رویے بدلئے

168

اللہ پاک آپ کوجو رزق اور نعمتیں عطا فرماتا ہے وہ صرف آپ کے لیے نہیں ہوتیں‘ اُن میں بہت سے لوگوں کاحصہ شامل ہوتا ہے اور جب تک آپ وہ حصہ ان حق داروں تک پوری ایمان داری اورانصاف سے پہنچاتے رہتے ہیں۔ آپ کو وہ حصہ اسی تناسب سے ملتا رہتا ہے اور آپ بھی دنیا کی نظر میں مال دار، سیٹھ، جاگیردار اور سرمایہ دار بنے رہتے ہیں۔ لیکن جب اس تقسیم میں کوتاہی یا بے اعتدالی ہوتی ہے تو اللہ پاک آپ کو صرف آپ کے حصے تک محدود کردیتا ہے اور اس ریل پیل سے محروم کر دیتا ہے۔
پھر رب کریم وہ رزق یا تو اُن لوگوں تک براہ راست پہنچانا شروع کر دیتا ہے یا اس رزق کی تقسیم کے لیے نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘ مقررکر دیتا ہے اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ یہ سیٹھ دیوالیہ ہو گیا ہے۔ اسی دوران یہ باتیں بھی سننے میں آتی ہیں کہ فلاں کے بیٹے پر اللہ کا بہت کرم ہے‘ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے‘ دنوں میں کروڑ پتی ہو گیا ہے۔ یہ وہی شخص ہوتا ہے جسے رب کریم آپ کی جگہ نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘ مقررکرتا ہے۔‘‘
دیکھا جائے تو اللہ کی تقسیم کا یہ معاملہ صرف رزق تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس میں عزت ‘ سکون‘ امن اور آسانیاں بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر عزت کا معاملہ بڑا خاص الخاص ہے اور اس کو بہت اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عزت اور ذلت اللہ پاک کی عطا ہے۔ ہم نے اللہ کی دی ہوئی عزت کو اپنی ذاتی کمائی سمجھ لیا ہے۔ ہم اس گمان میں مبتلا ہیں کہ اس عزت کے ہم بلا شرکت غیرے مالک ہیں۔ یہ ساری کی ساری ہماری ذاتی میراث اور ہماری اہلیت اورصلاحیتوں کا ثمر ہے۔ حالانکہ ایسا قطعاً نہیں ہے۔
آپ اپنے اطراف نظر دوڑائیں تو آپ کو بے چین، بے سکون اورہیجانی کیفیت میں مبتلا لوگوں کا ہجوم نظر آئے گا۔ بد قسمتی سے ہم من حیث القوم انہی کیفیات کا شکارہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ باقی اقوام عالم کے مقابلے میں ہم اتنے محروم کیوں ہیں؟ کیا یہ ہماری بداعمالیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے یا کوئی اورمعاملہ ہے؟
ہم نے رب کی دی ہوئی عزت سے لوگوں کا حصہ نکالنا چھوڑ دیا ہے اور اس طرح عزت کی ترسیل میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ ہم نے اپنے رب کی دی گئی آسانیوں کو بانٹنا چھوڑ دیا ہے اور وہ آسانیاں بھی ہم سے چھن رہی ہیں۔
اس اجتماعی بے چینی، بے سکونی، بے برکتی اور ہیجان سے نکلنے کا بس ایک ہی راستہ ہے کہ ہمیں اپنے روزمرہ کے روّیوں کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ مخلوق کی عزت دراصل اس کے خالق کی عزت اور مخلوق سے پیار دراصل اس کے خالق سے پیار ہے۔ کیا ہم ان اقوام کا مقابلہ کر سکتے ہیں جہاں انسان تو انسان، جانور بھی اپنے حصے کی عزت، پیار اور سہولیات کا حصہ پوری ایمان داری اوردھڑلے سے وصول کرتا ہے۔ جب ہم پیارکی جگہ نفرت، عزت کی جگہ حقارت اور بخشش کی بجائے محرومیوں کا بیوپار کریں گے تو پھر ہمیں یقین کرلینا چاہیے کہ وہ خالق دو جہاں جلد یا بدیر ہمیں ہٹا کر کوئی نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘ مقرر کر دے گا۔

حصہ