مکتبہ حیدری کے زیر اہتمام مذاکرہ اور مشاعرہ

185

مکتبہ حیدری کے زیر اہتمام کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کی صدارت میں مذاکرہ اور مشاعرے کا انعقاد ہوا جس میں ڈاکٹر معین احمد اور جلیس سلاسل مہمانان خصوصی تھے۔ مہمانان اعزازی میں اختر سعیدی‘ حکیم ناصف اور فیاض الحسن (حیدرآباد) شامل تھے۔ شاہدہ عروج نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ فائزہ احسان نے نعت رسولؐ پیش کی۔ خاور کمال صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تقریب کے پہلے دور میں پاکستانی بیانیے پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ جن قوموں کا بیانیہ نہیں ہوتا وہ قومیں ترقی نہیں کرسکتیں۔ انگریزوں نے ہندوستان پر طویل عرصے تک حکومت کی انہوں نے مسلمانوں کو مختلف انداز سے کمزور کیا انہوں نے انگریزی بیانیہ اپنایا اور ترقی کی ہم نے پاکستان میں کسی بھی طرح ایک ہونے کی کوشش نہیں کی آج ہم مختلف اکائیوں میں بٹ گئے ہیں۔ ڈاکٹر معین احمد قریشی نے کہا کہ عدالتی ریمارکس کے باوجود بھی اردو زبان حکومتی زبان نہیں بن پا رہی ہے اس کی راہ میں جو مشکلات حائل ہیں ہم سب کو مل کر کام کرنا ہے تاکہ ہم کسی ایک بیانیہ پر قائم ہو جائیں۔ جلیس سلاسل نے کہا کہ اردو زبان کا کسی بھی علاقائی زبان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے اردو قومی زبان ہے تمام علاقائی زبانوں کی ترقی میں اردو زبان کی ترقی مضمر ہے۔ فیاض الحسن نے کہا کہ دبستان کراچی میں بہت اچھی شاعری ہو رہی ہے آج بھی بہت اچھا کلام سامنے آیا ہے ہم شاعروں کے مسائل کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے نفاذ کا مسئلہ بھی اٹھاتے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے آگے ہم مجبور ہیں۔ لہٰذا ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا تب جا کر کام بنے گا۔ مشاعرے کی منتظم اعلیٰ صدف بنت اظہار نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ انہوں نے مکتبہ حیدری بھی اسی لیے قائم کی ہے کہ ادب کی ترویج اشاعت میں بھرپور حصہ لیں ہمارا قومی فریضہ ہے کہ ہم متحد ہو کر آگے بڑھیں اور اردو زبان کو قومی بیانیہ کے طور پر تسلیم کریں تاکہ ہمارا ملک ترقی کرے۔ مشاعرے میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ اختر سعیدی‘ حکیم ناصف‘ اختر شاہ ہاشمی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ سرتاج صدیقی‘ خالد مسعود‘ شاہین حبیب‘ ریحانہ احسان‘ آفتاب عالم قریشی‘ نظر فاطمی‘ حلیم انصاری‘ شاہدہ عروج‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ صدف بنت اظہار‘ عاصم اعظم اور خاور کمال صدیقی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ اس موقع پر کیک بھی کاٹا گیا اور مہمانوںکو گل دستے اور اجرکیں بھی پیش کی گئیں۔

حصہ