”ہیلو ہیلو۔‘‘
’’جی کون؟‘‘
’’میں عاطف۔‘‘
’’کون عاطف؟‘‘
’’یار! عاطف لاہوریہ۔‘‘
’’اوہو کیا حال ہے بھائی! آج ہمیں کیسے یاد کرلیا!‘‘
’’بھائی جان بڑی مشکل سے تمہارا نمبر ملا ہے۔ پچھلے سال جب پاکستان آیا تھا تو اُس وقت بھی تم سے بات کرنے کی بہت کوشش کی تھی،لیکن رابطہ نہ ہوسکا۔ یہ تو اللہ بھلا کرے کاشف کا، جس نے نمبر دیا تو جناب سے بات بھی ہوگئی۔‘‘
’’اچھا یار! بہت شکریہ تم نے مجھے یاد رکھا۔ کیا پاکستان آئے ہوئے ہو؟‘‘
’’نہیں، ابھی تو نہیں آیا، اگلے مہینے کا پروگرام ہے۔‘‘
’’اور سناؤ کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
’’بہت اچھی گزر رہی ہے، بس موجیں اڑائی جارہی ہیں۔ ہلکی ہلکی سردی شروع ہوگئی ہے۔ آج کل چھٹیاں ہونے کی وجہ سے سارا دن گھر میں رہ کر موسم کے مزے لے رہا ہوں۔‘‘
’’اچھی بات ہے، خوش رہو، مزے کرو۔ اور سناؤ۔‘‘
’’بس یار موسم سرما انجوائے کررہا ہوں۔ یہاں کے موسم کی تو بات ہی نرالی ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں میں جانتا ہوں کہ ساری دنیا کے عوام موسموں کو انجوائے کیا کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی ایسے شہر ہیں جہاں کے رہنے والے بدلتے موسموں کے بکھرتے رنگوں سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن یہ سب ہماری قسمت میں کہاں!‘‘
’’کیوں بھئی، تم موسم انجوائے نہیں کرتے؟‘‘
’’نہیں بھائی، مسائل اور پریشانیاں جان چھوڑیں تو کچھ کریں۔‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘
’’میں نے کہا نا، کہ ہماری ایسی قسمت کہاں! کراچی والوں کی بدقسمتی ہے کہ خدا کی جانب سے عطا کردہ نعمتیں بھی حکمرانوں اور سرکاری محکموں کی نااہلی کی وجہ سے یہاں کے مکینوں کے لیے زحمت بن چکی ہیں۔‘‘
’’یار! تمہاری باتوں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تم انتہائی دل برداشتہ ہوچکے ہو۔‘‘
’’دل برداشتہ تو بہت چھوٹی چیز ہے، میں تو حکمرانوں کی جانب سے دی جانے والی اذیتوں کے نتیجے میں ٹوٹ چکا ہوں۔‘‘
’’اب ایسا تو نہ کہو، اگر کوئی مسئلہ یا پریشانی آجائے تو گھبراتے نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوجاتا ہے۔‘‘
’’خاک ٹھیک ہوجائے گا! تم اِس شہر میں نہیں رہتے۔ پہلے بھی لاہور میں رہتے تھے، اس لیے تمہیں یہاں کے مسائل کی کیا خبر! یہاں بسنے والوں پر ہر آنے والے دن کے ساتھ ایک نیا عذاب مسلط کردیا جاتا ہے۔ اب موسم سرما کی پہلی بارش کو ہی لے لو جس نے منٹوں میں کے الیکٹرک کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ شہر میں بوندا باندی کیا شروع ہوئی، کے الیکٹرک کے متعدد فیڈر ہی ٹرپ کرگئے، جس کے باعث بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی اور سارا شہر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ بجلی کا یہ بریک ڈاؤن رات گئے ہوا جس کے باعث شہریوں کو رات جاگ کر گزارنا پڑی، جبکہ اسکول جانے والے بچوں اور دفاتر جانے والے افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
’’اس بدترین صورتِ حال میں کراچی کو بجلی فراہم کرنے والا ادارہ کیا کررہا تھا؟‘‘
’’اس محکمے کی تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ اس سارے معاملے میں کے الیکٹرک کی جانب سے وہی پرانا راگ الاپا گیا، وہی پرانا جھوٹ جو ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں، بولا گیا… یعنی بارش کے باعث متاثر ہونے والے فیڈر بحال کیے جاچکے ہیں، حفاظتی اقدامات کے تحت کچھ علاقوں میں بجلی عارضی طور پر بند کی گئی ہے، ہماری ٹیمیں بارش سے متاثرہ علاقوں میں بجلی کی بحالی کا کام کررہی ہیں، ہم تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں، عوام اپنی شکایات کے الیکٹرک کی جانب سے دیے گئے نمبروں پر درج کروائیں۔ بس اسی قسم کی جھوٹی تسلیاں دے کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہا۔‘‘
’’اتنا کچھ ہوجانے پر اربابِ اختیار یا اعلیٰ حکام نے اس محکمے کے خلاف کارروائی تو ضرور کی ہوگی، کیونکہ میں جس ملک میں رہتا ہوں یہاں اوّل تو بجلی جاتی نہیں ہے، اگر کبھی کوئی ایسا فالٹ آجائے جس کے باعث بجلی کی فراہمی منقطع ہوجائے،تو متعلقہ محکمے کے خلاف نہ صرف کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے، بلکہ اس قسم کی شکایات پر جرمانے تک کیے جاتے ہیں۔‘‘
’’لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک سب ملے ہوئے ہیں۔ حکمران ٹولہ اپنے بینک بیلنس بڑھانے میں مصروف رہتا ہے، اور تقریباً تمام ہی اداروں کے اعلیٰ افسران اپنی تجوریاں بھرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں، جس کی مرضی میں جو آئے، وہ کرتا ہے۔‘‘
’’تمہاری بات سن کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ جب میں پاکستان میں رہتا تھا اُس وقت ایسے حالات نہ تھے، نہ ہی کسی ادارے سے متعلق عوامی شکایات تھیں، نہ بے ضابطگی۔ اتنی جلدی حالات کا یکسر تبدیل ہوجانا بھلا کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’حالات یکسر تبدیل نہیں ہوئے، بلکہ اس محکمے میں بتدریج کرپشن بڑھتی گئی۔ کے الیکٹرک نے نہ صرف شہر کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے بلکہ یہ محکمہ مختلف طریقوں سے عوام کو مسلسل لوٹ رہا ہے، مثلاً یک دم میٹر تبدیل کردیے جاتے ہیں، نئے لگائے جانے والے میٹروں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ پچھلے میٹروں سے پچیس سے تیس فیصد زیادہ تیز چلتے ہیں۔ پہلے اصول کے مطابق سلیب تبدیل ہونے پر یونٹ چارجز بدل جاتے تھے، یعنی اگر تین سو یونٹ تک دس روپے بیس پیسے فی یونٹ ہوتا تھا تو تین سو یونٹ کے بعد پندرہ روپے پینتالیس پیسے چارج کیے جاتے تھے، اسی سلیب کے تحت سات سو یونٹ تک رقم چارج کی جاتی تھی۔ پھر سات سو ایک یونٹ ہونے پر سترہ روپے تینتیس پیسے چارج کیے جاتے تھے۔ اب تو سارا نظام ہی تبدیل کردیا گیا ہے، تمام صارفین کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے، یعنی اب ایک یونٹ سے ہی چوبیس روپے کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ کے الیکٹرک اس کے علاؤہ بھی عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کے کئی طریقوں پر عمل پیرا ہے۔ غریب عوام کے لیے ایسے بل تیار کیے جاتے ہیں جس کی کہیں مثال نہیں ملتی، یعنی 280،290 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو315 سے 320 یونٹ تک کے بل تھما دیے جاتے ہیں۔ یہ ادارہ اس بات کا پابند ہے کہ صارفین کو فلٹر ہوئی بجلی فراہم کرے جو نقصانات سے بچاتی ہے، لیکن ہوتا برعکس ہی ہے۔ کراچی کے شہریوں کو کبھی 220 وولٹ فراہم نہیں کیے جاتے، نہ ہی فلٹر کی ہوئی بجلی فراہم کی جاتی ہے، جس کا نقصان صارفین کو اس صورت میں اٹھانا پڑتا ہے کہ جب 220 وولٹ سے کم آتے ہیں تو اس کے ’’امپیئر‘‘ بڑھ جاتے ہیں۔ جب امپیئر بڑھ جاتے ہیں تو واٹ زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ اگر وولٹ 220 ہو، ہمارا لوڈ ایک ہزار واٹ ہو اور مسلسل ایک گھنٹہ بجلی چلے تو ایک یونٹ بنتا ہے، اسی طرح اگر وولٹ 180 ہو، ہمارا لوڈ ایک ہزار واٹ ہو اور ایک گھنٹہ مسلسل چلے تو ڈیڑھ یونٹ بنتا ہے، یعنی پانچ سو واٹ بجلی زیادہ استعمال ہوئی۔ یہ چونکہ تکنیکی مسئلہ ہے، اس لیے عام آدمی کا اس جانب ذہن نہیں جاتا۔ اس کے علاؤہ اگر کسی شخص کو نیا کنکشن لینا ہو تو اس میں بھی بھنڈ ہی بھنڈ ہیں، میرا مطلب ہے یہ بھی مال کمانے کا ہی چکر ہے۔ نئے میٹر کے لیے صارفین ڈیمانڈ نوٹ کے ساتھ جو پیسے بینک میں جمع کراتے ہیں، اُس میں صارفین سے مین لائن سے میٹر تک آنے والا جو وائر استعمال ہونا ہے اُس کے پیسے لیے جاتے ہیں، اور وہ پیسے کاپر وائر کے، لیے جاتے ہیں، مگر سلور وائر لگایا جاتا ہے۔ اس طرح کے الیکٹرک صرف میٹر تبدیل نہیں کرتا بلکہ جو کاپر وائر ڈالا ہوا ہوتا ہے اس کو بھی سلور وائر سے تبدیل کردیتا ہے۔ بس اسی ڈھنگ سے کرپشن اور لوٹ مار کی جارہی ہے۔‘‘
’’یار یہ تو بڑی ناانصافی بلکہ ظلم کی انتہا ہے۔ کسی بھی سرکاری ادارے کا عوام کو سہولتیں دینے کے بجائے تنگ کرنا لمحہ فکریہ ہے۔ سب سے بڑھ کر اس بدترین صورتِ حال میں حکمرانوں کی خاموشی انتہائی زیادتی ہے۔‘‘
’’زیادتیوں کا مت پوچھو، سچ تو یہ ہے کہ ہر محکمہ کرپٹ ہوچکا ہے، کوئی پرسانِ حال نہیں۔ پہلے سوئی سدرن گیس کمپنی خاصا بہتر ادارہ تھا، گیس کی لوڈشیڈنگ تھی نہ پریشر کی کمی۔ اب تو یہ محکمہ سب پر بازی لے گیا ہے۔ سارا سارا دن گیس نہ ہونے کے باعث گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے رہتے ہیں۔ اگر کسی علاقے میں یہ نعمت دستیاب ہے تو وہاں بھی پریشر میں کمی کا رونا ہے۔ حالت اس قدر خراب ہے کہ خواتین لکڑیوں پر کھانا پکانے پر مجبور ہیں۔ ہر گھر سے اٹھنے والا دھواں کسی پسماندہ گاؤں کی جھلک پیش کرتا ہے۔ ہر جگہ مسائل ہی مسائل ہیں، لوگ اپنی جائز ضروریات کے لیے بھی دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ تعلیم، صحت سمیت بنیادی سہولیات نام کی کوئی چیز نہیں۔ معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ امیر،امیر تر، جبکہ ہم جیسا متوسط طبقہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ سرکاری دفاتر کی حالت ناقابلِ بیان ہے، دفاتر میں بیٹھے افسران جاگیردار اور وڈیرے بنے ہوئے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔ شہر کا انفرااسٹرکچر تباہ ہوکر رہ گیا ہے، صوبائی حکمران اور ان کے اتحادی بلدیاتی انتخابات سے راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ بلدیاتی اداروں کو فعال ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس صورتِ حال میں عوام جائیں تو جائیں کہاں! معاشی حالات کی کیا بتاؤں، وہ تو اس قدر خراب ہیں کہ پچھلے دنوں مجھے ایک مزدور ذاکر خان سے بات چیت کرنے کا موقع ملا، اُس کی رام کہانی سن کر دل بھر آیا، اپنی روداد سناتے ہوئے کہنے لگا:
”ہمارے ملک کو آزاد ہوئے پون صدی گزر چکی ہے، لیکن ہم جیسے مزدوروں کی حالت نہیں بدلی، زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہماری آمدنی اتنی نہیں ہو پا رہی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلا سکیں۔ شاید ایک مزدور کے بچے کی قسمت میں بھی مزدوری کرنا ہی لکھا ہوتا ہے۔ مجھے تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا لیکن گھر کے حالات کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ نہ جانے کتنے لوگ میری طرح کا شوق رکھتے ہوں گے جو ایسی ہی کسی لاچاری کی وجہ سے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یقین مانیے مجھے تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا لیکن حالات نے مجھے اس قابل نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں آج مزدوری کرکے اپنے گھر کا خرچہ چلاتا ہوں۔ اپنا گھر بنانے کی خواہش تھی لیکن سر چھپانے کے لیے ذاتی گھر نہ بن سکا۔ ہم جیسے غریبوں کے نصیب میں تو دو گز زمین ہوتی ہے۔ گھر کے حالات انتہائی خراب ہیں، کوئی نہ کوئی مسئلہ رہتا ہے۔ اب تو یقین ہوچلا ہے کہ قبر میں ہی سکون ملے گا۔“
یار عاطف! تُو یقین مان، کراچی کے عوام روز مرتے اور روز جیتے ہیں۔ پینے کا صاف پانی تو درکنار، شہری روز مرہ کے استعمال کے لیے بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں جبکہ پینے کے لیے غیر معیاری پانی خریدنے پر مجبور ہیں جس سے نہ صرف ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے بلکہ گندگی کے باعث ڈینگی اور ملیریا کے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ واٹر بورڈ ٹینکر مافیا کے گھر کی لونڈی بنا ہوا ہے، کراچی کو سپلائی دینے والی لائن کے ساتھ مختلف ناموں سے ٹاؤن آباد کیے جارہے ہیں جہاں اسی مین لائن کو کاٹ کر ناجائز طور پر پانی کے کنکشن دیے جارہے ہیں، جس سے شہر کی جانب ہونے والی سپلائی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ علاقائی سطح پر بھی اسی قسم کے دھندے کیے جارہے ہیں۔ ایک سے ڈھیر لاکھ روپے کے عوض چوبیس قطر کی لائنوں سے کنکشن فروخت جارہے ہیں۔ ایگزیکٹو انجینئر سے لے کر والو مین تک سب اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ علاقائی پولیس بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کراچی کو سپلائی کیے جانے والے پانی پر یزیدیوں کا قبضہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ان حالات کو دیکھ کر میری تو بس یہی دعا ہے کہ خدا اس شہر پر اپنا رحم فرمائے۔‘‘
’’بس کردے میرے یار! تیری باتیں سن کر میں بھی یہی کہتا ہوں کہ خدا ہمارے ملک کے حکمرانوں کو نیک ہدایت دے اور خصوصاً شہر کراچی پر رحم فرمائے۔‘‘