“مما مجھے بھی موبائل چاہیے ، میرے سارے دوستوں کے پاس ہے – آپ اور ابو کیوں نہیں دیتے”۔
بارہ سالہ بابر کو ہوم ورک کرنے کے دوران نجانے اچانک کیا خیال آیا کہ وہ اٹھ کر امی کے پاس چلا آیا ۔
“بابر جتنی ضرورت ہوتی ہے آپ میرا موبائل استعمال تو کرلیتے ہیں ،پڑھائی کے لیے بھی اور گیمز کے لیے بھی ” – امی نے سمجھایا ۔
“لیکن امی مجھے میرا اپنا چاہیے ، میرا ذاتی ہو ” بابر منمنایا ۔
“بابر موبائل فون بہتر ہے اتنا ہی استعمال کیا جائے جتنے میں کام پورا ہو ۔ بہت ذیادہ استعمال وقت بھی ضائع کرواتا ہے ،آنکھیں بھی خراب ہوتی ہیں اور ذہن بھی تھکتا ہے ، بھلا بتاؤ جس چیز کے اتنے سارے نقصانات ہوں وہ آپ لے کر کیا کریں ؟؟”
امی اور باہر کی بات چیت چل ہی رہی تھی کہ فاطمہ کی نظر چھوٹے سات ماہ کے حارث پر پڑی جو کہ بابر کی کتابوں کی طرف بڑھ رہا تھا جس میں جیومیٹری کی نوٹ بک کے ساتھ اس کا نوکيلا کمپاس بھی رکھا ہوا تھا ۔
“امی حارث کو دیکھیں “فاطمہ نے چیخ ماری ۔
اسی وقت بابر کی نظر پڑی تو وہ دوڑتا ہوا گیا اور اس نے جلدی سے اپنا کمپاس اٹھالیا کہ کہیں حارث خود کو چبھا نہ لے ،حارث نے چيخنا چلانا ، رونا شروع کردیا اور ضد کرنے لگا کہ اسے بس کمپاس ہی چاہيے ۔ فاطمہ اسے بہلانے کی خاطر اس کے کھلونے اور بسکٹ لے آئی مگر اسے جب جب یاد آتا وہ رونا شروع ہوجاتا ۔
بابر نے اپنا جیومیٹری باکس سنبھالا اور پھر امی کے پاس پہنچ کر دوبارہ سے موبائل کی ضد شروع کردی ۔
“مما دلادیں ناں موبائل “۔
“بابر آپ نے حارث کو کمپاس کیوں نہیں لینے دیا – لینے دیتے ناں اس کا اتنا دل چاہ رہا تھا ، اسے کھیلنا تھا ” امی نے بابر کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے سوال کر ڈالا ۔
” مما وہ خود کو چبھا لیتا ، آنکھ بھی پھوڑنے کا ڈر تھا – وہ اپنے آپ کو زخمی کرلیتا “ بابر نے حیرت سے جواب دیا ۔
“لیکن بابر دیکھو اس کا کتنا دل چاہ رہا ہے “ – امی نے اپنى بات پہ زور دے کر پھر کہا ۔
“وہ تو چھوٹا ہے – اسے تھوڑی پتا یہ چیز اسے نقصان پہنچائے گی لیکن ہمیں تو پتا ہے – ہم کیسے اسے دے سکتے ہیں “ بابر نے وضاحت کی
“ٹھیک۔۔۔۔۔بابر ۔۔۔۔” امی نے کچھ دیر توقف کیا
“ہم حارث کے بڑے ہیں، ہم اس سے محبت کرتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ کمپاس اتنے چھوٹے بچے کے لیے خطرناک ہے ….صحیح۔۔؟؟ “ امی نے پوچھا ۔
“جی مما” بابر نے جواب دیا
”بابر اسی طرح ماں باپ اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں اور جانتے ہیں کون سی چیز ان کے بچوں کے لیے نقصان دہ ہے ، تو وہ کیسے ان کو وہ چیز دے دیں چاہے بچہ کتنا ہی ضد کرے یا روئے دھوئے” امی نے بات مکمل کی اور بابر کو مسکرا کر دیکھا گویا کہہ رہی ہوں کہ موبائل فون بھی مکمل طور پر بچوں کے حوالے کردینا ایسا ہی نقصان دہ ہے جیسے حارث کے لیے کمپاس ۔