’’بائیک کو بھی ابھی خراب ہونا تھا، یااللہ! میری مدد فرما۔‘‘عادل نے دل ہی دل میں دعا کی۔ آج اس کا جاب کے لیے انٹرویو تھا، ابھی آدھا راستہ ہی طے ہوا تھا کہ بائیک ایک جھٹکے سے رک گئی اور ہزار کوششوں کے باوجود دوبارہ اسٹارٹ نہیں ہوئی۔ ہوتی بھی کیسے! پیٹرول جو ختم ہوگیا تھا، اور عادل صاحب صدا کے لاپروا، کہ پیٹرول ڈلوانا ہی بھول گئے اور اب نتیجہ بھگت رہے تھے۔ ابا نے لاکھ سمجھایا کہ گھر سے نکلتے وقت ہر چیز اچھی طرح چیک کیا کرو۔
گرمی سے برا حال تھا، چند منٹ میں ہی سارے کپڑے پسینے سے بھیگ چکے تھے۔ اچانک ایک موٹر سائیکل آکر رکی، عادل کا تو جیسے خون ہی خشک ہوگیا، اسے لگا کوئی ڈکیت ہے۔ موٹر سائیکل سوار نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔
’’دوست کیا کوئی مسئلہ ہے؟‘‘ اجنبی کی آواز آئی۔
’’ہاں بھائی! پیٹرول ختم ہوگیا ہے۔‘‘ عادل کو حوصلہ ہوا کہ چلو کوئی ہمدرد ہے۔
اجنبی یہ سنتے ہی بائیک سے اترا اور بائیک پر چڑھے ہوئے کپڑے کی جیب سے پیٹرول سے بھری ہوئی ایک بوتل نکال کر عادل کو تھمائی اور خود تیزی سے بائیک اسٹارٹ کرکے چلا گیا۔
عادل اپنے محسن کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکا۔ وہ خاصی دور جاچکا تھا۔ عادل کے دل سے اُس کے لیے دعا نکلی۔ اس نے جلدی سے پیٹرول ٹنکی میں ڈالا اور انٹرویو کے لیے روانہ ہوگیا۔
انٹرویو سے واپسی پر سب سے پہلے پیٹرول بھروایا اور ایک بوتل میں الگ بھروایا اور اسے بائیک کے کپڑے کی جیب میں رکھ لیا۔ عادل کے چہرے پر اپنے آپ مسکراہٹ آگئی، اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس نیکی کا قرض ضرور اتارے گا۔
دو تین دفعہ تو ایسا ہوا کہ کسی نے اس کی بائیک سے پیٹرول کی بوتل نکال لی، مگر اللہ کا کرم تھا عادل نے جو نیت کی تھی وہ اس پر قائم تھا، دوبارہ بوتل میں پیٹرول بھرواکر بائیک میں رکھ لی۔ بہت دن گزر گئے، وہ تقریباً بھول ہی چکا تھا۔
ایک دن کام سے واپسی پر عادل نے دیکھا ایک مرد اور اس کے ساتھ برقعے میں ایک عورت جس کی گود میں بچہ بھی تھا، بائیک سے اتر کر پیدل چل رہے ہیں۔ گرمی سے برا حال تھا۔
عادل نے بائیک ان کے قریب جاکر روکی اور پوچھا ’’بھائی کیا پیٹرول ختم ہوگیا ہے؟‘‘
مرد نے اثبات میں سر ہلانے کے ساتھ بتایا کہ بہت دور سے پیدل آرہے ہیں۔
عادل نے اپنی بائیک سے پیٹرول کی بوتل نکال کر اس کی طرف بڑھا دی اور خود آگے بڑھ گیا۔ اس نے بائیک کے شیشے میں اس کے چہرے کی خوشی دیکھی۔ اس سے کہیں زیادہ اطمینان اور خوشی عادل کو تھی، اس نے نیکی کا قرض اتار دیا تھا اور مصمم ارادہ کیا کہ نیکی کے اس عمل کو ہمیشہ جاری رکھے گا۔ جس طرح عادل نے کسی کے اچھے عمل کو اپنایا تھا، ہوسکتا ہے کوئی اسے دیکھ کر یہ نیک عمل اپنا لے، اور اسی طرح لوگ ایک دوسرے کی پریشانی میں کام آتے رہیں۔