اس وقت پوری دنیا کو کسی ایسی ہستی کی اشد ضرورت ہے جو انسانیت کو ظالمانہ مادی طوفان سے نجات دلا سکے، جو اسے اخلاقی تباہی، روحانی خلا، معاشرتی ظلم اور نسلی امتیاز کی دلدل سے باہر نکال سکے، جو انسانیت کو اصول و قانون اور اقدار و روایات کی پامالی سے روک سکے۔ اس پامالی نے انسان کو تھکا ڈالا ہے، اُس کو حقوق سے محروم کر رکھا ہے اور عزتِ نفس کو مجروح کرکے رکھ دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ سلسلہ انسان کو تعذیب و تشدد سے دوچار رکھنے تک جا پہنچا ہے۔ حتیٰ کہ دین، اخلاق اور ضمیر کی آواز کو خاطر میں لائے بغیر بے گناہ بچوں اور عورتوں کا خون بہانا اور انھیں قتل کرنا معمول بن گیاہے۔
برباد ہوتی انسانیت کو اس بدترین صورت حال سے وحی الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے فرستادہ رسول کی ہدایت کے سوا کوئی نجات نہیں دلا سکتا، اور یہ رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہیں کیونکہ آپؐ ہی نبی آخرالزماںؐ اور رحمت للعالمینؐ ہیں۔
نزولِ وحی اور بعثت ِ انبیا و رسل کا سلسلہ تخلیقِ آدم اور حضرت آدم ؑ و حواؑ کے زمین پر آباد ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوگیاتھا، تاکہ انسانیت کو اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ طریق زندگی سے آگاہ کیا جا سکے۔ یہ مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی کہ انبیا و رسل کی تعداد اچھی خاصی رہی، حتیٰ کہ بعض اوقات تو ایک سے زائد نبی ایک ہی زمانے میں بھیجے گئے۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاقؑ اور حضرت لوطؑ کا زمانۂ نبوت ایک ہی ہے۔ اسی طرح حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑ کا زمانہ بھی ایک ہے۔ پھر حضرت موسٰی ؑاور حضرت ہارون ؑ ہیں۔ حضرت زکریاؑ، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسٰی ؑبھی ایک ہی عہد کے نبی گزرے۔ یہ تمام نبی صرف اپنی اپنی اقوام کی طرف بھیجے گئے۔ حضرت عیسٰی ؑانبیاے بنی اسرائیل میں آخری نبی ہیں۔ آپ ؑ نے حضرت موسٰی ؑکی شریعت کی تصدیق فرمائی اور بنی اسرائیل پر سے اُن پابندیوں کو ہٹایا جو اُن کے اپنے ظلم کی بناپر تھیں۔ نبوتِ موسٰی ؑ کی تصدیق کے ساتھ حضرت عیسٰی ؑنے نبی آخرالزماں حضرت محمدؐ کی بعثت کی بشارت بھی دی۔ حضرت عیسٰی ؑنے واضح کیا کہ حضرت محمدؐ پوری انسانیت کے لیے بشیر و نذیر ہوں گے۔ قرآن کے بیان کے مطابق: وَاِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰئۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُط (الصف ۶۱:۶) ’’اور یاد کرو عیسٰی ؑابن مریمؑ کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ ’’اے بنی اسرائیل ! میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں اُس تورات کی، جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا‘‘۔
یہ توقرآنِ مجید کا بیان ہے۔ خود لفظ ’انجیل‘کا سریانی زبان میں مفہوم ’بشارت‘ اور’خوش خبری‘ ہے۔انجیل یوحنا میں حضرت عیسٰی ؑکے بقول: ’’جب یہ روحِ حق [کا داعی نبی] آجائے گا تو وہ مکمل حق کی طرف تمھاری رہنمائی فرمائے گا۔ کیونکہ وہ اپنی طرف سے نہیں بولے گا بلکہ وہی کہے گا جو وہ سنے گا، اور وہ آیندہ کے امور کے بارے میں بھی تمھیں خبر دے گا‘‘ (یوحنا ۱۶:۱۲)۔ انجیل برناباس میں ہے: ’’عنقریب اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا نمایندہ (رسول) آئے گا جو پوری دنیا کے لیے رسول ہوگا… پھر اُس وقت پوری دنیا میں اللہ کو سجدہ کیا جائے گا اور دنیا پر رحمت سایہ فگن ہوگی‘‘ (۸۲:۱۶-۱۸)
حضرت عیسٰی ؑاور حضرت محمدؐ کی نبوت کے درمیان ۵۷۶ سال کا طویل وقفہ ہے۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزماں بن کر تشریف لائے۔ آپؐ کی بعثت و رسالت کو چودہ صدیاں گزر چکی ہیں لیکن کوئی اور نبی نہیں آیا۔ یہ بات اس عقیدے کو قطعی و حتمی اور وحیِ الٰہی کو حق ثابت کرتی ہے کہ حضرت محمدؐ ہی آخری نبی ہیں۔ آپؐ ہی قیامت تک آخری نبی ہوں گے۔ آپؐ اپنی رسالت کے دائمی اور عالم گیر ہونے کے اسباب ساتھ لے کر آئے۔ آج دنیا کے ایک حصے کا دوسرے حصے کے ساتھ رابطہ نہایت آسان ہوچکا ہے، لہٰذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی میں آپؐ کی رسالت کے عالم گیر پھیلائو کی خبر سچ ثابت ہوچکی ہے: ’’یہ دین وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں رات دن کا سلسلہ قائم ہے‘‘۔ اور فرمایا: ’’یہ دین کسی شہری، دیہاتی اور پتھر کے عہد کے گھر میں داخل ہوئے بغیر نہیں رہے گا‘‘۔
رسول کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ۴۰برس کی عمرمیں نبوت عطا ہوئی۔ آپؐ نے عمرکے اگلے ۲۳برس اس طرح گزارے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ طریق زندگی کو سب سے پہلے اپنی ذات پر نافذ کیا۔ پھر اپنے اہلِ خانہ پر، پھر اپنے صحابہؓ پر اور پھر تمام لوگوں پر اس کا نفاذ فرمایا۔ آپؐ لوگوں کے درمیان رہتے اور انھیں یہ تعلیم دیتے رہے کہ آسمانی طریق کے مطابق زمین پر زندگی کیسے گزاری جائے۔ آپؐ لوگوں کے عقیدے کو درست کرتے رہے، عبادات کی وضاحت کرتے رہے، اخلاقی رویو ں کی اصلاح کرتے رہے، اور لوگوں کے کردار کو بہتر بناتے رہے۔ آپؐ شریعت نافذ کرتے اور معاملات کو سدھارتے رہے۔ اس ساری جدوجہد کا مقصد پوری انسانیت کے لیے عدل و مساوات کو ممکن بنانا تھا تاکہ انسان بیک وقت دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرسکیں۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷)، ’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یاعورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن ، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو اُن کے اجر، اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔
آپؐ واحد نبی ہیں جن کے ہر قول و عمل بلکہ خاموشی پر مبنی کیفیت کو بھی محفوظ کرلیا گیا۔یہ عمل آپؐ کی حیاتِ مبارکہ کے پورے ۶۳برس کے طویل عرصے پر محیط ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی کتاب قرآنِ مجید کے ساتھ آپؐ کی سنت کو بھی تمام انسانیت کے لیے قیامت تک دائمی ہدایت کے طور پر باقی رکھنا تھا۔
نبی آخر الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو عدم سے وجود میں لاکر اور اُسے کمال کے درجوں پر پہنچا کر دکھایا۔ پھر اس اُمت کی روشنی پھیل گئی۔ اس کے اصولوں نے دنیا کی قیادت کی اور تین براعظموں پر اس کی حکمرانی کا دور دورہ رہا۔ یہ سب کچھ صرف ۳۰برس سے بھی کم عرصے میں ہوا۔ اس کے بعد اس اُمت کا نور مزید پھیلااور مشرق و مغرب کی تمام تر انسانیت کو منور کرتا رہا۔ یہ نور یورپ پہنچا تاکہ اُسے قرونِ وسطیٰ کے اندھیروں سے نکال کر تہذیب و تمدن کی روشنی میں کھڑا کردے۔ تہذیب و تمدن کی یہ روشنی اسلامی تہذیب کے گہوارے اندلس کے توسط سے بلادِغرب کو نصیب ہوئی۔ اس بات کی شہادت مشرق و مغرب کے تمام انصاف پسندوں نے دی ہے۔ رسول کریم حضرت محمدؐ نے روح اور جسم کے درمیان عادلانہ توازن قائم فرمایا، تاکہ انسان کو نفسیاتی سکون مہیا ہوسکے۔ عین اس وقت جب آپؐ نے لوگوں کو آخرت کے لیے عمل کرنے کی ترغیب دی، انھیں یہ حکم بھی دیا کہ وہ دنیا سے اپنا حصہ وصول کرنا نہ بھول جائیں۔وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا (القصص ۲۸:۷۷)، ’’جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر‘‘۔
رسول کریم حضرت محمدؐ نے انسان کے لیے گھریلو امن و سکون کو ممکن بنا دیا۔ آپؐ نے انسان کے فطری تقاضے کی تکمیل، نفس کی پاکیزگی اور معاشرے کی تطہیر کے ساتھ زمینی آبادی کی غرض کو پورا کرنے کے لیے شادی کا حکم دیا۔ آپؐ نے شادی کے بندھن کو اس قدر اعلیٰ تقدس عطا کیا کہ اسے پختہ معاہدے (میثاقاً غلیظًا) کا نام دیا۔ آپؐ نے میاں بیوی کے تعلقات کو گھر کی سربراہی، اخراجات، بچوں کی نگہداشت اور وراثت کے اُمور کی صورت میں باقاعدہ قانونی نظام کا پابند کردیا۔ آپؐ نے انسان اور اس کے ماحول کے درمیان بھی ایک توازن قائم کیا۔ یہ توازن انسان کو کائنات کے وسائل سے استفادے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی ماحول کو آلودہ ہونے سے بچنے اور اُسے صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری بھی سونپتاہے۔ کیونکہ اس ماحول میں صرف ایک ہی انسان کے حقوق نہیں ہیں بلکہ کئی نسلیں اس سے مستفید ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین میں خرابی پیدا کرنے سے منع کیا گیا ہے: وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا (اعراف ۷:۵۶) ’’زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے‘‘،بلکہ زمین کی آبادکاری اور اس کی بہتری وترقی کا حکم فرمایا گیا۔ آپؐ نے کاشت کاری کی ترغیب اور بنجر زمینوں کو آباد کرنے کا حکم دیا۔ آپؐ نے یہ عمل اس وقت بھی انجام دینے کا حکم فرمایا جب قیامت قائم ہوجائے۔ فرمایا: ’’جب قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں شجرکاری کے لیے ایک کھجور کا پودا ہو تو بھی وہ اسے لگا دے‘‘۔
آپؐ نے حالت ِ جنگ میں بھی آبادی کی حفاظت اور اس کے اُوپر رحم کا حکم دیا ہے۔ فرمایا: ’’اللہ کے نام پر لشکرکشی کرو، کسی بچے، عورت اور عمررسیدہ بوڑھے کو قتل نہ کرو، کسی مکان کو مسمار نہ کرو اور کسی درخت کو نہ کاٹو‘‘۔ رسول کریمؐ کی یہ رحمت و شفقت انسان سے شروع ہوئی اور حیوان تک کے لیے عام ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے اُس آدمی کو بخش دیا جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تھا جو پیاس کی شدت سے کیچڑ کھا رہا تھا‘‘۔آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’ہرزندہ چیز (کے ساتھ اچھا برتائو کرنے) پر تمھارے لیے اجر ہے‘‘۔
اسی بنا پر انگریز مؤرخ ولیم میور نے اپنی کتاب Life of Muhammad میں کہا ہے: ’’محمدؐ اپنی بات کے واضح ہونے اور دین کے آسان ہونے کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؐ نے کاموں کو ایسے مکمل کر دکھایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تاریخ نے کوئی ایسا مصلح نہیں دیکھا جس نے اتنے مختصر عرصے میں اس طرز پر دلوں کو بیدار کیا ہو، اخلاق کو زندگی بخشی ہو اور اخلاقی قدروں کو بلندتر کردیا ہو۔ جس طرح پیغمبراسلام [حضرت] محمدؐ نے کرکے دکھایا‘‘۔
عظیم روسی فلسفی ٹالسٹائی نے کہا: ’’محمدؐ تو ایک بانی اور رسول ہیں۔ آپؐ اُن عظیم ترین افراد میں سے ہیں جنھوں نے انسانی معاشرے کے لیے جلیل القدر خدمات انجام دیں۔ آپؐ کے فخر کے لیے یہی کافی ہے کہ آپؐ نے پوری انسانیت کی نورحق کی طرف رہنمائی کی، اسے سکون و سلامتی سے ہم کنار کردیا، اور اس کے لیے تہذیب و ترقی کی شاہراہ کھول دی‘‘۔
امریکی دانش ور مائیکل ہارٹ کہتا ہے: ’’محمدؐ تاریخ انسانی میں واحد انسان ہیں جنھوں نے دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں کامل کامیابی حاصل کی اور سیاسی و عسکری قائد قرار پائے‘‘۔
فرانسیسی فلسفی والٹر کہتا ہے: ’’محمدؐ جتنے طریقے بھی لائے وہ تمام نفس کو مطیع کرنے اور اُسے مہذب بنانے والے ہیں۔ آپؐ نے حیرت انگیز حدتک ان طریقوں کا حُسن و جمال دین اسلام میں پیدا کیا۔ اسی لیے تو دنیا کی متعدد قومیں اسلام لے آئیں، حتیٰ کہ وسط افریقہ کے زنگی اور جزائر بحرالکاہل کے باشندوں نے بھی اسلام کے سایے تلے سکون محسوس کیا‘‘۔
معروف انگریز مصنف برنارڈشا کہتا ہے: ’’آج دنیا کو محمدؐ جیسی شخصیت کی شدید ضرورت ہے تاکہ وہ دنیا کے پیچیدہ مسائل کو اتنی دیر میں حل کردے جتنی دیر چائے کی ایک پیالی پینے میں لگتی ہے‘‘۔ وہ کہتا ہے: ’’یورپ اب محمدؐ کی حکمت و دانائی کو محسوس کرنے اور اُن کے دین کی طرف کھنچنے لگا ہے۔ اسی طرح یورپ اسلامی عقیدے کو ان الزامات سے بھی جلد پاک کردے گا جو قرونِ وسطیٰ میں یورپ کے دروغ گو افراد نے لگائے۔ محمدؐ کا دین ہی وہ نظام ہوگا جس کے اُوپر امن و خوش حالی کے ستون استوار ہوسکیں گے۔ پیچیدہ مشکلات کے حل اور گنجلک اُمور کی عقدہ کشائی کے لیے فلسفۂ اسلام ہی کا سہارا لیا جائے گا‘‘ برنارڈشا نے تو خوش خبری میں یہاں تک مبالغے سے کام لیا ہے: ’’میرے ہم وطن اور دیگر یورپی کثیرتعداد میں اسلام کی تعلیمات کو مقدس جانیں گے۔ اسی لیے تو میرے لیے یہ ممکن ہوا ہے کہ میں یہ خوش خبری دوں کہ اسلامی عہد کی ابتدا قریب ہے‘‘۔
دنیا ے مغرب کو چاہیے کہ وہ اپنے دانش وروں کی آواز اور فلسفیوں کے اقرار و اعتراف کو سُنے اور رسولِ خداحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہنے کے بجاے علمی اور شائستہ انداز میں آپؐ کا تعارف حاصل کرے۔ تاکہ، اُسے معلوم ہوسکے کہ حضرت محمدؐ ہی کی رسالت واحد رسالت ہے، جو اُن کی مادی تہذیب کو روحانی ترقی اور اخلاقی بلندی سے ہم کنار کرسکتی ہے۔ یہی انھیں آخرت کی سعادت، دنیا کی فلاح اور قلب و ضمیر کا اطمینان و سکون فراہم کرسکتی ہے۔
ہر محب ِرسولؐ پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ حقیقتاً آپؐ کا پیغام بردار بنے اور پوری امانت داری کے ساتھ آپؐ کی دعوت کو حقیقت کے متلاشیوں تک پہنچائے اور دنیا میں پھیلا دے۔ دنیا آج ایک گائوں بن گئی ہے، جس میں انفرادی و اجتماعی ربط و تعلق کے ذرائع اپنے عروج کو پہنچ چکے ہیں۔ اس بناپر ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم رسولِؐ خدا کی ہدایت کو دنیا کے تمام گوشوں میں پھیلادیں تاکہ آپؐ کا یہ نور تمام دنیا میں پھیل جائے۔قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (یوسف ۱۲:۱۰۸)، ’’کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔‘‘
(ترجمہ: ارشاد الرحمٰن، بحوالہ ikhwanonline.net)