ہم کیوں مسلمان ہوئے

256

راج کماری جاوید بانو بیگم(ہندوستان)
کلکتہ کی مشہور نو مسلم خاتون محترمہ جاوید بانو بیگم بنگال کے ایک ہندو راجا کی صاحبزادی تھیں۔ اعلیٰ تعلیم کی یافتہ تھیں۔ انہوں نے کامل تحقیق کے بعد اسلام قبول کیا اور اس سلسلے میں بہت سی تکلیفیں برداشت کیں۔ ذیل کی تقریر انہوں نے قبولِ اسلام مکے بعد کلکتہ کے ایک جلسے میں کی:
’’برادرانِ اسلام و خواہرانِ دین! میں ایک نو مسلمہ ہوں اور ایک سچے اور عالمگیر مذہب اسلام کو پا کر بہت ہی خوش ہوئی ہوں۔ میرا دل حقیقی خوشی سے لبریز ہے اور میری دلی آرزو ہے کہ میں ہر انسان سے جس تک میری رسائی ہو‘ اپنے آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق اور تعلیمات کا ذکر کروں۔
شاید آپ میرے تجربات کا مختصر خلاصہ جو مجھے تحقیق مذاہب کے سلسلے میں پیش آئے سن کر مسرور ہوں گے۔ میں ہندو والدین کے گھر پیدا ہوئی‘ مگر ہماری پرورش عیسائی اثر کے تحت ہوئی۔ ہندو مذہب کی مطلقاً کوئی واقفیت نہ تھی۔
میں نے 1924ء میں مذہب اور فلسفہ کا وسیع طور پر مطالعہ شروع کیا۔ میں ان کا مطالعہ عالم فاضل بننے کے لیے نہ کرتی تھی بلکہ تحقیق ِ حق میرا منشا تھا۔ میرے دل میں خدا تعالیٰ کے ایک مخلص اور صادق بندے کی طرح عبادت کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی تھی۔ میں نے بدھ مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کا سامنا ہوا۔ عیسائیت کی طرف جو سمجھنے میں نہایت سیدھی سادی معلوم ہوئی‘ رجوع کیا۔ اس سلسلے میں‘ میں نے عیسائی پادریوں سے رابطہ قائم کیا‘ تاہم مجھے کوئی ایسا راستہ نہ ملا جس سے میں دورِ حاضر میں عیسائیت کی ایک مخلص اور صادق مبتع بن سکوں۔ گو بڑے بڑے دلائل و براہین پیش کیے جاتے تھے لیکن میں عیسائی گرجوں کی لاتعداد فرقہ بندیوں میں ذاتی اغراض اور شخصی مطلب کے سوا اور کچھ نہ دیکھ سکی اور بالکل نا امید ہو کر دوبارہ ہندو مذہب اختیار کر لیا کیوں کہ ویدوں کا فلسفہ ایک ایسے دماغ کے لیے جو مذہب کی کمزوریوں سے مضطرب اور متنفر ہو چکا ہو‘ ایک کافی و شافی سہارا تھا۔ لیکن ویدوں کی فلاسفی بھلا کسی کے لیے بھی کیسے مفید ہو سکتی ہے کیوں کہ جہاں تک عملی زندگی اور حقائق کا تعلق ہے‘ ہندو منوجی مہاراج کے زمانے سے لے کر آج تک ویدانت سے اتنے ہی دور ہیں جتنا کہ اس فرضی مخلوق سے جس کا چاند میں ہونا عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ ویدوںکے پیروی کے لیے ایک ہندو پر لازم ہے کہ یا تو وہ موجودہ ہندو مذہب سے کنارہ کش ہو جائے یا تمدنی مصلح بنکر ان بے شمار فرقوں میں ایک اور فرقے کا اضافہ کر لے جس کے اندر زمانۂ حال میں ہندوستان ڈوبا جا رہا ہے۔ ہندوئوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ بڑی خامیاں اور نقائص روز افزوں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ان پر دوسرے مذاہب کے پیرو کار ہی تنقید نہیں کرتے بلکہ ہندو خود ان کو آشکارا کرتے رہتے ہیں۔ گاندھی مہاراج ہریجنوں کے لیے اپنی زندگی کو مہلک خطروں میں کیوں ڈالتے ہیں؟ مجلسِ قانون کے ذریعے بیوگان کی شادی کو جائز کیوں قرار دیا گیا ہے؟ سلطنتِ برطانیہ کے ایک قانون کے تحت رسمِ ستی کو کیوں روکا گیا؟ تمام تمدنی اصلاحات کو مجالسِ قوانین ساز کے ذریعے کیوں دائرۂ عمل میں لایا جاتا ہے؟ اس مذہب کا فائدہ ہی کیا جو دماغی نشوونما اور تمدنی اصلاحات کے بغیر اپنے پیروکاروں کو عام برائیوں سے محفوظ رکھنے سے عاجز ہے۔
مندرجہ بالا حقائق سے آپ بہ خوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ مجھے سچے مذہب اسلام کو قبول کرنے میں کتنی خوشی ہوئی ہوگی۔ اسلام کے علاوہ اور کوئی مذہب دنیا میں ایسا نہیں جس کے عقائد کو اس کے پیرو کار ایماندار اور دیانت داری کے ساتھ صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ آخر کار میں نے صداقت کو پالیا۔ میں بہت ہی خوش ہوں اور میری روح مطمئن ہے۔ کیا ہم آج کسی ایسی مذہبی یا تمدنی اصلاح کے درپے ہیں جس کی تائید قرآن پاک سے نہیں ہوسکتی؟ کیا ہمارے آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تمام روحانی رہنمائوں میں ایک ایسی شخصیت نہیں جنہوں نے آزادی‘ اخوت و مساوات ایسے زریں اعمال بتائے ہیں جن کے ذریعے ہم صراطِ مستقیم پر چل کر نجات حاصل کرسکتے ہیں؟ صرف اسلام ہی دنیا میں ایک ایسا مذہب ہے جو روز مرہ کی زندگی میں ہمارا سچا رہنما ہوسکتا ہے۔ کیا دنیا میں سوائے اسلام کے ایسا کوئی مذہب ہے جس میں خدا کا نام عالمی زبان میں ہو؟ اللہ کا لفظ تمام مسلمانوں کے لیے خواہ وہ چینی ہوں یا ہندی یکساں ہے۔ السلام علیکم تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی کا سبق دیتا ہے خواہ کسی قومیت اور کسی ملک کے ہوں اور ان کی کوئی زبان ہو۔
کیا دنیا میں کسی مذہب کی الہامی کتاب اپنی فراخ دلی اور فیاضی پر ناز کر سکتی ہے سوائے ہمارے قرآن کریم کے جس میں ہر ایک مسلمان کو کہا گیا ہے کہ ان کے لیے تمام پیغمبروں پر ایمان لانا ضروری ہے؟
صرف اسلام ہی انصاف و انسانیت اور آزادی کا مذہب ہے جس کی مثال اور کوئی مذہب پیش نہیں کرسکتا۔ ہمیں اسلامی اصولوں کے تحت جائیداد پر قابض ہونے کے لیے سب کونسل و قانون کے دروازے کھٹکھٹانے کی چنداں ضرورت نہیں‘ وہ تمام قوانین اب سے 13 سو سال قبل ہم مسلمانوں کے لیے اتارے گئے تھے۔ آج کل مذاہب عالم جس مقصد کو اپنا نصب العین بنا کر اخلاقی‘ تمدنی‘ معاشرتی فوائد کے لیے سرگرداں ہیں وہ تمام فوائد مسلمانوں کے لیے جس دن سے قرآن مجید نازل ہوا‘ موجود ہیں۔
میرے لیے یہ بالکل ناممکن تھا کہ میں ایسے مذہب میں رہتی جو ہماری موجودہ اور روز مرہ کی زندگی سے کوسوں دور ہے۔ میں کس طرح ایک مخلص ہندو یا عیسائی ہو سکتی تھی جب کہ انسانی اصول اور تہذیب مجھے ان مذاہب کی تعلیمات کے بالکل مخالف کھڑا کرتے ہیں۔ اگر کوئی مذہب ہمیں روز مرہ کی زندگی میں تسکین نہیں دے سکتا تو کیوں اسے مذہب کے نام سے موسوم کیا جائے؟ یقینا ایسے تمام مذاہب نامکمل ہیں۔ اگر ان میں ذرہ بھر بھی صداقت موجود تھی تو وہ بھی اب زمانے سے مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ میں نے اس صورتِ حال کو محسوس کیا اور اس پر غور کیا تو میرے لیے اسلام قبول کرنا ضروری ہوگیا کیوں کہ میں نے اس میں تمام صداقتیں دیکھ لی تھیں۔
اسلام میں ہر وہ بات پائی جاتی ہے جس کے دوسرے مذاہب کے پیروکار متلاشی ہیں۔ اسلام میں وہ سب کچھ موجود ہے جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں یقین واثق سے کہتی ہوں کہ کوئی دوسرا مذہب اصلاح اور خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا‘ سوائے اسلام کے جو خدا کی سچی محبت‘ انسانیت کی سچی الفت اور حقانیت پر مبنی ہے۔ اسلام کو کسی قسم کی ترمیم کی ضرورت نہیں۔ اسلام کے بنیادی اصول وحدانیت‘ حقانیت اور اخوت و مساوات بے حد معقول‘ مؤثر‘ مفید اور فطری ہیں۔

حصہ