کراچی جو دڑو

355

رشید بھائی بھی خوب ہیں اپنی بات سمجھانے کے لیے نئی سی نئی منطق لے آتے ہیں پچھلے دنوں کراچی کی خستہ حالی بیان کرتے ہوئے کہنے لگے۔
’’یہ کراچی تو موہونجودڑو سے بھی گیا گزرا ہے اگر موہونجودڑو کی تاریخ پڑھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں گندے پانی کے نکاس کے لیے جو سٹم رائج تھا ترقی کے اس دور میں بھی کراچی والوں کے نصیب میں نہیں اور اگر حفظان صحت کے لیے کیے گیے اقدامات پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہےکہ اس وقت لوگوں کو صاف و ستھرا ماحول فراہم کرنے کے لئے مناسب انتظامات کیے گئے تھے۔ ایک گھر ایک دوسرے سے اس قدر دور تھا کہ کسی بھی گھر کو ہوا اور روشنی ملنے میں رکاوٹ نہ تھی،جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس زمانے میں لوگوں کو انجینئرنگ کی بھی معلومات تھی،جو دریا کے سیلاب سے بچاؤ کے لئے خاطر خواہ بندوبست کرسکتے تھے نہ صرف گندے پانی اور برساتی پانی کی نکاس کے لیے نالیاں نہایت عمدہ طریقے سے بنائیں گئی تھیں بلکہ نالیوں کی ہر وقت صفائی کے لیے ان میں ’’مین ہول‘‘ بھی رکھے جاتے تھے اس کے علاوہ گھر کی گند (کچرے) کو نکالنے کے لیے دیواروں میں سوراخ کیے جاتے تھے تاکہ کچرا(فضلہ) وہاں سے بہہ کر باہر گلی میں جا گرے۔گلیوں میں کچرا جمع ہونے کے لیے گڑھوں کا انتظام کیا گیا تھا سب سے اہم اور حیرت زدہ بات تو یہ کہ برسات کے باعث آنے والے پانی یا سیلابی موسم میں جب پانی سے شہر تباہ ہو جاتا تھا تو لوگ اس شہر کے اوپر ایک دوسرا شہر تعمیر کرلیا کرتے تھے جسے ریپرینگ یا نئی تعمیرات بھی کہا جا سکتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج کراچی کی حالت ہزاروں سال قبل زمیں بوس ہو جانے والے شہر موہونجودڑو سے بھی بدتر ہے‘‘۔
رشید بھائی کے انداز گفتگو سے متعلق مختلف آرا ہو سکتی ہیں لیکن کراچی کی بدترین صورتحال پر ان کی جانب سے کی جانے والی باتوں سے کوئی بھی ذی شعور انسان اختلاف نہیں کر سکتا اب گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والی برسات کو ہی لے لیجئے دو ہفتے سے بھی زیادہ کا وقت گزرنے کے باوجود ایسا لگتا ہے جیسے کل رات ہی طوفانی بارش ہوئی ہو۔ کسی علاقے یا محلے کی کوئی گلی ایسی نہیں جہاں اب تک بارش کا پانی کھڑا نہ ہو ابلتے گٹر ہر آنے والے کو یہاں ہونے والی بارش کی خبر دیتے ہیں ویسے تو کراچی کے تمام میدانوں پر چائنا کٹنگ کر دی گئی ہے البتہ آبادیوں کے درمیان جو جگہ اب تک خالی ہے وہ تالاب کا منظر پیش کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان نشیبی علاقوں میں کھڑے پانی سے نہ صرف تعفن اٹھ رہا ہے بلکہ بیماریوں میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے یعنی برسات کے بعد شہر میں وبائی امراض پھیل رہے ہیں بلکہ اب تو یہ صورت حال ہے کہ ہر گھر میں ایک نہ ایک شخص ایسا ضرور ہے جو ان امراض میں مبتلا ہے خاص کر گلے اور سینے کے مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو صاف بتا رہا ہے کہ یہ وائرل انفیکشن ہے جو گندگی کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ شہر میں ڈینگی کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سامنے سندھ حکومت اور بلدیاتی ادارے پہلے ہی بے بس دکھائی دیتے تھے اس پر وبائی امراض کا پھوٹ پڑنا نہلے پر دہلا ثابت ہو رہا ہے ظاہر ہے جس شہر کی گلیاں اور محلے کچرے سے اٹے پڑے ہوں اور سیوریج سسٹم کا نظام تباہ و برباد ہو چکا ہو وہاں برسات کے بعد موسم بہار کی آس لگانا کسی دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔ ویسے بھی ہم نے اب خواب دیکھنا چھوڑ دیے ہیں۔ سندھ میں رہنے والا ہر شخص اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ ہمارے صوبے کے حکمرانوں کے نزدیک عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی جیسے اقدامات میں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی صحت،تعلیم اور خوش گوار ماحول ان کے ایجنڈے میں شامل ہے یہ تو،،سب ٹھیک ہے،،کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے محض چمک کی سیاست کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ حکمرانوں کی لا پرواہی اور عدم توجہی کو دیکھ کر مجھے تو خوف آتا ہے میرے ذہن میں بس یہی سوچ ابھرتی ہے کہ اگر اسی طرح وبائی امراض اور ڈینگی کے وار جاری رہے تو نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں ماضی میں لاہور میں ہونے ڈینگی سے ہونے والی اموات ہمارے سامنے ہیں گو کہ اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے رات دن ایک کر ڈالا لیکن اس وائرس انہیں ناکوں چنے چبوا دیے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ایک متحرک وزیر اعلیٰ کو وبائی مرض کے خلاف رات دن جدوجہد کرنا پڑی تو خدا جانے ہمارے صوبے خصوصاً شہر کراچی کے نااہل ارباب اختیار عوام کی زندگیوں کے ساتھ کیا کھلواڑ کریں گے۔
ایک طرف وبائی امراض ہیں تو دوسری جانب شہر کا انفراسٹرکچر بھی تباہی کے دہانے پر آن پہنچا ہے شہر کی تمام مصرف ترین شاہراہوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ جبکہ ایشیا کے سب سے بڑے صنعتی علاقے کی سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں یہ بات میرے علم میں ہے کہ اس صنعتی علاقے کی اہم سڑک نعمت اللہ خان کے زمانے میں بنائی گئی جو انتہائی کشادہ تھی ہائی وے طرز کی تعمیر کی جانے والی اس سڑک کے دونوں اطراف سروس لین جبکہ برساتی پانی کے نکاس کے لیے نالا بھی تعمیر کیا گیا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سڑک کی حالت بھی اب دیکھنے کے قابل ہے، میرا مطلب ہے کہ نعمت اللہ خان کے زمانے میں بنائی جانے والی اس اس سڑک کی اب کیا حالت اس پر اگر بات نہ کی جائے تو زیادتی ہوگی۔ اور ویسے بھی میرا فرض کہ جہاں بھی سیاسی ،معاشرتی یا معاشی خرابی دیکھوں اسے ضرور تحریر کروں لہٰذا میں یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ عوام کے سامنے اس صنعتی علاقے کی حالت رکھ دوں تاکہ اس تحریر کے ذریعے ان اربابِ اختیار کو بھی گہری نیند سے جگا دوں جو عوام کے مسائل کے حل کے سلسلے میں با اختیار ہونے کے باوجود بے اختیار بنے بیٹھے ہیں۔
بارش ہوئے خاصا وقت ہو چکا ہے اس کے باوجود شہر کی اہم شاہراہوں پر اب تک پانی کھڑا ہے یہی صورت حال کورنگی صنعتی علاقے کی بھی ہے یہاں بھی جگہ جگہ سیوریج کا پانی کھڑا ہے مختلف فیکٹریوں سے اخراج ہوتے کیمیکل زدہ پانی سے یہاں کی اہم شاہراہ متعدد مقامات سے زمین بوس ہوتی جارہی ہے۔ سڑک کے ساتھ بنائے جانے والے برساتی نالے کو فیکٹری مالکان نے سیوریج سسٹم میں تبدیل کر ڈالا جس کا بس چلا اس نے اپنی کمپنی کی سیوریج لائن اس برساتی نالے سے ملا دی نتیجتاً سارا روڈ تالاب کا منظر پیش کرنے لگا ہے کون نہیں جانتا کہ سیوریج کا پانی ہو یا کیمیکل زدہ دونوں ہی شاہراہوں اور عمارتوں کے لیے انتہائی خطرناک ہوا کرتے ہیں۔ بس یہی کچھ اس سڑک کے ساتھ بھی ہوا کہ اس پانی نے وہ کر دکھایا جس کے نتیجے میں دور حاضر کے اصولوں کے مطابق بنائی جانے والی یہ سڑک کھنڈارات میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ سڑکوں کی دیکھ بھال یا مرمت کے لیے ایک ایسا ادارہ قائم کیا جاتا ہے جو فوری طور پر کاروائی کرتے ہوئے سڑکوں کی مرمت کے فرائض انجام دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ محکمہ بھی دیگر اداروں کی طرح ’’ستو‘‘ پی کر سویا ہوا ہے۔ محکمہ روڈ نامی یہ ادارہ کاغذات کی حد تک فعال نظر آتا ہے جبکہ عملی طور پر اس کا وجود کہیں دکھائی نہیں دیتا جب ایسی صورت حال ہو تو حکومت سے خیر کی توقع کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کی معترف ہے
ملک کو سب سے زیادہ زرمبادلہ کما کر دینے والے شہر کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک انتہائی خطرناک ہے اگر چاہے تو نہ صرف یہ بلکہ تمام مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔ اگر اس اس سڑک کی مرمت و دیکھ بھال کی ذمہ داری فیکٹری مالکان کے سپرد کر دی جائے تو خاصے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں مثلا فیکٹری مالکان کو سڑک کی مرمت کروانے کا پابند کیا جائے اس ساتھ ساتھ گرین بیلٹ کی ذمہ داری بھی انہیں کے سپرد کر دی جائے۔ دنیا بھر میں میں بڑے بڑے ہائی ویز اور علاقائی سڑکیں بنوانے کے لیے یہی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے جبکہ ماضی میں اسی فارمولے کے تحت نعمت اللہ خان صاحب نے کے پی ٹی اور پورٹ قاسم کے ساتھ مل کر کئی کامیاب پروجیکٹ پر کام کیا جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کام کرنے کے ارادے ہوں تو راستے خود بخود نکلنے لگتے ہیں یعنی نیک نیتی سے خاصے بہتر نتائج برآمد کیے جا سکتے ہیں حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایشیا کے سب سے بڑے صنعتی ایریا میں قائم،،کاٹی،، کا مرکزی دفتر بھی اس سڑک کی تباہی پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ کاٹی کورنگی انڈسٹریل ایریا میں قائم تمام فیکٹریوں کی وہ ایسوسی ایشن ہے جس کی رسائی نہ صرف وزیر اعلی سندھ بلکہ وزیراعظم پاکستان تک ہے اگر یہ ایسوسی ایشن اس تباہ حال سڑک کے سلسلے میں حکام بالا سے بات کرے تو چند روز میں ہی اس مسئلے سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک ایک اگر اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں فوری طور پر کارروائی نہ کی گئی تو سڑک کی بدترین صورتحال سے نہ صرف عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ انڈسٹریل ایریا میں داخل ہونے والی مال بردار ٹرانسپورٹ کو بھی شدید نقصان ہو سکتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سڑک سے گزرنا بھی ابھی نا ممکن ہو جائے گا اس کے لیے فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن سے شہریوں میں بڑھتی ہوئی محرومی و بے چینی کاخاتمہ کیا جا سکے اختیارات نہ ہونے کا رونا رونے کی بجائے عملی طور پر کام کرنے ہونگے اور ویسے بھی ٹوٹی سڑکوں کی مرمت کرنے اور شہر سے گندگی کے ڈھیر اٹھانے کے لیے کسی قسم کے اختیار کی ضرورت نہیں ہوتی ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ شہریوں کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ صوبائی اور شہری حکومتوں نے نے اس شہر کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اب اس سلسلے کو بند ہونا چاہیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کورنگی انڈسٹریل ایریا ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر بڑے منصوبوں پر کام کرنا ہوگا میرے نزدیک پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بنائے جانے والے منصوبوں سے ہی شہر کو اس کی کھوئی ہوئی حیثیت واپس دلائی جا سکتی ہے کاروباری افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ جس شہر سے اربوں روپے کماتے ہیں وہاں اپنی کمائی کا کچھ حصہ لگا کر ثابت کریں کہ یہ شہر ان کا بھی ہے۔

حصہ