قرآن مجید اللہ کی کتاب بھی ہے اور اس کا کلام بھی۔حق تعالی شانہ نے قرآن کریم کو یہ امتیاز بخشا کہ اسے آخری آسمانی کتاب بنایا، ہر قسم کی کمی زیادتی سے محفوظ رکھا اور ہر نوع کی تحریف و تبدیلی سےپاک قرار دیا،ارشاد باری ہے :اور سچ و انصاف کے اعتبار سے تیرے رب کے کلمات کامل ہیں۔ اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔ (الانعام:115) غور کیاجائے تو صرف اس ایک آیت کریمہ میں قرآن مجید کی چار اہم صفات ذکر کی گئیں ہیں :(1) قرآنِ پاک مکمل ہے اس کا کوئی پہلو ناتمام نہیں۔(2) قرآنِ پاک میں بتائی گئی تمام باتیں حق اور سچائی پر مَبنی ہیں۔(3) جو شرعی احکام قرآنِ پاک میں ہیں وہ ہر اعتبار سے عدل وانصاف پر مشتمل ہیں۔(4) قرآنِ پاک ہمیشہ کیلئے ہر طرح کی تبدیلی اور تحریف سے محفوظ ہے۔
قرآن مجید کی اہمیت و ضرورت:
انسانوں کے لیے تین ذرائعِ علم ہیں : ( 1 ) حواسِ خمسہ ( 2 ) عقل ( 3 ) وحی
بہت سی چیزوں کو ہم حواس کے ذریعہ(دیکھ کر،سن کر،سونگھ کر،چکھ کر اور چھو کر) جانتے ہیں۔بہت سی چیزیں وہ ہوتیں ہیں جن کے ادراک کے لیے عقل کی ضرورت پیش آتی ہے اور بہت سی چیزیں ہمیں وحی کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً زید کالا ہے یا گورا ہے آنکھ سے دیکھ کر جان لیا جاتا ہے اس سے آگے یہ کہ اس کے ماں باپ ہیں گر چہ ہم نے اس کے ماں باپ کو نہیں دیکھا؛ لیکن عقل کہتی ہے کہ زید بغیر ماں باپ کے وجود میں نہیں آیا۔ اس سے آگے ایک تیسرا مرحلہ آتا ہے کہ زید کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا، اس کے اوپر کیا حقوق وفرائض عائد ہوتے ہیں اس کے لیے وحیٔ الٰہی کی ضرورت ہے۔ معلوم ہوا کہ ہدایتِ عقل کے آگے انسان ایک آسمانی روشنی کی تلاش میں ہے، یہی ربانی ہدایت ہے، اللہ کا ارشاد ہے : آپ فرما دیں کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے جس سے دنیا والوں کو رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔(البقرۃ:120)
امام غزالی لکھتے ہیں: علوم ِعقلیہ غذا کے مانند ہیں اور علومِ شرعیہ دوا کے مانند ہیں۔ بسا اوقات مریض انسان کو غذانقصان پہنچاتی ہے جب کہ دوا فوت ہو جائے، اسی طرح قلوب کی بیماریوں کے علاج کے لیے وہی دوائیں مفید ہوں گی جو شریعت سے مستفاد ہوں۔ اور یہ ضمانت کہ قرآن ہی اس ضرورت کو پورا کر سکتا ہے، اس کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہوگاکہ یہی ایک آسمانی کتاب اور نظام ہدایت ہے جو زمانے کے دست وبرد سے محفوظ ہے، کوئی کتاب ابدی تحفظ کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ جو کتاب اپنے وجود کو بقا نہیں بخش سکتی وہ مردہ قوموں کو ہمیشہ کی زندگی کس طرح دے سکے گی۔ ( آثار التنزیل )
حفاظت قرآن کا غیبی نظام:
قرآن مجید عہدنبوی سے آج تک من و عن محفوظ ہے اور قیامت تک اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے،ارشاد باری ہے:ہم نے ہی قرآنِ پاک کو نازل کیا، ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔(الحجر؛9) علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے کسی صحیفۂ آسمانی کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ نہیں لیا تھا، بلکہ ان کی حفاظت اس زمانے کے علماء کے سپرد تھی،چناں چہ چند نسلوں کے بعد صحیفۂ آسمانی فروخت ہونے لگے۔ قرآنِ پاک چوں کہ آخری کتاب ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ آخری نبی ہیں، لہٰذا قیامت تک کے لیے اس کتاب کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی، اب قیامت تک قرآن شریف کوکوئی مٹا نہیں سکتا۔(روح المعانی)
اسی طرح قرآن مجید (سورۂ قیامۃ:17-19) میں حفاظت قرآن سے متعلق تین باتوں کا وعدہ کیا گیا ہے(۱) کتابت وتحریر کی شکل میں جمع ومحفوظ کرنا(۲) قرأت وترتیل کے ذریعہ محفوظ کرنا(۳) معانی قرآن کی وضاحت وحفاظت؛ چنانچہ نزول ہی سے قرآن کی حفاظت ان تینوں ذرائع سے کی جاتی رہی ہے، جب بھی قرآن مجید کی کوئی سورت یا آیت نازل ہوتی، نبی کریمﷺ فوراً کاتبِ وحی کو طلب فرماکر ضبط تحریر کرنے کا حکم فرماتے، لکھانے کے بعد اسے سن بھی لیتے تاکہ کوئی فروگذاشت ہو تو اس کی اصلاح کی جاسکے، اس ابتدائی دور میں کتابتِ قرآن کے لیے درخت کے پتوں، کھجور کی شاخوں، چمڑے کے پارچوں، بانس کے ٹکڑوں، اونٹ اور بکریوں کی ہڈیوں کو استعمال کیا جاتا تھا، نبی کریمﷺ کتابت قرآن کا کس قدر اہتمام فرماتے تھے اس کا اندازہ کاتبین وحی کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے، حافظ ابن حجر ؒ نے کاتبین وحی کے پندرہ نام شمار کرائے ہیں، علامہ نوویؒ نے ان کی تعداد 23 لکھی ہے، بعض نے20 اور بعض نے 17 شمار کئے ہیں۔ عہدِ رسول میں مکمل قرآن تحریری شکل میں موجود تھا، لیکن منتشر تھا، حضرت ابوبکرؓ نے منتشر حصوں کو ایک جگہ اکھٹا کرکے ایک محقق نسخہ تیار کیا جس میں سورتوں کو ایک صحیفہ میں درج کیا ؛ پھر حضرت عثمانؓ نے ایک رسم الخط پر قرآن کے کئی نسخے لکھوائے اور انہیں مختلف علاقوں کو روانہ کیا؛ چونکہ انسانیت کے نام قرآن خدا کا آخری ہدایت نامہ ہے جسے رہتی دنیا تک رہنا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حفاظتِ قرآن کے لیے ذہن انسانی کو نت نئی چیزوں کے ایجاد کے لیے کھول دیا؛ چنانچہ کاغذ کی ایجاد کے ساتھ کتابت قرآن کا مسئلہ پہلے کی بہ نسبت مزید آسان ہوگیا۔( اعجاز قرآن کے حیرت انگیز نمونے:10)
کسی بھی کتاب کی بقا اور حفاظت کے ظاہری اسباب چمڑا، تختی، کاغذ،قلم، ڈسک، سی ڈی اور کیسٹ وغیرہ ہیں۔ یہ اسباب موجود ہوں تو کتاب موجودہے اور اگر خدانخواستہ ان اسباب کا وجود باقی نہ رہے تو کسی کتاب کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ لیکن قرآن کریم ان تمام اسباب سے بے نیاز ہے کہ ان میں سے ایک سبب بھی باقی نہ رہے تب بھی قرآن کریم پر اس کا رتی برابر اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ وہ لاکھوں سینوں میں مکمل طور پر محفوظ ہے اور اتنی بار پڑھا اور سنا جاتا ہے کہ کتاب کے وجود اور بقاء کے ظاہری اسباب کی موجودگی یا غیر موجودگی اس کے لیے ایک جیسی ہو گئی ہے۔
قرآن مجید کا تصور جہاد:
پچھلی نصف صدی کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں اِسلام اور جہاد کے نام پر ہونے والی اِنتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے آج کل تصورِ جہاد کو غلط انداز میں سمجھا اور پیش کیا جا رہا ہے۔ جہاد کاتصور ذہن میں آتے ہی خون ریزی اور جنگ و جدال کا تاثر اُبھرتا ہے،مزیدبرآں مغربی میڈیا میں اب لفظِ جہاد کو قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے متبادل کے طور پر ہی استعمال کیا جانےلگاہے۔ حالانکہ حقیقت میں جہاد ایک ایسی پُراَمن، تعمیری، سماجی، اَخلاقی اور روحانی جد و جہدکا نام ہے جو حق و صداقت اور اِنسانیت کی فلاح کے لیے انجام دی جاتی ہے۔ یہ جد و جہد اُصولی بنیادوں پر صرف ایسے ماحول کا تقاضا کرتی ہے جس میں ہر شخص کا ضمیر، زبان اور قلم اپنا پیغام دلوں تک پہنچانے میں آزاد ہو۔ معاشرے میں اَمن اَمان کا دور دورہ ہو۔ اِنسانی حقوق مکمل طور پر محفوظ ہوں۔ ظلم و اِستحصال اور جبر و اِستبداد کی کوئی گنجائش نہ ہو اور دنیا کے تمام انسان پُراَمن بقاے باہمی کے رشتے میں منسلک ہوں۔ لیکن جب اَمن دشمن طاقتیں علم و عقل کی رہنمائی سے محروم ہو کر مقابلہ پر آجائیں اور اِجتماعی اَمن و سکون اور نظم و نسق کے خلاف تباہ کن سازشیں اور علی الاعلان جنگی تدابیرکرنے لگیں تو ایسے وقت میں جہاد کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اَمن و سلامتی اور اِنسانیت کے دشمنوں کے خلاف مسلح جد و جہد کی جائے تاکہ اَمن و آشتی کے ماحول کو بحال اور خیر و فلاح پر مبنی معاشرہ قائم کیا جا سکے۔(ملخص از الجہاد الاکبر)
چوں کہ قرآن مجید کی تعلیمات کسی خاص قوم یا زمانہ تک محدودنہیںبلکہ اس کی تعلیمات و ہدایات ہمہ گیراورآفاقی ہیں؛اس لیے اس میں حالت امن کے احکام بھی ہیں اور حالت جنگ کے احکام بھی،عبادات سے متعلق رہنمائی بھی ہے اور معاشرت سے متعلق رہبری بھی،امم سابقہ کے احوال بھی ہیں اور مستقبل سے متعلق اخبار بھی۔اس تناظر میں ہم آیات قتال کا مطالعہ کریں تو دو باتیں بہ طور خاص ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے: اول یہ کہ قرآن نے ایک طرفہ قتل کا حکم نہیں دیا ہے، جس میں ایک فریق دوسرے کو قتل کر دیتا ہے، اور دوسرے فریق کی طرف سے کوئی اقدام نہ ہو، قتال کے معنیٰ یہ ہیں کہ دونوں فریق کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف قتل کا اقدام پایا جائے، اور ظاہر ہے کہ جب دوسرے فریق کی طرف سے قتل کا اقدام ہو تو اس کے مقابلہ میں قتل کا اقدام عین تقاضۂ انصاف ہے۔دوسرا قابل توجہ نقطہ یہ ہے کہ اسلام ایسا دین نہیں ہے، جو اپنے ماننے والوں سے صرف عبادت کا مطالبہ کرتا ہو؛ بلکہ وہ ایک جامع نظام حیات ہے، جو فرد کی اصلاح سے لے کر ایک منصف مزاج اور عدل پرور سلطنت تک کا تصور پیش کرتا ہے؛ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو اس وقت نہ وہاں کوئی حکومت تھی، نہ لا اینڈ آرڈر کا کوئی اور نظام تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہلی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی مقیم تھے، سبھوں کے ساتھ عدل، مذہبی آزادی، معاشی ترقی کے مساوی مواقع اور بے لاگ انصاف اس سلطنت کے بنیادی اصول تھے، سلطنتوں کو اپنی حفاظت کے لئے فوج کی اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے حسب ضرورت جنگ کی ضرورت بھی پیش آتی ہے، دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے کوئی ایسا ملک تھا، جس نے بیرونی یلغار سے حفاظت کا انتظام نہیں کیا ہو اور نہ آج کوئی ایسا ملک ہے؛ بلکہ آج تو صورت حال یہ ہے کہ دنیا کی طاقت ور اقوام دوسروں کو کچلنے، ان کے معاشی وسائل پر قبضہ کرنے اور پوری پوری قوم کو غلام بنانے کے لئے جنگ کرتی ہیں؛ اس لئے اپنی حفاظت اور معاندین کی سرکوبی کے لئے جہاد بمعنیٰ قتال ایک ضروری حکم ہے اور یہ ایسی بات نہیں ہے، جسے برا سمجھا جائے۔(مستفاد از اسلام کا تصور جہادقرآن وحدیث کی روشنی میں)