(محترمہ خدیجہ فزوئی انگلستان)
بچپن میں میری مذہبی تربیت چرچ آف انگلینڈ کی زیر نگرانی ہوئی‘ مگر ہوش سنبھالا تو میرا ذہن اس سے بالکل مطمئن نہ ہوا۔ مجھے چرچ آف انگلینڈ کی تعلیمات میں قوت اور وقار کا فقدان نظر آیا‘ اس لیے میں نے اس چرچ سے علیحدگی اختیار کر لی اور بیس سال کی عمر میں رومن کیتھولک بن گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرے اعزا اور احباب سخت برہم ہوئے اور ان کی ناراضی بلکہ دشمنی نے مجھے کئی برس تک پریشان رکھا‘ لیکن چونکہ مجھے یقین ہو چکا تھا کہ صرف رومن کیتھولک ہی سچا مذہب ہے اور اسے خدا کی پشت پناہی حاصل ہے‘ اس لیے میں نے غیروں کی دشمنی یا اپنی پریشانی کی کوئی پروا نہ کی اور اپنے مؤقف پر قائم رہی۔
لیکن کچھ عرصے کے بعد مجھے شدت سے احساس ہوا کہ رومن کیتھولک کی وابستگی ایک قیمت چاہتی ہے اور وہ ہی سوچ‘ فکر اور اظہار پر پابندی۔ یعنی یہ اعتقاد کہ چرچ اور چرچ کی تعلیمات ہر قسم کی خامی سے پاک ہیں اور ان پر اعتراض کفر کے مترادف ہے خواہ وہ عقلی تقاضوں کے کس قدر خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ جب کبھی میری عقل کسی عقیدے پر معترض ہوتی تومیں اپنے آپ کو سمجھاتی کہ فتور دراصل میری عقل میں ہے اور چرچ عقل سے بالا ہے۔ مثال کے طور پر یہ عقیدہ کہ چرچ میں جو روٹی بھی پادری صاحبان کھاتے ہیں وہ فوراً ہی یسوع مسیح کے وجود میں بدل جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی حیثیت بیک وقت خدا کی بھی ہوتی ہے اور انسان کی بھی‘ اگرچہ بظاہر اس کا احساس نہیں ہوتا۔ میں اکثر حیرت میں ڈوب جاتی کہ ایک پورا انسان روٹی میں کیسے سما سکتا ہے اور پھر حضرت مسیح بیک وقت مختلف مقامات پر مختلف روٹیوں میں کیسے حلول کر سکتے ہیں جب کہ دنیا میں لاکھوں چرچ ہیں اور ہر چرچ میں بے شمار روٹیاں استعمال ہوتی ہے ۔ یہ بات بڑی بے جوڑ اور مضحکہ خیز لگتی تھی کہ انسان اپنے گوشت اور خون سمیت ایک روٹی کی صورت اختیار کر جائے۔
ذہن جس دوسری بات پر خاصا پریشان ہوتا وہ حضرت عیسیٰؑ کا مصلوب ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی قربانی کا واقعہ بار بار پیش آتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی سوالات تھے جو ذہن میں پیدا ہوتے تاہم میں نے اپنے آپ کو مجبور کیے رکھا کہ چرچ کے عقائد بلاشک و شبہ صحیح و درست ہیں مگر عقل سے ماورا ہیں ۔ ایسے خیالات سے بچنے کے لیے میں نے اپنے آپ پر ایک روحانی سا نشہ طاری کر لیا یعنی زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہتی تاکہ عقل کو مختلف شکوک کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہ ملے نہ اس میں بغاوت کے کیڑے کلبلا سکیں۔ یہ الگ بات ہے کہ میں اپنے آپ کو راسخ العقیدہ کیتھولک نہیں سمجھتی تھی اور اس پر سخت پریشان تھی۔
مگر اپنے آپ کو مصنوعی طورپر مصروف رکھنے کا نشہ دیرپا ثابت نہ ہوا۔ میں کوشش کے باوجود اپنی ذات کو کنواری مریم‘ یسوع یا دیگر بزرگوں کی پرستش پر آمادہ نہ کرسکی۔ کیتھولک لوگ یسوع علیہ السلام کی والدہ کو خدا کی ملکہ اور تمام قوتوں کی ثالثہ قرار دیتے ہیں اور اس کی سفارش کو لازم قرار دیتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ ایک پادری کو دیکھا وہ اسکول کے بچوں کو بتا رہا تھا کہ ایک شخص اگرچہ سخت بدبخت اور گناہ گار تھا لیکن صرف ایک نیکی نے اسے جہنم سے بچا لیا تھا اور یہ کہ متذکرہ آدمی مریم کی پوجا بڑی باقاعدگی سے کرتا تھا۔ میں سوچتی رہ گئی کہ انجیل تو حضرت عیسیٰؑ کو نجات دہندہ قرار دیتی ہے‘ مگر پادری صاحب یہ اعزاز مریم کو بخش رہے ہیں آخر دونوں باتوں میں مطابقت کیا ہے؟
ان ساری ذہنی مشکلات کے باوجود کیتھولک چرچ میں اطمینان کے سامان بھی تھے اور میں بعض اوقات اس ماحول میں خاصی خوشی بھی محسوس کرتی تھی‘ تاہم پورے ایک برس تک میری حالت خاصی گومگو کی سی رہی۔ میری ملاقات پروٹسٹنٹ عقائد کے کچھ لوگوں سے ہوئی جن کی مذہب کے بارے میں گرم جوشی اور خلوص کیتھولک لوگوں سے کم نہ تھا۔ انہوں نے مجھے ایسا راستہ بتایا جو کیتھولک عقائد کا ہوبہو متبادل بھی تھا اور بائبل کی تعلیمات پر مبنی تھا اور جس پر چرچ آف انگلینڈ کا سا ابہام بھی نہیں تھا۔ مگر میں اس امر سے اتفاق نہ کرسکی کہ محض عقیدہ ہی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بہرحال کئی طرح کے شکوک کے باوجود میں رومن کیتھولک عقیدے پر قائم رہی۔
میں اس وقت تک اسلام کے بارے میں کچھ نہ جانتی تھی۔ اخبارات کے مضامین سے صرف اتنی خبر ضرور تھی کہ اسلام غلامی کا قائل ہے اور اب تک عرب ملکوں میں یہ مکروہ کاروبار جاری ہے۔ تعددِ ازدواج کی صورت میں عورت پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں‘ حیوانات کو بے دریغ کاٹ کر کھایا جاتا ہے اور منشیات کی تجارت پر کوئی پابندی نہیں۔ اسکول کے زمانے میں صلیبی جنگوں کے بارے میں بھی پڑھا تھا جن میں مسلمانوں کو پرلے درجے کے سفاک اور بے رحم بتایا گیا تھا۔
ان سارے تعصبات کے باوجود میں نے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عقائد کے درمیان قلب و ذہن کی کھینچا تانی نے میرے اعصاب کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا اور میں بیمار رہنے لگی تھی۔ حل صرف ایک ہی تھا کہ میں جلد از جلد صداقت کو پا لوں اور یکسوئی حاصل کروں۔ اس کے لیے میں نے قرآن کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے خدا سے صراطِ مستقیم کی دعا کی‘ پھر فرض کر لیا کہ میں دور کے کسی سیارے کی مخلوق ہوں‘ عیسائیت کے بارے میں کچھ جانتی ہوں نہ اسلام کے بارے میں‘ ذہن میںجتنے تعصبات تھے وہ جھٹک دیے اور راہِ حق کو پانے کے لیے قرآن کے مطالعے میں محو ہو گئی۔
میں نے قرآن کی صورت میں بلاشبہ ایک متبادل تو پالیا مگر ذہن مختلف سوالوں سے بھر گیا۔ کیا واقعی یہ خدا کی طرف سے وحی ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذریعے سے بائبل کی تاریخی کہانیوں کو سنا اور خدا کے حوالے سے اپنے الفاظ میں بیان کر دیا؟ (خدا مجھے معاف کرے)
ان بے ہودہ سوالات کے جواب کے لیے میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں جاننے کی ضرورت محسوس کی اس کے لیے میں نے مسلم اور غیر مسلم مصنفین کی کتابیں حاصل کیں۔ پتا چلا کہ انہوں نے کسی انسانی ذریعے سے یہودی اور عیسائی تاریخ کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ پڑھنا لکھنا جانتے ہی نہ تھے۔ اس لیے انہوں نے براہِ راست بائبل کا مطالعہ بھی نہیں کیا تھا۔ اب اگر فرض کیا جائے کہ انہوں نے قرآن کی ساری معلومات یہودی اور عیسائی علما سے معلوم کی تھیں تو یہ ناممکن ہے کہ زبانی گفتگو کو اتنی شرح و بسط سے یاد رکھا جائے اور پھر انہیں کتابی صورت میں مرتب بھی کر لیا جائے۔ فرض کیا اگر یہ صورت ممکن بھی ہوتی تو یہ کھیل دوسرے لوگوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا تھا اور پھر خود یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے قرآن کی مخالفت بالکل بے تکی حرکت تھی۔ دراصل کچھ لوگوں نے اس طرح کے الزامات عائد کرنے کی کوشش بھی کی مگر کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے یہ الزامات دم توڑ بیٹھے۔
بہرحال مکمل اطمینان ہونے پر میں نے اسلام قبول کر لیا اور اس پر خدا کا شکر ادا کرتی ہوں۔