فیفا فٹبال ورلڈکپ کے آغاز کے ساتھ ہی پورا مغرب نہ صرف ششدر ہے بلکہ اب ایک شدید ہیجان میں مبتلا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی اسلامی ملک یا عرب ملک فٹبال کے عالمی مقابلوں کا میزبان ہے۔ اس سب کے لیے قطر نے پندرہ برس قبل منصوبہ بندی کی اور دیگر ممالک کے مقابلے میں اُس وقت میزبانی کے حقوق حاصل کیے جب خود قطر میں ایک بھی میدان ایسا نہیں تھا جہاں اس عالمی میلے کا انعقاد عالمی معیار کے مطابق کیا جاسکے۔ لیکن محض دس سال کے مختصر سے عرصے میں قطر نے نہ صرف میدان بلکہ اس سے منسلک سہولیات عالمی معیار کے مطابق فراہم کرکے دنیا کو پہلا سرپرائز دیا۔ اس کے بعد ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب بھی خود ایک بہت بڑا سرپرائز تھا کہ جس کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا، اور اس آغاز سے قبل ہی قطر نے دنیا کو باور کروایا تھا کہ وہ اپنی تہذیب اور اسلامی تعلیمات کے خلاف کوئی اقدام، جھنڈا یا نشان برداشت نہیں کریں گے۔ اس لیے قطر کی حکومت نے ہم جنس پرستی کے نشان والے جھنڈے لہرانے، اسٹیڈیم میں شراب کی فروخت و ترسیل پر مکمل پابندی عائد کردی۔ عالمی کپ کا آغاز نامور امریکی اداکار مورگن فری مین اور پیروں سے محروم قطری نوجوان اور موٹیویشنل شخصیت غانم المفتاح کے درمیان گفتگو اور آیاتِ قرآنی کی تلاوت سے ہوا۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا جب کوئی معذور شخص عالمی کپ کا افتتاح کررہا تھا۔ لیکن اس کے برعکس مغربی و برطانوی میڈیا نے ان حقائق کو سامنے لانے اور اس اقدام کی ستائش کرنے کے بجائے مورگن فری مین کو جنسی ہراسگی کا ملزم ثابت کرنے اور مورگن کی جانب سے افتتاحی تقریب کی میزبانی کرنے کو عالمی کپ پر ایک داغ قرار دیا۔ واضح رہے کہ مورگن پر الزامات کو کسی بھی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکا تھا۔ دوسری جانب نسلی شناخت کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا، اور یہاں بھی مہذب دنیا میں نسلی عصبیت کا بیانیہ نظر آیا۔ برطانیہ کے تمام بڑے اخبارات و بی بی سی سمیت میڈیا چینلز نے منفی کوریج کرکے ایک نئی عصبیت کا مظاہرہ کیا۔ ایک نسبتاً ابھرتے ہوئے ملک… کہ جس نے عالمی معیار کے مطابق اس میلے کے انعقاد کو ممکن بنایا… کی ستائش کے بجائے انسانی حقوق، ہم جنس پرستوں کے حقوق، قطر میں کام کرنے والوں کو شہریت کا حق دینے اور اس عالمی کپ کی تیاریوں کے لیے تعمیرات میں جاں بحق ہونے والوں کو خبروں کا حصہ بنایا گیا۔ اسی طرح برطانوی میڈیا اس افتتاحی تقریب سے اتنا خائف ہوا کہ اُس نے اِس افتتاحی تقریب کا ہی بائیکاٹ کردیا اور بی بی سی نے افتتاحی تقریب کو نشر ہی نہ کیا۔ یہ عالمی فٹبال کپ کی واحد افتتاحی تقریب ہے جس کا بی بی سی نے بائیکاٹ کیا ہے۔ بی بی سی کی عالمی کپ کے بارے میں چلنے والی تقریباً ہر خبر میں قطر کے خلاف منفی مواد موجود تھا۔ برطانوی جرائد اس میں شاید بی بی سی سے بھی آگے چلے گئے اور انہوں نے رپورٹ کیا اور تصاویر لگائیں کہ عالمی کپ کے لیے تماشائی موجود نہیں، اور باقاعدہ کم حاضری والے اسٹینڈز کی تصاویر صفحہ اول پر شائع کرکے اس کے ناکام ہونے کا تاثر دیا گیا۔ کچھ برطانوی جرائد نے اپنی منفی صحافت کے جوہر دکھاتے ہوئے رپورٹ کیا کہ افتتاحی تقریب میں حصہ لینے والوں کو مفت ٹکٹ فراہم کرکے اسٹیڈیم میں تماشائیوں کی تعداد کو پورا کیا گیا۔ اگر بادی النظر میں ایسا ہی ہوا ہے تو مغرب خود اپنے ہاں کم آمدنی والے افراد کو مفت ٹکٹ فراہم کرنے کو ایک قابلِ فخر کارنامہ اور ان کو معاشرے میں تفریح کے یکساں مواقع فراہم کرنے سے تعبیر کرکے اس اقدام کی ستائش کرتا ہے۔ ہم جنس پرستی کے حوالے سے قطر کی حکومت کے مؤقف کو انتہا پسندانہ قرار دیا گیا اور ہر خبر کو یہاں سے جوڑ کر قطر کو بنیادی انسانی حقوق کا مجرم تو قرار دے دیا گیا لیکن خود برطانوی میڈیا یہ بھول گیا کہ چرچ آف انگلینڈ آج تک ہم جنس پرستی یا اس قسم کی شادیوں کے بارے میں اپنا کم و بیش وہی مؤقف رکھتا ہے جو قطر کا ہے، تو اس ضمن میں چرچ آف انگلینڈ کو کس جگہ رکھا جائے گا؟
برطانوی میڈیا جوکہ ہر چیز پر نظر رکھتا ہے، اس پروپیگنڈے میں یہ بھی فراموش کرگیا کہ قطر کی خود برطانیہ میں ایک کثیر سرمایہ کاری ہے، تو کیوں نا جہاں جہاں قطر کی سرمایہ کاری ہے وہاں، یا ان مصنوعات کے برطانیہ میں بائیکاٹ پر عوام کو ابھارا جائے؟ برطانوی حکومت و میڈیا کو بخوبی معلوم ہے کہ اگر اہلِ عرب کا سرمایہ برطانوی معیشت سے نکل گیا تو برطانوی معیشت اس شدید معاشی بحران میں شاید ایک ماہ بھی سانس نہ لے سکے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ معاشی ترقی کی شرح منفی 0.2 اور مہنگائی 11 فیصد سے زائد ہے۔ اس وقت برطانیہ میں توانائی کا شدید بحران ہے اور یوکرین روس جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی امیر قطر شیخ تمیم بن حماد نے برطانیہ کا دورہ کیا اور اُس وقت کے وزیراعظم بورس جانسن سے ملاقات کی، اس ملاقات کی خاص بات توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے قطر کی جانب سے برطانیہ کو گیس کی فراہمی کی یقین دہانی تھی، اور اس دورے میں برطانیہ کی گرتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے قطر نے پانچ سال کے لیے برطانیہ سے 10 ارب پاؤنڈ کے معاہدے کیے۔ یہ دورہ 24 مئی 2022ء کو ہوا تھا اور برطانوی وزیراعظم قطری امیر کے ممنون و مشکور نظر آئے۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے، حکومتی سطح کے علاؤہ اِس وقت قطری باشندوں اور کمپنیوں کی وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری برطانیہ میں موجود ہے۔ سینٹرل لندن کی پراپرٹی جوکہ دنیا میں مہنگی ترین پراپرٹیز میں سے ایک ہے وہاں قطر کی ملکیت سینٹرل لندن کی کُل پراپرٹی کی 21.5 فیصد سے بھی زائد ہے۔ اس لحاظ سے سینٹرل لندن میں قطر کی ملکیت میں شاہی خاندان سے بھی زیادہ پراپرٹیز ہیں۔ اس کے علاؤہ قطر کی کمپینوں کی تقریباً 6 ارب پاؤنڈ سے زائد کی سرمایہ کاری برطانیہ میں ہے، جس میں لندن اسٹاک ایکسچینج، برطانوی اسٹورز کی چین سینز بریز میں 22 فیصد، بارکلیز بینک میں 6 فیصد کے علاؤہ لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ کی 20 فیصد ملکیت بھی قطر ہی کے پاس ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر برطانوی معیشت کو سہارا دینے کے باوجود برطانوی میڈیا اور نیم سرکاری میڈیا بی بی سی بھی اپنے محسن قطر کے خلاف ہی بلاوجہ کے بغض میں مبتلا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار کھیلوں کے کسی عالمی میلے کو اسلامی نظریاتی تشخص کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ کھیل میں نظریہ نظر آگیا، بلکہ مغرب نے تو ہر کھیل میں خود سیکولر نظریات کو بنیاد فراہم کی ہے اور اس میں روزافزوں ترقی بھی کی۔ مثال کے طور پر کرکٹ جیسے شریفانہ کھیل میں بھی ہر چوکے، چھکے اور وکٹ کے ساتھ ہی کان پھاڑ دینے والا میوزک اور نیم برہنہ تھرکتی لڑکیاں بھی سیکولر نظریات کو پروان چڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ اگر یہ کوشش درست نہیں تھی تو کیوں اس کا خاتمہ نہیں کردیا گیا، تاکہ دوسری طرف سے اس کا جواب نہ آتا۔ اب کیونکہ جواب آیا ہے تو اس پر پورے مغرب کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔ کل تک کسی ملک اور بین الاقوامی سیاست سے کھیلوں کو پاک رکھنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے تھے ان پر پورے مغرب کا اتفاق تھا، کیونکہ کبھی کبھار مسلمان کھلاڑی فلسطین سے اپنی محبت کا اظہار شرٹ پہن کر کردیتے تھے، لہٰذا فیصلہ یہ ہوا کہ کسی ملک یا پارٹی کا جھنڈا یا نشان کوئی کھلاڑی نہ پہنے گا، نہ اس کو کھیل کے میدان میں لے کر آئے گا۔ کل تک اس کو قانون بنانے والے آج برطانیہ کی ٹیموں کو اس بات پر خود مجبور کررہے ہیں کہ وہ ہم جنس پرستوں کا جھنڈا یا نشان لے کر یا پہن کر میدان میں جائیں، جس کا لازمی نتیجہ ان کھلاڑیوں پر پابندی ہوگا۔ لہٰذا ان برطانوی ٹیموں نے یہ نہ کیا تو ان کو برطانوی میڈیا بزدلی کے طعنے دے رہا ہے۔ بات صرف قطر تک محدود نہیں بلکہ ایران کے حوالے سے بھی شدید منفی قسم کا ایک پروپیگنڈا میڈیا میں جاری ہے، اور خود اس معاملے میں بھی میڈیا کھیل میں سیاست داخل کررہا ہے۔ ایران اور انگلینڈ کی ٹیموں کے درمیان مقابلہ فٹبال سے زیادہ سیاست کا نظر آیا جہاں برطانوی میڈیا اپنی رپورٹس میں ایران میں ایک خاتون کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کی خبر اس میچ کے ساتھ ہر بلیٹن میں نشر کرتا رہا، اور اس کے ساتھ ہی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ایران کی ٹیم نے میچ کے آغاز سے قبل خاتون کے قتل پر بطور احتجاج خاموشی سے قومی ترانہ سنا اور اس کو دہرایا نہیں۔ اب معلوم نہیں کس نے اور کس طرح ان کو یہ بات براہِ راست بتائی ہے جس کا کوئی ثبوت بہرحال برطانوی میڈیا کے پاس بھی موجود نہیں۔ اس میچ کے دوران تماشائیوں کی جانب سے ایران کے پرچم پر عورت لکھا گیا تھا جس کو برطانوی میڈیا نے میچ سے بھی زیادہ کوریج دے کر اس بات کو ثابت کیا کہ مغرب کھیل میں بھی سیاست کو گھسیٹ لانے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ دو سو سالوں کی بدترین غلامی نے مسلمانوں کی حسِ حریت اور اسلامی نظریاتی شناخت کو اتنا مجروح کردیا تھا کہ مسلم اور غیر مسلم میں شاید نام کے سوا کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا کجا کہ اجتماعی زندگی میں اسلام کی کوئی رنگارنگی نظر آتی۔ اس ضمن میں گزشتہ ایک سو سال میں اسلامی سیاست اور نظریاتی شناخت کے ضمن میں کیا جانے والا کام اب برگ و بار لارہا ہے۔ اب مسلمان چاہے کتنا گیا گزرا کیوں نہ ہو، وہ اپنی نظریاتی شناخت پر کوئی مصالحت کرنے پر تیار نہیں۔ مشرق وسطیٰ میں، کہ جہاں اسلام کا آغاز ہوا تھا، وہیں سے ایک بار پھر تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا ہے جس نے پہلی بار بلاشک و تردید ببانگِ دہل اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ہم پہلے مسلمان ہیں اس کے بعد ہماری کوئی اور شناخت ہے، لہٰذا مغرب کے اصول ہمارے اوپر مسلط کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ قطر نے نہ صرف صالحیت کا بلکہ صلاحیت کا بھی شاندار مظاہرہ کرکے دنیا اور خاص طور پر پورے مغرب کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اسلام میں بھی جائز و حلال تفریح کی وہی گنجائش موجود ہے جوکہ مغرب کے ہاں تفریح میں موجود ہے لیکن ہمارے پیمانے مختلف ہوں گے۔ اس شاندار کام کا سہرا ایک سو سال کی انتھک کوششوں کے سر ہے۔ بلاشبہ قطر میں علامہ یوسف القرضاوی کے شاگردوں نے وہ کام انجام دے دیا ہے جس سے خود مغرب کا سکون غارت ہوچکا ہے، اور یہ محض مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا نہیں بلکہ وہ چیخیں ہیں جو دم توڑتی مغربی تہذیب کی ہیں۔ قطر نے عالم اسلام کو وہ راہ دکھائی ہے جو عرب کے ریگ زاروں میں اس سے قبل چودہ سو سال پہلے روشنی کی مانند نمودار ہوئی تھی۔ ان چودہ سو سالوں میں اندھیروں میں قافلہ کہیں بھٹک گیا تھا، آج قطر پھر اس قافلے کو منزل کی نئی امید دے رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں طالب علموں نے امید کا ایک نیا چراغ روشن کیا ہے۔ اس چراغ سے ہی مغرب کا اندھیرا پریشان ہے کہ کہیں وہ اس کی ظلمت کو آشکار نہ کردے۔