ویسے تو پاکستان پر انسانی شکل میں کئی خوف ناک ، خون پینے ، نچوڑنے، جمانے، گوشت بلکہ ہڈی تک چبا جانے والے عفریت 75 سال سے مسلط ہیں۔ یہ عفریت انسانی لبادے اوڑھے ہیں اور اپنی بھرپور کرپشن، بد انتظامی، نااہلی، خود غرضی، جھوٹ ،غلامی میں ہمیں دھکیلے ہوئے ہیں۔ ان سے پاکستان کو نجات نہیں مل پا رہی بلکہ صرف شکلیں ہی بدلتی رہتی ہیں۔ خدا کرے کہ ان سے جان چھوٹے اور اہل پاکستان، حقیقی نہ سہی قدرے آزادی کا ہی سانس لے سکیں۔یہ وہ والی آزادی نہیں جس کو دلانے والی ایک ’عفریت‘ کالانگ مارچ تادم تحریر 3 جانیں سفر ہی سفر میں لے چکا ہے یہ تو آپ جانتے ہونگے،پھر بھی ٹرینڈ کامران شاہد کے خلاف بنا۔کراچی میں بلدیاتی انتخابات کو جس طرح بلڈوز کیا جا رہا ہےاور دھڑا دھڑ ضمنی انتخابات کرائے جا رہےہیں، یہ کراچی کے 3 کروڑ عوام کی ہڈیاں چبانے کی بہترین مثال ہے۔گذشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں ہڈیوں کے ڈاکٹرز کی کانفرنس ہوئی جس میں انہوں نے بتایا کہ کراچی کی تباہ حال سڑکوں کی وجہ سے موٹرسائیکل سوار افراد میں کمر او ریڑھ کی ہڈی کے درد کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اب آپ اس مثال سے عفریتوں کے ہڈیاں چبانے کے عمل کو با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔اِسی طرح ماہرین دماغ واعصاب نے بتایا کہ کچرے ،دھوئیں و فیکٹریوںسے پیدا شدہ آلودگی سے جو زہریلی ہوا لوگ لینے پر مجبور ہیں اس سے فالج و دل کے مریض بڑھ رہے ہیں یوں خون جمانے کی مثال سمجھ آگئی ہوگی۔ویسے آپس کی بات ہے کہ ہم بھی اپنے عفریتوں کے اعمال بدکے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ اب ہمیں دودھ میں پانی ملانے پر تو خوب خیانت، چوری، ملاوٹ ، حرام خوری یاد آتی ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ پانی کوئی زہر نہیں ، مگر تازہ صاف ہوا میں آلودہ زہر ملانے پرہمیں یہ خیانت کے بجائے ترقی، جدید دور کے تقاضے، ضرورت لگتی ہے ، یوں امراض دل و فالج کے ڈاکٹروں کا دھندہ بھی چلتا رہتا ہے۔
مگرہم آج بات کریں گے اصل کےبجائے فرضی عفریتوں کے بارے میں ۔ ان فرضی بھوتوں ، چڑیلوں، ویمپائروں، کو اپنے اندر جگہ دینے کا سلسلہ ’’ہیلوئین ‘‘کی گونج کمرشل سرگرمیوں کے کندھوں پراب پاکستان میں مستقل پھیلتا جا رہا ہے۔آپ ایمازون و دراز کے ذریعہ سب کچھ منگوا سکتے ہیں۔ ان کی ویب سائٹ پر ’اپریل فول ڈے پراپس‘ سے لیکر ’ہیلوئین کاسٹیوم برائے مرد، خواتین، لڑکے ،لڑکیاں، بچے، ‘ سب دستیاب ہے۔
سعودی عر ب کے وژن 2030کے مطابق 27-30اکتوبر کو ریاض کے ایک علاقے میں منعقدہ ’ہیلوئین‘ کی اس تقریب کے سوشل میڈیا بلکہ تمام میڈیاپر بڑے چرچے رہے۔کہنے کو تو یہ خالص کمرشل سرگرمی بن چکی ہے، مگر اس کا اظہار خالص شیطانی ہے۔شیطانی ان معنوں میں کہ انسان ایک ایسی عفریت کا روپ دھارتا ہے جس کو وہ خود شیطانی جانتا ہے۔ان میں اب زیادہ تر ہالی ووڈ کی مشہور ’ہاررفلموں ‘کے کردار لیے جاتے ہیں۔سعودی عرب میںپچھلے سال 2021 میں بھی یہ عمل اجازت کے ساتھ کیا گیا۔اس سے قبل کورونا تھا اور کورونا سے قبل یہ پہلی بار ریاض میں 2018 میں ہوا جہاں مقامی پولیس نے چھاپہ مار کر ایونٹ ختم کرایا تھا۔مگر اب 2022 میں یہ اجازت کے ساتھ ریاض شہر کے ایک مخصوص علاقے میں منعقد کیاگیا۔نیو یارک ٹائمز نے ایک سعودی صارف کی زبانی صاف لکھا کہ ’ایک وقت تھا کہ سعودیہ میں ہیلوئین کا مطلب گرفتاری تھا مگر اب، حکومت کے زیر اہتمام “ہارر ویک اینڈ” کا مطلب ملبوسات کی دکانوں کی لوٹ سیل اور ہر طرف خوفناک مسخرے ۔‘ (اشاعت 29-10-2022 )۔ اس ایونٹ کی سوشل میڈیا پر آپ نے ڈھیروں تصاویر شاید دیکھی ہوں مگر میں با ت سمجھانے کے لیے سعودی عرب کی ایک دکان کی تصویر لگا رہا ہوں تاکہ اس ایک تصویر سے بہت کچھ بات سمجھ آسکے۔ تصویر بغور دیکھیے گا۔لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ ایک انٹرٹینمنٹ، تفریح ہے ، ہم تو صرف اپنے پسندیدہ خوفناک فلمی کردار کا روپ دھارتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں، فوٹو بناتے ہیں۔ مگر کیا یہ صرف اتنی سی بات ہے؟
اچھا اب پہلے یہ جان لیں کہ سعودیہ یا کسی بھی ملک میں اسلامی یا غیر اسلامی ملک کے اندر کسی عمل کا ہونا اس کے جائز ہونے کا جواز نہیں ہو سکتا کہ یہ پیمانہ ہی نہیں ہے ۔ یہ ایونٹ ترکی میں کس منظم انداز سے ہوتا ہے ، اس کا میں اجمالی ذکر بھی کردوں تو آپ کو سعودیہ والا ایونٹ بہت با حیا‘لگنے لگے گا۔تو اس لیے کسی عمل کو لاکھوں لوگ اختیار کرلیں تو وہ اس کے جائز ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتا ، جیسے سود، خنزیر ،شراب کروڑوں لوگ کھاتے ہیں،مسلم و غیر مسلم سب کے سب مگر مجال نہیں کہ اس کو حلال قرار دے لیں۔
اللہ پاک قرآن مجید میں صاف حکم دیتا ہے کہ ’’پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔‘‘ یہ شیطان کے ساتھیوں کا ذکر ، اس کے ساتھیوکا ذکر اشاروں میں نہیں ہے بلکہ یہ واقعی وجود رکھتے ہیں۔میں پہلے کی کئی تحاریرمیں حوالوں کے ساتھ بتا چکا ہوںامریکا کے شہر سان فرانسسکو میں ’شیطان کا چرچ ‘کے نام سے یہ کام کر رہا ہے۔ان کی اپنی غلاظت، گندگی اور انتہائی کراہیت بھری رسوم ہوتی ہیں۔ ان میں سے اب ایک ’ہیلوئین ‘ بھی شمار کرلی گئی ہے۔جسے نادان لوگ عیسائی تہوار کہہ کر پیش کر رہے ہیں۔
گذشتہ سال لاہور کے ایک ایلیٹ سکول میں 31اکتوبر کو “ہیلوئین ” کی تیاری کی ہدایات ’زلزلے کے جھٹکوں ‘کی صورت وائرل ہوئی ۔مگر نامعلوم کیوںگزار دی گئی، یہ پہلی نہیں تھی ،2015-2019 کے درمیان بھی ایلیٹ و لبرل کلاس تعلیمی اداروں میں ہوتی رہیں۔مگر ان سب کے باوجود یقین مانیں ، ہماری معاشرت بحیثیت مجموعی اب بھی بہت محفوظ ہے ، اب بھی 95 فیصد عوام میں تصور خیر و شر موجود ہے ، ہاں رہنمائی نہیں ہے، شاید اس لیے کہ دینی جماعتیں اپنی ترجیحا ت میں مگن ہیں۔مجھے اس کا عملی تجربہ یوں ہوا کہ پچھلے ہفتہ سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ چلی ۔کراچی میں پی ای سی ایچ ایس کے ایک بڑے ہال میں 2000 روپے کا ٹکٹ رکھ کر ہیلوئین ۔ ڈانس پارٹی کے عنوان سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایونٹ رکھا گیا۔پوسٹ کے نیچے نوجوانوں کی جانب سے سخت بے چینی و اضطراب نمایاں تھا ۔
کسی نے ان کو کمنٹ کر دیا کہ جلن کڑھنے سے کیا ہوگا ، جاؤ ہمت دکھاو اور پروگرام کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالو کہ یہی کافی و شافی علاج ہے ۔ان کو یہ لگا کہ یہ ایونٹ تو ان کی ایمانی غیرت کے لیے سوال بن گیاہے ۔پوسٹ میں جگہ اور وقت اسی لیے پوشیدہ رکھا گیا تھا۔ بہرحال انہوں نے رابطہ کیا ، ٹکٹ لینے بہانے تفصیل نکلوا لی۔اب انہوں نے نجی سطح پر اہل ایمان کو صدا لگائی اور نکلنے کی معاونت چاہی۔مقررہ دن پر کچھ گھنٹے قبل اپنی تیاری کے ساتھ پہنچے، مقامی مسجد میں نماز پڑھی ، اللہ سے دعا کی اور امام مسجد سے بات کی۔ مقامی مسجد کے امام ان کے ساتھ کھڑے ہوگئےایک اور صاحب آگئے۔یہ ہال مالک کے پاس گئے اور اپنے ـ’خاص ‘ طریقے سے سمجھایا۔چونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اہل ایمان حق پر ہونگےتو کم بھی ہونگے تو وہ برکت ڈالے گا۔بدر کے میدان سے آج تک رب کائنات کا وعدہ ویسا ہی پورا ہوتا رہا ہےمگر’ان کے رب نے ایمان میں بڑھوتری دی‘، وہ اپنے کام کاج چھوڑ کر گھروں سے نکلے ،پاؤں غبار آلود کیے اور اپنی استطاعت میں بھرپور قسم کا رد عمل دیا۔اس رد عمل نے ہمیشہ کی طرح اہل ایمان کا خوف پیدا کرڈالا، پروگرام آرگنائزر اپنے مالی نقصان پر بہت چلایا ، دھمکیاں دی،مگر یہ ڈٹے رہے۔ہال مالک نے پروگرام کینسل کر دیا۔نوجوانوں کی تعداد شرکت کےلیے پوری تیاری سے آرہی ہے اور سڑے سڑے منہ بنا کر واپس جا تی رہی۔ اسی رات ان کو معلوم ہو اکہ بحریہ ٹاؤن میں بھی یہ شیطانی سرگرمی ہو رہی ہے ۔اگلے دن انہوں نے وہاں کا رخ کیا۔مگر پہلے متعلقہ حکام تک خوب میسیج چلائے ، اہل ایمان کو متوجہ کیا۔ یقین مانیں ، ان کو خود لوگ ملتے چلے گئے۔ وہاں پہنچ کر بحریہ کی مسجد میں نماز پڑھی ، امام مسجدسے ملاقات کی ، وہ ساتھ چلنے پر آمادہ ہوگئے ۔ اس سے قبل متعلقہ سیکورٹی و انتظامیہ کے عہدیداران تک میسیجز کی بھرمار کی جا چکی تھی، میڈیا کو بھی مطلع کیاگیا، جوبحریہ کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتا ہے ، اس لیے ان کو معلوم تھا کہ میڈیا خبر بےشک نہ چلائے،مگر انکو متنبہ ضرور کرےگا ۔یوں جب بحریہ کے کارنیول پہنچے تو ایونٹ کا نام و نشان نہیںملا۔یہ دوسری مثال تھی۔ اب ہوا یہ کہ ایک ایونٹ سے نکلتے تودوسرا سامنےآجاتا ۔ اب کی بار افسوس و شرم یوں آئی کہ پاک فضائیہ شیطانی سرگرمیوں کا مال کھا تی نظر آئی ۔ 6 نومبر تک پی اے ایف میوزیم میں ونٹرلینڈ یہ سرگرمی کروا رہا تھا ۔اس کو تجارتی ٹھیکہ دے کر یوںدین، مذہب، اقدار، مسلم معاشرت، روایات سب کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے۔میں نے پاک فضائیہ کے افسر تعلقات عامہ سے بات کی، انکو معلوم ہی نہیں تھا، مگر انہوںنے سنجیدگی سے بات سنی اور مکمل حمایت کی ۔مگر تادم تحریر 72گھنٹے گزر گئے کوئی پیش رفت نہیں نظر آئی۔سمجھنا یہ ضروری ہے کہ شیطان کی تعظیم کے لیے سرگرمیوں کا انعقاد کرکے کس کو خوش کر رہے ہیں؟کوئی بتائےگاکہ مصنوعی کیمیکل والی جعلی سردی کا مزہ لینے والے عوام کو شیطان کی تعظیم کا پروگرام کیوں کس کے ایماء پر دیا جا رہا ہے؟عوام سوال کر رہے ہیں؟عوام سوال کریں گے؟غصہ ہے عوام کا؟کس شکل میں نکلے گا کون جانے؟یہ تو وہ ایونٹ ہیں جو ظاہر ہوگئے،اسکے علاوہ نجی اسکولوں و جامعات الگ ہیں۔فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جو ہوئی وہ الگ۔جو فارم ہاوسز و بنگلوں میں جو نجی محافل میں ہوئی وہ الگ۔ ان میں ایک ایونٹ ایسا بھی ہواجس میں بطور بھوت یا شیطان،یاوراقبال نامی اداکار نے عمران خان کی اہلیہ کا روپ دھارامطلب بطور شیطان متعارف کرایا۔ یہی نہیں تضحیک آمیز کمنٹ بھی کیے۔ خیر اس کو تو ’یوتھیے‘ لپیٹ دیں گے، اپنے طریقے سے مگر اس میں درحقیقت شعائر اسلامی کا مذاق اڑایا گیا تھا۔
’’ہیلوئین‘‘ درحقیقت عیسائیت سے بھی قبل کا عمل ہے۔ ایک خدا کا تصور نہ رکھنے والے توہم پرستوںکے بنائے مذہب کا تہوار ہے۔یہ سمجھتے تھے کہ مرے ہوئے لوگ بھوت بن کر اس رات آتے ہیں ،یوںان سے بچنے کے لئے یہ کچھ تعظیمی عمل کرتے ہیں، جن کی اصلا ً عیسائیت میں بھی کوئی حقیقت نہیں ۔ عیسائی مذہب میں بھی مخلوق کا واضح تعین ہے اور ایسی کسی مخلوق کا تصور نہیں ۔یہ خالص شیطانی تصور ہے ،یہ لوگ مبینہ بدروحوں کے لئے کھانے کا سامان بھی باہر رکھتے تھے تاکہ بدروحیں انہیں تنگ نہ کریں۔بعد ازاں غالب مذہب عیسائیت نے قدیم لوگوں کو سمونے کے لیے ان کے تہواروں کی شکل کو اپنے مذہب کی گنجائش کے مطابق تصورات تبدیل کرکے جگہ دی ۔جو شکلیں بگڑتی بگڑتی ایسی ہوگئی۔کہاجاتا ہے کہ 9 ویں صدی میں، کیتھولک چرچ نے عیسائیت میں پیوند کاری کرتے ہوئے ،نئے کلچر کو داخل کرنے کی غرض سے 1 نومبر کوAll Saints Day اور 31 اکتوبر AllHalloween Eveبنا دی۔آئرش لوگ یہ تہوار لیکر 19 وی صدی میں امریکہ آئے ،اس وقت بھی روایتی عیسائیوں نے اس تہوار کی شدید مخالفت کی جو آج بھی جاری ہے کہ اس تہوار کا عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں۔یہ تو تھی عیسائیوں کی غیرت کہ وہ آج بھی اس کی مذمت کر رہے ہیں، مگر غیر ت مسلم ؟؟ ایک نو مسلم کی وڈیو دیکھنے کو ملی جس میں وہ افسوس کرکے سوال اٹھا رہا تھا کہ ’’میں تو یہ سب چھوڑ کر ہی دائرہ اسلام میں آیا تھا‘‘؟
اس لیے یاد رکھیں اللہ نے اپنے محبوب نبی ﷺ کو صاف ہدایت فرمائی کہ باطل کی جانب معمولی سا بھی میلان نہیں رکھنا۔(حوالہ سورۃ بنی اسرائیل 78 ۔) اسکا انجام ایسا ہی ہوتا ہے ۔یہ کوئی ایک ایونٹ نہیں ہے ،یہ پاکستان میں شروع ہوا ’کرسمس ‘کے ’سافٹ امیج ‘والے اور مشرف کی ’اینلائٹمنٹ ماڈیریشن‘ کے کندھوں پر سوار ہوکرپہنچا ہے۔اسی سافٹ امیج کے نام پر ہم نے کیا کچھ نہیں آنے دیا ۔ذرا غور کریں فادر ڈے، مدر ڈے، ٹیچر ڈے ، ارتھ ڈے، جیسے دنوں کی جامع گنجائش نکالی تو اُن کے پیچھے ’ویلنٹائن ‘ بھی آہی گیا اور اب’ ہیلوئین ‘بھی آئے گا۔ چیک کرلیں ، یہی ترتیب رہی ہے ۔ اب سمجھ آیا کہ اللہ نےکیوں باطل کی جانب ذرا برابر بھی مائل ہونے سے سخت منع کیا ہے ۔
nn