مفتیِ اعظم پاکستان محمد رفیع عثمانی کی رحلت امت مسلمہ اور وطن عزیز کا نقصان اور ایک بڑا صدمہ ہے‘ وہ اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے یہ اُن سے محبت کرنے والوں کے لیے بڑی درد دینے والی خبر تھی۔ وہ کورونا کا بھی شکار بھی ہوئے تھے اور اس کی پیچیدگیوں کے باعث صحت کے کئی مسائل کا شکار تھے اور ان مشکلات کا علاج کیا جا رہا تھا۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا اور آپ طویل علالت کے بعد کراچی میں 18 نومبر 2022ء کو 86 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال پُرملال سے امتِ مسلمہ ایک ممتاز عالم دین، قائد، محسن اور جامع صفات کی حامل شخصیت سے محروم ہوگئی ہے۔ آپ کی نماز جنازہ بھائی مفتی تقی عثمانی نے پڑھائی جس کے بعد دارالعلوم کراچی میں تدفین ہوئی،نماز جنازہ میں ملک اور بیرون ممالک سے مفتیان اکرام، علمائے کرام اور عقیدت مندوں نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی۔
آپ کے انتقال پر صدر مملکت، وزیراعظم، امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن سمیت دیگر سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔ سراج الحق نے اپنے تعزیتی پیغام میں مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کی عالم اسلام اور پاکستان کے لیے خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایک معتبر و محترم دینی شخصیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ مفتی اعظم کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
مولانا تقویٰ و طہارت اور پرہیزگاری و دین داری کا مجسم پیکر اور جامع کمالات و صفات شخصیت تھے۔ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین مولانا قاسمی نے ان کی شخصیت کے دوسرے گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیںکہ فقہ و فتاویٰ میں آپ بہت ہی محتاط رویے اختیار کرتے تھے اور فتویٰ دینے میں آپ کا طریقہ کار وہی تھا جو آپ کے والد ماجد مفتی شفیع عثمانی ؒ کا تھا۔ آپ جو بھی فتویٰ دیتے تھے وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اور فقہائے کرام کی واضح عبارت کے ساتھ دیتے تھے اور ایک ایک لفظ ناپ تول کر لکھتے تھے۔ آپ نے ہزاروں کی تعداد میں فتاویٰ لکھے جو ریکارڈ میں موجود ہیں۔ آپ درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی خاص ملکہ رکھتے تھے۔ دینی مدارس بلکہ عوام الناس بھی بہت استفادہ کرتے ہیں۔‘‘
مفتی رفیع عثمانی نے مفتی رشید احمد لدھیانوی سے صحیح بخاری،حضرت مولانا اکبرعلی سہارنپوری سے صحیح مسلم، موطا امام محمد اور سنن نسائی شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سبحان محمود سے، سنن ابو داؤد ریاضی اللہ اور جامع الترمذی شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان سے حاصل کی۔ انہوں نے مکہ کے قدیم علمی خاندان سے تعلق رکھنے والے عالمِ دین حسن بن محمد المسیث، شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی، محمد شفیع دیوبندی جو تحریک پاکستان کے ایک اہم رہنما اور مفتی اعظم پاکستان تھے، دیوبند مکتب فکر کے قاری محمد طیب قاسمی،شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور نامور عالم دین ظفر احمد عثمانی جو جدوجہد آزادی کے فعال رہنما تھے سے علم حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
مفتی رفیع عثمانی تحریکِ پاکستان کے رہنما مفتی محمد شفیع عثمانی کے بڑے صاحب زادے تھے، جامعہ دارالعلوم کراچی کے صدر اور مفتی تقی عثمانی اور ولی رازی کے بھائی تھے۔ آپ دارالمدارس العربیہ کے سرپرستِ اعلیٰ کے ساتھ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نائب صدر، کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور ڈائو یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ ممبر، اسلامی نظریاتی کونسل، رویتِ ہلال کمیٹی اور زکوۃ و عشر کمیٹی سندھ کے ممبر اور سپریم کورٹ آف پاکستان اپیلٹ بینچ کے مشیر بھی رہے۔ آپ کا کئی مذہبی سیاسی تحریکوں میں نمایاں کردار رہا ہے۔ کئی اہم ایشوز پر نہ صرف قوم کی رہنمائی کی بلکہ مسائل اعلیٰ حکام اور اربابِ اقتدار تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ان کی پوری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔
رفیع عثمانی 21 جولائی 1936ء کو ہندوستان کے صوبہ اُترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبے دیوبند میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور حفظِ قرآن کا آغاز دارالعلوم دیوبند سے کیا اور 1947ء میں 12 سال کی عمر میں خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ آپ نے 1976ء میں مفتی شفیع عثمانی کے انتقال کے بعد دارالعلوم کراچی کا انتظام سنبھال لیا تھا، جس کے لیے آپ کی خدمات نہایت وقیع ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ آج ایک اہم مقام پر ہے۔ مفتی رفیع عثمانی نے دو درجن سے زائد تحقیقی مقالے، کتابیں تحریر کیں جن میں ’’اختلاف رحمت‘‘، ’’فرقہ بندی حرام‘‘، ’’دو قومی نظریہ‘‘، ’’فقہ میں اجماع کا مقام‘‘، ’’یورپ کی جاگیرداری، سرمایہ داری اور اشتراکی نظام کا تاریخی پس منظر‘‘ ، ’’مسلکِ دیوبند فرقہ نہیں‘‘ اور ’’اتباعِ سنت سمیت دیگر کتب شامل ہیں۔ آپ نے روزنامہ جنگ،کراچی کے اردو ماہنامہ البلاغ اور دیگر رسائل میں افغان جہاد سے متعلق اپنی یادداشتیں بھی تحریر کی تھیں جو بعدازاں ’’یہ تیرے پراسرار بندے‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع بھی ہوئیں۔ بے شک ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں، عالم کی موت پورے جہان کی موت ہے۔‘‘