’’آپ نے شائستہ کا لباس دیکھا، کتنا شاندار اور قیمتی لگ رہا تھا۔ سب کو بار بار بتارہی تھی کہ بوتیک سے خریدا ہے اسپشل اس تقریب کے لیے۔ ایک آپ ہیں جو سال میں ایک دو بار جوڑا دلواتے ہیں وہ بھی بجٹ کے اندر رہتے ہوئے۔‘‘ شائستہ شادی کی تقریب سے آتے ہی اپنے شوہر سے شکوہ کر ہی تھی۔
’’ابھی چھ ماہ پہلے کزن کی شادی میں جوڑا دلایا تھا۔‘‘ حماد نے جواب دیا۔
’’ارے وہ تواتنی دفعہ پہن چکی ہوں۔‘‘
’’شائستہ! تقاریب تو آتی رہتی ہیں، اب ہر تقریب کے لیے الگ جوڑا تو نہیں دلواؤں گا، تم جانتی تو ہو اتنی محدود آمدنی میں گھر اور بچوں کی فیسیں بشمکل پوری ہوتی ہے، اوپر سے آئے روز مہنگائی۔‘‘حماد نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’مجھے پتا تھا آپ اپنی ذمے داریاں گنوانے بیٹھ جائیں گے۔‘‘
شائستہ جب بھی اپنی کسی دوست کو اچھے لباس میں دیکھتی اُسے اپنا آپ بہت حقیر محسوس ہوتا اور وہ حماد سے شکوے شکایت شروع کردیتی۔ حماد نے ہر بار شائستہ کی جائز خواہشات پوری کیں لیکن ہر فرمائش پوری کرنا اس کے اختیار میں نہیں تھا۔ ایک دفعہ شائستہ حسبِ معمول بازار ضرورت کی اشیا لینے جارہی تھی کہ راستے میں اُسے گلی کے نکڑ پر ایک بزرگ خاتون نظر آئیں جو زمین پر چادر بچھائے اپنی کھلونوں کی چھوٹی سی دکان سجائے بیٹھی تھیں۔ شائستہ کو تجسس ہوا کہ دیکھوں کیا بیچ رہی ہے۔
’’بیٹی! دیکھ لو اپنے بچوں کے لیے کھلونے۔‘‘ اس خاتون نے شائستہ کو رکتے دیکھ کر آواز لگائی۔
’’جی اماں! کتنے کے دے رہی ہیں؟‘‘
’’50 روپے کا ایک کھلونا۔‘‘
’’اچھا اماں یہ دو دے دو۔‘‘ شائستہ نے دو کھلونے اٹھائے اور پیسے ان کی طرف بڑھائے۔
اماں کی آنکھوں میں چمک آگئی جس کو شائستہ نے محسوس کرلیا۔
’’شکر الحمدللہ…‘‘ یہ الفاظ اماں کے منہ سے نکلے۔ شائستہ کو یہ سن کر حیرت ہوئی کہ وہ اتنی سی آمدنی پر بھی شکر ادا کررہی ہیں!
’’اماں! ایک بات پوچھوں، آپ اس عمر میں بجائے آرام کرنے کے دکان داری کررہی ہیں؟ آپ تھکتی نہیں؟‘‘
’’بیٹی! میرے بیٹے کا انتقال ہوگیا، اُس کے دو بچے اور بیوہ اب میری ذمے داری ہیں، اسی دکان سے دال روٹی چل جاتی ہے۔ میری بہو بھی گھروں میں کام کرتی ہے، اللہ کا شکر ہے اچھا گزارہ ہوجاتا ہے۔‘‘
اماں اس حالت پر بھی باربار شکر کررہی تھیں۔ شائستہ کو رہ رہ کر اپنی ناشکری یاد آرہی تھی۔
’’جہاں تک آرام کی بات ہے تو اللہ کا شکر ہے، اللہ نے اس عمر میں بھی کسی کا محتاج نہیں کیا اور اِن شاء اللہ آئندہ بھی نہیں کرے گا۔ اللہ نے مجھے اپنے پوتے پوتی کا سہارا بنایا، مجھے ہمت، حوصلہ، طاقت دی، میرے مولا کا کرم ہے۔‘‘ وہ شکر کرتی جارہی تھیں ایک ایک بات کا۔
شائستہ شرمندہ ہوتی جارہی تھی، اسے اِس اعلیٰ ظرف خاتون کے آگے اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہورہا تھا۔