کئی سال قبل ایشیا فائونڈیشن نے ترقی پذیر ممالک میں ایک پروگرام شروع کیا جس کے تحت نیم خواندہ افراد کو غذائی اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کرنا مقصود تھا۔ اس پروگرام میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا اور میں نے کراچی اور حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں جا کر لوگوں کو صحت اور غذا کے تعلق کے بارے میں بتایا۔ اسی پروگرام میں ایشیا فائونڈیشن کے پروجیکٹ ڈائریکٹر مسٹر اینڈ مسز ڈیوڈپیٹ بھی آئے ہوئے تھے۔ یہ میاں بیوی بہت سے ملکوں کا دورہ کرکے کراچی پہنچے تھے۔ مسٹر ڈیوڈ نے اپنی تقریر میں کہا:
’’جب ہم ائرپورٹ سے ہوٹل روانہ ہوئے تو راستے میں پھلوں اور سبزیوں کی کئی دکانیں نظر جن میں قسم قسم کے تازہ پھل اور سبزیاں رکھی ہوئی تھیں۔ انہیں دیکھ کر ہمارے ذہن میں خیال پیدا ہوا کہ اس ملک میں امراض کا تناسب بہت کم ہوگا۔ جہاں اتنی زیادہ سبزیاں اور پھل میسر ہوں‘ وہاں خون کی کمی‘ ضروری حیاتین اور معدنیات کی کمی اور اسی نوعیت کے امراض کا تو وجود ہی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جب ہم نے یہاں کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور لوگوں کا مشاہدہ کیا تو اندازہ ہوا کہ ہمارا خیال غلط تھا۔ اپنے ساتھیوں سے ہم نے اس ضمن میں گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ یہاں سبزیاں اور پھل پیدا تو بہت ہوتے ہیں لیکن ان سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاتا مثلاً پکاتے وقت حیاتین اور ضروری اجزا کا ضائع ہوجانا‘ کھانے میں لاپروائی‘ ضروری غذائی اجزا کی اہمیت سے ناواقفیت‘ سبزیاں کھانے سے عدم رغبتی‘ قوت خرید کی کمی وغیرہ۔‘‘
مسٹر ڈیوڈ پیٹ کے اس بیان کو سن کر مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ فی الواقع سبزیوں کو باقاعدگی سے استعمال نہ کرکے ہم قدرت کی کتنی بڑی نعمتوں سے محروم ہیں۔ آج کل بوڑھے تو دور کی بات‘ نوجوانوں اور خصوصاً نوجوان لڑکیوں میں صحت سے متعلق جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں مثلاً بھوک نہ لگنا‘ جلد کی رنگت کا پھیکا ہونا‘ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کا پیدا ہوجانا‘ تھوڑی سی محنت مشقت سے تھک جانا۔ ان تمام مسائل کا واحد سبب یہی ہے کہ غذا کی طرف سے ناواقفیت یا لاپروائی کی وجہ سے بے احتیاطی برتی جاتی ہے اور اس ضمن میں ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ صحت مند اور طاقت ور بننے کے لیے زیادہ سے زیادہ گوشت کھانا ضروری ہے۔ کیوں کہ انسان کا جسم بھی گوشت پوست سے بنا ہوا ہے اور یہ کہ زیادہ گوشت کھانے سے آدمی بہادر بن جاتا ہے‘ حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
ذیل کی سطور میں ہم یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ صحت مند اور توانا رہنے کے لیے ہمیں محض گوشت کا نہیں بلکہ سبزیوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں بڑی دل چسپ اور معلوماتی تحقیق کی گئی ہے جس کے نتیجے میں انکشاف ہوا ہے کہ انسان بنیادی طور پر سبزی خور ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ لاکھوں کروڑوں سال قبل جب انسان کی تخلیق ہوئی تھی تو وہ پھلوں اور سبزیوں پر گزارہ کیا کرتا تھا۔ ضرورت کے تحت یا مجبوراً وہ کبھی کبھار گوشت کھا لیا کرتا تھا‘ لیکن اس کی روزانہ کی خوراک سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل تھی۔
جوں جوں آبادی بڑھتی گئی یا موسم تبدیل ہوا تو انسان نے ان علاقوں میں منتقل ہونا شروع کیا جو برفانی یا ریگستانی تھے اور جہاں ہر موسم میں سبزیوں یا پھلوں کا ملنا ممکن نہ تھا۔ اس طرح انسان کی غذائی عادتوں میں تبدیلی آنے لگی اور اس نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے جانوروں کا شکار کرنا شروع کر دیا اس سلسلے میں آگ نے اس کی بڑی مدد کی اور آگ کے ذریعے اس نے گوشت کو کھانے اور ہضم کرنے کے قابل بنایا۔ انسان کچا گوشت بڑی مقدار میں کھا نہیں سکتا تھا اس لیے اس نے اسے آگ پر پکا لیا۔ اس طرح گوشت کی چربی پگھل گئی اور ریشے گل کر ٹوٹنے کے قابل ہو گئے۔ انسانی دانت پکے ہوئے گوشت کو آسانی سے چبا لیتے اور معدہ اسے سہولت کے ساتھ ہضم کر لیتا۔ یوں گوشت کا ذائقہ بھی بہتر ہو گیا۔
اگر ہم جانوروں کے منہ اور دانتوں کی بناوٹ پر غور کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ جو گوشت خور جانور ہیں ان کے سامنے کے دانت نوکیلے ہوتے ہیں۔ جو گوشت کو تیز قینچی کی طرح کاٹ کر باریک کرسکتے ہیں۔ اس طرح کٹے ہوئے گوشت کو ان کا معدہ آسانی سے ہضم کر لیتا ہے۔ اس قسم کے جانوروں میں غذا ہضم ہونے کا عمل منہ کے بجائے معدے سے شروع ہوتا ہے اسی لیے وہ گوشت کی بڑی مقدار نگلتے چلے جاتے ہیں۔ دوسری جانب سبزی خور جانوروں کے سامنے کے دانت ہموار ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ غذا کو چباتے اور پیستے ہیں۔ اس دوران غذا کے ساتھ لعاب دہن بھی شامل ہوجاتا ہے۔ یوں غذا ہضم ہونے کے پہلے مرحلے کا آغاز منہ ہی میںہو جاتا ہے۔ یہ نظام گائے بھینسوں اور بکریوں وغیرہ میں نظر آتا ہے اور دیکھا جائے تو قدرت نے انسان کے دانت بھی اسی انداز کے بنائے ہیں۔ انسانی دانتوں کی ساخت اور چباتے وقت جبڑوں کی حرکات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ قدرت نے انسان کو بنیادی طور پر سبزی خور بنایا ہے۔ یوں تو انسان اپنے دانتوں کی مدد سے ہر قسم کی چیز چبا لیتا ہے لیکن منہ کی بناوٹ اور جبڑوں کی حرکات کے اعتبار سے وہ سبزی خوروں سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے۔ گوشت خور جانورں کی جبڑے غذا کو چباتے ہوئے عمودی طور پر یعنی اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں جب کہ سبزی خوروں میں‘ جن میں انسان بھی شامل ہے‘ جبڑوں کی حرکت عمودی اور افقی یعنی اوپر نیچے اور دائیں بائیں دونوں طرح ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ گوشت خور جانوروں کے منہ کی اندرونی جانب لعاب بنانے والے غدود (سیلیویری گلینڈز) نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں غذا ہضم ہونے کا عمل منہ کے بجائے معدے سے شروع ہوتا ہے جبکہ انسان سمیت دیگر سبزی خور جانداروں کے منہ کی اندرونی جانب لعاب بنانے والے غدود ہوتے ہیں۔ جب انسان غذا چباتا ہے تو ان غدود سے لعاب خارج ہوتا ہے جو غذا میںمل کر اسے سادہ مرکب میں توڑنے یعنی ہضم کرنے کے عمل کا آغاز کر دیتا ہے۔
سبزی خوری اور گوشت خور جانداروں کی آنتوں کی لمبائی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سبزی خور جانداروں کی آنتیں ان کے جسم کی مناسبت سے زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔ انسان کا بھی یہی حال ہے۔ چنانچہ انسان سبزی خور جانداروں سے زیادہ قریب ہے۔ ماہرین نے اس سلسلے میں گوریلے (بن مانس) کی مثال پیش کی ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ گوریلے کے اندرونی جسمانی نظام کی تصویر لی جائے تو یہ پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ انسانی جسم کی تصویر ہے یا گوریلے کے جسم کی۔ دونوں کی غذائی عادات کا موازنہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ گوریلے کو سبزی خور جانداروں ہی میں شمار کیا جاتا ہے۔ جو یوں تو زیادہ تر پھل اور سبزیاں بھی کھاتا ہے لیکن کبھی کبھار انڈے‘ کیڑے مکوڑے‘ گرگٹ کی نسل کے جانور یا اسی طرح کے چھوٹے جانوروں کو بھی اپنا لقمہ بنا لیتا ہے۔
ایک امریکی سائنس دان نے اس ذیل میں تحقیق کرتے ہوئے برقیاتی خردبین (الیکٹرون مائکرو اسکوپ) استعمال کی اور کھدائی کے دوران میں برآمد ہونے والے ڈھانچوں کے دانتوں اور زندہ انسانوں کے دانتوں پر پڑنے والے نشانات کا غور سے جائزہ لیا۔ یہ بات واضح ہے کہ انسان جس طرح کی غذا کا استعمال کرے گا‘ اس کے دانتوں پر اسی قسم کے نشانات پیدا ہوں گے اور اسی قسم کے نشیب و فراز رونما ہوں گے۔ سائنس دان نے تحقیق کے بعد خیال ظاہر کیا کہ چالیس لاکھ سال قبل انسان سبزی خور تھا۔
آپ نے اکثر محسوس کیا ہوگا کہ اگر گوشت سے تیار شدہ غذا کھا لی جائے تو معدہ شدید گرانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسی غذا کے استعمال سے سستی اور غنودگی بھی طاری ہو جاتی ہے لیکن اگر سبزی سے تیار شدہ کھانا زیادہ مقدار میں کھا بھی لیا جائے تو معدے میں گرانی اتنی نہیں ہوتی۔ ماہرین کی تحقیق کے مطابق اگر پودوں سے حاصل شدہ 100 گرام لحمیات (پروٹین) کھائی جائے تو اسے ہضم کرنے کے لیے 0.25 گرام تیزاب درکار ہوتا ہے جو دو گھنٹے میں اسے ہضم کر دیتا ہے اس کے مقابلے میں اگر حیوانات سے حاصل شدہ 100 گرام پروٹین کھائی جائے تو اسے ہضم کرنے کے لیے معدے کو 0.50 گرام یعنی پہلے کی مقدار سے دگنی مقدار میں تیزاب تیار کرنا پڑتا ہے اور یہ پروٹین ساڑھے تین گھنٹوں میں جا کر ہضم ہوتی ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ سبزی خور لوگ معدے اور آنتوں کے زخم (پیپٹک السر) کا بہت کم شکار ہوتے ہیں جب کہ گوشت زیادہ استعمال کرنے والے اکثر لوگوں کویہ شکایت رہتی ہے اس سے ثابت ہوا کہ معدے اور آنتوں کے زخموں اور گوشت خوری کے دوران کوئی تعلق ضرور ہے اور یہ بات واضح ہے کہ گوشت کو ہضم کرنے کے لیے معدے کے غدود زیادہ تیزاب پیدا کرتے ہیں۔
سبزی خور حضرات پر مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ سبزی خور لوگ اور ویجنس (ایسے سبزی خور جو جانوروں سے حاصل ہونے والی کوئی بھی غذا مثلاً دودھ‘ گھی‘ بالائی یا انڈے استعمال نہیں کرتے) گوشت خور افراد کے مقابلے میں پتلے ہوتے ہیں۔ ان کی عمر کسی قدر زیادہ ہوتی ہے اور انہیں نظام ہضم سے متعلق اور کمزور کرنے والی بیماریاں کم ہوتی ہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سبزی خور افراد میں مرارے (گال بلیڈر) میں پتھریوں کا تناسب گوشت خور افراد کے مقابلے میں نصف ہے۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ گردے میں بننے والی پتھریوں کا تعلق جانوروں سے حاصل ہونے والی پروٹین کے ہضم ہونے سے ہے۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ زیادہ عمر میں پیدا ہونے والی ذیابیطس‘ سبزی خوروںمیں کم دیکھنے میں آتی ہے۔ اسی طرح آنتوں کے کینسر‘ بلڈ پریشر‘ فالج‘ دل کے امراض‘ دانتوں کی خرابیاں‘ بواسیر‘ ورید دوالی (خراب خون لے جانے والی نالیوں کا پھول کر نمایاں ہوجانا) اور اسی طرح کے بہت سے امراض کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ سبزی خور افراد میں ان امراض کا تناسب کم ہوتا ہے۔
ایک امریکی ڈاکٹر کہتے ہیں ’’میں پودوں اور درختوں سے حاصل ہونے والی غذا کا اس وقت قائل ہو گیا جب سے انجائنا ۰دل میں درد) میںمبتلا چار مریض صرف غذائی تبدیلی سے مکمل طور پر صحت یاب ہو گئے۔ انہوںنے صرف پودوں اور درختوں سے حاصل ہونے والی غذا استعمال کی جس میں کولیسٹرول نہیں تھا اور صرف ایک ماہ بعد ان کا درد رفع ہو گیا۔‘‘ ایک اور مریض کو پندرہ سال سے انجائنا کی تکلیف تھی اور اگر وہ سو میٹر بھی چلتے تو ان کے سینے میں شدید درد ہونے لگتا تھا۔ انہیں ایسی غذا استعمال کرنے کو کہا گیا جو جانوروں سے حاصل نہ کی گئی ہو۔ ایک ماہ تک ایسی غذا استعمال کرنے کے بعد مریض کے سینے کا درد جاتا رہا اور انہوں نے اپنے اندر حیرت انگیز تبدیلی محسوس کی۔ چار ماہ بعد وہ روزانہ چار میل پیدل چلنے لگے۔ ان کا وزن بیس پونڈ کم ہو گیا اور ان کا بلڈ پریشر 55 درجے کم ہو گیا۔ ایک اور مریض جن کا وزن بہت بڑھا ہوا تھا اور پیر کی وریدیں پھول جانے کی شکایت بھی تھی‘ جب انہوں نے سبزیاں کھانا شروع کیں تو صرف تین ہفتے بعد وریدوں سے متعلق ان کی شکایت بڑی حد تک دور ہو گئی اور ان کا وزن بھی نمایاں طور پر کم ہو گیا۔
ان حقائق اور مشاہدات کے پیش نظر ہونا تو چاہیے کہ انسان کی غذا زیادہ تر سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل ہو لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہم بہت حد تک گوشت پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی قدر دودھ اور مکھن استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھار اتفاق سے سبزی پک جاتی ہے یا پھل کھا لیے جاتے ہیں۔ کچھ گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں سبزیوںکا داخلہ ممنوع ہے۔ اگر اتفاق سے کبھی سبزی پک بھی جائے تو کم از کم بچے اسے ہاتھ نہیں لگاتے سبزی کو یوں بھی ادنیٰ اور حقیر سمجھ کر اس سے دور رہنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یقین نہ آئے تو اپنے کسی دوست کی دعوت کیجیے اور صرف سبزیاں پکا کر ان کے سامنے رکھ دیجیے۔ وہ دن آپ کے اور ان کے اچھے تعلقات کا آخری دن ثابت ہوگا۔ بڑی بڑی دعوتوں میں سبزیوں کو میز کی سجاوٹ کے لیے ضرور استعمال کر لیا جاتا ہے۔
پاکستان کے ان علاقوں میںجہاں لوگ کچی سبزیاں پابندی سے کھاتے ہیں‘ صحت کا عمومی معیار بہت اچھا ہے اور یہاں کے باشندے دیگر علاقوں کے گوشت استعمال کرنے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ زیادہ محنت مشقت کر سکتے ہیں اور زیادہ جفاکش ہوتے ہیں۔
سبزیوں کو پکانے کے طریقوں کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ انہیں زیادہ دیر تک پانی میں رکھنے یا بہت زیادہ دھونے سے ان کی ضروری نمکیات اور اہم غذائی اجزا پانی میں حل ہو کر ضائع ہو جاتے ہیں پھر انہیں ابال کر ان کا پانی پھینک دیا جاتا ہے یا اتنی دیر پکایا جاتا ہے کہ ان کے حیاتین ختم ہو جاتے ہیں۔ سبزیوں کو اس طرح پکانا چاہیے کہ ان کی لذت اور غذائیت دونوں برقرار رہیں۰
ترقی یافتہ ملکوں میں ماہرین اس بات پر تحقیق کرتے رہتے ہیں کہ ان کے ہاں لوگوں کی صحت کا معیار کیسا ہے اور اگر کبھی وہ محسوس کرتے ہیں کہ عمومی صحت متاثر ہو رہی ہے تو وہ اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور چند سال پیشتر انگلستان کے ماہرین نے محسوس کیا کہ ان کے ہاں لوگوں کے دانت لمبے نظر آنے لگے ہیں۔ تحقیق پر پتا چلا کہ دانتوں کو برش درست طریقے سے نہیں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے فوری طور پر اس کی اصلاح کی۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ملکوں میں لوگوں کی صحت کا معیار بلند کرنے کے لیے سبزیاں زیادہ سے زیادہ کھانے پر زور دیا جائے تو نتائج خاصے حوصلہ افزا برآمد ہوں گے۔
دراصل انسان کو قدرت نے ایسا سبزی خور بنایا ہے جو بوقت ضرورت گوشت بھی کھا سکتا ہے۔ وہ اپنی غذا کو اپنی جسمانی ساخت کے جس قدر مطابق رکھے گا اس کی صحت اتنی ہی اچھی رہے گی۔