مغرب تمہاری نسل پر رحم نہیں کرے گا

341

(عربی سے ترجمہ)
مرحوم شیخ علی الطنطاوی ؒکی پوتی ممنہ الاعظم کی ایک چشم کشا تحریر
میرے دادا علی الطنطاوی خاصے سمجھ دار تھے۔ وہ ہمیں کینیڈا میں امیگریشن کے عمل سے گزرنے سے روکتے تھے۔ یہ بات اُس وقت کی ہے جب یہ امیگریشن ہمارے لیے دستیاب تھی۔ تب ہمارے بچے ابھی چھوٹے تھے۔ میری سمجھ میں اُن کے دلائل نہیں آتے تھے۔ میں شکوک و شبہات کا شکار تھی اور میری انا نے مجھے یہ دعویٰ کر نے پر مجبور کیا کہ وہ بہت سخت ہیں اور صرف اپنے بچوں کی زندگی کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ اُن پر رحم کرے۔ اب میں ان سے اتفاق کرتی ہوں اور جب بھی مجھے ان لوگوں کی کہانی سننے کوملتی ہے جن کے بچے مغرب کی مصروف زندگی میں اپنا دین کھوچکے ہوتے ہیں تو میں ان کے دانش مندانہ فیصلے کو یادکرتی ہوں۔
میرے دادا جان کا استدلال یہ تھا کہ کفر کی سرزمین میں رہنے کا انتخاب کرنا اپنی اولاد کو کھونے کا باعث بنتا ہے۔ اگر آپ اپنے بچوں کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں تب بھی آپ اُن کے بچوں اور اُن کے پوتے پوتیوں کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اس لیے ان کے دین کو کھونے کی ذمہ داری مت اٹھاؤ۔ مجھے دادا جان کی وہ سب باتیں اُس وقت یاد آئیں جب میری ایک سہیلی کی تحریر میری نظر سے گزری۔ وہ لکھتی ہے:
’’آج مجھے کسی نے بتایا کہ اگر میرے پاس پیسے ہوتے تو میں ترکی کے بجائے امریکا ہجرت کرلیتا۔ یہ مجھے یا میرے خاندان کو بھی کبھی متاثر نہیں کرے گا کہ میں کہاں ہجرت کرتا ہوں، اہم بات یہ ہے کہ میں اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتا ہوں‘ ان کی پرورش کہاں کرتا ہوں۔ میں نے یہ بات کہنے والے کو تنبیہ کی کہ مقام کا انتخاب تربیت کے لیے بنیادی اصولوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عقل مندوں، تجربہ کاروں ( اہلِ حل و عقد ) سے پوچھو۔ تو یہاں میں اپنا ایک مشاہدہ لکھتی ہوں۔
نوسال پہلے مجھے رمضان خاندان (بیروت کے ایک خاندان) کی خاندانی تاریخ کی تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا۔ میں نے اس خاندان کے افراد سے شروعات کی اور پھر پوری دنیا میں خاندان کے تمام افرادکو (آن لائن) تلاش کیا۔ مجھے خاندان کے پانچ ہزار ممبرز ملے اور اعداد و شمار حیران کن تھے۔
یہاں ان خاندانوں کی فہرست ہے جو مغرب کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ وہ جنھوں نے سوسال پہلے ہجرت کی ، ان کی 95 فیصد اولاد مسلمان نہیں ہے۔ جنھوں نے 80 سال پہلے ہجرت کی ، ان کی 75 فیصد اولاد اب مسلمان نہیں ہے۔ جنھوں نے 20 سال پہلے ہجرت کی ، ان کی 40 فیصد اولاد اب عیسائی ہے، اور جنھوں نے 40 سال پہلے ہجرت کی اُن کے 25 فیصد پوتوں نے اسلام چھوڑ دیا۔ اسی طرح تقر یباً 80 سال پہلے ایک شیخ نے ایکواڈور کی طرف ہجرت کی اور وہاں پہلی مسجد بنائی۔ انھوں نے اپنے بچوں کی پرورش اسلام پر کرنے کی تاکید اور کوشش کی۔ آج ان کا کوئی پوتا مسلمان نہیں ہے۔ اکثر خاندانوں کا یہی حال ہے۔ خود ذاتی طور پر میرے دادا کے 48 پوتوں میں سے 16 اب مسلمان نہیں ہیں۔ ہم ریاست ہائے متحدہ امریکا میں رہتے ہیں اور میں 40 سال سے امریکی شہری ہوں۔ ایکواڈور میں بیروت کے رمضان خاندان کے اٹھانوے پوتے پوتیاں ہیں۔ رمضان کے آباواجداد 1923ء میں وہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔ اب ان 98 پوتے پوتیوں میں سے سبھی عیسائی ہیں۔ میں جارج، کرسچن اور ایمیلیو رمضان سے ملا۔ میں نے ایمیلیو کواڈانا، ترکی کے شہر میں فیملی یونین میں آنے کے لیے راضی کیا۔ میں نے اسے صرف اس کے لیے مالی امداد کی پیشکش کی تاکہ وہ اپنے خاندان کی مسلم تاریخ کے بارے میں جان سکے۔یہ سارے اعداد و شمار واقعی دل دہلا دینے والے ہیں۔ ان میں سبق ہے خاص طور سے اُن کے لیے جو ہر صورت باہر کی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے پُرجوش ہیں ۔

حصہ