گمان

393

شانزے کی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ کتنے ہی گھرانے اس کے طلب گار تھے۔ پڑھی لکھی، سمجھ دار۔ اور پھر اس کی امی نے اسے کبھی چین سے بیٹھنے ہی نہ دیا، کبھی بیکنگ سکھا رہی تھیں تو کبھی کوکنگ، کبھی چائنیز تو کبھی دیسی۔ غرض اکلوتی ہونے کے باوجود ہر فن مولا تھی۔
شانزے کی امی کا کہنا تھا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ اکلوتی ہے تو کچھ نہیں سکھایا، یا لاڈ پیار میں بگاڑ دیا اور اب بہت دیکھ بھال کر بہت دھوم دھام سے اس کی شادی کردی۔
مگر افسوس کہ یہ شادی کچھ ہی مہینے چل سکی۔ اس میں شانزے کا کوئی قصور نہیں تھا، لڑکا کسی اور سے محبت کرتا تھا اور ماں باپ کی زبردستی سے شادی کرلی تھی، اور اب نتیجے میں شانزے کی زندگی خراب ہوگئی، اس نے دوبارہ شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور کہا:
’’مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے، جب میں نے اتنی تعلیم حاصل کی ہے اور اتنے ہنر ہیں میرے ہاتھ میں، تو میں تنہا ہی زندگی گزار لوں گی۔‘‘
زندگی میں بہت سے جملے ہم بغیر سوچے سمجھے بول دیتے ہیں، اور جب وہ باتیں جو ہم نے ایسے ہی کہہ دی ہوتی ہیں، ہمارے سامنے آجاتی ہیں تو ہم سر پکڑ کر رہ جاتے ہیں۔ یوں ہی تو نہیں کہا جاتا کہ جو بولنے سے پہلے سوچتا ہے وہ عقل مند ہوتا ہے۔ سوچ سمجھ کر ہی بولنا چاہیے۔ ہمارے اپنے کچھ جملے جو کہ اکثر ہم بے دھیانی میں بول جاتے ہیں ان کا اکثر نتیجہ ایسا نکلتا ہے کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
’’میں بیٹی کو سب کچھ سکھا دینا چاہتی ہوں تاکہ آئندہ زندگی میں مشکل پڑے تو کام آئے، یا پریشانی نہ ہو۔’’
شانزے کی امی کے کانوں میں اپنے ہی کہے ہوئے الفاظ گونج رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھیں کہ ’’کاش میں نے ایسا نہ کہا ہوتا۔‘‘
مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
اسی طرح اکثر ایسے جملے بھی بول دیے جاتے ہیں کہ ’’میں نے تو اتنا سونا اسی لیے دیا ہے تاکہ آڑے وقت میں کام آئے۔‘‘
’’میں نے بیٹی کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ پیسے جمع کرکے رکھا کرو تاکہ کبھی پریشان ہو تو جمع پونجی نکل آئے۔‘‘
’’کیا آپ بھی ایسا ہی کرتی ہیں؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیا آپ کو اللہ تعالیٰ پر یقین اور بھروسا نہیں ہے کہ آپ نے اپنی بیٹی کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر کسی کے عقد میں دیا ہے تو وہ اِن شاء اللہ خوش وخرم رہے گی؟‘‘
’’آپ یہ دُعا کیوں نہیں دیتیں کہ ہمیشہ خوش اور آباد رہو۔‘‘
’’یہ سوچ کر کیوں نہیں سب کچھ سکھایا کہ آنے والی نسلوں کی بہترین تربیت کرسکے؟‘‘
’’سونا اس لیے کیوں نہیں دیا کہ خوشیوں کے ساتھ پہننا نصیب ہو؟‘‘
کہتے ہیں جیسا گمان رکھو گے ویسا ہی ہوگا۔ اگر اچھے کی امید رکھو تواچھا ہی ہوگا، اگر برے کی امید رکھو گی تو برا ہی ہوگا۔
زندگی کے ہر معاملے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے، بلکہ یقین رکھنا چاہیے۔
’’میں مکان بنانا شروع کررہا ہوں، معلوم نہیں مکمل ہو بھی سکے گا یا نہیں؟‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے اتنی توفیق دے دی کہ بنانا شروع کردیا تو مکمل بھی وہی کرائے گا۔
’’سوچ تو رہے ہیں کہ حج پرچلے جائیں مگر معلوم نہیں کرسکیں گے یا نہیں؟‘‘ جب اللہ پاک نے دل میں ڈال دی ہے تو اسباب بھی وہی پیدا کرے گا، آپ پورے یقین اور دل جمعی سے لو لگائیں، اگر اللہ تعالیٰ کو اپنے در پر حاضری کے لیے بلانا ہے تو ضرور بلائیں گے۔
’’شادی کی تاریخ دے تو دی ہے مگر سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیسے انتظام ہوگا؟‘‘ آپ ایک جائز اور حلال کام کرنے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کیوں نہیں کریں گے؟
بس یقین اور اچھا گمان رکھیں، اور صرف بیٹیوں کو ہی نہیں بلکہ بیٹوں کو بھی بے شک سب کچھ سکھائیں، پڑھائیں اور ان کو ہر ممکن سہولیات فراہم کریں، ان کے بہترین نصیب کے لیے دعا کریں۔ مگر یہ سوچ کر کہ وہ آئندہ نسلوں کی بہترین تربیت کریں گے، کیوں کہ بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے، صرف ماں اکیلے کچھ نہیں کرسکتی اور نہ ہی آج کے دور میں ہم صرف ماں پر مکمل ذمے داری ڈال سکتے ہیں۔

حصہ