتا اس سے فیضیاب ہوکر اچھا خاصا چور بن جاتا کہ لوگ مجھ سے تعویذ بھی مانگتے اور پناہ بھی۔ لیکن یہ باتیں چوروں جیسی نہیں، فلسفیوں جیسی ہیں۔ کوئی چور آج تک فلسفی نہیں ہوا۔ حالانکہ میں درجنوں ایسے فلسفیوں کے نام گنا سکتا ہوں جو صرف چور ہیں۔ لیکن نہیں چاہتا کہ اس وقت جب کہ آپ کا سابقہ ایک چور سے ہے، آپ کا انجام فلسفی کے ساتھ ہو۔ اس لیے فلسفہ بالائے طاق اور چوری مقدم!
سوال یہ ہے کہ میں چور ہوتا تو کیا ہوتا؟ ہوتا تو کیا ہوتا مہمل سی بات ہے ہمارے ہاں اچھے خاصے لکھنے پڑھے لوگ صاف و صریح باتیں سمجھنے سے معذور رہتے ہیں چہ جائے کہ ان کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا جائے کہ ایسا ہوتا تو کیا ہوتا۔ ہونے کو تو سب کچھ ہوجاتا لیکن بقول ایک دوست کے ’’ہماری سمجھ نہیں آتا‘‘۔ اس لیے اس بحث میں سردست نہ خود پڑنا چاہتا ہوں اور نہ آپ کو درد سر میں مبتلا کرنا چاہتا ہوں۔
یہ باتیں محض احتیاط کے خیال سے بیان کردیں ورنہ جانتا ہوں آپ سمجھ دار آدمی ہیں۔ جہاں کوئی بات نہ بھی سمجھتے ہوں گے وہاں دوسروں کو ہنستے دیکھ کر خود بھی ہنسنے لگتے ہوں گے یا نادانستگی میں ہنسی آجاتی ہوگی تو دوسروں کو خاموش دیکھ کر خاموش ہوجاتے ہوں گے۔ آپ کے اس اصول یا عادت کے بڑے فوائد ہیں۔ اول تو سوچنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ دوسرے فعل اپنا ہوتا ہے ذمے داری دوسروں کی۔ آپ برا نہ مانیں یہ باتیں ریڈیو ہی پر نہیں عید بقرعید کی نمازوں میں بھی نظر آتی ہیں۔ ایک دفعہ دو چور عید کی نماز پڑھ رہے تھے۔ فرض کرلیجیے ان میں سے ایک میں تھا اور دوسرے آپ۔ ہم دونوں نہایت مقطع صورت تھے۔ اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب مقطع صورت چور کم یاب تھے۔ آج کل ہر چور مقطع صورت ہوتا ہے اور یوں بھی کہہ لیں تو غلط نہ ہوگا کہ ہر مقطع صورت چور ہوتا ہے۔ بہرحال ہم دونوں کو یقین تھا کہ دوسرا نیت باندھنے اور ہاتھ چھوڑنے سے واقف ہوگا۔ ہاتھ چھوڑنے اور باندھنے کا وقت آیا تو ہم دونوں نے کنکھوں سے ایک دوسرے کی ہاتھ پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ دونوں کورے ہیں۔ نماز تو جوں توں ختم ہوئی لیکن سلام پھیرتے وقت میرا خیال ہے نہ آپ نظرآئے۔ اور نہ میں آج کا دن ہونے آیا، ہماری آپ کی ملاقات کی نوبت نہ آئی۔ اگر اس وقت آپ کہیں میری تقریر سن رہے ہوں تو سلام قبول فرمایئے۔
ظاہر ہے ترکیب نماز چرانے میں، میں نے آپ نے تامل نہیں کیا تو فرض کرلیجیے نمازیوں کی جوتیاں چرانے میں کب تامل کیا ہوگا۔ لیکن آپ نے نمازیوں کی جوتیاں اب تک نہ چرائی ہوں تو اب، اس قسم کی حرکت نہ کیجیے گا کیونکہ مسجد سے جوتیاں چرانے میں آج کل بڑے خطرے ہیں۔ اس کا سبب ایک تو یہ ہے کہ اس بے روزگاری اور بیداری کے زمانے میں اکثر لوگ جوتیاں چٹخاتے آتے ہیں اور پگڑیاں اچھالتے جاتے ہیں۔ پھر مسجد میں خوف خدا اتنا غالب رہا ہے کہ دنیا کا خوف اس کے سامنے بالکل ہیچ نظر آتا ہے۔ ایسی حالت میں جوتی چور پکڑا جائے تو سمجھ لیجیے اس کے دن پورے ہوگئے۔ تاآنکہ جوتا خور خدا کے اور جوتے مار کسی پنچ مجسٹریٹ کے قریب نہ پہنچ جائے۔پھر سوچیے تو آج کل مسجد میں لوگ کیسی کیسی جوتیاں پہن کر آتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ موچیوں نے اسلحات جنگ کے اضافے کا تہیہ کرلیا ہے، جس کو ایک شاعر نے یوں بیان کیا ہے:
کفش فریادی ہے کس کی شوخی تعزیر کی
ان جوتیوں کو دیکھ کر اکثر چوروں نے ارادہ کرلیا تھا کہ چوری بند کرکے فوج داری شروع کردیں، ان جوتوں کے چرانے سے جوتوں کے مالک کی عزت افزائی ہوتی تھی اور چوروں کی رسوائی۔
ان جوتیوں پر ریسرچ کرنا بڑا دلچسپ مشغلہ ہوگا۔ ان میں آپ کو ہر قسم، ہر زمانہ، ہر ناپ، ہر نوعیت اور ہر برادری کی جوتیاں مل جائیں گی۔ اس جوتا گوہار میں اس زمانے کے بھی جوتے ملیں گے جب جوتیوں میں دال بٹتی تھی بعض جوتیاں چرانے والوں کا بیان ہے اور اس میں آپ کی میری کوئی قید نہیں ہے کہ اکثر جوتوں کی چوری خاص خاص مصالح کی بنا پر بھی ہوتی ہے۔ چناں چہ بعض جوتے تو تیل اور وہی کے سبب سے کتوں، چیلوں اور گدھوں کے شکار ہوجاتے ہیں اور اس طور پر حفظانِ صحت کے مقاصد پورے ہوتے رہتے ہیں بعض کی چوری اکثر مُلّا اور سیانے کرتے ہیں کیوں کہ ان کو اکثر چور کے خلاف فال نکالنی پڑتی ہے، جوتے کے تلے میں ایک سُوا گھونپ کر یہ فال نکالی جاتی ہے۔ بعض مجبوریوں کی بنا پر میں اس فال کی ترکیب نہیں بتانا چاہتا۔بعض جوتیاں گھر کی بیویاں چوری کرالیتی ہیں بیان تو یہ کیا جاتا ہے کہ بعض بیویاں میاں کو ہموار رکھنے کے لیے ان پر تعویذ گنڈے کا عمل کراتی ہیں لیکن جو لوگ چور نہیں بلکہ شوہر ہیں ان کا بیان ہے کہ یہ جوتے حاصل تو اسی مقصد کے لیے کیے جاتے ہیں لیکن عورتیں پھر عورتیں ہیں، اکثر عمل کرنے میں کہیں خامی رہ جاتی ہے تو یہ جوتیاں تعویذ گنڈے کاکام پورا کرنے کے بجائے بعض ایسے مقاصد بھی پورا کرنے لگتی ہیں جن سے کسی سعادت مند شوہر کو اتفاق نہیں ہوسکتا۔
بعض خاص قسم کے جوتے کی چوری بعض خاص قسم کے پروفیسر کرتے ہیں اور جب کبھی غیر ممالک کے سیاح ہندوستان آتے ہیںتو یہ ان کے سر تھوپ دیتے ہیں اور ریسرچ سے ثابت کردیتے ہیں کہ یہ جوتے حقیقتا پتھر جگ کے ہیں پہلے پہل یہ پتھر سے تراش کر بنائے گئے تھے، امتداد زمانہ سے پتھر نے چمڑے کی نوعیت اختیار کرلی۔ دوسرے یہ کہتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہیں، یہ جوتے چمڑے کے تھے لیکن اکدکوب حوادث سے اب پتھر کی نوعیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ بہرحال ان جوتوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پتھر چمڑے میں تبدیل ہوسکتا ہے اور یہ قرین قیاس ہے کہ پتھر میں چمڑے کا قالب اختیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ لیکن اسی سلسلے میں ماہرین فن یہ بحث بھی اٹھاتے ہیں کہ پتھر جُگ پہلے تھا یا چمر جُگ۔
پتھر جُگ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ’’اسٹون ایج‘‘ کو کہتے ہیں رہا چمر جُگ اس کا مفہوم بنانے سے زیادہ سوچنے سے واضح ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو پتھر جُگ اور چمر جُگ کے مقدم مؤخر ہونے کی بحث میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا محض اس خیال سے کہ جن جوتوں سے متعلق یہ بحث چھڑے گی ان کا خاصا ہے کہ نتیجے پر پہنچنے سے پہلے یا فوراً بعد وہ چلنے لگتے ہیں۔ پائوں میں چلتے رہیں تو کوئی ہرج نہیں لیکن جب خود بخود چلنے لگتے ہیں تو وہ وقت نہایت نازک ہوتا ہے۔قبل اس کے کہ ہم یا آپ کسی نتیجے پر پہنچیں یہ (جوتے) خود پہنچ جاتے ہیں اور ہمارے آپ کے لیے یہ کچھ ٹھیک نہیں کہ اس موقع کے پیدا ہونے کا موقع دیں۔ لیکن اسے خوب غور اور احتیاط سے سن لیجیے کہ میں آپ کو جوتی محفوط رکھنے کا، نہ کہ جوتی سے محفوظ رہنے کا گُر بتا رہا ہوں۔ اچھا آیئے اس جوتی پیزار سے باز رہ کر آپ کو جوتی محفوظ رکھنے کا گُر بھی بتادوں۔ آپ مسجد میں جائیں تو اپنی جوتی ہمیشہ ایسی جگہ چھوڑیے جہاں آپ کی جوتیوں سے بہتر جوتیاں آرام کررہی ہوں۔ جوتی چور کو انتخاب کرنے میں سہولت ہوگی اور آپ کی جوتیاں، جو یقینا زیادہ جمہوری قسم کی ہوں گی، محفوظ رہیں گی۔ گو اس کی ضمانت نہیں لی جاسکتی کہ جمہوری قسم کی ہر چیز آج کل محفوظ رہ سکتی ہے۔زمانہ ایسا آگیا ہے کہ دوسرے معاملات کے مانند چوری کے صحیفہ اخلاق اور چور میں بہت بڑا تفاوت ہوگیا ہے۔ شاعروں کے مانند چوروں کی بھی بہت سی اقسام ہیں۔ لیکن یہ ریڈیو ہے ممکن ہے ہماری آپ کی برادری میں بعض ایسے تنگ نظر اور بے وقوف چور بھی ہوں جو میری اس حرکت پر ناراض ہوجائیں کہ میں نے ان کو شاعروں سے کیوں تشبیہ دی۔ لیکن میری نیت چوروں کی دل آزاری نہیں ہے، شاعروں کی ہمت افزائی ہے۔ اس لیے کہ بغیر چوری کے شاعری ناممکن ہے، چوری کے فروغ سے شاعری کا فروغ ہوتا ہے، جیسے بے روزگاری کا فروغ بیداری سے۔ کسی ملک یا قوم کی بیداری کا معیار وہاں کی بے روزگاری ہے۔ غیر متمدن اقوام میں بے روزگاری نہیں پائی جاتی۔
جس قوم میں شاعر زیادہ پیدا ہورہے ہوں گے وہاں چوری کا بازار یقینا گرم ہوگا۔ ’’جدجدیت‘‘ کے کسی شاعر کو مدنظر رکھ لیں۔ اس کا سب سے بڑا کمال یہ نظر آئے گا کہ اس نے اپنے دیوان کو چوروں کا عجائب خانہ بنادیا ہے، یہ دن رات اس فکر میں رہتا ہے کہ کن کن غریبوں نے کہاں کہاں اور کیسے کیسے الفاظ، فقرے، ترکیبیں اور جملے، تشبیہ و استعارات استعمال کیے ہیں۔ یہ ان کو چرالے گا، ان پر ڈاکا دالے گا۔ کبھی جیب کتر لیتا ہے۔ کسی عورت کے ناک، کان سے کیل، بالی کھسوٹ بھاگتا ہے، کسی بچے کا زیور اتار لیتا ہے۔ کسی عورت کی چادر، کسی مُردے کا کفن، کسی بوڑھے کا خلال، کسی مسخرے کی عینک غرض جو ہاتھ لگا، اُچک لیا۔ گھر آکر یہ سب کی کھتونی کرتا ہے اور اپنے عجائب خانے میں جابجا رکھتا جاتا ہے۔ انقلاب یا بغاوت کا علم بردار بننے کی ضرورت ہے تو اپنے مطلب کی چیزیں اکٹھی کرنی شروع کردے گا۔ آگ خون، کفن، صور اسرافیل، ہڈی، مزدور، دریا پہاڑ، قیامت، اژدہا، جھونپڑا، مذہب، مُلّا وغیرہ سب کو لیے چوراہے پر اتائیوں کی مانند اناپ شناپ ہانکنا شروع کردے گا۔ لیکن اس کو نہیں معلوم کہ اسی آگ و اژدہے وغیرہ کے ساتھ سونے کی بالیاں کمر کی لچک، زلفوں کی مہک، جوانی کی راتیں، مُرادوں کے دن بھی لپٹے لپٹائے چلے آئے ہیں۔ چناں چہ آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ بغاوت کا دیوتا صرف نفس کا بندہ ہے۔ بھوک سے بے تاب نہیں ہے، ہوس کا شکار ہے۔ تلوار کی نہیں چوڑیوں کی جھنکار سننا چاہتا ہے، اپنا پیٹ کاٹ کر مزدوروں کو فاقہ سے نہیں بچانا چاہتا بلکہ دوسروں کا سونا چھین کر مزدوروں کو طلائی گنگن پہنانا چاہتا ہے۔اب میں آپ کا تعارف شاعر چور سے کرانا چاہتا ہوں۔ لیکن اس کا موقع نہیں ہے ابھی بہت سے چور باقی ہیں۔ شاعری شروع کی گئی تو بہت سے چوروں کا حق تلف ہوجائے گا۔ ریڈیو والوں کا بھی!
میں چور ہوتا تو کیا ہوتا یہ بات جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں مہمل ہے۔ اس واسطے کہ دنیا میں کون نہیں چور ہے جو میرا چور ہونا تعجب یا دلچسپی کی بات ہوگی۔ واقعہ یہ ہے کہ سب سے دلچسپ سوال یہ ہوتا کہ میں چور نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ سب سے پہلے تو یہ ہوتا کہ ریڈیو والوں کو مجھ سے یا مجھ ایسوں سے بالکل سروکار نہ ہوتا۔ ہم میں آپ میں کون شخص ایسا ہے جو یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنی نظروں میں چور نہیں ہے، اپ اپنے میلانات، اپنے افعال، اپنے خیالات کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوجائے کہ ہم ہر وقت چھوٹی بڑی چوری کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ کون باپ ہے جو اپنے بیٹے سے چوری نہیں کرتا، کون شوہر ہے جو اپنی بیوی کا چور نہیں ہے، کتنے دوست ہیں جو اپنے دوست کے چور نہیں ہیں، کتنے خدا کے قائل ہیں اور خدا کے چور نہیں ہیں اور کتنے خدا کے منکر ہیں اور اپنے انکار میں سچے ہیں۔ کیا آپ ہمیشہ وہی کرتے ہیں جو آپ کو کرنا چاہیے۔ ہم میں ہر شخص کسی نہ کسی حد تک وہ ضرور کرتا ہے جو اسے نہ کرنا چاہیے تھا، وہ ان حقوق کو تلف کرتا ہے جو اپنی نسبت سے خود اسے حاصل ہیں اور ان حقوق کو بھی تلف کرتا ہے جو اس کی نسبت سے دوسروں کو حاصل ہیں۔کیا ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کبھی کبھی اپنے عزیز ترین دوست یا رشتے دار سے مشکوک یا اس کی طرف سے بے پروا ہوجاتے ہوں، اسی طور پر اور بہت سی باتیں ہیں جن کے ہم مرتکب ہوتے رہتے ہیں لیکن اس کا ذکر دوسروں سے نہیں کرتے بلکہ اپنے آپ سے بھی چھپانا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسی تقریر کو لے لیجیے۔ بہت سی ایسی باتیں کرنا چاہتا تھا جو کرنی چاہیے تھیں۔ لیکن دوسروں کے خیال سے یا اپنے آپ کو دماغ سوزی سے بچانے کے لیے نہیں کررہا ہوں۔ اس بارے میں ریڈیو والوں سے جو توقعات ہیں ان کو کہاں تک پورا کرسکا، یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو ہر شخص کو ہمیشہ پیش آتی رہتی ہین۔ اگر ان حالتوں میں کوئی چوری نہ کرے تو دنیا کا سارا طلسم درہم برہم ہوجائے۔ ہر چوری اپنے کیے جانے یا چھپائے جانے کے لیے چور سے ذہانت، کاوش، ضبط و استقلال کا مطالبہ کرتی ہے۔ اسی مطالبے کے پورا کرنے اور کرتے رہنے میں دنیا کی ترقی مضمر ہے۔
لیکن ان باتوں سے کام نہیں چلتا۔ ریڈیو والے اس کی شکایت کریں گے کہ انھوں نے دعوت چور کو دی تھی یہ مولوی کہاں سے برآمد ہوگیا۔ آپ چور کے اعترافات سننا چاہتے تھے، اس نے راہ نجات کی ورق گردانی شروع کردی۔ میں خود بہت شرمندہ ہوں واقعہ یہ ہے کہ میں چور ہوتا تو بہت کچھ کرتا لیکن صورت حال یہ ہے کہ ہم چوروں میں تعلیم کی بہت کمی ہے۔ ریڈیو والوں کا دعوت نامہ پاتے ہی اس امر پر غور کرنے لگا تھا کہ مجھے چوروں کی ایک یونیورسٹی قائم کرنی چاہیے لیکن بعض دوسری یونیورسٹیوں کے کام میں ایسا پھنسا کہ مجوزہ یونیورسٹی کا خیال ذہن سے اتر گیا اس وقت جب کہ وہ یاد ائی تو ہمارا آپ کا وقت پورا ہوچکا ہے۔ لیکن کوئی حرج نہیں۔
چور زندہ، چوری باقی!

حصہ