صورت سیرت
لوگوں نے بیان کیا ہے کہ آپ کا بدن نحیف تھا، قد میانہ تھا، سینہ چوڑا تھا، بھنویں ملی ہوئی تھیِ رنگ گندمی تھا داڑھی طویل اور عریض تھی، آواز بلند تھی، یہ تو تھا ظاہری حلیہ، آپ کی خارق عادت کرامتیں بہت کثیر ہیں، لیکن اصلی کرامت آپ کی سیرت میں مضمر تھی۔ آپ کے ہم عصروں نے آپ کی اخلاقی تصویر یوں بیان کی ہے:
علم نے آپ کی تہذیب نفس کی تھی قرب ربانی نے آپ کو ادب سکھایا تھا، خطاب غیبی آپ کا مشیر تھا۔ آپ کی نگاہ آپ کے دل کی ترجمان تھی۔ اُنس آپ کا ندیم تھا، کشادہ دلی آپ کی نسیم تھی، صداقت آپ کا جھنڈا تھا فتح آپ کی پونچی تھی۔ بُردباری آپ کا ہنر تھا، یاد الٰہی آپ کی وزیر تھی، فکر آپ کا ہم سخن تھی، مکاشفہ آپ کی غذا تھا، اور مشاہدہ آپ کا مداوائے قلب،۔
نہایت روشن چہرہ، ہمیشہ خوش و خرم بڑے حیا دار، کشادہ دربار(یعنی نہایت سخی تھے) آسانی سے مان لینے والے تھے، اخلاق کے کریم، پاکیزہ خو تھے، بڑے مہربان، بڑے دیامان، بڑے شفیق، فضولیات سے کوسوں دور، حق سے بہت قریب، اللہ کے قوانین کی ہتک ہوتی تو سخت برہم ہوجاتے مگر اپنے لیے کبھی غصہ نہ کرتے اپنے اللہ کے سوا کسی کے لیے بھی انکا رنگ نہیں بدلتا تھا۔ کسی سائل کو رد نہ کرتے تھے چاہے وہ اوپر تلے کے دونوں لباس ہی مانگ لے۔
شیخ عبدالقادر کی یہ مکمل اخلاقی تصویر نہیں ہے آپ حضرت رسول خداؐ کی پوری سیرت کو اپنانے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ ’’ہر ولی کی روش ایک نہ ایک نبی کی روش کا پر تو ہوتی، میں اپنے مورث اعلیٰ محمد رسول اللہؐ کے قدم بقدم چلتا ہوں۔
حضرت شیخ عبدالقادر کے جو بھی کمالات تھے، وہ خارق عادت ہوں یا مطابق عادت سب نتیجہ تھے۔ اس طریقہ کا کہ آپ حضرت رسول خداؐ کے قدم بقدم چلنے کی کوشش میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ملک و شہر
آپ کے وارد بغداد ہونے کے زمانہ کا حال بتایا جاچکا ہے۔ سیاسی صورت حال جو تھی وہ واضح کی جاچکی ہے زمانہ نہایت ہی پُر آشوب تھا، دین مبین کو اگرچہ حالات نے روبہ زوال کر رکھا تھا لیکن دین کے مخلص خدام ابھی تک ہارے نہ تھے۔ بغداد اہل علم اور اہل دل اکابر کا ان دنوں گہوارہ تھا۔ ان دنوں حنابلہ و معتزلہ میں زبردست علمی بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ اور نوبت خون خرابے تک پہنچتی تھی۔ آپ کے دور کی برکت کہیے یا آپ کی فہمائش کا نتیجہ جلد ہی یہ مذہبی فتنہ دب گیا کچھ ہی عرصہ کے بعد آپ ’’مرجع علمائے عراق و محطِ طالبان حق از جمیع اقطار عالم‘‘ ہوگئے۔ اب عقیدہ کے لحاظ سے آپ کا مسلک عقلی تاویلوں سے اجتناب اور کتاب اللہ اور احادیث نبوی کے مطالب کو بے تاویل قبول کرنا اور نقل کو عقل پر مقدم رکھنا تھا۔ امام احمد بن حنبل کے متبع تھے۔ فقہ حنابلہ کے مطابق فتوے دیتے تھے بعض مسائل میں امام شافعی کے مطابق فتویٰ دیتے تھے ان دنوں کے متکلمین میں سے ایک شخص ابوحنیفہ تھا جو فرقہ مُرجیہ سے تعلق رکھتا تھا اب بے نام و نشان ہوچکا ہے۔ آپ اس کے سخت مخالف تھے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ آپ امام ابوحنیفہ کی مخالفت فرماتے تھے یہ تو ٹھیک ہے کہ آپ امام احمد اور امام شافعی کے مسلک کے مطابق فتویٰ دیتے تھے، امام ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق نہیں، لیکن آپ کی صحبت سے مشرف اصحاب میں سے ایک شیخ بزاز تھے ان کا بیان ہے کہ آپ فرماتے تھے:
’’بشارت باد کسانے را کہ پیر ایشان عبدالقادر و امام ایشان ابوحنیفہ و پیغمبر ایشان محمدرسول اللہ است‘‘
پیران طریقت
پیر کا لفظ عربی شیخ کا ترجمہ ہے، ان دنوں ہر فن کا استاد اس فن کا شیخ کہلاتا تھا۔ اُستاد تو اَوَستاوِدْ کا مخفف ہے جس کا لغوی ترجمہ پارسیوں کی مقدس کتاب اوستا کا عالم ہے۔ معلم کو استاد بعد میں کہنے لگے۔ ابتدائی معلمین مُقری کہلاتے تھے، اوسط درجہ کی تعلیم دینے والے معلم تھے اور منتہی طلبہ کو سکھانے والے شیخ کہلاتے تھے، آپ تھے تو آل رسول سے جن کو ہمارے ملک میں سیّد کہا جاتا ہے لیکن آپ شیخ کہلاتے تھے اس لیے کہ آپ کو علمائے عصر نے شیخُ الکل(سب کا استاد) مان لیا تھا۔ آپ نے علوم شرعیہ تو متعدد شیوخ سے حاصل کیے آپ کے پیر صحبت حماد بن مسلم دباس تھے اور پیر طریقت شیخ ابوسعید مبارک بن علی بن حسین المخزومی المتوفی ۵۱۲ھ جو فقہی حیثیت سے حنبلی تھے۔ انھوں نے شیخ ابوالحسن علی بن محمد البنکاری المتوفی ۴۸۰ھ سے، انھوں نے ابوالفتح طرسوسی سے انھوں نے شیخ عبدالواحد التمیمی المتوفی ۴۲۰ھ سے، انھوں نے شیخ الطائفہ ابوبکر شبلی المتوفی ۳۳۰ھ سے رموز طریقت سیکھے۔ شیخ الطایفہ ابوبکر شبلی جن باتوں پر زور دیتے تھے اُن میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ ’’ہر نفس را نفسِ آخر شمارد‘‘ یعنی جو نیک کام کرتا ہے اس کو کل پر کبھی نہ ٹالنا چاہیے، کیونکہ زندگی کتنی ہے کسے معلوم، اس تعلیم کو آسی مرحوم نے یو ادا کیا ہے ؎
کار امروز بفرد مگزار، اے آسی
آج ہی چاہیے اندیشہ فردا دل میں
ابوبکر شبلی فقہی حیثیت سے امام مالک کے متبع تھے۔ رموز طریقت انھوں نے، حضرت جنید بغدادی المتوفی ۲۷۰ھ سے سیکھے تھے، ان کے پیغامات میں سے ایک خاص پیغام یہ ہے: ’’بارخود برخلق نہ نہی و ہرچہ داری بدہی‘‘ اپنا بار خلق پر نہ ڈالو بلکہ جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ بھی اوروں کو دے دو۔ آج کل کے پیرانِ طریقت کا رویہ تو یہ ہے کہ اوروں کو دیتے نہیں اوروں سے لیتے ہیں۔
شیخ شبلی نے، حضرت سری بن المفلس السقطی المتوفی ۲۵۰ھ سے طریقت کے اسرار حاصل کیے ان کا خصوصی پیغام یہ تھا کہ صاحب طریقت کو چاہیے ’’میانِ بازار مشغول بحق باشد و خرید و فروخت نماید‘‘ یہ ارشاد دراصل (لاتلھیھم تجارۃ والابیع عن ذکر اللہ) کی باا لفاظ دیگر تعبیر ہے بعض لوگ جو رہبانیت پسند ہیں اس کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ تجارت اور کاروبار دُنیا سے مجتنب رہ کر یاد الٰہی کرنا بہتر ہے۔ شیخ سری سقطی نے تعلیم دی کہ نہیں بلکہ کاروبار میں مصروف رہتے ہوئے خدا کی یاد کو ہر دم دل میں رکھنا چاہیے اسی تعلیم کو اکثر صوفیائے کرام (دل بایا رودست برکار) کے الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔
سری سقطی کے شیخ حضرت معروف کرخی تھے۔ یہ اور ان کے والدین پہلے نصرانی تھے، امام علی رضا بن امام موسیٰ رضا کے ہاتھ پر یہ اور ان کے والدین مسلمان ہوئے۔ مسلمان ہو کر فقہی حیثیت سے امام ابوحنیفہ کا مسلک اختیار کیا، رموز طریقت حضرت حبیب راعی سے حاصل کیے جو حضرت سلمان فارسی کے تربیت کردہ تھے حضرت شیخ عبدالقادر نے اور بزرگان دین سے بھی استفادے کیے لیکن ان کے پیران طریقت میں یہی سلسلہ زیادہ مشہور ہے اس طرح آپ کے سلسلہ کے شیوخ میں امام ابوحنیفہ، امام ثوری، امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد سب کے مسلکوں کے پابند گزرے ہیں۔
مجالس شیخ
یہ بتایا جاچکا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ابتدائی ایام میں صحرائے عراق اور خرابات عراق کا گشت لگایا کرتے تھے، پھر اُن کو ان کے شیخ ابوسعید مبارک مخزومی نے اپنے مدرسہ باب الازج میں طلبہ کی تعلیم و تربیت پر مامور کیا۔ ایک عرصہ تک آپ نہایت خاموشی سے اپنا فریضہ انجام دیتے رہے شہرت و ناموری سے اجتناب کرتے تھے لیکن پھر آپ کو شہرت و ناموری کے میدان میں کودنا ہی پڑا اس کی وجہ حضرت شیخ عبدالقادر سے یہ مروی ہے کہ ایک شب آپ نے حضرت رسول خداؐ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہہ کو خواب میں دیکھا اور عالم رویا میں آپ کو ’’تکلم‘‘ کا حکم ملا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ
’’غلطہ کرد برمن کلام بحدے کہ بے اختیار شدم و قدرتِ سکوت نہ داشتم‘‘
ابتدا میں آپ کی مجلس میں صرف دو ایک افراد حاضر ہوتے تھے رفتہ رفتہ آپ کی شہرت ہونے لگی اور مجلس میں لوگ بکثرت جمع ہونے لگے تاآنکہ لوگوں کے لیے بیٹھنے کی جگہ نہ رہی، آپ شہر کی سب سے بڑی مسجد میں جا کر وعظ فرمانے لگے۔ بغداد کی سب سے بڑی مسجد بھی لوگوں کے لیے تنگ ہوگئی تو لوگ ’’کرسی رابیرون شہر بروند‘‘۔
عراق کے فقہا، علما، طلبا، فقرا ہر طرف سے آ آکر جمع ہونے لگے۔ کچھ عرصہ بعد ’’طالبان آفاق از جمیع اقطارِ عالم گرد آمدند‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان میں بلا کی تاثیر رکھی تھی۔ ۵۰۰ سے زیادہ یہود و نصاریٰ آپ کی ہدایت سے مسلمان ہوئے اور ایک لاکھ سے زیادہ ’’طائفہ عُصاۃ از قطاع الطریق دارباب بدعت و فساد دراعتقاد و مذہب‘‘ نے آ کے ہاتھوں پر بیعت توبہ کی اور اپنی سیرتیں سنوار کر صالحین امت میں داخل ہوگئے، آخری دنوں میں آپ کی مجلس میں تقریباً ۷۰ ہزار انسان شریک ہونے لگے ۴۰۰ افراد قلم دواۃ اور کاغذ لے کر آپ کی نصیحتیں قلم بند کرتے تھے۔ تمام بلادِ اسلام سے چیدہ چیدہ اکابر آپ کی مجلس میں حاضری دیا کرتے تھے۔
آپ کی مجلس سے جن لوگوں نے استفادہ کا شرف حاصل کیا ان میں سے ایک سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی ۵۷۳ھ میں پیدا ہوئے جب کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی عمر شریف ۶۷ برس کی تھی۔ خواجہ صاحب ۲۰ برس کی عمر تک اپنے شیخ خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں رہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی وفات کے وقت ۲۴ برس کے تھے خواجہ صاحب کو آپ کی زندگی کے آخری دنوں میں شرف سماع حاصل ہوا ہوگا۔
خطوط
آپ صرف زبانی وعظ و پند پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں سے فتوح الغیب بہت مشہور ہے علاوہ بریں بعض بعض مریدوں کے پاس تحریری نصیحتیں بھیجتے تھے۔ ان نصیحتوں میں بہ کثرت آیات قرآنیہ سے کام لیتے تھے مثلا ایک وعظ میں فرماتے ہیں:
اے عزیز یکے از داعیہ شہوات
ولا تبع الھویٰ فیضلک عن سبیل اللہ (ص۲۶)
اعراض کن۔ واز مواطن غفلت
ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا (کہف ۲۸)
بروں آئے۔ واز صحبت اہل فسوق کہ
فویل للقاسیۃ قلوبھم من ذکر اللہ (زمر ۲۲)
تربیت مریدین
آپ کے وعظ و پند سے متاثر ہو کر جو لوگ مرید ہوجاتے تھے ان کو آپ ایک نہ ایک صالح مرشد کی صحبت میں کچھ دن گزارنے کی ہدایت کرتے تھے کیونکہ آپ بذات خود ہر ایک کی تربیت نہیں کرسکتے تھے آپ کے طریق میں ارشاد طریقت سے زیادہ صحبت صالح ضروری تھی۔ انسان کانوں کے ذریعہ جو علم حاصل کرتا ہے اس سے زیادہ مستحکم علم آنکھوں کا ہوتا ہے ارشاد سے زیادہ بہتر زندگی کا نمونہ انسان کی روش کو سدھارتا ہے خود آپ نے علوم تو علما سے حاصل کیے اور اپنی زندگی سدھارنے کے لیے اپنا پیر صحبت حضرت حماد بن مسلم دباس کو بنایا جو ایک اُمّی تھے اور شیرہ فروش تھے آپ کے مسلک میں پاکیزہ زندگی کو دلیل و حجت اور علم وافر پر تفوق حاصل تھا مریدین میں سے جن کو آپ کام کے آدمی دیکھتے ان کو اقطاب یا اوتاد یا ابدال کے عہدے دے کر دیار و امصار میں پھیل جانے اور ہدایت خلق پر مامور فرماتے تھے۔
اصلاح عالم
آپ کا فریضہ صرف اہل بغداد اور اپنی مجلس میں حاضری دینے والوں ہی کی اصلاح نہیں تھا پورے عالمِ اسلام میں دین مبین کو زندہ اور توانا بنانا آپ کا مشن تھا اس کے لیے ایک عالم گیر نظام کی ضرورت تھی، باطنیوں کے داعی تمام عالمِ اسلام میں پھیلے ہوئے تھے۔ ہر شہر اور ہر علاقہ میں ایک نہ ایک باطنی مقیم تھا۔ ہر ایک داعی باطنیوں کا بظاہر نہایت مقدس زندگی گزارتا تھا، لوگوں کی نظر میں خود کو بہت خدا رسیّدہ ولی اللہ کی صورت میں پیش کرتا تھا، ان لوگوں نے درجہ ولایت کو درجہ نبوت سے بھی زیادہ بلند قرار دے رکھا تھا۔ ان جھوٹ موٹ کے اولیا کا جادو توڑنا ضروری تھا۔ آپ نے ان مدعیات ولایت کا زور توڑنے کے لیے ایک نظامِ اولیا ء الدین ترتیب دیا۔ اقطاب، اوتاد، اولیائے امر اور ابدال کا ایک ادارہ مرتب کیا۔ قطب کے معنی ہیں کھونٹا، بولتے ہیں کہ قطب از جانمی جنبد۔ آپ نے خود قطب الاقطاب کا عہدہ لیا۔ جو بعد میں چل کر قطب عالم اور قطب اعظم کہا جانے لگا، عالمِ اسلام کے مختلف ممالک و امصا میں آپ نے اقطاب مقرر کیے جو اپنے اپنے مقرر مقام پر مستقل قیام کرتے تھے۔
ان اقطاب کے ماتحت کچھ اور بزرگان دین اوتاد کے رتبہ پر نام زد کیے جاتے تھے جو قطب ولایت کے ماتحت شہروں میں مقیم رہتے تھے۔ وتد کے معنی اور قطب کے لغوی معنی میں زیادہ فرق نہیں، اقطابِ اقطار کے ماتحت اقطابِ بلاد کو اوتاد کہاجاتا تھا۔ ان اوتاد کے ماتحت علاقہ مختلف مرکزوں میں مرشدین کے دوائر تھے جو عام لوگوں میں دین برحق کو اپنے اپنے انداز میں پھیلاتے تھے۔
قطبِ عالم، اقطابِ اقطار، اوتاد ولایات، اور دائرہ ہائے مرشدین کے درمیان رابطہ قائم رکھنے کے لیے سیاحوں کی ایک جماعت مرتب کی جس کے افراد ملک ملک پھرتے قطب عالم کا پیغام اقطاب اقطار تک اور ان کی ہدایتیں اوتاد اور اولیائے مرشدین تک پہنچاتے تھے ان کو ابدال اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک بدل سے پیغام لے کر دوسرا بدل اسے تیسرے بدل تک پہنچاتا تھا۔ قطب عالم کا کام ماتحت مرشدوں کی دشواریاں سلجھانا، لوگوں کے شکوے شکایتیں اور فریادیں معلوم کرکے ان کو دفع کرنے کی تجویزیں کرنا بھی تھا اس لیے قطب عالم کو غوث اعظم بھی کہا جاتا تھا غوث کے معنی ہیں فریاد رسی، جس طرح مادی حکومتیں فریاد رسی کے محکمے قائم کرتی ہیں اسی طرح نظامِ دین الاولیا میں بھی باہمی اختلافات طے کرنے، اور ایک کے خلاف دوسرے کی شکایتیں رفع کرنے کے لیے ایک نظام استغاثہ تھا اس نظام کا سربراہ اعلیٰ قطب الاقطاب ہوتا تھا اس لیے اسے غوث عالم بھی کہا جاتا تھا۔ اقطاب، اوتاد، ابدال کے الفاظ اب تو صرف مقدس الفاظ بن کر رہ گئے ہیں، یہ نظام اب زندہ اور کار فرما نہیں ہے اس لیے اس نظام کو پوری طرح سمجھنا سمجھانا مشکل ہے لیکن جب تک یہ نظام واقعی زندہ اور کارگزار رہا ایک قطب اعظم ایک مقام پر مقیم رہ کر پورے عالمِ اسلام کی خبر گیری کرتا تھا۔ یہ نظام غیر شرعی اور (جابر)مستبدین کی شخصی حکومتوں کے اندر ایک دینی نظام اصلاح و تربیت تھا اور اس طرح چلایا جاتا تھا کہ نظام بادشاہی سے اس نظام کی ٹکر نہ ہو، بادشاہوں اور امرا کی حکومتیں دینی نظام میں خلل انداز نہ ہوں اور نہ دینی نظام کو امرا و حکام ضرر پہنچا سکیں، اس نظام کے شرکا خدا پر توکل رکھتے ہوئے فرائض مفوّضہ بغیر مُزد انجام دیتے تھے ان میں مزدور، تاجر، کسان، گھسیارے، لکڑ ہارے وغیرہ معاشرہ کے ہر طبقہ کے لوگ شریک ہوتے تھے رتبہ عالی صالح تر مومن کو ملتا تھا خواہ وہ گھسیارا ہی کیوں نہ ہو۔ پیشہ مسلمانوں میں برتری و کمتری کا سبب کبھی نہیں رہا۔
حکومتیں اور نظام اقطاب
تاریخ میں ہم کو ایسی نظیریں ملیں گی کہ بادشاہوں نے اس نظام کو اپنے لیے خطرہ سمجھا لیکن بالآخر ان کو معلوم ہوگیا کہ (نظام الاولیا) صرف دین و ایمان سلامت رکھنے، مسلمانوں کا اخلاق و کردار درست کرنے، اور دین مبین کو تقویت پہنچانے والے مخلص احباب و رفقاء کی ایک تنظیم ہے، حکومتیں اس سے ٹکر لیں تو لیں یہ نظام حکومتوں سے ٹکر نہیں لیتا۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ سلاطین و امرا نے (چاہا کہ)اس نظام کو اپنے فائدہ کے لیے استعمال کریں۔ لیکن اس میں ان کو ہمیشہ ناکامی ہوئی۔ بادشاہوں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جو اس نظام کے ماتحت مقدس زندگی گزارنے اور دوسروں کی زندگیاں سدھارنے والوں کے ساتھ حسن عقیدت رکھتے تھے۔ بارہا انھوں نے مرشدین کی خدمت میں نذریں پیش کیں مگر ہمیشہ نہیں تو اکثر و بیشتر ان کی نذریں بھی مسترد کردی گئیں اور اس عذر کے ساتھ کہ نذر کے طور پر پیش کی جانے والی اس دولت کے حصول میں ظلم داخل ہے امرا و سلاطین کی مدد لینے سے تا امکان گریز کیا جاتا تھا مستنجدباللہ بغداد کا وہ خلیفہ جو آپ کے بڑھاپے کا معاصر تھا، آپ کا معتقد تھا، آپ تو کبھی کسی خلیفہ، امیر، وزیر، یا سالار لشکر کے پاس نہیں گئے لیکن آپ کی مجلس وعظ میں ہر پایہ کے لوگ آتے تھے، کسی کو اس کے سیاسی عہدہ کی وجہ سے کوئی خاص مقام نہیں دیا جاتا تھا۔ مستنجدباللہ اکثر و بیشتر آپ کی خانقاہ میں حاضری دیتا تھا خلیفہ جب آنے کو ہوتا تو آپ حجرے میں چلے جاتے تھے وہ آکے بیٹھ جاتا تو حجرہ سے باہر آتے اور خلیفہ خود برائے تعظیم اٹھ جاتا تھا، ایک مرتبہ اس خوش خلق، نیک سیرت اور مومن خلیفہ نے آپ کی خدمت میں دو توڑے زر کے پیش کیے اور باصرار نذر قبول کرنے کو کہا آپ نے دونوں کیسوں کو اٹھایا اور فرمایا کہ دیکھو ان کیسوں سے تو خونِ مظلوم ٹپک رہا ہے۔ اور آپ نے ہدیہ کو مسترد کردیا۔ ماضی میں صوفیائے کرام نے آپ کی اس روش کو ہمیشہ اپنایا۔ آج کل کے صوفیوں میں اس کی نظیریں مشکل سے ملیں گی۔
نذر و نیاز
سلاطین اور امرا جب آپ کی خدمت میں کچھ نذر پیش کرتے تھے تو آپ مسترد کردیتے تھے۔ البتہ وجہ حلال سے کما کر پیش کرنے والے جب کچھ پیش کرتے تھے تو آپ اپنے لیے تو نہیں اپنے محتاج رفقاء اور دیگر فقراء و مساکین کے لیے قبول کرلیتے تھے، لیکن تا امکان ان سے بھی قبول نہ کرتے تھے۔ ایک شخص نے آپ کے سامنے کچھ رقم حاضر کی اور اس نے کہا کہ اس کو فقرا میں تقسیم کردیجیے فرمایا یہ کام تم خود انجام دو تو بہتر ہے زیادہ ثواب پاؤ گے اس شخص نے کہا کہ میں فقرائے مستحقین اور غیر مستحقین کی تمیز نہیں کرسکتا فرمایا کہ گمان غالب اور نیت خالص سے اپنا صدقہ غربا میں تقسیم کردو، تم کو اخلاص نیت کا ثواب ملے گا۔
وجہ معاش
آپ سیّد تھے صدقہ نہیں لے سکتے تھے، نذر و نیاز بھی بمشکل قبول کرسکتے تھے کیونکہ نذر دینے والے کو اس بات کا ثبوت دینا تھا کہ کسب حلال کی رقم ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی وجہ معاش کیا تھی؟ آخری عمر میں آپ خوش پوش اور خوش خوراک تھے اور دولت مند معلوم ہوتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ بعض صالح تاجروں کے بیوپار میں بطور مضاربت شریک تھے، روپیہ آپ کا تھا شریک تجارت محنت کرتا تھا، اصلی اور واقعی منافع میں سے کچھ حصہ آپ کا ہوتا تھا کچھ شریک تجارت کا، آپ کے شریک تجارت کون کون لوگ تھے اس کے جاننے کے لیے کافی تحقیق درکار ہے۔ آپ کے مریدوں میں کئی بزاز، خباز، سمان، عطار اور دوسرے کاروباری لوگ داخل تھے انھیں کے احوال میں آپ کی معاشی زندگی کی تفصیلات ملیں گی۔
nn