”بہت زور کی بھوک لگی ہے، کھانا لادو۔ آج فیکٹری میں بہت کام تھا، صبح سے ایک کپ چائے تک نہیں پی۔ تھکاوٹ کی وجہ سے کمر دہری ہوکر رہ گئی ہے۔‘‘
’’کھانا کہاں سے لاؤں؟ گھر میں آج کچھ نہیں پکا۔‘‘
’’کیا مطلب! ابھی کل ہی تو سارا راشن ڈلوایا ہے، اور صبح کام پر جاتے ہوئے سبزیاں وغیرہ بھی دے کر گیا تھا۔ کہاں گیا سب کچھ؟‘‘
’’ارے سبزیاں تو وہیں پڑی سڑ رہی ہیں، سارا آٹا بھی پڑا پڑا خمیرہ ہوگیا ہے۔ گڈو آتا ہے تو کہیں کونے میں پھنکواتی ہوں۔‘‘
’’کیا کہے جارہی ہے بدبخت! حرام کا پیسہ نہیں ہے میرے پاس، جو تُو اپنے باپ کا مال سمجھ کر ضائع کررہی ہے۔ کان کھول کے سن لے، رزق کی بے حرمتی کرنے سے روزی تنگ ہوجاتی ہے۔ پہلے ہی مہنگائی نے کمر توڑ رکھی ہے، اس پر تیری یہ حرکتیں…! سارا دن کولہو کے بیل کی طرح جُتنا پڑتا ہے تب جاکر چار پیسے ملتے ہیں۔ لاپروائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، کس مٹی سے بنی ہے تُو! اب بت بنی کیا بیٹھی ہے! جا، جاکر روٹی پکا۔‘‘
’’ہاں ہاں ساری برائیاں تو جیسے مجھ میں ہی ہیں ناں، جب سے آئے ہو مستقل بولے ہی جارہے ہو، مجال ہے جو ایک منٹ کے لیے بھی آواز بند ہوئی ہو۔ نہ جانے ابا کو بھی کیا پسند آیا تھا تم میں! زندہ ہوتے تو ضرور پوچھتی۔ خود تو چلے گئے مگر میری زندگی کو عذاب میں ڈال گئے، سکون غارت کرکے رکھ دیا ہے۔ نہ جانے وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب میں اس گھر میں آئی۔‘‘
’’او زبان دراز، کچھ شرم کر، حیا کر…بدزبان یوں باتیں نہ بنا، جاکر روٹی پکا۔‘‘
’’کہاں پکاؤں؟ بتا تو دیا ہے کہ گھر میں گیس نہیں آرہی، اس لیے کچھ نہیں پکایا۔‘‘
’’تُو نے مجھ سے کب کہا کہ گیس نہیں آرہی! تُو تو کہہ رہی تھی کہ ہنڈیا نہیں پکائی۔‘‘
’’تم سنتے ہی کہاں ہو، بس لٹھ لے کر شروع ہوجاتے ہو۔ جب گیس ہی نہیں تو کھانا کیسے بناتی! پوری بات سنے بغیر سارا گھر سر پر اٹھا لینا تمہاری پرانی عادت ہے۔ اب چپ کیوں ہوگئے ہو! جاؤ سوئی گیس کمپنی والوں سے جاکر لڑو، کیا سارا زور مجھ پر ہی چلتا ہے! پتا ہے ناں وہاں تمہاری کوئی نہیں سنے گا، بس گھر میں ہی شیر بنتے ہو۔‘‘
’’خدا کا خوف کر، شوہر تھکا ہارا گھر آیا ہے اور بجائے اس کے کہ دو میٹھے بول بولے مسلسل خون ہی جلارہی ہے۔‘‘
’’میں خون جلا رہی ہوں کہ تم خود ہی آگ بگولا ہوئے جارہے ہو! لگتا ہے عمر کے ساتھ ساتھ تمہاری عقل بھی جارہی ہے۔“
’’لو پھر شروع ہوگئیں چندا آپا… پھر لگ گیا پورے تین گھنٹے کا تھیٹر۔ یار ویسے یہ دونوں بھی خوب ہیں، انہیں لڑتے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ کبھی شیرو شکر بھی ہوتے ہوں گے۔ آخر ان دونوں کا مسئلہ کیا ہے؟‘‘
’’ویسے تو چندا آپا کچھ زیادہ ہی بولتی رہتی ہیں، مگر اکبر بھائی سے محبت بھی بہت کرتی ہیں۔ ان کے درمیان ہونے والی تُو تُو مَیں مَیں مسئلہ نہیں، بلکہ اصل مسئلہ تو وہ ہے جس کی بنیاد پر ان دونوں کے درمیان آئے دن تکرار ہوتی ہے۔ تم خود سوچو، صبح کا گیا کوئی بھی شخص جب شام ڈھلے تھکا ہارا لوٹے اور گھر میں گیس ہو، نہ بجلی… یہاں تک کہ پیاس بجھانے کے لیے اُسے ایک گلاس پانی تک نہ ملے تو ایسے میں اُس کی طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہونا فطری عمل ہے۔‘‘
”خالد بھائی! بات تو ٹھیک ہے لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پہلے کبھی بھی گیس پریشر میں کمی نہیں ہوتی تھی، اب ایسا کیا ہوگیا؟ جہاں تک میرے علم میں ہے یہ محکمہ دوسرے سرکاری محکموں کے مقابلے میں خاصا بہتر ہوا کرتا تھا، کیا وجہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے اس کی کارکردگی بھی دوسرے محکموں کی طرح ناقص ہوتی جارہی ہے؟‘‘
’’اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، بات سیدھی سی ہے کہ ماضی کی کسی حکومت نے عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، تیزی سے بڑھتی آبادی کے باوجود ملکی وسائل میں اضافے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ آبادکاری کے نام پر جائز و ناجائز طور پر مختلف رہائشی اسکیمیں بناکر وہاں مہنگے داموں پلاٹ تو فروخت کیے گئے لیکن ان منصوبوں کے لیے پانی، بجلی، گیس سمیت کسی بھی بنیادی سہولت کے لیے کوئی پلاننگ نہ کی گئی۔ ظاہر ہے جب نئی آبادیوں کو کراچی کے حصے کا پانی، بجلی اور گیس دے کر آباد کیا جائے گا تو اسی قسم کے نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر شہریوں کے لیے پینے کے صاف پانی کے منصوبے پر بات کی جائے تو سابق میئر کراچی عبدالستار افغانی مرحوم کا دور یاد آجاتا ہے۔ اُس زمانے میں حب ڈیم سے کراچی کو پانی فراہم کرنے کے لیے منصوبہ مکمل کیا گیا، پھر اس کے بعد سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں مزید 100ملین گیلن یومیہ پانی کا منصوبہ K-3مکمل کرلیا گیا، اور یوں کراچی کو یہ اضافی پانی ملنا شروع ہوگیا۔ نعمت اللہ خان نے ہیK-4کا منصوبہ بنایا، جس کے پہلے فیز میں 260 ملین گیلن یومیہ پانی ملنا تھا، 2006ء میں K-4 منصوبہ شروع ہونا تھا جو 2016ء میں شروع ہوا، اور ابھی تک التوا کا شکار ہے۔ سندھ حکومت، خصوصاً بلدیہ کراچی نے کراچی شہر کے لیے پانی کے منصوبوں کے اعلانات تو بار بار کیے، لیکن عملی طور پر کوئی منصوبہ شروع نہ کیا۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سوائے جماعت اسلامی کے کسی نے بھی عوامی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں کوئی اقدام نہ کیا، یعنی عوام کو سہولت دینے پر کوئی توجہ نہ دی، جو کہ ان حکمرانوں کی جانب سے کراچی کے بنیادی مسائل سے عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال کراچی کو بجلی سپلائی کرنے والے ادارے ’کے۔الیکٹرک‘کی بھی ہے۔ مجھے یاد ہے شروع شروع میں جب کراچی کے رہائشی علاقوں کو بجلی فراہم کی گئی تو گھریلو صارفین کے لیے دو بلب اور ایک پنکھے کا کنکشن دیا گیا تھا۔ آج ہر گھر میں 100 سے زائد پوائنٹ موجود ہیں، جبکہ اُس وقت کی کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی جانب سے بچھائی جانے والی ٹرانسمیشن لائنیں جوں کی توں ہیں، یہی وجہ ہے کہ سخت گرمی کا موسم آتے ہی شہر میں بجلی کی ڈیمانڈ 3600 میگا واٹ تک پہنچ جاتی ہے، جبکہ کے الیکٹرک کی اپنی پیداواری صلاحیت 2000 میگاواٹ سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ نیشنل گرڈ اور دیگر اداروں سے 1300 میگا واٹ بجلی الگ حاصل کی جاتی ہے، اس طرح مجموعی طور پر 3100 میگا واٹ سسٹم میں یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ لیکن عملی طور پر ایسا نہیں کیا جارہا ہے۔ بن قاسم پاور اسٹیشن 1 پر موجود 6 یونٹس جو گیس اور فرنس آئل دونوں پر چل سکتے ہیں اور جن کی پیداواری صلاحیت 1100 میگا واٹ ہے، وہاں صورتِ حال یہ ہے کہ یونٹ 3 اور 4 جنہیں کوئلے پر چلانے کے لیے ایک کمپنی کو ٹھیکہ تو دے دیا گیا تھا، مگر یہ دونوں یونٹ 4 سال سے بند ہیں۔
اب آجاتے ہیں اس محکمے کی جانب، جس کے متعلق تمہاری رائے ہے کہ یہ محکمہ دوسروں سے خاصا بہتر ہوا کرتا تھا۔ ملک میں گیس کی کُل یومیہ پیداوار 3.8 سے 4.2 ارب مکعب فٹ ہے، عام دنوں میں طلب 6، جبکہ شدید سردی کے موسم میں یہ طلب مزید بڑھ کر 8 ارب مکعب فٹ ہوجاتی ہے۔ گھروں میں گیس کی سپلائی یا پریشر میں کمی کی بڑی وجہ ملک میں پیدا ہونے والی گیس کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی ہے۔ اس کے علاوہ پرانا اور بوسیدہ ٹرانسمیشن سسٹم بھی ہموار سپلائی کی راہ میں رکاوٹ اور گیس کے ضیاع کا بڑا سبب ہے، یہی وجہ ہے کہ موسمِ سرما میں ملک کا ایک بڑا حصہ گیس سے محروم رہتا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث گھریلو صارفین کی جانب سے گیس پر چلائے جانے والے جنریٹر بھی گیس پریشر میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔ کراچی چونکہ ملک کا معاشی حب ہے، اس لیے سارے پاکستان سے لوگ یہاں روزگار کی تلاش میں آتے ہیں، جس کے باعث کچی آبادیوں میں اضافہ ہوتا گیا، یوں ایک طرف بغیر پلاننگ آبادکاری نے کراچی کے انفرااسٹرکچر کو تباہ کرکے رکھ دیا، تو دوسری طرف اداروں کی جانب سے وسائل میں اضافے اور ترسیل کے نظام میں بہتری لائے بغیر رشوت کے عوض ایسی تمام آبادیوں کو بجلی، پانی، گیس جیسی سہولیات فراہم کردی گئیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے یہ مثال خاصی بہتر ہے کہ اگر ایک گلاس پانی ہو اور اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی پیا جائے اور گلاس میں مزید پانی نہ ڈالا جائے تو ایک وقت آئے گا کہ گلاس خالی ہوجائے گا۔ یہی کچھ ہمارے حکمرانوں اور اداروں نے اس ملک کے وسائل کے ساتھ کیا۔ گیس، بجلی اور پینے کا صاف پانی کسی ایک چندا باجی کے گھر کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہر دوسرے شہری کی فریاد ہے۔ لوگ ایک طرف سارا دن دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے محنت مزدوری کرتے ہیں، اور دوسری طرف پوری رات دو ڈول پانی کے حصول کی جدوجہد میں گزار دیتے ہیں، یہی ہمارا المیہ ہے۔
پینے کے صاف پانی اور بجلی و گیس جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی کے ترسیلی نظام کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں پیداوار بڑھائیں، اور ٹرانسمیشن کے مسائل سمیت لائن لاسز اور صنعتی علاقوں میں ہونے والی چوری پر پیشہ ورانہ انداز میں قابو پانے کے لیے قوانین بنائے جائیں۔ ساتھ ساتھ گھریلو صارفین کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے بجلی اور گیس کے ضیاع کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے سے ہی عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے، جبکہ ہمیں بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ گھر کے بیرونی حصوں میں جہاں جہاں براہِ راست سورج کی روشنی پڑتی ہے، وہاں رات کے اوقات میں لائٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سولر آلات استعمال کریں۔ دن کے وقت سولربلب اور دیگر سولر آلات کو چارج کریں اور رات کے وقت جلا دیں۔ عام ایئرکنڈیشنر اور ریفریجریٹر کی جگہ انورٹر ایئرکنڈیشنر اور انورٹر ریفریجریٹر خریدیں۔ اس کے علاوہ گھر کے کسی بھی حصے میں فالتو لائٹس یا پنکھے کھلے دیکھیں تو انھیں فوراً بند کردیں، بالخصوص رات کو سونے سے پہلے غیرضروری طور پر چلنے والے برقی آلات بند کریں، خاص طور پر موبائل فون چارجر کی سپلائی کو غیر ضروری طور پر کھلا نہ رکھیں۔ یہ اور اس جیسی چند دوسری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے لوڈشیڈنگ سے خاصی حد تک چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے“۔