البتانی،ابن الہیثم اور ابو کامل

341

’الجبرا کے بغیر ریاضی تو کیا جدید فزکس بھی وجود میں نہ آ پاتی۔‘ تھیوریٹیکل فزیسسٹ جِم الخلیلی کہتے ہیں کہ ’الگوریتھم کے بغیر کمپیوٹر نہ ہوتے اور الکلی کے بغیر کیمسٹری نہ ہوتی۔‘
یونیورسٹی آف سرے کے پروفیسر جم الخلیلی نے بی بی سی کی دستاویزی فلم ’سائنس اینڈ اسلام‘ بنائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جدید سائنس میں اب بھی کئی عربی حوالے موجود ہیں۔12ویں سے 17ویں صدی کے دوران یورپی اسکالرز باقاعدہ طور پر ماضی کی اسلامی تحریروں کا حوالہ دیا کرتے تھے۔
اس کے شواہد آپ کو مل سکتے ہیں کہ اگر آپ لیونارڈو آف پیسا، جنھیں فیبوناشی کے نام سے جانا جاتا ہے، کی حساب سے متعلق مشہور کتاب دیکھیں۔ انھیں یورپ کے پہلے عظیم ریاضی دان کا اعزاز حاصل ہے۔
اسلام کا نہری دور:
الخلیلی کہتے ہیں کہ اس کتاب کے صفحہ نمبر 406 پر عربی نام ’محمد‘ کو لاطینی انداز میں لکھا گیا ہے۔
یہ حوالہ محمد بن موسیٰ الخوارزمی کی تحریر کا ہے جنھوں نے اپنی زندگی سال 780 سے 850 کے دوران گزاری۔
خوارزمی وہ شخص ہیں جنھوں نے ریاضی میں ایک انقلابی خیال پیش کیا کہ آپ کسی بھی نمبر کو صرف 10 آسان حروف سے ظاہر کر سکتے ہیں۔
انھوں نے مشرقی فارس سے نکل کر بغداد میں پناہ لی تھی اور ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے مغربی دنیا کو اعشاریے اور عددی نظام دیا۔ انھیں اکثر ’فادر آف الجبرا‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
برطانیہ میں سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی کے جان جوزف کہتے ہیں کہ ایسے کئی خیالات ہیں جنھیں 16ویں، 17ویں اور 18ویں صدیوں کے دوران یورپی ریاضی دانوں کی خدمات سمجھا جاتا رہا لیکن حقیقت میں عربی یا اسلامی ریاضی دان اسی نوعیت کے خیالات چار صدیوں قبل پیش کر چکے تھے۔
’’جو ریاضی آج ہم پڑھتے ہیں یہ یونانیوں سے زیادہ عربی یا اسلامی خدمات کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
عرب اور اسلامی دنیا کی تاریخ میں ایسے کئی عظیم ریاضی دان پیدا ہوئے ہیں۔ درج ذیل ایسے تین ناموں پر بات کی گئی ہے۔
جابر بن سنان البتانی:
میڈرڈ کی یونیورسٹی میں عربی اور اسلامی تعلیم کے شعبے کے سابق ڈائریکٹر اور ریٹائرڈ پروفیسر ہوان کساڈا کہتے ہیں کہ عرب ریاضی دانوں کی بڑی خدمات میں سے ایک یہ تھی کہ انھوں نے ترجمے کی مدد سے یونانی اور لاطینی سائنس کو محفوظ کیا۔ اور وہ انڈینز کی سائنسی دریافتوں کو بھی مزید آگے لے گئے۔
بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے ہوان کساڈا نے بتایا کہ ’البتانی کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے فلکیات اور ریاضی کو اکٹھا کیا اور اسے ایک ہی شعبہ تعلیم بنایا۔‘
انھوں نے ریاضی کے فارمولے فلکیات پر عائد کیے۔ مثلاً انھوں نے بڑی مہارت سے یہ تعین کر لیا کہ شمسی سال میں 365 دن ہوتے ہیں جو بڑی کامیابی تھی۔ ’ہم یہاں نویں صدی کے اواخر اور دسویں صدی کے اوائل کی بات کر رہے ہیں۔‘
’سورج کی حرکت سے ملنے والی معلومات کا مطالعہ کر کے انھیں معلوم ہوا کہ بطلیموس کی تحقیق میں غلطیاں تھیں اور اس طرح عربی ریاضی دانوں نے بطلیموس کے یونانی ورثے کو درست کیا۔‘
انھوں نے مثلیات یا ٹرگنومیٹری کے اصول بھی متعارف کرائے۔
الخلیلی نے اٹلی میں یونیورسٹی آف پادووا کا دورہ کیا اور انھیں سائنس کی تاریخ کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک ملی جو نکولس کوپرنیکس نے تحریر کی تھی۔
’اس کتاب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس میں کوپرنیکس نے قدیم یونانی عقیدے کے برعکس دلیل دی کہ زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔‘
’کئی مؤرخ انھیں یورپ کے سائنسی انقلاب کا موجد کہتے ہیں۔‘ مگر کوپرنیکس نے بھی اپنی کتاب میں البتانی کا حوالہ دیا تھا۔
’یہ بڑی بات ہے کہ وہ نویں صدی کے ایک مسلمان کا حوالہ دیتے ہیں جنھوں نے انھیں اپنے مشاہدے سے متعلق کافی معلومات دی تھیں۔‘
البتانی شام میں اورفہ کے قریب 858 میں پیدا ہوئے اور ان کی موت 929 میں عراق میں ہوئی۔ ’کوپرنیکس نے سیاروں، سورج، چاند اور ستاروں کے وجود کو سمجھانے کے لیے البتانی کے مشاہدوں کو استعمال کیا۔‘
سپین میں یونیورسٹی آف سالامانکا میں عربی اور اسلامی تعلیمات کے پروفیسر جیمی کورڈیرو نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ابن الشاطر ایک ماہر فلکیات اور ریاضی دان تھے جو سال 1304 کے قریب دمشق میں پیدا ہوئے۔ ’انھیں مغرب میں بہت کم پہچانا جاتا ہے کیونکہ ان کے کام کا ترجمہ لاطینی زبان میں نہیں ہوا تھا۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ 1980 کی دہائی کے دوران محققین نے الشاطر کے سیاروں کا ماڈل دریافت کیا اور انھیں احساس ہوا کہ یہ وہی ماڈل ہے جو کوپرنیکس نے کچھ صدیوں بعد تجویز کیا تھا۔
ابن الہیثم:
انڈیا کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر شیخ محمد رضا اللہ انصاری نے یونیسکو کی ویب سائٹ کے لیے ایک تحریر لکھی تھی۔ اس میں وہ 10ویں اور 11ویں صدی کے ایک ایسے عرب سکالر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جنھوں نے نہ صرف اپنی زندگی ریاضی بلکہ فزکس، مکینکس، فلکیات، فلسفے اور طب کے لیے وقف کر دی۔
وہ عظیم سائنسدان ابو علی الحسن ابن الہیثم البصری کی بات کر رہے تھے جنھیں مغرب میں الہیزن یا ہسپانوی زبان میں الہیسن بھی پکارا جاتا ہے۔
وہ 965 میں عراق میں پیدا ہوئے اور ان کی موت 1040 میں مصر میں ہوئی۔ وہ قاہرہ کے معروف سائنسدانوں میں سے ایک ہیں جنھیں عرب سکالرز کا ’بطلیموس دوئم‘ بھی کہا جاتا ہے۔
انھیں جدید سائنسی طرز کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ رضا اللہ انصاری کہتے ہیں کہ انھوں نے کسی بنیادی مفروضے کی آزمائش کے لیے تجربے کا طریقہ بنایا تھا۔ کساڈا کہتے ہیں کہ انھوں نے مختلف کے شعبے میں بہت خدمات دی ہیں۔
انصاری کے مطابق ان کی معروف کتاب ’فی المناظر‘ کا ترجمہ 12ویں اور 13ویں صدی کے دوران لاطینی زبان میں کیا گیا تھا۔ اس کتاب کی سات جلدیں ہیں جن میں وہ تجربے اور ریاضی کی مدد سے روشنی کی خصوصیات پر معلومات دیتے ہیں۔
میڈرڈ یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر ریکارڈو مورینو بتاتے ہیں کہ وہ ایک عظیم ریاضی دان تھے۔ ’وہ ان پہلے عربی ریاضی دانوں میں سے تھے جنھوں نے بڑے سوالوں کو حل کرنا سکھایا۔ انھوں نے ہندسوں کی مدد سے ایک تہائی سوالوں کے جواب دیے۔ یہ وہ سوال تھے جو ارشمیدس نے 1200 سے زیادہ سال قبل پوچھے تھے۔‘
الہیثم نے نمبر تھیوری کے شعبے میں کامل عدد جبکہ ہندسوں پر کافی اہم کام کیا۔ اور انھوں نے اقلیدس کے تھیورم کے مخصوص سوالوں پر تحقیق کی۔
ابو کامل الحاسب
ریکارڈو مورینو بتاتے ہیں کہ خوارزمی کی موت کے بعد مصر میں ابو کامل شجاع بن اسلم بن محمد بن شجاع الحاسب کی پیدائش ہوئی جنھیں ’مصری کیلکولیٹر‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اپنی 80 سالہ زندگی کے دوران انھوں نے ریاضی میں بے شمار خدمات سرانجام دیں۔ ان میں الجبرا میں ان کی تحقیق شامل ہے جس کی اصل عربی شکل گم ہو گئی تھی۔ لیکن اس کے لاطینی اور عبرانی میں دو ترجمے اب بھی دستیاب ہیں۔
ابو کامل
اپنے بغدادی پیشرو کی طرح انھوں نے ہندسوں کی مدد سے دو درجی مساوات کو حل کیا۔
ان کی مختصر سوانح حیات کے مطابق ابو کامل کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہے۔ لیکن الجبرا کی تحقیق میں ان کا نمایاں کردار رہا ہے۔ وہ اس شعبے میں خوارزمی کے جانشین سمجھے جاتے ہیں۔ ’کامل خود بھی الخوارزمی کو الجبرا کے بانی کہتے ہیں۔‘
تاہم ابو کامل کے کام کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ فیبوناشی کی کتابوں کی بنیاد اسی کام پر ہے۔ ’کامل محض عربی الجبرا کی ترقی میں اہم نہیں بلکہ فیبوناشی کے ذریعے انھوں نے یورپ میں الجبرا کو متعارف بھی کروایا۔‘ (بشکریہ : بی بی سی اردو)
nn

حصہ