محبوب سجانی:سیدنا ابو محمد محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ

910

سیّدنا شیخ ابومحمد محی الدین عبدالقادر کے والد بزرگوار حضرت ابوصالح جنگی دوست تھے۔ ان کا نسب نامہ پانچ واسطوں سے حضرت عبداللہ المحض تک پہنچتا ہے جو حضرت حسن بن حسن بن علیؓ بن ابی طالب اور فاطمہ بنتِ حسین بن علیؓ بن ابی طالب کے فرزند تھے۔ والدہ مکرمہ کا نام تھا اُم الخیر امۃ الجبار فاطمہ بنت عبداللہ الصومعی۔ ان کا نسب بھی حضرت امام حسینؑ تک پہنچتا ہے والدین اپنے عہد کے مشہور صالحین امت میں سے تھے۔ آپ کے نانا عبداللہ الصومعی بڑے صاحبِ ارشاد تھے۔ یہ گھرانا اپنے وقت کا واقعی ایک سراج منیر تھا۔ والد بزرگ کا نام جنگی دوست دراصل ترجمہ ہے محب الجہاد کا۔ آپ نا صرف ایک مومن پاکباز اور مرشدِ حق نواز تھے بلکہ جنگی دوست تھے۔ غازیوں اور مجاہدین سے محبت رکھنے والے انصار میں سے ایک تھے۔
سیّدنا شیخ عبدالقادر ۴۷۰ھ یا ۴۷۱ھ میں طبرستان کے دیار جیلان کی ایک بستی میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے والدین نے کی۔ ۴۸۱ھ میں والد بزرگوار نے وفات پائی۔ والد کی وفات کے بعد چھ برسوں تک خود اپنے وطن کے اساتذہ سے صرف و نحو، قرآن مجید اور عربی زبان حاصل کی، ۴۸۸ھ میں جب آپ کی عمر شریف ۱۸ برس ہوئی تو باغرض تحصیلِ علم جیلان سے روانہ ہوئے اور بغداد شریف میں آکر مقیم ہوگئے۔ ۲۲برسوں تک یہاں کے علما، فقہا، محدثین اور عباد و زہاد سے علوم دین اور باطنی کمالات حاصل کیے۔آپ کی عمر شریف ۹۰ برس، ۷ ماہ اور ۹ یوم بتائی گئی ہے یکم رمضان ۴۷۰ھ یا ۴۷۱ھ کو پیدا ہوئے ۹ربیع الآخر ۵۶۱ھ یا ۵۶۲ھ کو وفات پائی۔ برصغیر ہندو پاک میں گیارہویں شریف منائی جاتی ہے اور تاریخ وفات گیارہویں باور کی جاتی ہے۔ ۳۲ برس آپ نے اصفیاوا تقیا کی صحبت اور اپنی سیرت کو سنوارنے میں صرف کیے۔ ۴۰ برس آپ نے دینِ مبین کی خدمت اور اصلاح خلق میں صرف کیے۔
احوال زمانہ
حضرت شیخ عبدالقادر کا دائرہ اصلاح و ہدایت پورے عالمِ اسلام کو گھیرے تھا۔ اگرچہ آپ نے بغداد ہی میں قیام رکھا لیکن آپ یہیں سے سارے عالمِ اسلام کی ہدایت فرماتے تھے۔ آپ کے حالاتِ زندگی پیش کرنے سے پہلے تمام عالمِ اسلام کی صورت حال کو پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
اُندلس
عالمِ اسلام ان دنوں تین خلافتوں میں منقسم تھا (۱) اُموی (۲) فاطمی (۳) اور عباسی ۳۹اھ میں عبدالرحمن الداخل نے اسپین کو فتح کیا اور یہاں اُموی خلافت برقرار رکھی جو ۵۲۸ء تک قائم رہی آخری فرماں روا ہشام بن حکم تھا۔ حکم کی وفات کے وقت یہ کم سن تھا۔ حکم نے مرتے وقت اس کو خلیفہ بنا کر اپنے حاجب مثانی کو اور اپنے وزیر محمد بن ابی عامر کو اس کا مربی مقرر کیا۔ چند ہی دن گزرے تھے کہ محمد بن العامر نے حاجب کو برطرف کردیا، بہت سے والیوں اور امیروں کو قتل کردیا، اور خود صاحب المسفور بن گیا۔ خلیفہ کو محل میں نظر بند کر دیا، خطبہ میں خلیفہ کے ساتھ اپنے نام کا اضافہ کرلیا فوج کو عرب عنصر سے بالکل پاک کردیا، اس کے زمانہ میں بارہا بغاوتیں ہوئیں مگر ہر بار مظفر و منصور رہا۔ اُس نے نہ صرف عربوں کو اپنا دشمن بنالیا بلکہ عیسائیوں پر بھی انتہائی سختیاں کیں جس کا نتیجہ بالآخر اسپین سے اسلام کی بے دخلی کی صورت میں نکلا ۳۸۸ھ میں اُس نے وفات پائی اس کے بعد اس کا بیٹا عبدالملک اس کی جگہ قائم مقام ہوگیا جس نے اپنا لقب المظفر تجویز کیا۔ بہر حال یہ زمانہ محض فتنہ و فساد کا تھا۔ عیسائیوں کا ۵۲۸ھ سے زور بڑھنے لگا۔ ۵۳۲ھ تک یوسف بن تاشفین اور اس کے جانشینوں نے اُندلس کو عیسائیوں سے بچانے کی کوشش کی یہ لوگ المربطین کہلاتے تھے، عین اس زمانہ میں جب کہ اُندلس میں اسلامی حکومت آخری سانس لے رہی تھی۔ محمد بن تومرت نے مراکو میں الموحدین کہلانے والی ایک جماعت مرتب کی محمد بن تومرت کو مہدی موعود ہونے کا دعوی تھا ۵۱۴ھ سے جب یہ تحریک زور پکڑنے لگی تو اس وقت شیخ عبدالقادر کی عمر شریف ۴۴ برس کی تھی۔ عین اس زمانہ میں جب کہ مرابطین اسپین میں عیسائیوں سے برسرِ پیکار تھے، اور نصرانیت مسلمانوں کو اسپین سے بے دخل کر رہی تھی موحدین نے مرابطین کے خلاف جنگ چھیڑ دی مسلمانوں کی اس جنگ باہم کا جو انجام ہوا اس کے ذکر کی ضرورت نہیں حضرت شیخ عبدالقادر کے کارناموں کا زمانہ یہی ہے۔
مصر
امام جعفر صادق کے بعد شیعوں کا گروہ دو حصوں میں بٹ گیا بڑی جماعت نے امام موسیٰ الکاظم کو امام مانا ایک مختصر جماعت نے حضرت اسماعیل بن محمد کو امام مانا جن کو الامام المکتوم (چھپایا ہوا امام) کہتے ہیں حالانکہ ان کو دراصل قتل کرکے مگر اس قتل کو عام لوگوں سے مخفی رکھ کر اس جماعت نے پورے عالمِ اسلام میں سازشوں کا جال بچھا دیا، یہ فرقہ دراصل قدیم ایرانی فرقہ تھا جو کہ مانی کو مانتا تھا۔ اُس نے اپنے آپ کو شیعوں اور صوفیوں کے گروہ میں روپوش رکھ کر خفیہ طور پر اپنے باطل عقائد کی تبلیغ اور فاطمی خلافت قائم کرنے کی کوشش کی اور ۲۹۶ھ مصر کے اندر فاطمی خلافت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جو کہ ۵۰۵ھ تک قائم رہی اس فرقہ کو قرامطہ اور باطنیہ بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر کے زمانہ میں مصر کا فاطمی خلیفہ المستنصر تھا خلفائے بغداد القائم بامراللہ اور المقتدی بامراللہ کا معاصر تھا۔ ۴۴۶ھ میں ایک ترک سردار نے جس کا نام ارسلان تھا القائم بامراللہ کے امیر الامرا ملک رحیم بن بویہ کو برطرف کریا۔ اور خود امیر الامرا بن کر اس نے قائم بامراللہ کو معزول کیا اور المستنصر باللہ کے نام کا خطبہ تمام مساجدِ عراق میں پڑھوایا۔ لیکن الپ ارسلان نے خلیفہ بغداد کی امداد کی اور ارسلان کو شکست دے کر خلیفہ قاسم کو پھر سے تخت نشین کردیا۔ ادھر ۴۸۷ میں مستنصر اور اس کی جگہ المستعلی باللہ ۴۸۸ھ میں مصر میں خلیفہ ہوا۔
بغداد
اس زمانہ کے خلفائے بغداد صرف تختِ خلافت کی زینت تھے، ان کی عزت کی جاتی تھی۔ لیکن سارے اختیارات عملاً متغلب سلاطین کے ہاتھوں میں تھے، حضرت شیخ عبدالقادر کے ہم زمانہ خلفائے بغداد کے احوال حسبِ ذیل قابل ذکر ہیں۔
شعبان ۴۶۷ھ میں قائم بامراللہ نے وفات پائی اس زمانہ کا سلطان ملک شاہ سلجوقی تھا جس کا وزیر خواجہ حسن نظام الملک طوسی تھا، عمر خیام اسی زمانہ کا آدمی تھا، علمی حیثیت سے یہ زمانہ مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ لیکن دین داری مغلوب اور بے دینی غالب تھی۔ اسی ۴۶۷ھ میں قائم بامراللہ خلیفہ ہوا۔
رمضان ۴۷۰ یا ۴۷۱ھ میں شیخ عبدالقادر جیلانی پیدا ہوئے ۴۷۷ھ میں رسالہ قشیریہ کے مؤلف کےشاگرد شیخ الصوفیہ ابوعلی الفارمدینے وفات پائی اس سال ایک عجیب واقعہ یہ ہوا کہ ایک کوکب جو کہ دیکھنے میں چاند کے برابر تھا۔ اور چاند ہی کی طرح روشن تھا مشرق سے ٹوٹ کر مغرب کی طرف بھاگا، ایک گھنٹہ کے بعد مغرب میں غائب ہوگیا۔ ان ہی ایام میں حسن بن صباح نے قاتلوں کی ایک جماعت منظم کی ۔یہ جماعت، داعیوں، مریدوں اور فدائیوں پر مشتمل تھی حسن بن صباح فاطمی خلیفہ المستنصرباللہ کے فرزند نزار کا داعی تھا۔ مقصد اس کا عباسی حکومت اور سنّیوں کو فنا کرنا تھا اس کے فدائی شیعوں اور صوفیوں کے بھیس میں پورے عالمِ اسلام پر پھیلے ہوئے تھے، فدائیوں کو اس نے اس طرح مسحور کرلیا تھا کہ اس کے حکم پر وہ جان پر کھیل جاتے تھے۔ اور امرا، سلاطین، وزرا، علما، فقہا، واعظین کو ان کے ذریعہ قتل کرادیا کرتا تھا۔ ۴۸۳ھ میں اس نے قلعہ الموت پر قبضہ کرلیا۔ ۴۸۴ھ میں اس کے ایک فدائی نے نظام الملک کو شہید کردیا۔
اس زمانہ میں بغداد کا ہر شخص اپنی جان کے لیے لرزاں رہا کرتا تھا، فدائی ہرجگہ موجود تھے، ایک امام مسجد نے ایک روز وعظ کیا جس میںباطنیہ کے عقائد کی تردید کی دوسرے دن وعظ کیا اور اُن کے عقائد کو سراہتے ہوئے ایک تیغ بکف انسان کی طرف اشارہ کیا اور کہا ’’برہانے دارند قاطع‘‘ برہان سے مراد اس شخص کی تلوار تھی۔ اس زمانہ میں کسی عالم کا حق گو ہونا موت کو دعوت دینا تھا، ۴۸۷ھ میں المستنصر باللہ خلیفہ ہوا، اس زمانہ کا سلطان سنجر بن ملک شاہ تھا۔ ۴۸۸ھ میں امام غزالی نے درس و تدریس چھوڑ کر تصوّف اختیار کرلیا، اور ملک شام کی طرف چلے گئے، ان کے سفر کی علت جو بھی ہو، لیکن ممکن ہے کہ یہ حسن بن صباح کی برہان قاطع کا بھی اثر ہو، یہی وہ سال ہے جب شیخ عبدالقادر جیلانی نے جیلان سے بغداد کا سفر کیا، آپ کے اس سفر کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے اکابر قرامطہ کی ’’برہان قاطع‘‘ کے ڈر سے بغداد چھوڑ رہے ہیں اور ۱۸برس کا ایک نوجوان دودمانِ رسالت کا ایک جوہرِ تاباں ایک دوسری برہانِ قاطع لے کر بغداد کا سفر کر رہا ہے۔
شیخ عبدالقادر کے القاب میں سے ایک ’’محی الدین‘‘ ہے، یہ لقب ان کا ان کے والدین نے تجویز نہیں کیا تھا، اور نہ خود آپ نے اپنا یہ لقب رکھا تھا بلکہ کسی خاص واقعہ کی وجہ سے اس زمانہ کے اصحابِ اصلاح انسان کو یہ لقب دیا گیا تھا۔ روایت یہ ہے کہ آپ نے عالمِ رویا میں ایک نحیف و ضعیف بیمار کو دیکھا کہ اٹھنے سے معذور ہے، آپ نے اسے سہارا دے کر اُٹھایا تو وہ تندرست ہوگیا، اس تنومند ہوجانے والے نحیف سے اس کا نام پوچھا تو اس نے کہا میں تمھارے دادا کا دین ’’اسلام‘‘ ہوں، دوسری صبح سے لوگ آپ کو محی الدین کہنے لگے۔
یہ واقعہ ہے کہ آپ نے یہ خواب دیکھا تھا اور یہ بھی واقعہ ہے کہ آپ کو محی الدین کہا جانے لگا، لیکن راویوں نے اعجوبگی پیدا کرنے کے لیے بیچ کے واقعات حذف کردیے ہیں۔ یہ رویا ایک اشارہ ربانی تھا، عالم رؤیا میں شفقت ایزدی نے آپ کے سپرد احیائے دین کا فریضہ کیا تھا، غالباً یہ رؤیا بھی سفر بغداد کی محرک ہوئی۔
اس سفر میں آپ سے ایک زبردست کرامت کا ظہور ہوا آپ کی ماں نے آپ کی عبائے دلق میں چالیس اشرفیاں سی دی تھیں اور رخصت ہوتے وقت وصیت فرمائی تھی کہ ’’ہمیشہ سچ بولنا اور ہر معاملہ کی بنیاد راست بازی پر رکھنا‘‘ آپ کا قافلہ، ہمدان، تک تو خیریت سے پہنچ گیا، لیکن جب یہ قافلہ ہمدان سے آگے ترتنک کے سنسان کوہستانی علاقہ میں پہنچا تو قزاقوں کے ایک جتھے نے اس قافلہ پر حملہ کردیا۔ قافلہ کے لوگوں میں ان خونخوار قزاقوں کے مقابلہ کی سکت نہیں تھی، قزاقوں نے خوب لوٹ مار کی، اس ہنگامہ میں شیخ عبدالقادر اطمینان سے ایک جانب کھڑے رہے۔ لڑکا سمجھ کر کسی نے آپ سے تعرض بھی نہیں کیا۔ اتفاق سے ایک قزاق کی نظر آپ پر پڑی تو اس نے آپ کے قریب پہنچ کر پوچھا۔ لڑکے تیرے پاس کیا ہے؟ آپ نے بغیر کسی خوف و ہراس کے جواب دیا۔ میرے پاس چالیس دینار ہیں، قزاق بولا کہاں ہیں؟ آپ نے جواب دیا میری عبا میں بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں، وہ آپ کی بات کو مذاق سمجھ کر آگے بڑھ گیا، پھر آپ کے پاس ایک اور قزاق آیا اس سے بھی اسی قسم کی گفتگو ہوئی، تو یہ دونوں آپ کو اپنے سردار احمد بدوی کے پاس لے گئے۔ سردار نے پوچھا۔ لڑکے سچ بتلا، تیرے پاس کیا ہے؟ آپ نے پوری صداقت کے ساتھ پھر وہی جواب دیا۔ سردار نے آپ کی عبا کو پھاڑا تو اس میں سے واقعی چالیس دینار نکل آئے۔
سردار نے انتہائی حیرت کے عالم میں آپ کو مخاطب کرکے کہا، لڑکے تم کو معلوم ہے ہم قزاق ہیں، رہزن ہیں اور قتل و غارتگری ہمارا پیشہ ہے، پھر بھی تم کو ہم سے خوف نہیں آیا؟آپ نے فرمایا۔ میری والدہ ماجدہ نے گھر سے چلتے وقت مجھے نصیحت فرمائی تھی کہ، ہمیشہ سچ بولنا میں اپنی والدہ ماجدہ کی نصیحت کو کیسے فراموش کردیتا، صرف چالیس دینار کی خاطر اپنا عہد کیسے توڑ دیتا، یہ الفاظ نہیں تھے حق و صداقت کے ترکش سے نکلے ہوئے تیر تھے جو احمد بدوی کے سینہ میں پیوست ہوگئے اس پر رقت طاری ہوگئی۔ اشک ہائے ندامت نے دل کی شقاوت اور سیاہی دھو ڈالی اور وہ بولا آفرین ہے تم پر کہ تم نے اپنی ماں کی نصیحت یاد رکھی اور اپنے عہد کا اتنا پاس کیا۔ مگر حیف ہے مجھ پر کہ اپنے پروردگار سے کیے ہوئے عہد کا پاس نہیں کرتا۔ اور اپنے خالق کی نصیحت کو فراموش کردیا۔
اس نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی اور تمام لوٹا ہوا مال قافلہ کو واپس کردیا،اس کے ساتھیوں نے یہ دیکھا تو ان کے دل بھی پگھل گئے اور سب نے یک زبان ہو کر کہا۔سردار تو رہزنی میں بھی ہمارا قائد تھا اور اب توبہ میں بھی ہمارا پیشرو اور سردار ہے۔ کہتے ہیں یہ تمام لٹیرے اور قزاق دفعتاً اولیاء و ابدال میں شامل ہوگئے۔
ابدال سے کیا مراد ہے اسے بعد میں سمجھیے گا آپ کو حیرت ہوگی کہ آنِ واحد میں کیسے نیک لوگ ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ محض غارت گر نہ تھے، حسن بن صباح وغیرہ کے مسحورین میں تھے، جن کو یہ یقین تھا کہ ہماری غارتگری غارت گری نہیں بلکہ دین کی خدمت ہے، وہ جنت حاصل کرنے کے لیے ایسا کرتے تھے۔ کام ان کے برے تھے۔نیتیں ان کی اچھی تھیں، اللہ نے ان کو اُن کی نیتوں کا یہ انعام دیا کہ ان کا سابقہ دو دمانِ رسولؐ کے جوہر تاباں سے پڑگیا۔ آلِ رسولؐ ہی کے نام پر تو وہ اپنی عاقبت بگاڑ رہے تھے، ان کے سامنے اب ایک سچ مچ کا فاطمی تھا، فاطمہؓ بنت رسولؐ، فاطمہ بنت حسینؑ اور فاطمہ بنت عبداللہ الصومعی کا فرزند، امام حسن کا فرزند، جھوٹ موٹ کے فاطمیوں کی طرف دعوت دینے والے مسلم کش شیخ الجبل حسن بن صباح کی ولایت کبریٰ اور فردوس بخشی کا جادو اُتر گیا پھر آل رسولؐ کی محبت نے جو ان کے دلوں میں موجود تھی آنِ واحد میں ان کی کایا پلٹ دی، یہ قطاع الطریق اب بھولے بھٹکوں کے نگراں اور راہ برو محافظ بن گئیں یہ تھی حضرت شیخ کی اصلی کرامت کہ انھوں نے گمراہوں کو اچھا راہ بر، مسافر دوست اور خدّام خلق بنا دیا اور یہ تھا آپ کے محی الدین ہونے کا پہلا ثبوت، کہ دین کی روح تازہ کی۔
۴۸۹ھ/۱۰۹۶ء میں برج حوت کے اندر شمس، قمر، مشتری، زہرہ، مریخ، عطارد کا اجتماع ہوا، منجمین نے طوفان نوح جیسی آفت کی پیشن گوئی کی، لیکن ابن عیسون نے اس دلیل سے اس پیشن گوئی کو غلط بتایا کہ طوفان نوح کے زمانہ میں زحل سمیت ساتوں سیارے برج حوت میں جمع ہوگئے تھے منجموں کی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی لیکن عالمِ اسلام پر اسی زمانہ میں ایک زبردست طوفان آہی گیا جس نے سلجوقیوں اور فاطمیوں سب کو مٹاکے رکھ دیا۔ ہوا یہ کہ ۱۰۹۸ء ۴۸۸ھ میں تمام یورپ کے امرا کو پوپ نے حکم دیا کہ یروشلم کو مسلمانوں سے چھین لینے کے لیے سب جنگ کے لیے تیار ہوجائیں اور نائب مسیح کی حیثیت سے اس جنگ میں شرکت کرنے والے ہر شخص کے گناہ کو معاف کرنے اور جنت میں جگہ دینے کا وعدہ کیا۔ نصرانیوں کے تصور میں پوپ کا وعدہ خدا کا وعدہ تھا، اس لیے سارا یورپ جنگ صلیبی کی تیاریاں کرنے لگا، ۱۰۹۷ء(۴۹۰ھ) میں ساری فوجیں قسطنطنیہ میں جمع ہوئیں۔ ۱۰۹۹ء(۴۹۴ھ) میں فرنگیوں نے سیماط، الربا، اور بیت المقدس، کو فتح کرلیا اور مسلمانوں پر زندگی دو بھر کردی، شام و فلسطین سے مہاجرین کا تانتا بندھ گیا اور بغداد میں ہر طرف کے مصیبت زدہ لوگ آنے لگے عراق کے بیابان اور خرابات ان سے پُر ہونے لگے۔
۵۱۴ھ (۱۱۱۸ء) میں مسترشد باللہ خلیفہ ہوا اس زمانہ کا سلطان محمد بن ملک شاہ تھا، اسی سال اس نے عماد الدین زنگی کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا۔ عماد الدین زنگی اور نور الدین زنگی نے صلیبیوں کے ساتھ کامیاب جنگیں لڑیں جن کے مفصل تذکرہ کی ضرورت نہیں ہے، حروب صلیبیہ میں زنگی خاندان پھر ایوبی خاندان نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیے ان کا عالمِ اسلام پر بڑا احسان ہے، ہمارا مقصد صرف حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے زمانہ کا حال دکھانا ہے، افسوس ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی کے ان مساعی کو جو اپنے باپ ’’جنگی دوست‘‘ (محب المجاہد) کے فرزند کی حیثیت سے آپ نے انجام دیے ان کو معتقدین نے کرامات کے سمندر میں غرق کر دیا اور اس کی روح کو نمایاں کرنے سے غفلت برتی۔ آپ کے مریدوں اور حاشیہ نشینوں کے مجاہدانہ کارنامے آپ کی مساعی پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ جن لوگوں نے آپ کی صحبت سے استفادہ کیا ان کے حالات پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ وہی لوگ جو پہلے قطاع الطریق تھے بعد میں اسلام پر اپنی جانیں نثار کرنے لگے۔
۵۱۲ھ میں آپ کے مرشد ابوسعید مبارک نے اور المبسوط کے مصنف شمس الائمہ سرخسی نے وفات پائی۔ ۵۱۴ھ میں حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہماالسلام کی قبریں کھل گئیں تھیں، ہزاروں آدمیوں نے ان کے جسدوں کی زیارت کی، کوئی تغیر نہیں پایا گیا، قبروں میں سونے اور چاندی کی قندیلیں بھی ملیں، اس طرح ان قبروں کے کھل جانے کا حضرت شیخ کے کارناموں سے کوئی واسطہ نہیں لیکن پھر بھی اس کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوا ۵۲۹ھ (۱۱۳۵ء) میں جبکہ زنگی خاندان شام و فلسطین میں شاہانِ فرنگ کی فوجوں سے برسرپیکار تھا۔ حسن بن صباح کے ایک فدائی نے خلیفہ مسترشد کو قتل کردیا، اور اس کی جگہ ۵۲۹ھ میں راشد باللہ خلیفہ ہوا، اس زمانہ کا سلطان، مسعود بن محمود تھا، جس نے جلد ہی راشدباللہ کو معزول کرکے مقتغی لامراللہ کو ۵۳۰ھ (۱۱۳۵ء) میں خلیفہ بنادیا گیا، اس نے ۲۵ برس تخت خلافت کو زینت دی پھر ۵۵۵ھ (۱۱۶۰ء) سے ۵۶۶ھ (۱۱۷۰ء) تک مستنجدباللہ نے خلافت کی۔ یہ آخرالذکر خلیفہ حضرت شیخ کے معتقدین میں سے تھا۔ حضرت کی زندگی کا آخری زمانہ اور اس کی زندگی کا آخری زمانہ ایک تھا۔
۵۱۲ھ میں سلطان محمود نے عماد الدین زنگی کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا تھا، عماد الدین زنگی، اتابک زنگی اور نور الدین زنگی نے اس دور میں اسلام کی جو خدمت کی اور فرنگی حملہ آوروں کی کمریں جس طرح توڑیں اس کی تفصیل ضروری نہیں۔ ۵۵۷ھ کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ نصرانیوں نے مغرب کے حاجیوں کے روپ میں دو نقب زن مدینہ منورہ بھیجے، وہ دونوں حجرہ مبارک کے پاس ہی رباط مراغہ نام ایک عمارت میں مقیم ہوئے، بظاہر بڑی مقدس زندگی تھی، بڑے فیاض تھے پورے مدینہ والوں کو اپنے معتقد بنالیا تھا مگر چپکے چپکے رباط سے روضہ اقدس تک سرنگ کھود رہے تھے تاکہ جسد اطہر کو چرالے جائیں، غالباً مقصد یہ ہوگا پھر اس جسد اطہر کو مسلمانوں سے خط غلامی لکھوانے کے لیے بطور رشوت استعمال کریں، ایک شب نور الدین زنگی نے خواب دیکھا کہ حضورؐ دو شخصوں کی طرف اشارہ فرما کر کہتے ہیں کہ انجذنی انقذنی من ھذین مجھے ان دونوں سے بچاؤ میری کمک کرو، یہ خواب ایک ہی رات میں نور الدین نے تین بار دیکھا رات ہی کو اپنے ایک معتمد وزیر جمال الدین موصلی کو بلا کر خواب کا ذکر کیا جمال الدین نے رائے دی کہ فوراً مدینہ پہنچنا چاہیے، لیکن اس سفر کو شہرت نہ دینی چاہیے چند معتمد سرداروں کے سپرد فوج کو کیا اور نور الدین زنگی اور جمال الدین موصلی اور ۲۰ ساتھیوں کا قافلہ مدینہ کو روانہ ہوا، ۱۶ دن سفر میں لگے مدینہ پہنچ کر نور الدین نے حکم دیا کہ مدینہ کا ہر شخص فرداً فرداً حاضر ہو کر نذریں قبول کرے۔ سب آئے یہ دونوں نہیں آئے لوگوں سے پوچھا کہ کوئی باقی تو نہیں رہ گیا؟ جواب ملا کہ صرف دو مقدس درویش جو رباط مراغہ میں مقیم ہیں نہیں آئے ہیں، جمال الدین اور نور الدین دونوں رباط میں پہنچے تو دو شخص ملے جو ہو بہو وہی تھے جن کو عالم رویا میں دکھا کر حضورؐ نے کہا تھا کہ مجھے ان سے بچاؤ، نورالدین نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور خود رباط کے ایک ایک گوشہ کا جائزہ لیا اور خفیہ سرنگ کا سراغ لگالیا آخر دونوں نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا۔ نور الدین نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا پھر روضہ اقدس کے چار گرد خندقیں کھود کر ان کو سیسہ سے بھر دیا تاکہ پھر کوئی ایسا نہ کرسکے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی کے زمانہ کا حال آپ نے دیکھ لیا، اُندلس میں اسلام دم توڑ رہا تھا، افریقہ مین مرابطین اور موحدین لڑ رہے تھے، مصر پر قرامطہ کا قبضہ تھا، حسن بن صباح نے عراق و ایران میں قاتلوں کی ایک جماعت منظم کر لی تھی، جو جنت حاصل کرنے کے لیے ڈاکے ڈالتے تھے اور محترم مسلمانوں کو چپکے چپکے قتل کیا کرتے تھے۔ صوفیوں اور شیعوں کے بھیس میں وہ گمراہیاں پھیلاتے تھے۔ یورپ والوں نے یروشلم کو چھین لینے کے لیے صلیبی جنگیں چھیڑ رکھی تھیں، حضرت رسول خداؐ کے جسد اطہر کو چرالے جانے کی تقریباً کامیاب کارروائی کرچکے تھے، ان حالات کے باوجود اہل علم کا حال یہ تھا کہ حنابلہ ومعتزلہ میں جنگ برپا تھی، احناف و شوافع باہم اُلجھ رہے تھے، شیعوں اور سُنّیوں میں کشاکش تھی۔ اخوان الصفا والے اسلام کی بجائے یونانی فلسفہ پھیلا رہے تھے اور صوفیوں کے گروہ میں باطنی قرامطہ اس طرح گھس گئے تھے کہ اصلی صوفی کو مصنوعی صوفی سے ممتاز کرنا دشوار تھا۔ایسے ایام میں خانوادہ رسول کے ایک جوہر تاباں نے عالم رویا میں غیبی اشارہ پایا کہ تمھارا مقصدِ حیات نحیف و ناتواں اور ضعیف و بے دم اسلام کو پھر سے توانا بنانا اور دین برحق کو حیات تازہ بخشنا ہے، اس عزم کے ساتھ باغِ حسین کا یہ نونہال عین اس زمانہ میں وارد بغداد ہوا جبکہ بڑے بڑے اکابر قرامطہ کی برہان قاطع کے خوف سے گنگ اور بے زبان ہوئے جا رہے تھے بہت سے لوگ بغداد سے بھاگ رہے تھے اور بہت سے صلیبیوں کی تلواروں سے جانیں بچانے کے لیے بغداد آرہے تھے اور حسن بن صباح کی برہان قاطع کے تلے گردنیں رکھ دیتے تھے۔
بیابان نوردی
۴۸۸ھ میں آپ وارد بغداد ہوئے۔ ۱۱؍برس یعنی ۴۹۰ھ تک آپ نے علمائے بغداد سے تمام علوم عقلیہ و نقلیہ و روحانیہ حاصل کیے، ان دنوں آپ کا قیام بغداد کے ایک برج میں رہا جسے آپ کے قیام کی وجہ سے بعد میں برج عجمی کہا جانے لگا، آپ تھے تو نسلاً نہ صرف عرب بلکہ دودمان پیغمبر کے ایک فرد تھے لیکن عجم میں پیدا ہوئے مادری زبان عجمی تھی، اس لیے عجمی کہلاتے تھے، ایام طالب علمی میں اور ان کے بعد ۱۴ برس تک آپ کا دستور یہ تھا کہ جب موقع ملتا عراق کے بیابانوں اور خرابات کا گشت لگایا کرتے تھے، مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے۔
’’بست و پنج سال ہر قدم تجرید در صحرائے عراق و خرابہ ہائے ادی گشتم مجالتے کہ، سچ کس مرانشناخت۔‘‘
۵۱۲ھ تک آپ کا حال یہ رہا کہ طلب علم سے جو وقت بچتا اسے آپ صحرا نوردی اور خرابات گردی میں صرف کرتے تھے، صحرانوردی کے ایام میں بدوؤں سے ملتے تھے، خرابات گردی کے ایام میں فقرا و مساکین اور شام و فلسطین سے بھاگے ہوئے لوگوں سے ملاقات کرتے تھے۔
بعض لوگ آپ کی صحرا نوردی اور ان مجاہدات کو رہبانیت خیال کرکے یا تو آپ پر معترض ہوتے ہیں یا اس روایت ہی کو نہیں مانتے لیکن آپ کی صحرا نوردی رہبانیت نہیں تھی بلکہ وہ بامقصد سیاحت تھی جو نیک مسلمانوں سے مطلوب ہے سورۂ توبہ میں خدا نے مومنوں کے حسب ذیل اوصاف گنوائے ہیں:
توبہ کرنے والے، بندگی بجالانے والے، اللہ کی ستائش کرنے والے، سیاحت کرنے والے،رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، بھلائی کا حکم دینے والے، اور برائی سے روکنے والے، اور اللہ کے قوانین کی حفاظت کرنے والے، اور بشارت دے دو تم (ان) مومنین کو۔
سورۂ تحریم میں مسلمات، مومنات، قانتات، تائبات، عابدات، سائحات کے الفاظ میں نیک بیبیوں کا تذکرہ ہے۔ توبہ، حمد، قنوت، عبادت، رکوع و سجود، حدود اللہ کی حفاظت نیکی کی تبلیغ اور بدی کے خلاف وعظ و پند کی طرح ’’سیاحت‘‘ بھی ایک نیک عمل ہے، علم سیکھنے کے لیے علم دین کی اشاعت کے لیے، خلق کی تربیت و ہدایت کے لیے، جہاد کے لیے، مجاہدوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے کسی نیک کام کی غرض سے سیاحت کرنا خدا کے نزدیک محبوب اعمال سے ہے، ۵۱۲ھ تک مجرد رہ کر آپ علم دین حاصل کرتے رہے اور جو حاصل کرتے تھے اس کی اشاعت کے لیے بیابانوں میں بدوؤں سے ملتے تھے اور خرابات میں فقرا سے ملتے تھے۔ اور اس طرح ملتے تھے کہ کوئی آپ کی عظمتوں کا اندازہ نہ کرسکتا تھا گم نام رہ کر خدمت دین فرماتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے اسی سیاحت کے ذریعہ اپنے لیے کارکن اور رفقا حاصل کیے۔
حضرت ابوسعید مبارک کی خدمت میں
طالب علمی اور سیاحت کے زمانہ میں آپ کی روٹیوں کا انتظام کس طرح ہوتا تھا؟ اس کی صراحت بہت کم ملتی ہے گھر سے کچھ اشرفیاں لے کر آئے تھے، والدہ محترمہ کبھی کبھی کچھ رقم بھیجا کرتی تھیں بعض روایات میں محنت و مزدوری کا بھی ذکر ملتا ہے اس کے باوجود اکثر و بیشتر فقر و فاقہ کی نوبت آجاتی تھی، آپ کے معاصر طلبہ اور فقراء اہل خیر سے سوال کرلیتے تھے مگر آپ نجیب الطرفین سیّد تھے۔ خیرات نہیں لے سکتے تھے اس لیے آپ نے ایک روز اپنے جی میں ٹھان لی کہ
’’نمی خورم تانمی خورانند، نمی آشامم تانمی آشامانند، نمی پوشم تانمی پوشانند۔‘‘
یعنی جب تک خود خدا مجھے کھلائے گا نہیں، پلائے گا نہیں، پہنائے گا نہیں اس وقت تک نہ کھاؤں گا نہ پیوں گا نہ پہنوں گا۔ یہ عہد کرکے آ پ برج میں معتکف ہوگئے ۳۹ دنوں تک صبر کرتے رہے اور غیبی امداد کا انتظا کرتے رہے، ۴۰ ویں دن کوئی شخص آپ کے پاس کچھ کھانے کی چیزیں رکھ گیا، آپ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے اپنے اندر سے ’’الجوع الجوع‘‘ کی پکار سنی پھر بھی آپ نے کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا کیونکہ فاطمی سیّد تھے جب تک یہ معلوم نہ ہوتا کہ یہ صدقہ نہیں ہے بلکہ کسی طیب کمانے والے کا ہدیہ ہے تب تک آپ شرعاً نہیں کھا سکتے تھے، عین اس وقت جب کہ آپ کے اندر سے بھوک کی طلب ابھر رہی تھی اور تقاضا بڑھ رہا تھا۔ شیخ ابوسعید بن مبارک مخزومی المتوفی ۵۱۴ھ کا گزر ہوا پوچھا کہ حال تمھارا کیا ہے فرمایا، نفس میں اضطراب ہے مگر روح مشاہدہ حق میں مصروف ہے، شیخ ابوسعید نے آپ کو دعوت دی اور فرمایا کہ ہمارے گھر آجانا۔ شرعاً مرد صالح کی دعوت رد نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس لیے آپ کو ان کے گھر جانا ہی پڑا، روایت ہے کہ ابوالعباس خضر علیہ السلام نے آپ کو باصرار شیخ ابوسعید کے گھر پہنچایا۔اکثر صوفیوں کے ذکر میں ابوالعباس خضر کا ذکر ملتا ہے۔ سورہ کہف کے قصہ موسیٰ میں ایک شیخ مجمع البحرین کا ذکر ملتا ہے احادیث میں ان کا نام خضر ہے کیا یہ وہی خضر ہیں یا کوئی اور اس کا صحیح جواب تو ان صاحب کی ملاقات سے مشرف انسان ہی دے سکتا ہے بہر حال خضر کہلانے والے ایک بزرگ نے بالاصرار آپ کو شیخ ابوسعید تک پہنچایا، شیخ ابوسعید نے آپ کو اپنے دستِ مبارک سے لقمہ لقمہ کچھ کھلایا پھر آپ کو اپنا خرقہ پہنایا۔ شیخ ابوسعید مخزومی نے باب الازج نام ایک مقام میں جہاں آج حضرت شیخ عبدالقادر کی قبر ہے ایک مدرسہ قائم کر رکھا تھا اس کی مدرسی آپ کے سپرد کردی اور اب آپ نے صحراؤں اور خرابات کی سیاحت ترک کردی اور مستقل طور پر بغداد میں مقیم رہ کر طلبہ کو درس دیتے اور عوام کو وعظ و پند کرتے رہے۔ یہ نہیں معلوم کہ شیخ ابوسعید کے مدرسہ میں آپ کس سال سے درس دینے لگے۔ عوام میں وعظ و پند کی مدت ۴۰ برس بتائی جاتی ہے ۵۲۱ھ سے ۵۶۱ھ تک آپ عوام میں وعظ فرماتے، مدرسہ باب الازج کی مدرسی کا زمانہ ۵۱۲ھ سے آٹھ دس برس پہلے ہی شروع ہوا ہوگا۔
صحبت صالح
شیخ ابوسعید آپ کے پیر طریقت تھے۔ ۵۱۲ھ کے بعد آپ نے شیخ ابوسعید کے ایک مرید باصفا حضرت حماد بن مسلم الدباس المتوفی ۵۲۵ھ کو اپنا پیر صحبت بنالیا۔ حماد بن مسلم کو دبس فروش ہونے کی وجہ سے دباس کہا جاتا تھا، دبس کا ترجمہ صاحب صراح نے دوشاب لکھا ہے، عربی میں دبس میٹھے شیرے کو کہتے تھے جسے پکا کر گاڑھا کرلیا جائے، ہم اپنے ملکی راب کو بھی دبس کہہ سکتے ہیں، بہر حال ان کا پیشہ میٹھے شیرے کو پکار کر گاڑھی راب بنانا اور بیچنا تھا۔ حماد بن مسلم ان پڑھ بزرگ تھے لیکن بزرگان دین کی صحبت نے ان کو ایک اعلیٰ پایہ کا تربیت یافتہ مومن صالح بنادیا تھا، علم و فضل میں تمام اقران فائق ہونے، اور ایک معروف معلم، فقیہ، محدث، اور مقول عام واعظ ہونے کے باوجود ایک ان پڑھ اُمّی شیرہ فروش کو آپ نے اپنا پیر صحبت تسلیم کیا اور فخر کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ تربیت تو براہ راست اپنے جدّ اعلیٰ حضرت رسول خدا سے حاصل کرتا ہوں لیکن میرے پیر طریقت ابوسعید مبارک مخزومی اور پیر صحبت حماد بن مسلم دباس ہیں۔
حضرت شیخ عبدالقادر اگرچہ ۱۸ برس کی عمر سے برابر لوگوں کے درمیان دین حق کی اشاعت کرتے تھے لیکن جب تک حماد دباس زندہ تھے آپ اپنا وقت صرف درس و تدریس اور صحبت شیخ میں گزارتے تھے وفات کے بعد آپ نے عام لوگوں کی اصلاح میں صرف کرنا شروع کیا اس زمانہ کے آداب کے مطابق پیر طریقت اور پیر صحبت کے ایام حیات تک کوئی شیخ مسندِ ارشاد کو استعمال نہیں کرتا تھا۔ البتہ اجازت شیخ سے وعظ و پند کرسکتا تھا۔
(جاری ہے)
صورت سیرت
لوگوں نے بیان کیا ہے کہ آپ کا بدن نحیف تھا، قد میانہ تھا، سینہ چوڑا تھا، بھنویں ملی ہوئی تھیِ رنگ گندمی تھا داڑھی طویل اور عریض تھی، آواز بلند تھی، یہ تو تھا ظاہری حلیہ، آپ کی خارق عادت کرامتیں بہت کثیر ہیں، لیکن اصلی کرامت آپ کی سیرت میں مضمر تھی۔ آپ کے ہم عصروں نے آپ کی اخلاقی تصویر یوں بیان کی ہے:
علم نے آپ کی تہذیب نفس کی تھی قرب ربانی نے آپ کو ادب سکھایا تھا، خطاب غیبی آپ کا مشیر تھا۔ آپ کی نگاہ آپ کے دل کی ترجمان تھی۔ اُنس آپ کا ندیم تھا، کشادہ دلی آپ کی نسیم تھی، صداقت آپ کا جھنڈا تھا فتح آپ کی پونچی تھی۔ بُردباری آپ کا ہنر تھا، یاد الٰہی آپ کی وزیر تھی، فکر آپ کا ہم سخن تھی، مکاشفہ آپ کی غذا تھا، اور مشاہد آپ کا مداوائے قلب،۔
نہایت روشن چہرہ، ہمیشہ خوش و خرم بڑے حیا دار، کشادہ دربار(یعنی نہایت سخی تھے) آسانی سے مان لینے والے تھے، اخلاق کے کریم، پاکیزہ خو تھے، بڑے مہربان، بڑے دیامان، بڑے شفیق، فضولیات سے کوسوں دور، حق سے بہت قریب، اللہ کے قوانین کی ہتک ہوتی تو سخت برہم ہوجاتے مگر اپنے لیے کبھی غصہ نہ کرتے اپنے اللہ کے سوا کسی کے لیے بھی انکا رنگ نہیں بدلتا تھا۔ کسی سائل کو رد نہ کرتے تھے چاہے وہ اوپر تلے کے دونوں لباس ہی مانگ لے۔
شیخ عبدالقادر کی یہ مکمل اخلاقی تصویر نہیں ہے آپ حضرت رسول خداؐ کی پوری سیرت کو اپنانے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ ’’ہر ولی بر قدم نبیئے باشد ھن برقدم جدِخود محمد رسولؐ اللہ ام‘‘ یعنی ہر ولی کی روش ایک نہ ایک نبی کی روش کا پر تو ہوتی، میں اپنے مورث اعلیٰ محمد رسول اللہؐ کے قدم بقدم چلتا ہوں۔
حضرت شیخ عبدالقادر کے جو بھی کمالات تھے، وہ خارق عادت ہوں یا مطابق عادت سب نتیجہ تھے۔ اس طریقہ کا کہ آپ حضرت رسول خداؐ کے قدم بقدم چلنے کی کوشش میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ملک و شہر
آپ کے وارد بغداد ہونے کے زمانہ کا حال بتایا جاچکا ہے۔ سیاسی صورت حال جو تھی وہ واضح کی جاچکی ہے زمانہ نہایت ہی پُر آشوب تھا، دین مبین کو اگرچہ حالات نے روبہ زوال کر رکھا تھا لیکن دین کے مخلص خدام ابھی تک ہارے نہ تھے۔ بغداد اہل علم اور اہل دل اکابر کا ان دنوں گہوارہ تھا۔ ان دنوں حنابلہ و معتزلہ میں زبردست علمی بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ اور نوبت خون خرابے تک پہنچتی تھی۔ آپ کے دور کی برکت کہیے یا آپ کی فہمائش کا نتیجہ جلد ہی یہ مذہبی فتنہ دب گیا کچھ ہی عرصہ کے بعد آپ ’’مرجع علمائے عراق و محطِ طالبان حق از جمیع اقطار عالم‘‘ ہوگئے۔ اب عقیدہ کے لحاظ سے آپ کا مسلک عقلی تاویلوں سے اجتناب اور کتاب اللہ اور احادیث نبوی کے مطالب کو بے تاویل قبول کرنا اور نقل کو عقل پر مقدم رکھنا تھا۔ امام احمد بن حنبل کے متبع تھے۔ فقہ حنابلہ کے مطابق فتوے دیتے تھے بعض مسائل میں امام شافعی کے مطابق فتویٰ دیتے تھے ان دنوں کے متکلمین میں سے ایک شخص ابوحنیفہ تھا جو فرقہ مُرجیہ سے تعلق رکھتا تھا اب بے نام و نشان ہوچکا ہے۔ آپ اس کے سخت مخالف تھے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ آپ امام ابوحنیفہ کی مخالفت فرماتے تھے یہ تو ٹھیک ہے کہ آپ امام احمد اور امام شافعی کے مسلک کے مطابق فتویٰ دیتے تھے، امام ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق نہیں، لیکن آپ کی صحبت سے مشرف اصحاب میں سے ایک شیخ بزاز تھے ان کا بیان ہے کہ آپ فرماتے تھے:
’’بشارت باد کسانے را کہ پیر ایشان عبدالقادر و امام ایشان ابوحنیفہ و پیغمبر ایشان محمدرسول اللہ است‘‘
پیران طریقت
پیر کا لفظ عربی شیخ کا ترجمہ ہے، ان دنوں ہر فن کا استاد اس فن کا شیخ کہلاتا تھا۔ اُستاد تو اَوَستاوِدْ کا مخفف ہے جس کا لغوی ترجمہ پارسیوں کی مقدس کتاب اوستا کا عالم ہے۔ معلم کو استاد بعد میں کہنے لگے۔ ابتدائی معلمین مُقری کہلاتے تھے، اوسط درجہ کی تعلیم دینے والے معلم تھے اور منتہی طلبہ کو سکھانے والے شیخ کہلاتے تھے، آپ تھے تو آل رسول سے جن کو ہمارے ملک میں سیّد کہا جاتا ہے لیکن آپ شیخ کہلاتے تھے اس لیے کہ آپ کو علمائے عصر نے شیخُ الکل(سب کا استاد) مان لیا تھا۔ آپ نے علوم شرعیہ تو متعدد شیوخ سے حاصل کیے آپ کے پیر صحبت حماد بن مسلم دباس تھے اور پیر طریقت شیخ ابوسعید مبارک بن علی بن حسین المخزومی المتوفی ۵۱۲ھ جو فقہی حیثیت سے حنبلی تھے۔ انھوں نے شیخ ابوالحسن علی بن محمد البنکاری المتوفی ۴۸۰ھ سے، انھوں نے ابوالفتح طرسوسی سے انھوں نے شیخ عبدالواحد التمیمی المتوفی ۴۲۰ھ سے، انھوں نے شیخ الطائفہ ابوبکر شبلی المتوفی ۳۳۰ھ سے رموز طریقت سیکھے۔ شیخ الطایفہ ابوبکر شبلی جن باتوں پر زور دیتے تھے اُن میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ ’’ہر نفس را نفسِ آخر شمارد‘‘ یعنی جو نیک کام کرتا ہے اس کو کل پر کبھی نہ ٹالنا چاہیے، کیونکہ زندگی کتنی ہے کسے معلوم، اس تعلیم کو آسی مرحوم نے یو ادا کیا ہے ؎
کار امروز بفرد مگزار، اے آسی
آج ہی چاہیے اندیشہ فردا دل میں
ابوبکر شبلی فقہی حیثیت سے امام مالک کے متبع تھے۔ رموز طریقت انھوں نے، حضرت جنید بغدادی المتوفی ۲۷۰ھ سے سیکھے تھے، ان کے پیغامات میں سے ایک خاص پیغام یہ ہے: ’’بارخود برخلق نہ نہی و ہرچہ داری بدہی‘‘ اپنا بار خلق پر نہ ڈالو بلکہ جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ بھی اوروں کو دے دو۔ آج کل کے پیرانِ طریقت کا رویہ تو یہ ہے کہ اوروں کو دیتے نہیں اوروں سے لیتے ہیں۔
شیخ شبلی نے، حضرت سری بن المفلس السقطی المتوفی ۲۵۰ھ سے طریقت کے اسرار حاصل کیے ان کا خصوصی پیغام یہ تھا کہ صاحب طریقت کو چاہیے ’’میانِ بازار مشغول بحق باشد و خرید و فروخت نماید‘‘ یہ ارشاد دراصل (لاتلھیھم تجارۃ والابیع عن ذکر اللہ) کی باا لفاظ دیگر تعبیر ہے بعض لوگ جو رہبانیت پسند ہیں اس کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ تجارت اور کاروبار دُنیا سے مجتنب رہ کر یاد الٰہی کرنا بہتر ہے۔ شیخ سری سقطی نے تعلیم دی کہ نہیں بلکہ کاروبار میں مصروف رہتے ہوئے خدا کی یاد کو ہر دم دل میں رکھنا چاہیے اسی تعلیم کو اکثر صوفیائے کرام (دل بایا رودست برکار) کے الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔
سری سقطی کے شیخ حضرت معروف کرخی تھے۔ یہ اور ان کے والدین پہلے نصرانی تھے، امام علی رضا بن امام موسیٰ رضا کے ہاتھ پر یہ اور ان کے والدین مسلمان ہوئے۔ مسلمان ہو کر فقہی حیثیت سے امام ابوحنیفہ کا مسلک اختیار کیا، رموز طریقت حضرت حبیب راعی سے حاصل کیے جو حضرت سلمان فارسی کے تربیت کردہ تھے حضرت شیخ عبدالقادر نے اور بزرگان دین سے بھی استفادے کیے لیکن ان کے پیران طریقت میں یہی سلسلہ زیادہ مشہور ہے اس طرح آپ کے سلسلہ کے شیوخ میں امام ابوحنیفہ، امام ثوری، امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد سب کے مسلکوں کے پابند گزرے ہیں۔
مجالس شیخ
یہ بتایا جاچکا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ابتدائی ایام میں صحرائے عراق اور خرابات عراق کا گشت لگایا کرتے تھے، پھر اُن کو ان کے شیخ ابوسعید مبارک مخزومی نے اپنے مدرسہ باب الازج میں طلبہ کی تعلیم و تربیت پر مامور کیا۔ ایک عرصہ تک آپ نہایت خاموشی سے اپنا فریضہ انجام دیتے رہے شہرت و ناموری سے اجتناب کرتے تھے لیکن پھر آپ کو شہرت و ناموری کے میدان میں کودنا ہی پڑا اس کی وجہ حضرت شیخ عبدالقادر سے یہ مروی ہے کہ ایک شب آپ نے حضرت رسول خداؐ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہہ کو خواب میں دیکھا اور عالم رویا میں آپ کو ’’تکلم‘‘ کا حکم ملا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ
’’غلطہ کرد برمن کلام بحدے کہ بے اختیار شدم و قدرتِ سکوت نہ داشتم‘‘
ابتدا میں آپ کی مجلس میں صرف دو ایک افراد حاضر ہوتے تھے رفتہ رفتہ آپ کی شہرت ہونے لگی اور مجلس میں لوگ بکثرت جمع ہونے لگے تاآنکہ لوگوں کے لیے بیٹھنے کی جگہ نہ رہی، آپ شہر کی سب سے بڑی مسجد میں جا کر وعظ فرمانے لگے۔ بغداد کی سب سے بڑی مسجد بھی لوگوں کے لیے تنگ ہوگئی تو لوگ ’’کرسی رابیرون شہر بروند‘‘۔
عراق کے فقہا، علما، طلبا، فقرا ہر طرف سے آ آکر جمع ہونے لگے۔ کچھ عرصہ بعد ’’طالبان آفاق از جمیع اقطارِ عالم گرد آمدند‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان میں بلا کی تاثیر رکھی تھی۔ ۵۰۰ سے زیادہ یہود و نصاریٰ آپ کی ہدایت سے مسلمان ہوئے اور ایک لاکھ سے زیادہ ’’طائفہ عُصاۃ از قطاع الطریق دارباب بدعت و فساد دراعتقاد و مذہب‘‘ نے آ کے ہاتھوں پر بیعت توبہ کی اور اپنی سیرتیں سنوار کر صالحین امت میں داخل ہوگئے، آخری دنوں میں آپ کی مجلس میں تقریباً ۷۰ ہزار انسان شریک ہونے لگے ۴۰۰ افراد قلم دواۃ اور کاغذ لے کر آپ کی نصیحتیں قلم بند کرتے تھے۔ تمام بلادِ اسلام سے چیدہ چیدہ اکابر آپ کی مجلس میں حاضری دیا کرتے تھے۔
آپ کی مجلس سے جن لوگوں نے استفادہ کا شرف حاصل کیا ان میں سے ایک سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی ۵۷۳ھ میں پیدا ہوئے جب کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی عمر شریف ۶۷ برس کی تھی۔ خواجہ صاحب ۲۰ برس کی عمر تک اپنے شیخ خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں رہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی وفات کے وقت ۲۴ برس کے تھے خواجہ صاحب کو آپ کی زندگی کے آخری دنوں میں شرف سماع حاصل ہوا ہوگا۔
خطوط
آپ صرف زبانی وعظ و پند پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں سے فتوح الغیب بہت مشہور ہے علاوہ بریں بعض بعض مریدوں کے پاس تحریری نصیحتیں بھیجتے تھے۔ ان نصیحتوں میں بہ کثرت آیات قرآنیہ سے کام لیتے تھے مثلا ایک وعظ میں فرماتے ہیں:
اے عزیز یکے از داعیہ شہوات
ولا تبع الھویٰ فیضلک عن سبیل اللہ (ص۲۶)
اعراض کن۔ واز مواطن غفلت
ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا (کہف ۲۸)
بروں آئے۔ واز صحبت اہل فسوق کہ
فویل للقاسیۃ قلوبھم من ذکر اللہ (زمر ۲۲)
تربیت مریدین
آپ کے وعظ و پند سے متاثر ہو کر جو لوگ مرید ہوجاتے تھے ان کو آپ ایک نہ ایک صالح مرشد کی صحبت میں کچھ دن گزارنے کی ہدایت کرتے تھے کیونکہ آپ بذات خود ہر ایک کی تربیت نہیں کرسکتے تھے آپ کے طریق میں ارشاد طریقت سے زیادہ صحبت صالح ضروری تھی۔ انسان کانوں کے ذریعہ جو علم حاصل کرتا ہے اس سے زیادہ مستحکم علم آنکھوں کا ہوتا ہے ارشاد سے زیادہ بہتر زندگی کا نمونہ انسان کی روش کو سدھارتا ہے خود آپ نے علوم تو علما سے حاصل کیے اور اپنی زندگی سدھارنے کے لیے اپنا پیر صحبت حضرت حماد بن مسلم دباس کو بنایا جو ایک اُمّی تھے اور شیرہ فروش تھے آپ کے مسلک میں پاکیزہ زندگی کو دلیل و حجت اور علم وافر پر تفوق حاصل تھا مریدین میں سے جن کو آپ کام کے آدمی دیکھتے ان کو اقطاب یا اوتاد یا ابدال کے عہدے دے کر دیار و امصار میں پھیل جانے اور ہدایت خلق پر مامور فرماتے تھے۔
اصلاح عالم
آپ کا فریضہ صرف اہل بغداد اور اپنی مجلس میں حاضری دینے والوں ہی کی اصلاح نہیں تھا پورے عالمِ اسلام میں دین مبین کو زندہ اور توانا بنانا آپ کا مشن تھا اس کے لیے ایک عالم گیر نظام کی ضرورت تھی، باطنیوں کے داعی تمام عالمِ اسلام میں پھیلے ہوئے تھے۔ ہر شہر اور ہر علاقہ میں ایک نہ ایک باطنی مقیم تھا۔ ہر ایک داعی باطنیوں کا بظاہر نہایت مقدس زندگی گزارتا تھا، لوگوں کی نظر میں خود کو بہت خدا رسیّدہ ولی اللہ کی صورت میں پیش کرتا تھا، ان لوگوں نے درجہ ولایت کو درجہ نبوت سے بھی زیادہ بلند قرار دے رکھا تھا۔ ان جھوٹ موٹ کے اولیا کا جادو توڑنا ضروری تھا۔ آپ نے ان مدعیات ولایت کا زور توڑنے کے لیے ایک نظامِ اولیا ء الدین ترتیب دیا۔ اقطاب، اوتاد، اولیائے امر اور ابدال کا ایک ادارہ مرتب کیا۔ قطب کے معنی ہیں کھونٹا، بولتے ہیں کہ قطب از جانمی جنبد۔ آپ نے خود قطب الاقطاب کا عہدہ لیا۔ جو بعد میں چل کر قطب عالم اور قطب اعظم کہا جانے لگا، عالمِ اسلام کے مختلف ممالک و امصا میں آپ نے اقطاب مقرر کیے جو اپنے اپنے مقرر مقام پر مستقل قیام کرتے تھے۔
ان اقطاب کے ماتحت کچھ اور بزرگان دین اوتاد کے رتبہ پر نام زد کیے جاتے تھے جو قطب ولایت کے ماتحت شہروں میں مقیم رہتے تھے۔ وتد کے معنی اور قطب کے لغوی معنی میں زیادہ فرق نہیں، اقطابِ اقطار کے ماتحت اقطابِ بلاد کو اوتاد کہاجاتا تھا۔ ان اوتاد کے ماتحت علاقہ مختلف مرکزوں میں مرشدین کے دوائر تھے جو عام لوگوں میں دین برحق کو اپنے اپنے انداز میں پھیلاتے تھے۔
قطبِ عالم، اقطابِ اقطار، اوتاد ولایات، اور دائرہ ہائے مرشدین کے درمیان رابطہ قائم رکھنے کے لیے سیاحوں کی ایک جماعت مرتب کی جس کے افراد ملک ملک پھرتے قطب عالم کا پیغام اقطاب اقطار تک اور ان کی ہدایتیں اوتاد اور اولیائے مرشدین تک پہنچاتے تھے ان کو ابدال اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک بدل سے پیغام لے کر دوسرا بدل اسے تیسرے بدل تک پہنچاتا تھا۔ قطب عالم کا کام ماتحت مرشدوں کی دشواریاں سلجھانا، لوگوں کے شکوے شکایتیں اور فریادیں معلوم کرکے ان کو دفع کرنے کی تجویزیں کرنا بھی تھا اس لیے قطب عالم کو غوث اعظم بھی کہا جاتا تھا غوث کے معنی ہیں فریاد رسی، جس طرح مادی حکومتیں فریاد رسی کے محکمے قائم کرتی ہیں اسی طرح نظامِ دین الاولیا میں بھی باہمی اختلافات طے کرنے، اور ایک کے خلاف دوسرے کی شکایتیں رفع کرنے کے لیے ایک نظام استغاثہ تھا اس نظام کا سربراہ اعلیٰ قطب الاقطاب ہوتا تھا اس لیے اسے غوث عالم بھی کہا جاتا تھا۔ اقطاب، اوتاد، ابدال کے الفاظ اب تو صرف مقدس الفاظ بن کر رہ گئے ہیں، یہ نظام اب زندہ اور کار فرما نہیں ہے اس لیے اس نظام کو پوری طرح سمجھنا سمجھانا مشکل ہے لیکن جب تک یہ نظام واقعی زندہ اور کارگزار رہا ایک قطب اعظم ایک مقام پر مقیم رہ کر پورے عالمِ اسلام کی خبر گیری کرتا تھا۔ یہ نظام غیر شرعی اور (جابر)مستبدین کی شخصی حکومتوں کے اندر ایک دینی نظام اصلاح و تربیت تھا اور اس طرح چلایا جاتا تھا کہ نظام بادشاہی سے اس نظام کی ٹکر نہ ہو، بادشاہوں اور امرا کی حکومتیں دینی نظام میں خلل انداز نہ ہوں اور نہ دینی نظام کو امرا و حکام ضرر پہنچا سکیں، اس نظام کے شرکا خدا پر توکل رکھتے ہوئے فرائض مفوّضہ بغیر مُزد انجام دیتے تھے ان میں مزدور، تاجر، کسان، گھسیارے، لکڑ ہارے وغیرہ معاشرہ کے ہر طبقہ کے لوگ شریک ہوتے تھے رتبہ عالی صالح تر مومن کو ملتا تھا خواہ وہ گھسیارا ہی کیوں نہ ہو۔ پیشہ مسلمانوں میں برتری و کمتری کا سبب کبھی نہیں رہا۔
حکومتیں اور نظام اقطاب
تاریخ میں ہم کو ایسی نظیریں ملیں گی کہ بادشاہوں نے اس نظام کو اپنے لیے خطرہ سمجھا لیکن بالآخر ان کو معلوم ہوگیا کہ (نظام الاولیا) صرف دین و ایمان سلامت رکھنے، مسلمانوں کا اخلاق و کردار درست کرنے، اور دین مبین کو تقویت پہنچانے والے مخلص احباب و رفقاء کی ایک تنظیم ہے، حکومتیں اس سے ٹکر لیں تو لیں یہ نظام حکومتوں سے ٹکر نہیں لیتا۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ سلاطین و امرا نے (چاہا کہ)اس نظام کو اپنے فائدہ کے لیے استعمال کریں۔ لیکن اس میں ان کو ہمیشہ ناکامی ہوئی۔ بادشاہوں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جو اس نظام کے ماتحت مقدس زندگی گزارنے اور دوسروں کی زندگیاں سدھارنے والوں کے ساتھ حسن عقیدت رکھتے تھے۔ بارہا انھوں نے مرشدین کی خدمت میں نذریں پیش کیں مگر ہمیشہ نہیں تو اکثر و بیشتر ان کی نذریں بھی مسترد کردی گئیں اور اس عذر کے ساتھ کہ نذر کے طور پر پیش کی جانے والی اس دولت کے حصول میں ظلم داخل ہے امرا و سلاطین کی مدد لینے سے تا امکان گریز کیا جاتا تھا مستنجدباللہ بغداد کا وہ خلیفہ جو آپ کے بڑھاپے کا معاصر تھا، آپ کا معتقد تھا، آپ تو کبھی کسی خلیفہ، امیر، وزیر، یا سالار لشکر کے پاس نہیں گئے لیکن آپ کی مجلس وعظ میں ہر پایہ کے لوگ آتے تھے، کسی کو اس کے سیاسی عہدہ کی وجہ سے کوئی خاص مقام نہیں دیا جاتا تھا۔ مستنجدباللہ اکثر و بیشتر آپ کی خانقاہ میں حاضری دیتا تھا خلیفہ جب آنے کو ہوتا تو آپ حجرے میں چلے جاتے تھے وہ آکے بیٹھ جاتا تو حجرہ سے باہر آتے اور خلیفہ خود برائے تعظیم اٹھ جاتا تھا، ایک مرتبہ اس خوش خلق، نیک سیرت اور مومن خلیفہ نے آپ کی خدمت میں دو توڑے زر کے پیش کیے اور باصرار نذر قبول کرنے کو کہا آپ نے دونوں کیسوں کو اٹھایا اور فرمایا کہ دیکھو ان کیسوں سے تو خونِ مظلوم ٹپک رہا ہے۔ اور آپ نے ہدیہ کو مسترد کردیا۔ ماضی میں صوفیائے کرام نے آپ کی اس روش کو ہمیشہ اپنایا۔ آج کل کے صوفیوں میں اس کی نظیریں مشکل سے ملیں گی۔
نذر و نیاز
سلاطین اور امرا جب آپ کی خدمت میں کچھ نذر پیش کرتے تھے تو آپ مسترد کردیتے تھے۔ البتہ وجہ حلال سے کما کر پیش کرنے والے جب کچھ پیش کرتے تھے تو آپ اپنے لیے تو نہیں اپنے محتاج رفقاء اور دیگر فقراء و مساکین کے لیے قبول کرلیتے تھے، لیکن تا امکان ان سے بھی قبول نہ کرتے تھے۔ ایک شخص نے آپ کے سامنے کچھ رقم حاضر کی اور اس نے کہا کہ اس کو فقرا میں تقسیم کردیجیے فرمایا یہ کام تم خود انجام دو تو بہتر ہے زیادہ ثواب پاؤ گے اس شخص نے کہا کہ میں فقرائے مستحقین اور غیر مستحقین کی تمیز نہیں کرسکتا فرمایا کہ گمان غالب اور نیت خالص سے اپنا صدقہ غربا میں تقسیم کردو، تم کو اخلاص نیت کا ثواب ملے گا۔
وجہ معاش
آپ سیّد تھے صدقہ نہیں لے سکتے تھے، نذر و نیاز بھی بمشکل قبول کرسکتے تھے کیونکہ نذر دینے والے کو اس بات کا ثبوت دینا تھا کہ کسب حلال کی رقم ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی وجہ معاش کیا تھی؟ آخری عمر میں آپ خوش پوش اور خوش خوراک تھے اور دولت مند معلوم ہوتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ بعض صالح تاجروں کے بیوپار میں بطور مضاربت شریک تھے، روپیہ آپ کا تھا شریک تجارت محنت کرتا تھا، اصلی اور واقعی منافع میں سے کچھ حصہ آپ کا ہوتا تھا کچھ شریک تجارت کا، آپ کے شریک تجارت کون کون لوگ تھے اس کے جاننے کے لیے کافی تحقیق درکار ہے۔ آپ کے مریدوں میں کئی بزاز، خباز، سمان، عطار اور دوسرے کاروباری لوگ داخل تھے انھیں کے احوال میں آپ کی معاشی زندگی کی تفصیلات ملیں گی۔
شیخ عبدالقادر جیلانی کی انیس وصیتیں
وصیت کرتا ہوں میں تمھیں:
۱- اللہ سے ڈرتے رہنے کی، ۲- اس کی اطاعت کی، ۳- شرعِ ظاہر کی پابندی، ۴- سلامتی قلب کی، ۵- سخائے نفس کی، ۶- بشاشتِ چہرہ کی، ۷- بذلِ مال کی، ۸- اذیت رسانی سے باز رہنے کی، ۹- دوسروں کی ایذائیں برداشت کرنے کی، ۱۰- فقر کی، ۱۱- مشائخ کے احترام کی، ۱۲- انسانوں کے ساتھ خوش رہنے کی، ۱۳- خور دو کلاں کی خیر خواہی کی، ۱۴- ترکِ خصومت کی، ۱۵- نرمی برتنے کی، ۱۶- ایثار کو لازم سمجھنے کی، ۱۷- ذخیرہ اندوزی سے اجتناب کی، ۱۸- کفار و مشرکین سے شیر و شکر نہ ہونے کی، ۱۹- دین و دُنیا میں ایک دوسرے کی معاونت کی
[فتوح الغیب]
/…//…/

حصہ