کراچی پریس کلب کے کانفرنس ہال میں بزمِ یارانِ سخن کراچی نے راغب مراد آبادی کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں سعید الظفر صدیقی صدر تھے اکرم کنجاہی مہمان خصوصی تھے جب کہ راشد نور اور آئرن فرحت نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ نظر فاطمی نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔زیفرین صابر نے حمد باری تعالیٰ اور راحت رخسانہ نے نعت رسولؐ پیش کی۔ سلمیٰ رضا سلمیٰ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بزمِ یارانِ سخن چالیس سال سے پابندیٔ وقت کے ساتھ مشاعرے کرا رہی ہے ہم اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں شاہدہ عروج نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ رانا خالد محمود نے کہا کہ راغب مراد آبادی ایک قادر الکلام شاعر تھے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ فی البدیہہ اشعار کہنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ تقریب کے صدر سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ راغب صاحب نے عملی طور پر تحریک پاکستان میں حصہ لیا‘ وہ مولانا ظفر علی خان کے بھی قریب تھے۔ انہوںنے نہایت جرات مندی کے ساتھ اس وقت کے بڑے اخبارات میں مسلم لیگ کی حمایت میں نظمیں لکھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جوش صاحب کے دوست ہونے کے باوجود راغب صاحب نے غزل کی حمایت میں لکھا اور جوش صاحب سے اپنے تعلقات کو خاطر میں نہیں۔ تقریب کے مہمان خصوصی اکرم کنجاہی نے راغب صاحب کے فکر و فن پر تفصیلی اظہار کیا ان کا کہنا تھا کہ مرحوم کے فکر و فن کی اتنی جہات ہیں کہ انہیں سوچ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے۔ افسوس مطالعہ اور تحقیق نہ کرنے کی وجہ سے ہم ان کو ایک ماہرِ علم عروض اور رباعی کے بدیہہ گو شاعر کے طور پر محدود کر دیا ہے۔ ہم ان کے ہاں شعری تجربات کو فراموش کر دیتے ہیں۔ تحریک پاکستان کے پس منظر اور آزادی کے بعد ان کی قومی و ملی شاعری پر بات نہیں کرتے۔ نعت نگاری ان کی اہم ترین تخلیقی جہات میں سے ایک ہے‘ کوئی ان پر بات ہی نہیں کرتا۔ ان کے تین منظوم سفر نامے بھی ہیں جن میں سے چار سو رباعیات پر مشتمل سفر نامہ حجاز بہت اہم ہے جسے حجاز کے اوّلین منظوم سفر نام ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے صرف غزل کی ہیئت ہی میں نعت گوئی نہیں کی ان کے نعتیہ سلام جو سلام بہ حضور خاتم الانبیاؐ میں شامل ہیں‘ بے مثال ہیں۔ شہدائے کربلا کے لیے بھی ان کی مکمل کتاب سلام و رباعیات کی صورت میں طبع ہوئی تھی۔ غالب کی زمینوں میں سب سے پہلے ان ہی کی نعتیہ کتاب ’’مدحتِ خیرالبشر‘‘ منظر عام پر آئی۔ ان کی رباعیات پر گفتگو کرتے ہوئے اکرم کنجاہی نے کہا کہ ان کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جس میں رباعیات شامل نہ ہوں مگر موت کے موضوع پر ان کی پانچ سو رباعیات پر مشتمل کتاب’’موت‘‘ اور اپنے بیٹے نفیس راغب کی یاد میں منظوم کتاب ’’رباعیات‘‘ اہم ہیں۔ ہنگامی شاعری سے ے کر جوش شناسی تک راغب صاحب کی کس کس فکری جہت کا ذکر کیا جائے۔ وہ پہلے اردو اہل زبان تھے جن کا پنجابی زبان میں مجموعہ کلام ’’تاریاں دی لو‘‘ سامنے آیا جس میں عربی اوزان میں رباعیات بھی تھیں۔ یہ کام پنجابی میں سب سے پہلے راغب صاحب نے کیا۔ انہوں نے راغب صاحب کی بطور مترجم اور کالم نگار بھی خدمات کا ذکر کیا۔ تقریب کے نظامت کار راشد نور نے راغب صاحب کی غزل کو موضوع بنا کر گفتگو کی ان کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ تر مشاعروں میں رباعیات ہی سناتے تھے مگر ان کی کتاب رگِ گفتار میں غزلوں کا معیار بہت بلند ہے۔ بلاشبہ ان میں آج بھی تازہ کاری محسوس ہوتی ہے اس لیے کہ وہ صرف کلاسیکی غزل ہی کے شاعر نہیں تھے‘ وہ اس شہر ہی کے نہیں برصغیر کے بڑے شعرا میں سے تھے۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں سعیدالظفر صدیقی‘ اکرم کنجاہی‘ راشد نور‘ زاہد حسین جوہری‘ خالد معین‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ حامد علی سید‘ رانا خالد محمود‘ یوسف چشتی‘ نسیم شیخ‘ بشیر نازش‘ کشور عدیل جعفری‘ سلیم عکاس‘ سلمان عزمی‘ احمد سعید خان‘ ضیا حیدر زیدی‘ فخراللہ شاد‘ نظر فاطمی‘ شائستہ سحر‘ افضل ہزاروی‘ ناہید عزمی‘ آئرئن فرحت‘ شجاع الزماں شاد‘ شاہ فہد‘ یاسمین یاس‘ یاسر سعید صدیقی‘ شائق شہاب‘ گل افشاں‘ شاہدہ عروج‘ کشور عروج‘ کامران صدیقی‘ مہر جمالی‘ صدف بنت اظہار‘ سرور چوہان اور سلمیٰ رضا سلمیٰ نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔