نیند اک معمہ ہے ،سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

490

آنکھوں کو بند کرکے جسم اور ذہن کو آرام پہنچانے کا عمل یعنی نیند ہماری زندگی میں خوشی و راحت کا فطری عمل ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ ایک خوبصورت احساس کا عنوان ہے۔ یہ ہماری روزمرہ زندگی کا اہم موضوع ہے۔
انسان کے لیے نیند بہت اہم ہے۔ اس کا کام جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بنانا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ نیند پر بات کرتے ہیں تو اس حوالے سے افسوس، دکھ، تکلیف اور بے چینی کا اظہار ہوتا ہے اور کبھی اس کی ہی وجہ سے خوش مزاجی اور چاق چوبند ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔
اکثر دفاتر میں کام کرنے والے مرد و خواتین کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ‘رات میں سو نہیں سکے، ‘موبائل ہاتھ میں تھا وقت کا پتا ہی نہیں چلا، ‘اچھی نیند نہیں آتی، ‘مجھے نیند تو بہت آتی ہے لیکن سوتے سوتے دیر ہوجاتی ہے۔
ہمارے شوہر کے ایک دوست جو لکھنے لکھانے سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے بچے کی بیماری کی وجہ سے 20 سال سے اوسطاً صرف 4، 5 گھنٹے ہی سوتے آرہے ہیں۔ وہ بھی 24 گھنٹوں میں اس وقت جب ان کا بچہ سوجائے۔ اس طرح شفٹوں میں کام کرنے والے لوگ بھی نیند کے عمل کو ٹھیک طور پر پورا نہیں کرپاتے۔ رات کی نیند پوری نہ ہو تو پھر پورے دن بھی سوتے رہنے سے جسم کی تھکن اور بوجھل پن ختم نہیں ہوتا، اور ٹھیک طریقے سے کچھ کرنے کا دل ہی نہیں چاہتا۔ نیند عارضی موت ہے اور ہر مخلوق اور انسان کی فطری ضرورت اور کمزوری ہے۔
آخر نیند ہے کیا؟
سوال یہ ہے کہ نیند کیا ہے؟ اس کا مکمل جواب آج بھی سائنس کے پاس نہیں ہے، سائنسدان نیند کی اہمیت کو تو سمجھ چکے ہیں لیکن بہت سی پرتیں کُھلنا ابھی باقی ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ نیند، اک معمہ ہے۔
جب ہم سوتے ہیں تو ہماری یہ سوچ ہے کہ کچھ نہیں ہورہا ہے بس ہم سورہے ہیں، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہمارے دماغ کے کچھ حصے نیند کے دوران خاصے متحرک رہتے ہیں۔ یہ 24 گھنٹے کے دوران وہ باقاعدہ وقفہ ہے جس میں ہم اپنے ماحول سے بے خبر ہوتے ہیں اور اس کو محسوس نہیں کرپاتے۔
اچھی نیند ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ خوراک اور پانی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس کو پورا نہیں کرپاتے۔ نیند کا مطلوبہ دورانیہ فرد کی عمر، سرگرمی کی سطح اور مجموعی صحت کے لحاظ سے مختلف لوگوں میں مختلف ہوتی ہے۔ اس کی تفصیلات پر آگے بات کریں گے۔
نیند کے دوران دماغ میں کیا ہوتا ہے؟
اگرچہ ہم نیند کے بارے میں بہت کچھ جان چکے ہیں، لیکن ابھی بہت کچھ نامعلوم بھی ہے۔ محققین نیند اور اس کے اثرات کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دماغی کیمیکل ہماری نیند کے چکر میں بہت زیادہ ملوث ہوتے ہیں۔ نیورو ٹرانسمیٹر ایسے کیمیکل ہیں جو اعصاب کو بات چیت کرنے میں، دماغ کو متحرک رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ کنٹرول کرتے ہیں کہ آیا ہم جاگ رہے ہیں یا سو رہے ہیں، لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کس نیورون (اعصابی خلیات) پر کام کررہے ہیں۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ آڈینوسین نامی کیمیکل ہمارے خون میں اس وقت بنتا ہے جب ہم جاگتے ہیں اور یہ کیمیکل غنودگی کا باعث بنتا ہے۔ جب ہم سوتے ہیں تو یہ کیمیکل آہستہ آہستہ ٹوٹ جاتا ہے۔
رات کے دوران نیند مختلف مراحل میں ہوتی ہے، نیند کو 4 مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک کا تعلق دماغی لہروں، آنکھوں کی حرکات اور پٹھوں کے تناؤ سے ہے۔ پہلے 3 مراحل کو نان ریپڈ آئی موومنٹ (این آر ای ایم) نیند کہا جاتا ہے، اور چوتھے مرحلے کو ریپڈ آئی موومنٹ (آر ای ایم) نیند کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ہر رات نیند کے تمام مراحل کے 4 سے 6 چکر مکمل کرتے ہیں۔
معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی کے مطابق ’جب گہری نیند آتی ہے تو یہ این آر ای ایم ہے، اس کا دورانیہ 90 منٹ کا ہوتا ہے۔ یہ نیند کے کُل دورانیے کا 70 سے 80 فیصد ہوتا ہے، پھر اس کے بعد یکدم آر ای ایم کا دورانیہ شروع ہوجاتا ہے جو 20 سے 25 فیصد ہوتا ہے جسے پیراڈوکسیئل سلیپ بھی کہتے ہیں۔ اس میں آنکھوں کے پٹھوں کے علاوہ پورا جسم مفلوج ہوجاتا ہے اور اسی میں ہم خواب بھی دیکھتے ہیں۔ یعنی دماغ تو سورہا ہے، لیکن جسم جاگ رہا ہے۔ ہم جتنی دیر سوئیں گے آر ای ایم کا دورانیہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی کو اٹھاتے ہیں تو وہ کہتا ہے میں تو خواب دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ اسی مرحلے میں ہم خواب دیکھتے ہیں‘۔
ڈاکٹر اقبال آفریدی کے مطابق ’نیند ایک متحرک میکینزم ہے مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ غیر متحرک میکینزم ہے۔ ہمارے دماغ میں ایک ریٹیکیولر ایکٹیویٹنگ سسٹم (Reticular Activating System) ہے۔ اس کا تعلق بھی نیند کے ساتھ ہے۔ نیند ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان کا پورا دماغ کام کررہا ہوتا ہے لیکن جب گہری نیند میں چلا جاتا ہے تو سارا جسم مفلوج ہوجاتا ہے، صرف آنکھوں کے عضلات کام کررہے ہوتے ہیں۔
آغا خان اسپتال سے وابستہ معروف نیورولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘انسانی زندگی کا تقریباً ایک تہائی حصہ نیند میں گزرتا ہے تو ظاہر ہے انسانی زندگی میں نیند کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ نیند انسانی جسم کو دوبارہ سے تازہ دم کرنے کا بھی ذریعہ ہے لیکن ابھی تک اس کی کوئی اچھی سائنسی تشریح نہیں آئی ہے کہ نیند کے اندر یہ عمل کس طرح ہوتا ہے کہ انسانی جسم اور دماغ ایک دم تازہ دم ہوجاتا ہے۔ پہلے تو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ذہن اور جسم کو آرام مل جاتا ہے اور جسمانی اور ذہنی سرگرمیاں کم ہوجاتی ہے لیکن سونے میں بھی انسانی دماغ مسلسل چل رہا ہوتا ہے، ہاتھ پاؤں چل رہے ہوتے ہیں، دل کی دھڑکن اور سانسیں بھی چل رہی ہوتی ہیں لیکن انسان شعوری طور پر دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ موت والی کیفیت ہوجاتی ہے، لیکن بقیہ جسم اور اس کا دماغ کام کررہا ہوتا ہے۔
نیند کب آتی ہے؟
آخر یہ نیند کب آتی ہے؟ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ نیند ہمیں اپنی پُرسکون آغوش میں کب لے لیتی ہے اور اچانک کہاں سے آجاتی ہے؟ کیا ہوتا ہے کہ ہم سوجاتے ہیں؟ ڈاکٹر واسع کا کہنا تھا کہ ‘نیند کا کافی تعلق آپ کے روزمرہ کے معاملات سے ہوتا ہے۔ اگر کسی کو بیٹھے بیٹھے اچانک نیند آنے لگے تو وہ ایک بیماری ہے۔ لیکن جس طرح روزانہ لوگوں کا ایک وقت ہوتا ہے سونے کا کہ رات کو 2 بجے سوئیں گے تو صبح 10 بجے اٹھ جائیں گے تو انہیں 2 بجے نیند آتی ہے اور وہ صبح 10 بجے اٹھ جاتے ہیں۔ دماغ کے اندر میلاٹونِن (Melatonin) نام کا ایک ہارمون ہوتا ہے جسے اکثر نیند کا ہارمون کہا جاتا ہے۔ یہ شام کے اندھیرے کے ساتھ بڑھتا ہے اور اچھی نیند کی وجہ بنتا ہے۔
یہ ایک سرکیڈیم (circadiam) ردھم ہوتا ہے جو اس بات کو نوٹ کرتا ہے کہ آپ کے جسم کا معمول کیا ہے۔ ہماری آنکھ ہمارے ماحول میں روشن اور تاریک دورانیے کا پتا چلا لیتی ہے۔ آپ کے جسم کی گھڑی کی سونے اور جاگنے کے وقت پر سیٹ ہوجاتی ہے۔ یوں سونے کے وقت آپ کو نیند آئے گی اور جب اٹھنے کا وقت ہوگا تو آپ کی آنکھ کُھل جائے گی کیونکہ اس حساب سے آپ کا جسم سیٹ ہوجاتا ہے اور زیادہ تر لوگوں کا یہی حساب ہوتا ہے۔
ایک عام انسان کو کتنا سونے کی ضرورت ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر واسع کا کہنا تھا کہ ‘ایک عام آدمی کی نیند 7 گھنٹے کی ہونی چاہیے۔ بہتر ہے کہ یہ مسلسل ہو، کیونکہ نیند کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ پھر گہری نیند کے الگ مراحل ہوتے ہیں اور ہر مرحلے کی اپنی افادیت اور اہمیت ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر نیند ٹوٹ ٹوٹ کر اور ٹکڑوں میں ہوگی تو وہ سارے مراحل مکمل نہیں ہوپائیں گے، لیکن اگر 2 حصوں میں ہو تو بھی کافی مراحل پورے ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر آفریدی کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ‘نیند کے اس پورے نظام کا تعلق ہمارے دماغ کے ایک حصے جسے ہم pineal gland کہتے ہیں سے ہے، اور اس pineal gland کے لیے اگر خوب اندھیرا ہوگا تو وہ اپنا کام شروع کردے گا اور روشنی ہوتے ہی بند ہوجائے گا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جوانوں کو رات 9 سے صبح ساڑھے 7 کے دوران نیند پوری کرنی چاہیے۔ آپ اگر ساڑھے 12 بجے کے بعد سوئیں گے تو آپ کو اچھی نیند نہیں ملے گی، ایسے لوگوں کو گہری نیند کا فائدہ نہیں ہوتا۔
جھپکی کی نیند یعنی قیلولہ
ہم میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں اور کبھی کبھی یہ ہمارے ساتھ ہوتا بھی ہے کہ اچانک نیند کا ایک جھونکا آتا ہے اور ہم چند لمحوں کے لیے سوجاتے ہیں۔ اسے جھپکی کی نیند یا قیلولہ کہتے ہیں۔
بسااوقات دن کے وقت 10 منٹ جھپکی سے بھی انسان بہتر اور ترو تازہ ہوجاتا ہے۔ امریکا کی نیشنل سلیپ فاؤنڈیشن کے ایک مضمون کے مطابق ‘بالغ افراد کو جھپکی لینے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بہت سے لوگوں کے لیے یہ مفید ہے۔ اس سے وہ دن بھر کے کام اور تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے آپ کو ترو تازہ محسوس کرتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے زیادہ مفید ہے جن کی رات کی نیند کسی کام یا مطالعے کی وجہ سے پوری نہیں ہوتی۔ یہ نیند آپ کے موڈ اور توانائی کی سطح کو بہتر بنانے کے لیے بہت کارآمد ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ 20 منٹ کی جھپکی زیادہ بہتر ہے اور تقریباً 45 منٹ یا اس سے زیادہ کی جھپکی پریشانی کا باعث ہوسکتی ہے۔ زیادہ تر محققین دوپہر 2 بجے سے پہلے قیلولہ کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ آپ کی جھپکی آپ کی رات کی نیند پر کم اثر ڈالے۔
ڈاکٹر آفریدی کا کہنا ہے کہ ‘قیلولہ آدھے گھنٹے سے کم ہونا چاہیے۔ قیلولے سے مختلف دماغی افعال بہتر ہوتے ہیں جو یادداشت کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا میں جو حساس قسم کے ادارے ہوتے ہیں مثلاً اٹامک انرجی وغیرہ سے متعلق ادارے وہاں دوپہر کو سونے یعنی قیلولہ کا الاؤنس ملتا ہے۔
اگر آپ چین کا دورہ کریں تو آپ کو بہت سے لوگ عوامی پارکوں، میٹرو یا بینچوں پر دن کے وقت سوتے ہوئے ملیں گے۔ وہاں کی بڑی کمپنیاں نیپ ٹائم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ہواوئے جیسی بڑی کمپنیاں بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ چین کے کئی شہروں میں پوڈ ہوٹل یا نیپ کیپسول بھی ہیں جو 30 منٹ کے لیے کرائے پر لیے جاسکتے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق جب لوگ تقریباً 20 منٹ سوتے ہیں، تو ان کی یادداشت بہتر ہوتی ہے اور مجموعی طور پر زیادہ سونے والوں کے مقابلے میں ان کا ادراک بہتر ہوتا ہے، یہ ‘پاور نیپ کہلاتا ہے۔ پاور نیپ کتنی دیر تک ہوسکتی ہے؟ اس کے جواب میں بتایا جاتا ہے کہ دوپہر میں لیا گیا پاور نیپ عام طور پر 15 سے 20 منٹ تک رہتا ہے اور توانائی اور بیداری میں قدرتی کمی کا سامنا کرتے وقت آپ کو بحال اور ترو تازہ کرسکتا ہے۔
ناسا نے خلابازوں پر پاور نیپنگ کے اثرات کا تجربہ کیا جس سے ان کی کارکردگی میں مؤثر اضافہ ہوا اور وہ زیادہ چاق چوبند نظر آئے۔ تو پھر الارم لگائیں تاکہ آپ 20 منٹ سے زیادہ نہ سو پائیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں تو پھر جب آپ بیدار ہوں گے تو اپنے اندر بدمزاجی کو محسوس کرسکتے ہیں۔
کیا نیند نہ آنے کی بیماری جلد موت کا سبب بنتی ہے؟
نیند کی کمی اور نیند کی خرابی انسانی صحت پر گہرے اور وسیع اثرات مرتب کرتی ہے۔ بے خوابی یعنی انسومنیا کا مرض پوری دنیا میں تیزی سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یہ ایک عام عارضہ ہے جو آپ کے جلدی جاگنے اور دوبارہ نیند نہ آنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب آپ بیدار ہوتے ہیں تو خود کو تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں اور آپ کے مزاج میں تبدیلی، چڑچڑا پن یا افسردگی رہتی ہے۔ بے خوابی نہ صرف آپ کی توانائی کی سطح اور مزاج بلکہ آپ کی صحت، کارکردگی اور معیارِ زندگی کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے، جیسے یہ سماجی مسائل پیدا کرسکتی ہے، رشتوں کے مسائل ہوسکتے ہیں اور بھولنے کی بیماری لگ سکتی ہے۔ اسی طرح غلطیوں یا حادثات میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ خواتین کو ان کے ماہواری اور حمل کے دوران ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے مردوں کے مقابلے میں بے خوابی کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
بے خوابی کے حوالے سے ڈاکٹر محمد واسع کا کہنا ہے کہ ‘دنیا میں تقریباً ایک ارب لوگ اس کا شکار ہیں، انہیں وقت پر نیند نہیں آتی۔ انسان لیٹا ہوا ہوتا ہے لیکن نیند کوسوں دُور ہوتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں سے کچھ کیمیائی وجوہات ہیں جبکہ کچھ کا تعلق روزمرہ کے معمول اور دیگر وجوہات سے ہے۔ مثلاً دمہ، الرجی، تناؤ، اضطراب یا ڈپریشن، افسردگی، ماحول کا شور، اور جس کمرے میں آپ سورہے ہوں اس کا بہت ٹھنڈا یا گرم ہونا بھی اس کی وجہ ہوسکتا ہے۔
سرے یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن افراد کو رات کو نیند نہیں آتی یا آدھی رات کو جاگ جاتے ہیں، ان میں جلد موت کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر بے خوابی آپ کے لیے دن کے وقت کام کرنا مشکل بناتی ہے تو اپنی عادات بدلیں، مطالعہ کریں، سونے سے پہلے کچھ سنیں یا پھر اپنے ڈاکٹر سے ملیں تاکہ آپ کی نیند کے مسئلے کی وجہ معلوم کی جاسکے اور اس کا علاج کیا جاسکے۔
ڈاکٹر آفریدی کہتے ہیں کہ ‘ہم جو موبائل، کمپیوٹر، ٹیبلٹ استعمال کرتے ہیں ان سے نیلی روشنی (بِلو لائٹ) نکلتی ہے اور اس سے بھی نیند خراب ہوتی ہے۔
ہم نے ان سے سوال کیا کہ سونے سے کتنی دیر قبل موبائل کا استعمال بند کردینا چاہیے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘جتنی جلدی ہو چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ تحقیق کے مطابق اگر 17 گھنٹے تک انسان نہ سوئے تو یہ 2 گلاس الکوحل پینے کے برابر ہے۔
کنگز کالج کی ایک تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیند کی کمی کا شکار افراد اوسطاً 385 کیلوریز اضافی لیتے ہیں۔ اس تحقیق کو انجام دینے والے محقق ڈاکٹر اسکاٹ کہتے ہیں کہ ‘ہم جانتے ہیں کہ جب آپ نیند کی کمی کا شکار ہوتے ہیں تو بھوک کے ہارمونز میں تبدیلی آتی ہے اور آپ کو زیادہ بھوک محسوس ہوتی ہے اور اس بات کا امکان کم ہے کہ آپ خود کو بھوکا محسوس نہ کریں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نیند کی کمی کا شکار لوگ اکثر میٹھی خوراک لیتے ہیں جس سے ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
نیند کا زیادہ آنا بھی بیماری ہے؟
جی ہاں، نیند کا زیادہ آنا بھی بیماریوں کی ایک قسم میں سے ہے۔ اسی طرح نیند سے متعلق اور بھی کئی بیماریاں ہیں مثلاً پیرا سومنیا کی بیماری میں لوگ نیند میں چل رہے ہوتے ہیں، جبکہ خواب کے انسانی جسم اور دماغ پر جو اثرات ہوتے ہیں وہ پوری ایک الگ سائنس ہے۔ اسی طرح ایک بیماری ایڈیوپیتھک ہائپر سومنیا ہے۔ اس نادر بیماری میں بہت زیادہ نیند آتی ہے یا ایسے سمجھیں کہ نیند پوری ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس میں اکثر لوگ کھاتے یا بات کرتے ہوئے سو جاتے ہیں۔ ہر ایک لاکھ میں سے 2 افراد اس بیماری سے دوچار ہوتے ہیں لیکن اس کیفیت کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں۔
یہ خواب کیا ہوتے ہیں ؟
راحت اندوری نے کہا تھا کہ
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
آپ کے بھی کچھ خواب ہوں گے اور کچھ میرے بھی خواب ہیں، ہمارے والدین کے بھی ہمارے لیے کچھ خواب ہوں گے، ان میں سے کچھ خواب ہم جاگتے ہوئے دیکھتے ہیں اور کچھ سوتے ہوئے۔ خواب نیند کے سب سے دلچسپ اور پُراسرار پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے۔ ان خوابوں کی کیفیت اور نیند پر ان کا اثر ہر شخص پر ڈرامائی طور پر مختلف ہوسکتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ہر شب اوسطاً 2 گھنٹے خواب دیکھتے ہیں۔ خواب دیکھنا نیند کے کسی بھی مرحلے کے دوران ہوسکتا ہے، لیکن آنکھوں کی تیز حرکت (آر ای ایم) کے دوران خواب سب سے زیادہ اثر انگیز اور شدید ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں اہم سوال ہے کہ ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی لکھا کہ جدید سائنسی علوم میں ہم جہاں نیند کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں وہاں خواب کے بارے میں بہت کچھ نامعلوم ہے۔ یہاں تک کہ سب سے بنیادی سوال بھی کہ ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں؟ ماہرین کے درمیان اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے بحث جاری ہے کہ ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں۔
خواب سے متعلق پروفیسر ڈاکٹر واسع کا کہنا ہے کہ ’خواب 2، 3 طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک خواب وہ ہوتے ہیں جو انسان دن کی مصروفیات میں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ایک خواب وہ ہوتے ہیں جو انسان کو بعض دفعہ خوفزدہ اور دہشت زدہ کردیتے ہیں، ایسا بچوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ پھر ایک خواب وہ ہوتے ہیں جن میں انسان بعض اوقات ایسی چیزیں محسوس کرلیتا ہے یا دیکھ لیتا ہے جن کا تعلق تھوڑا مستقبل سے ہوتا ہے۔ یہ تینوں طرح کے خواب ہوتے ہیں لیکن اس کی بنیادی بائیو کیمیکل وجہ کیا ہے اور اس کا انسانی جسم پر کیا اثر ہوتا ہے یہ ابھی معلوم نہیں ہے۔ بہت دفعہ تو لوگوں کو یاد ہی نہیں رہتا کہ ہم نے دیکھا کیا تھا، بس یہ یاد ہوتا ہے کہ خواب آیا تھا۔ خواب آنا اس بات کی علامت بھی ہے کہ انسان کو گہری نیند آتی ہے۔ لیکن اگر کسی کو خواب نہیں آرہے ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ نیند گہری نہیں ہورہی ہے۔ خواب آنا ایک عام سی بات ہے اور تقریباً ہر شخص کو خواب آتے ہیں، لیکن اگر معمول سے ہٹ کر کوئی کیفیت ہے تو پھر علاج کی ضرورت ہوگی‘۔
جدید سائنسی علوم میں خواب کے بارے میں بہت کچھ نامعلوم ہے۔
اچھی نیند کے لیے کیا کریں؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر آفریدی کہتے ہیں کہ ‘نیند کے لیے یکساں ماحول ہونا چاہیے، سونے کے وقت میں تسلسل ہونا چاہیے اور سونے کا ایک وقت ہونا چاہیے۔ اگر رات کو گرم پانی سے نہایا جائے اور سونے سے آدھا گھنٹہ پہلے گرم دودھ پیا جائے تو اس سے نیند اچھی ہوجاتی ہے۔ چائے، کافی، کولڈ ڈرنک، گٹکا، نسوار نیند کو خراب کرتے ہیں اور اگر ہم رات دیر تک ورزش کرتے ہیں تو اس سے بھی نیند خراب ہوجاتی ہے۔ ہم اچھی نیند کے لیے یہ بات بھی کہتے ہیں کہ رات کو کھانا جلدی اور کم کھائیں اور مغرب کے بعد تو چائے، کافی اور کولڈ ڈرنک قطعی نوش نہ کریں۔ اس کے علاوہ سونے سے پہلے زیادہ جذباتی حساب کتاب میں نہ لگیں کہ جس سے دماغ زیادہ متحرک ہو۔ جب تک نیند نہ آئے لیٹنے کی ضرورت نہیں ہے اور میرا بنایا ہوا ایک اور اصول ہے کہ چاہے نیند آئے یا نہ آئے، اگلے دن بار بار نہیں کہنا کہ مجھے نیند نہیں آتی، اس سے یہ بات دماغ میں بیٹھ جاتی ہے اور پھر واقعی نیند نہیں آتی۔
مصنوعی طریقے سے آنے والی نیند
ہم میں سے اکثر لوگ نیند کی گولیاں کھا کر ہی سوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مصنوعی طریقے سے آنے والی نیند اور قدرت کی دی ہوئی نیند میں کیا کوئی فرق ہے؟ یا جب انسان سوجاتا ہے تو سب ایک جیسا ہی رہتا ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر واسع کہتے ہیں کہ ‘یہ اس وقت پوری دنیا کا بڑا مسئلہ ہے، دنیا میں اس وقت ساڑھے 7 ارب آبادی میں سے ایک ارب لوگ رات کو سونے سے پہلے نیند کی گولیاں کھارہے ہیں۔ نیند کی گولیوں کے استعمال سے اچھی نیند کا عمومی نظام خراب ہوجاتا ہے۔ دوائیوں کی مدد سے انسان سونے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اسے گہری نیند آجاتی ہے لیکن جسم کو قدرتی نیند والا آرام نہیں ملتا۔ آپ 7 گھنٹے سونے کے بعد بھی خود کو تھکا تھکا محسوس کریں گے۔ ان تمام دوائیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ آپ کو اپنا محتاج بنا دیتی ہیں اور جب جسم اس کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کے بغیر سونا مشکل ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر واسع مزید کہتے ہیں کہ ‘ان دواؤں کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ جب بندہ ایک خاص خوراک کافی عرصے تک لیتا ہے تو اس کے بعد دوائی کی وہ خوراک اس کے لیے مؤثر نہیں رہتی۔ پھر یا تو اسے اس کی زیادہ خوراک لینی پڑتی ہے یا زیادہ مؤثر دوا لینی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان سمیت پوری دنیا میں نیند کے لیے استعمال ہونے والی دوائیاں بہت مقبول ہیں۔ پاکستان میں تو 90 فیصد لوگ ڈاکٹر کے لکھے بغیر میڈیکل اسٹور سے باآسانی یہ ادویات خرید لیتے ہیں۔ جو لوگ نیند کی گولیاں طویل عرصے تک استعمال کرتے ہیں ان کی برداشت کی طاقت اور حافظہ کمزور ہوجاتا ہے۔ وہ الجھن، ڈپریشن اور وہم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر طویل عرصے کے لیے نیند کی گولیاں استعمال کرنے سے منع کرتے ہیں اور ہم یہی کہتے ہیں کہ نیند کے لیے دوائیوں سے ہٹ کر طریقے اختیار کرنے چاہئیں۔
دنیا میں تقریباً ایک ارب افراد رات کو سونے سے پہلے نیند کی گولیاں کھارہے ہیں۔
لوری یا موسیقی کا نیند سے تعلق
پوری دنیا میں مائیں بچوں کو لوری دے کر سلاتی ہیں۔ سائنس اس عام مشاہدے کی تائید کرتی ہے کہ ہر عمر کے بچے سکون بخش دھنیں سننے کے بعد بہتر سوتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوری سنانے سے اور تھپکیاں دینے سے کیسے نیند آجاتی ہے؟ اس پر ڈاکٹر واسع کا کہنا تھا کہ ‘نیند کا بڑا تعلق آپ کے سونے کے مشاغل سے ہوتا ہے کہ آپ کو سونے کی عادت کیسے ہے۔ مثلاً بہت سے لوگ ایک خاص کروٹ سے سوئیں گے تو ہی نیند آئے گی، بعض لوگ 2 تکیے استعمال کرتے ہیں، بعض ہاتھ میں تکیہ پکڑ کر سوتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ‘بعض لوگ اپنے تکیے کے بغیر سفر نہیں کرتے کیونکہ وہ اس کے بغیر سو ہی نہیں سکتے۔ اسی طرح لوری بھی قدرتی اور عادتی عمل ہے۔ اگر بچوں کو اس کی عادت پڑجاتی ہے تو انہیں سلانا آسان ہوجاتا ہے۔ اس سرگرمی سے نیند کا حصول ممکن ہے۔ اس میں بھی روشنی اور درجہ حرارت اہم چیز ہے۔ اسی طرح دنیا میں بہت سارے لوگ سونے کے لیے مدھم موسیقی بھی سنتے ہیں، یہ چیزیں سونے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں
سائنس اس بات کی تائید کرتی ہے کہ بچے سکون بخش دھنیں سننے کے بعد بہتر سوتے ہیں۔
نیند کی کمی کے باعث ہونے والے حادثات
عموماً دفاتر میں روزمرہ کام کے دوران ہم میں سے اکثر لوگ سوجاتے ہیں، یہ سونا ایک فطری عمل ہے لیکن سُستی کے باعث غنودگی کی کیفیت میں گاڑی چلانا اور اونگھنا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ گاڑی چلاتے ہوئے ذرا سی بھی غفلت بڑے حادثات کا سبب بن جاتی ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نہ سونے کی وجہ سے حادثات رونما ہونے کے خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ہر سال تقریباً ایک لاکھ لوگ حادثات کا شکار ہوتے ہیں، 1600 لوگ ہلاک ہوتے ہیں اور 71 ہزار زخمی ہوتے ہیں۔ برطانیہ، آسٹریلیا اور برازیل میں ہائی وے کے سنگین حادثات میں 16 سے 20 فیصد حادثے ڈرائیور کی تھکاوٹ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کے حادثات کو روکنے یا کم کرنے کے لیے مختلف حکمتِ عملیاں اختیار کی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے سیمینار اور تعلیمی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرائیوروں کی تربیت کی جاتی ہے اور ہوشیار رہنے اور نیند سے بچنے کے لیے ورزش وغیرہ کے بارے میں بھی معلومات دی جاتی ہیں۔
نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس نے ایک اینٹی سلیپ ڈیوائس متعارف کروائی تھی جس کو کان پر لگانے سے جب بھی آپ گاڑی چلاتے ہوئے سوتے ہیں تو آپ کو اپنے کان میں ایک زوردار بیپ سنائی دیتی ہے اور گاڑی چلانے والا دوبارہ ہوش میں آجاتا ہے۔ موٹروے پولیس نے ایک ویڈیو میں اس کے استعمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام ڈرائیوروں کو اس اینٹی سلیپ ڈیوائس کو حاصل کرنے کی ترغیب دی تھی۔
اس ضمن میں جب آئی جی موٹر وے پولیس خالد محمود سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے اور ہم اس حوالے سے اقدامات اٹھارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘موٹروے پولیس جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات کر رہی ہے۔ اس میں ڈیش کیم اور بہتر کوالٹی کی ڈیوائسز پر کام کیا جارہا ہے۔ کیمروں سے پتا چل سکتا ہے کہ ڈرائیور کا سر آگے پیچھے ہورہا ہے، چکرا رہا ہے، آنکھیں بند ہورہی ہیں، نیند میں لگ رہا ہے، تو ایسے میں الارم بج جاتا ہے اور یہ سب ڈیوائسز مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
آی جی موٹر وے نے مزید بتایا کہ ‘بسوں کی بڑی کمپنیوں سے بات ہوئی ہے، ان سے منوایا ہے کہ یہ ڈیوائسس لگوائیں کیونکہ ہم مزید حادثات کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ آگاہی کے حوالے سے ہم سیمینار اور ورکشاپس بھی کرواتے ہیں جس میں اینٹی ڈوزنگ ڈیوائس کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے کہ کس طرح دورانِ ڈرائیونگ اس ڈیوائس کو استعمال کرکے نیند آنے کی صورت میں حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے افسران موٹر وے پر ناخوشگوار صورتحال میں مسافروں کو معلومات اور آگاہی مہم کا بھی حصہ ہوتے ہیں۔ وہ گاڑیوں اور بسوں کو روکتے ہیں، ان کے ڈرائیور سے 2، 4 منٹ بات چیت کرتے ہیں، پانی کا چھینٹا منہ پر مارتے ہیں تاکہ وہ تھوڑا جاگ جائیں، اس کے ساتھ ہم نے اینٹی ڈوزنگ ایکٹی ویٹی بھی بہت بڑھا دی ہیں تاکہ حادثات کو روکا جاسکے۔
لہٰذا یہ بات کسی حد تک کہی جاسکتی ہے کہ اچھی نیند ہمارے ذہن، دماغ اور جسم کی ضرورت ہے۔ نیند اچھی ہوگی تو ہم اچھے ہوں گے اور ہم اچھے ہوں گے تو سماج اچھا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ اپنے جسم کی بھی سنیں۔ اگر ہمیں ذہنی الجھنوں سے آزاد ہوکر میٹھی نیند سے محظوظ ہونا ہے تو پھر زندگی میں کچھ تو نظم و ضبط پیدا کرنا ہوگا ورنہ ہم میں اور جانوروں میں کیا فرق کہ جن کی زندگی میں نہ کوئی نظم و ضبط ہے اور نہ ہی نیند کے اوقات متعین ہیں۔ وہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ‘یا تو اُلّو جاگتا ہے یا پھر عاشق۔(بشکریہ ڈان)

حصہ