مضبوط سہارا

311

دور افتادہ گائوں کے چھوٹے سے قصبے میں بچپن کے ایام کو سیرو تفریح اور شغل میلے میں گزارنے والی رشیدہ بی بی کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی خوشی اُس کے بیٹے برکت اللہ کی پیدائش تھی۔ وہ خوش کیوں نہ ہوتی! سوہنے رب نے اب اولاد جیسی نعمت دے کر اسے خوش قسمت جو کردیا تھا۔
’’بڑی بھاگوان ہے بھئی! کیسے دن پھیر دیے رب نے تیرے آنے سے۔‘‘
اس کی ماں بچے کی پیدائش پر بہت خوش تھی۔ وہ بھی ماں کی خوشی میں خوش تھی۔ بس وہ یہی جانتی تھی کہ دنیا میں وہی خوش نصیب ہے جو اولاد اور مال والا ہے۔ وہ اس سے زیادہ بھلا جان بھی کیسے سکتی تھی! اس نے اپنی اماں کو بھی ایسی ہی زندگی گزارتے دیکھا تھا۔ چار جماعتیں پڑھانے کے بعد اماں کو اس کی شادی کی فکر ستانے لگی تھی۔
ایک شام جب سہیلیوں کے ساتھ کھیل کر گھر آئی تو اماں نے اس کا عید کا جوڑا نکال رکھا تھا۔ اس کے پوچھنے پر اماں بولی ’’صبح لڑکے والے دیکھنے آرہے ہیں، بس یہی جوڑا پہن لینا۔‘‘
اور وہ سوکر اٹھتے ہی گھر کے کاموں سے فارغ ہوکر تیار ہوگئی۔ گیارہ بجے ساتھ کے گائوں کے زمیندار کے بیٹے کا رشتہ لانے والی مائی اپنے ساتھ ایک خاتون کو لے آئی، اُس کے ساتھ اُس کی دو شادی شدہ بیٹیاں بھی تھیں۔ وہ خوب بن ٹھن کر تیار ہوکر آئی تھیں۔
رشیدہ پیاری تو تھی، تبھی رضیہ خالہ کو پہلی نظر میں بھا گئی۔ لمبی، دبلی پتلی، بھاگ بھاگ کر کام کرنے والی۔ اسے اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے اور کیا چاہیے تھا، سو چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔ وہ اپنے گھر سے نکل کر ساتھ والے گائوں میں رمضان کی دلہن کی حیثیت سے آگئی۔ اماں ابا اپنی اکلوتی اولاد کو شادی پر حسب تو فیق جو دے سکتے تھے وہ دے دلاکر بچی کو رخصت کردیا۔گھر میں اب دوچھوٹے بھائی اور ایک بہن رہ گئی۔
’’ماشاء اللہ بھئی! مبارک ہو، اتنی اچھی جگہ شادی ہوئی ہے، اور دیکھ کتنی جلدی سوہنے رب نے تیرا بوجھ ہلکا کردیا۔‘‘ رشیدہ کی ماں یہ سب باتیں سن کر بہت خوش ہوتی تھی۔
وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ حالات نے پلٹا کھایا۔ زمیندار کی بڑی بیٹی نے جو کہ شروع دن سے بھابھی سے حسد میں مبتلا تھی، بھابھی کے خلاف اماں کے کان بھرنے شروع کردیے:
’’اماں اس منحوس نے آپ کو دیا ہی کیا ہے، گوری چمڑی سے کیا ہوتا ہے! ایک غریب گھر کی لڑکی لاکر تُو نے میرے چاند سے بھائی کی زندگی خراب کردی۔‘‘
رمضان کی ماں پہلے تو خوب بہو کی طرف داری کرتی کیوں کہ وہ چھوٹے گھر سے لڑکی لائی ہی اس لیے تھی کہ وہ کبھی اپنے حق کے لیے کھڑی نہیں ہوگی۔ وہ اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی تھی۔ جب سب ٹھیک تھا تو اسے کیا مسئلہ تھا! اللہ نے شادی کے بعد بیٹا بھی دے دیا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ ماں رمضان کی بڑی بہن کے کہنے سننے میں آکر رشیدہ کو بات بات پر سنانے لگی۔
رمضان جب ڈیرے سے گھر واپس آتا تو کوئی نہ کوئی لڑائی جھگڑا اس کا منتظر ہوتا۔ بڑی بہن کو اپنے سسرال میں سکون نصیب نہ ہوسکا تو سوچا کہ میں کیوں اپنی بھابھی کو سکھ سے رہنے دوں! وہ روز میکے آتی اور اماں کو اپنی بات سمجھاتی ’’اماں تُو نے میرے بھائی کو کس کے متھے مار دیا۔ ڈھنگ کا جہیز تک تو لائی نہیں، جب کہ تُو نے تو مجھے اتنا سب کچھ دیا پھر بھی سسرال میں میری کوئی عزت نہیں کرتا۔ اور اس کا بیٹا بھی ہر وقت باپ کے پاس ہوتا ہے۔ اس سے کہیں اپنے بچے کو سنبھالے اور گھر کے کام بھی کرے۔ آخر اسے کرنا ہی کیا ہوتا ہے!‘‘
ماں بیٹی کی باتوں میں آکر ہر وقت بہو کو طعنے دیتی رہتی، اس کے بچے کو اپنے کمرے میں نہ جانے دیتی۔
رشیدہ کی ساس نے فریج، ٹیلی فون اور دوسرا تمام اہم سامان اپنے کمرے میں رکھوا دیا۔ رشیدہ پر زندگی تنگ ہونا شروع ہوگئی۔ رمضان بھی روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر رشیدہ پر ہاتھ اٹھانے لگا۔
رشیدہ کی ماں نے جب یہ حالات سنے تو بیٹی سے کہا ’’بیٹی تُو نماز مت چھوڑنا۔ تجھے میں نے شروع دن سے ایک ہی بات کہی کہ نماز و قرآن کو اپنا ساتھی بنالے۔ تجھے میں زیادہ نہ پڑھا سکی لیکن قرآن پڑھنا تو سکھا دیا نا تجھے۔‘‘
رشیدہ سوچتی کہ واقعی ان ڈھائی سال میں گھر کے کام اور بچے کی دیکھ بھال میں وہ نمازو قرآن کو یکسر فراموش کرچکی تھی۔
اس نے سسرال جاکر اب یہی کیا۔ جب کوئی تکلیف ہوتی تو وہ قرآن کھول لیتی یا نماز کی نیت کرکے دو رکعت نماز پڑھ لیتی۔ لیکن گھر کے اَن گنت کاموں میں پابندی نہ کرپاتی۔
قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ رشیدہ کی اماں کا اچانک انتقال ہوگیا۔ تین دن کے تیز بخار سے اماں بے چاری جان کی بازی ہار گئی۔ یہ صدمہ برداشت کرنا رشیدہ کے لیے کسی بھی طرح آسان نہ تھا۔ اماں ہی تو اس کے دکھ درد کی ساتھی تھیں، ایسی کوئی سہیلی نہ تھی جس سے اپنے دل کی باتیں اور سسرال والوں کی اذیتیں بیان کر سکے۔
جب سوگ کے بعد گھر آئی تو کسی نے اس سے تعزیت کرنا تک گوارا نہ کیا۔ وہ اپنے گھر اور بچوں کے کاموں میں مصروف تھی کہ ساس کمرے سے نکل کر باورچی خانے میں جہاں وہ کھڑی آٹا گوندھ رہی تھی، ایک دم چیختے ہوئے آئی اور بولی ’’منحوس اپنی ماں کو کھا گئی، اب میرے بیٹے کا پیچھا چھوڑ دے تُو۔‘‘یہ کہہ کر ساس نے اس سے آٹا گوندھنے کی پرات چھین لی۔
’’یہی ساس تھی جو مجھے بھاگوان کہتی تھی‘‘ اس نے کرب سے سوچا۔ اسی وقت اسے خیال آیا کہ اماں کی نصیحت تھی قرآن پاک پڑھنا نہ چھوڑنا۔ اس کی ماں نے اس کے پڑھائی کے شوق کو دیکھتے ہوئے اسے شادی پر ترجمے والا قرآن بھی دیا تھا جسے اس نے کبھی کھولا ہی نہیں تھا۔ لیکن اماں کی وصیت سمجھ کر اسے کھولا اور پڑھنا شروع کردیا۔
ہر آیت، ہر سورت پر رشیدہ کو یہ گمان ہوتاکہ یہ آیت اسی کے لیے اتاری گئی ہے۔
ساس اور شوہر کی اذیتیں بڑھتی چلی گئیں، لیکن قرآن سے مضبوط رشتہ باندھ لینے کے بعد اب اسے کسی بھی چیز کا خوف نہ تھا۔
دو ماہ بعد سسرال سے گھر آئی تو سارے بہن بھائی اس سے لپٹ گئے۔ ابا کے انتقال کے بعد اماں نے کبھی انہیں کسی کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ لیکن اب گھر آتے ہی ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا۔ اس نے اس دن میکے آکر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بہن اور بھائیوں کو بلایا۔ سب جمع ہوئے تو رشیدہ نے کچھ آیاتِ قرآنی اور ان کا ترجمہ انہیں سنایا اور جاتے ہوئے کہہ کر بھی گئی کہ اماں کا ترجمے والا قرآن تم لوگوں کو پڑھناہے۔
جہاں ایک طرف وہ قرآن پڑھتی، وہیں دوسری جانب سسرال میں اس کے گھر آنے والی رشتے دار خواتین اور ان کی بچیاں اس سے جڑتی چلی گئیں۔ یہ تمام محبتیں رشیدہ کی ساس، نندوں کو ایک آنکھ نہ بھاتیں۔ اس نے ایسا کبھی سوچا، نہ سنا تھا کہ قرآن کو اپنا لینے سے اتنے خوش گوار اور مضبوط تعلقات میسر آئیں گے۔
جہاں اب رشیدہ کی ساس اور نندیں اُس کے ساتھ کوئی سازش کرتیں یا چوٹ پہنچاتیں، وہیں وہ قرآن کا سہارا لیتی۔ اس نے گھر میں اپنا کردار ایسا مضبوط کرلیا کہ اسے کسی کی باتوں، سازشوں اور تکلیفوں سے کوئی فرق نہ پڑتا۔ اس کو اب بس ایک ہی دھن تھی کہ خود کو قرآن کے مطلوب انسان جیسا بنا سکے۔
وہ پوری کوشش کرتی کہ شوہر کو اپنے کام، اپنے سلیقے اور محبت سے رام کرسکے۔ وہ کبھی کبھی ماں بہنوں کے سامنے اسے مار کر تنہائی میں معافی بھی مانگ لیتا تھا۔ لیکن شوہر کانوں کا کچا تھا، کب تک ماں کی بے رخی برداشت کرتا! آخر کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دن اسے میکے بھیج کر چپکے سے طلاق بھی ساتھ ہی بھیج دی۔
اس نے جب سامان کھولا تو اس میں رکھے کاغذات پر کوئی ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے اٹھ کر وضوخانے چلی گئی۔ نماز کے بعد وہ رب کے حضور اتنا گڑگڑا کر روئی کہ کوئی سن لیتا تو اس کا کلیجہ منہ کو آجاتا… لیکن اُس وقت سوائے اس کے چھوٹے بچے کے کوئی گھر پر موجود نہ تھا۔ بھائی اسکول اور چھوٹی بہن پڑھنے گئی تھی۔
وہ نماز سے فراغت کے بعد اٹھی اور قرآن پڑھتے لگی۔ قرآن کا ترجمہ پڑھتے پڑھتے یکایک لگا جیسے اسے قرار آگیا ہو۔ وہ بالکل پُرسکون ہوگئی تھی اور اب آنے والے دنوں کی اچھی امید لیے رب کے سائے کو اپنے اوپر محسوس کرتے ہوئے خود کو تیار کررہی تھی۔آیت کا ترجمہ یہ تھا:
’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے، ان حالات میں جولوگ صبر کریں گے اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں گے ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘ اُنہیں خوش خبری دے دو اُن پر اُن کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی۔ ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔‘‘ (سورہ البقرہ)
nn

حصہ