حاکمیت الہیٰ سب سے پہلے اپنے گھر میں قائم کرنا چاہئے

808

جامعۃ المحصنات کی چیئر پرسن تحسین فاطمہ سے جسارت میگزین کی گفتگو

جسارت میگزین: اپنے گھریلو اور تعلیمی پس منظر کے بارے میں بتائیں۔

تحسین فاطمہ: میرے والد کا تعلق الٰہ آباد اور والدہ کا تعلق آگرہ سے تھا۔ ہماری دادی بڑی نیک خاتون تھیں۔ والدین بھی دین سے محبت رکھنے والے تھے۔ ہم تین بہنیں اور چار بھائی تھے۔ میری پیدائش 12 اگست 1946ء کو الہٰ آباد میں ہوئی۔ فروری 1948ء میں ہمارا خاندان پاکستان آگیا۔ میرے والد یہاں آنے کے بعد 32 سال تک پاک سوئیڈش انسٹی ٹیوٹ میں ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کے فرائض انجام دیتے رہے۔
میں نے سرسید گرلز کالج سے 1967ء میں بی ایس سی کیا۔ اس کے بعد والد کی خواہش پر A.M.B.T (ایسوسی ایٹ ممبر آف برٹش ٹیکنالوجی) ڈپلومہ کورس میں داخلہ لیا جو فیشن ڈیزائننگ سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ دو سالہ کورس تھا جس کے پیپرز باہر سے بن کر آتے تھے اور وہیں چیک ہوتے تھے۔ 1970ء میں مَیں نے یہ کورس پہلی پوزیشن لے کر پاس کیا۔ کورس کے دوران اور بعد اس موضوع پر میں مضامین کے ذریعے لڑکیوں کی کٹنگ میں رہنمائی بھی کرتی تھی۔ میرے مضامین جنگ اخبار کے صفحۂ خواتین پر شائع ہوتے تھے۔
1974ء میں میری شادی عبدالرشید خان صاحب سے ہوگئی جن کا تعلق جمعیت طلبہ سے تھا۔ میری پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جو الحمدللہ اپنے اپنے مقام پر جماعت سے جڑے ہوئے ہیں اور شوہر بھی جماعت سے وابستہ ہیں۔

جسارت میگزین: آپ جماعت اسلامی میں کس طرح شامل ہوئیں اور شمولیت کے بعد کن ذمے داریوں کو نبھایا؟
تحسین فاطمہ: میری زندگی میں تبدیلی گریجویشن کے دوران پروفیسر خورشید احمد کی کتاب ’’اسلامی نظریۂ حیات‘‘ کے ذریعے آئی۔ یہ کتاب پیپر کی تیاری کے لیے میں نے حاصل کی تھی، لیکن جب پڑھنا شروع کی تو دل کی دنیا بدلتی چلی گئی اور جو سوالات میرے ذہن میں وقتاً فوقتاً اٹھا کرتے تھے، مجھے ان سب کے جواب ملتے چلے گئے۔ راتوں کو جاگ جاگ کر میں اس کتاب کو پڑھا کرتی تھی اور اس کی باتوں پر غور کیا کرتی تھی۔ پیپر کے لیے پڑھنے اور یاد کرنے کی سوچ بالکل دماغ سے نکل گئی اور یہ کتاب میرے ذہنی انقلاب کا باعث بن گئی۔ لہٰذا جب امتحان ہوئے تو میرے تمام مضامین میں فرسٹ کلاس نمبر تھے لیکن اسلامیات کے پیپر میں مجھے صرف 29 نمبر ملے اور پروموٹ کیا گیا۔ نمبر نہ ملے مگر ہدایت اور مقصد ِ زندگی مل گیا۔
ذہن تو بدل گیا لیکن جماعت سے تعلق نہیں تھا۔ دینی سوچ کے تحت میں نے ’’طلوع‘‘ نامی مذہبی رسالہ لگوایا تھا۔ ایک دن ہاکر نے کہا کہ ’’میں آپ کو اس سے بھی اچھا رسالہ لا کر دوں گا۔‘‘ پھر اس نے ’’ترجمان القرآن‘‘ لا کر دیا جو اُس وقت بارہ آنے کا تھا۔ میں اس کی باقاعدہ قاری بن گئی۔ اس میں ایک مرتبہ میں نے مراکش کانفرنس میں ہونے والی مولانا مودودیؒ کی تقریر پڑھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہمارے پاس ایسی تعلیم یافتہ خواتین ہیں جو دین پھیلانے میں مصروف ہیں‘‘۔ میں ان خواتین کی تلاش میں لگ گئی۔ اس دوران میرے بھائی کالج میں زیر تعلیم تھے، وہاں اُن کا رابطہ جمعیت طلبہ سے ہوگیا تھا اور وہ ان کی کتب لایا کرتے تھے جو میں پڑھا کرتی تھی۔ انہوں نے ہی ایک دن مجھے خواتین کے ایک پروگرام کا دعوت نامہ لاکر دیا جو ناظم آباد میں منعقد ہونا تھا۔ میں ذوق و شوق سے اس پروگرام میں شریک ہوئی اور وہاںجماعت کا فارم پُر کردیا۔ اس فارم کو بھرتے وقت میری کیفیت یہ تھی:

جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دُعا کیا ہے

اپنے آپ کو جماعت اسلامی کی بہت بڑی ذمے دار سمجھ رہی تھی۔ وہ فارم گھر لاکر میں نے چھپا کر رکھ دیا، کیوں کہ ابھی ہمارے والدین جماعت سے ناآشنا تھے اور مجھے یہ ڈر تھا کہ کہیں وہ میرے اس عمل کی مخالفت نہ کریں۔ اسی دوران یعنی 1969ء میں جمعیت طالبات کی بھی تشکیل ہورہی تھی۔ میں اس کے پروگراموں میں بھی شریک ہوتی تھی۔

جماعت میں آنے کے بعد میں قرآن کی کلاسز میں جانے لگی جو بلقیس صوفی صاحبہ لیا کرتی تھیں۔ شادی سے چھ ماہ قبل امیدوار رکنیت کا فارم بھرا۔ شادی کے بعد 1976ء میں رکنیت کا حلف اٹھایا۔ حلف تو اٹھا لیا لیکن خود کو اس ذمے داری کا اہل نہیں سمجھتی تھی، لہٰذا اُس وقت کی قیمہ آپا زبیر صاحبہ کے پاس جاکر کہا کہ آپ مجھے اس وقت یہ ذمے داری نہ دیں۔ لیکن انہوں نے معذرت قبول نہ کی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا۔

رکنیت کے بعد ضلع وسطی کی نائب ناظمہ کی ذمے داری بہت عرصے تک نبھائی۔ اُس وقت ناظمہ ضلع محترمہ رقیہ فردوس صاحبہ تھیں۔ اس کے بعد تقریباً گیارہ سال نائب ناظمہ کراچی رہی۔ صوبائی شوریٰ میں شامل رہی، گیارہ سال مرکزی شوریٰ میں رہی۔ مرکزی سطح پر شعبۂ تربیت کی ذمے داری میرے پاس تھی۔ جب شوریٰ نے ’’جامعات المحصنات‘‘ کے قیام کا فیصلہ کیا تو ٹرسٹ کی چیئرپرسن کی ذمے داری مجھے دی گئی۔ اس دوران میں نے قرآن انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا اور دو سالہ کورس A-1 گریڈ کے ساتھ پاس کیا۔ اس دوران بیٹی کی شادی کے باعث ایک ہی دن میں دو پیپرز بھی دیے۔ اس کے بعد قرآن فائونڈیشن کی پرنسپل کی ذمے داری چھ سال تک نبھائی اور اِس وقت انفاق فی سبیل اللہ کمیٹی کی ممبر ہوں۔ جماعت میں شامل ہوتے ہی قرآن کی کلاس لینے کی جو ذمے داری پاس آئی تھی اس کا سلسلہ بھی ہمیشہ ہی جاری رہا۔ قرآن فائونڈیشن کے تحت چلنے والے ایک مدرسے کی نگرانی بھی اس وقت میرے ذمے ہے۔

جسارت میگزین: جس وقت آپ جماعت میں شامل ہوئیں اُس وقت کام کا کیا طریقہ کار تھا؟ ملکی حالات کیسے تھے؟

تحسین فاطمہ: جس وقت میں جماعت میں شامل ہوئی تو سقوطِ مشرقی پاکستان کا غم تازہ تھا۔ ہم ان حالات میں کچھ مثبت کام کرنا چاہتے تھے۔ عائشہ منور صاحبہ ہمارے گھر آتیں اور ہم دیر تک سوچا کرتے تھے کہ حالات کو کیسے ٹھیک کریں۔ اُس وقت جماعت کا کام چند دروس، قرآن کی کلاسز اور اجتماعِ کارکنان پر مشتمل تھا۔ کلاسز اور اجتماع شہر کی سطح پر منعقد ہوتے تھے۔ 1979ء میں ہم نے قرآن کی کلاس شروع کی جو بہت عرصے چلی۔ مختلف حلقوں کے دروس میں جو خواتین آتی تھیں ان میں سے زیادہ دل چسپی رکھنے والی خواتین کو اس کلاس میں شرکت کرائی جاتی تھی۔ میں قرآن پڑھاتی تھی اور عائشہ منور صاحبہ لٹریچر پڑھاتی تھیں۔ اتوار کے دن یہ کلاس ہوتی تھی (اُس وقت ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو ہوتی تھی)۔ لوگ دو بسیں بدل کر شوق سے اس کلاس میں شرکت کے لیے آتے تھے۔ 60 سے 80 افراد اس کلاس کی حاضری ہوتی تھی۔ اس میں جو خواتین زیادہ سمجھ دار محسوس ہوتیں اُن کے لیے ہم الگ سے اسٹڈی سرکلز رکھتے۔ کلاس کے مستقل شرکا میں سے اگر کوئی نہیں آتا تو ہم گھر جا کر اُس سے ملاقات کرتے۔ الحمدللہ ہماری یہ کلاس بہت کامیاب رہی اور کلاس کے چھ لوگوں نے ایک ساتھ رکنیت کا حلف اٹھایا جن میں امت الرقیب صاحبہ اور شاہدہ سمیع صاحبہ بھی شامل تھیں۔

جسارت میگزین: کام کے اعتبار سے اُس وقت حلقۂ خواتین کس مقام پر تھا؟

تحسین فاطمہ: 1976ء میں میرے خیال میں کراچی میں 33 ارکان بہنیں تھیں جو دعوتی کام سر انجام دیتیں اور اعانت جمع کرتی تھیں۔ رقیہ فردوس صاحبہ نے پہلی مرتبہ تنظیمی سیٹ اَپ بنایا تھا جس میں اجتماعِ کارکنان کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اس کو باقاعدہ حیثیت دی گئی۔ رپورٹس کا نظام بنایا گیا۔ رپورٹس لی جاتیں اور ان پر تبصرے بھی کیے جاتے۔ رپورٹس کے مقاصد اور روح پر بات ہوتی رہتی۔ اُس زمانے میں کام کو منظم رکھنے کے لیے ڈائریاں بھی شائع کی گئیں۔ اُس وقت ہفتے میں تین سے چار دن کارکن گھر سے نکل کر ان تمام کاموں کو انجام دیا کرتی تھیں۔

جسارت میگزین: مجموعی طور پر اُس وقت کن مشکلات کا سامنا تھا؟

تحسین فاطمہ: لوگوں میں علم اور تربیت کی کمی ہوتی تھی۔ کم پڑھی لکھی خواتین آتی تھیں جن میں جذبہ تو ہوتا تھا لیکن فہم کی کمی تھی۔ گھروں سے خواتین کے نکلنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اجازت میں دشواری ہوتی تھی۔

جسارت میگزین: ان مشکلات پر کیسے قابو پایا جاتا تھا؟

تحسین فاطمہ: فکر و فہم کی اصلاح کے لیے مطالعے و کلاسز سے مدد لی جاتی تھی۔ فکرِ آخرت اور تزکیۂ نفس کے تصورات کو واضح کیا جاتا تھا۔ یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی کہ حاکمیتِ الٰہی کو سب سے پہلے اپنے گھر میں قائم کرنا ہے۔ افراط و تفریط بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی سوچ دی جاتی تھی۔ ’’تحریک اسلامی، کامیابی کی شرائط‘‘ پر بار بار ڈسکشن کرائے جاتے تھے۔ دستورِ جماعت کی کلاسز ہوتی تھیں۔

جسارت میگزین: کارکن کن جذبوں کے ساتھ کام کرتے تھے؟

تحسین فاطمہ: لوگ اپنی انتہائی بیماریوں کے ساتھ بھی کام کیا کرتے تھے، انتہائی غریب بھی انتہائی جذبے سے کام کرتا۔ ایسے بھی کارکنان تھے جن کے گھر میں کھانا نہیں پکا ہوتا تھا مگر صبح سے شام تک بغیر حرفِ شکایت لب پر لائے جماعت کے کاموں میں لگے رہتے تھے۔ ایسے بھی تھے جن کا بچہ بیمار ہوتا، گھر میں تنگ دستی ہوتی لیکن اعانت ضرور دیتے تھے۔ نظم ان حالات میں جتنی مدد کرسکتا تھا، کیا کرتا تھا۔ ان کی انتہائی قدردانی کرتا۔ نظم کی جانب سے کارکن کی قدردانی ہی اس کی قربانی کی قیمت ہوا کرتی ہے۔

جسارت میگزین: باہمی تعلقات کی کیا کیفیت تھی؟

تحسین فاطمہ: بے حد مثالی تعلقات تھے۔ ہم سب ایک ہی خاندان کے لوگ محسوس ہوتے تھے۔ دل کی ہر بات ایک دوسرے سے کرلیا کرتے تھے۔ ناظمہ اپنی بڑی بہن کی طرح لگتی تھیں جن سے کارکن بے دھڑک اپنے جذبات کا اظہار کردیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ رپورٹ لیتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچے رکھنے والی ایک کارکن جذباتی انداز میں بولی ’’باجی آپ میرے بچے سنبھالیں۔ میں تین دن میں ملاقات کا ہدف پورا کرلوں گی۔‘‘ اسی طرح ایک اور کارکن جن کے ہاں ولادت متوقع تھی، کہنے لگیں ’’باجی! میں نے تو سوا مہینہ کی ملاقاتیں پہلے ہی پوری کرکے رکھ دی ہیں۔‘‘ ہم انہیں سمجھاتے کہ خانگی تقاضے بھی عبادت کا درجہ رکھتے ہیں۔ انتہائی بے تکلفی اور خوش دلانہ تعلقات کی فضا تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی بہترین شکلیں تھیں۔

جسارت میگزین: کارکن کی زندگی میں مطالعے کی کیا اہمیت ہے؟

تحسین فاطمہ: مطالعہ نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ قرآن کا مطالعہ صرف ایک بار کرلینا کافی نہیں ہوتا۔ اس کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ مختلف تفاسیر کا بار بار اپنی روح کی غذا سمجھ کر مطالعہ کرنا ایمان میں، فہم میں اضافہ کرتا ہے۔ جو جتنا ڈوب کر مطالعہ کرے گا، اُسے اپنے اندر اتارے گا اور پھر آگے پیش کرے گا اس کا اثر ہی دوسرا ہوگا۔ لیکن کوئی حصہ کہیں سے پڑھ کر سوچنا کہ ’’بہت اچھا مواد ہے آج اجتماع میں یہی سنائوں گی‘‘ اس کی روح کو ختم کردیتا ہے۔ دل سے قبول کردہ چیزوں کو دل سے پیش کیا جائے تو دلوں تک اس کا اثر پہنچتا ہے۔ جیسے بعض دفعہ ہم دُعا مانگتے ہیں اور بعض دفعہ ہم دُعا پڑھتے ہیں۔ اس پڑھنے اور مانگنے کی کیفیات الگ الگ ہوتی ہیں۔ لیکن انسان کے اندر فطری کمزوریاں ہیں، ان کی رعایت رکھنی چاہیے جیسے ہر نماز کی کیفیت یکساں نہیں ہوتی لیکن پھر بھی پانچ نمازیں پڑھنا فرض ہے، اس لیے ہم نمازوں کی تعداد میں کمی نہیں کرسکتے خواہ دل کی کیفیت کسی بھی طرح کی ہو۔

جسارت میگزین: جو خواتین چھوٹے بچوں کے ساتھ جماعت کا کام کرنے میں مشکلات محسوس کرتی ہیں انہیں اس کا کیا حل دیا جائے گا؟

تحسین فاطمہ: کام کرنا یا نہ کرنا دل کی گرمی پر منحصر ہے۔ جس کے دل میں ایمان کی گرمی ہوگی وہ ہر حال میں کام کرلے گا، اسے کوئی پیدا نہیں کرسکتا۔ البتہ چھوٹے بچوںکی مائوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ’’چھوٹے بچے چھوٹے مسائل، بڑے بچوں کے بڑے مسائل‘‘۔ چھوٹے بچوں کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے یہ وقت بہترین ہوتا ہے، کیوں کہ انہیں ہر حال میں ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔

جسارت میگزین: بعض دفعہ جماعت کا کام کرتے ہوئے اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں، ایسے میں کیا صورت اختیار کی جانی چاہیے؟

تحسین فاطمہ: آراء کے اختلاف میں اللہ نے رحمت رکھی ہے۔ دو اختلافی آراء کے درمیان ہی صحیح رائے پوشیدہ ہوتی ہے۔ ذرا تحمل سے کام لیں تو راستہ بن جاتا ہے اور جھنجھلاہٹ سے راہ بند ہوجاتی ہے۔ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اسے تحمل و حکمت سے سلجھا لیں۔ بعض مرتبہ قبل از وقت وضاحتیں نقصان دہ بن جاتی ہیں۔ اختلافی معاملے میں بندوں کو آپس میں دل برا نہیںکرنا چاہیے، بلکہ صبر کے ساتھ ایک دوسرے کے نکتۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جسارت میگزین: آپ کے خیال میں کن فیصلوں نے جماعت کو فائدہ پہنچایا اور کون سے فیصلے نقصان دہ ثابت ہوئے؟

تحسین فاطمہ: میں سمجھتی ہوں کہ اگر ہم نے جماعت کی شورائیت کو قبول کیا ہے تو یہی ہمارا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ اجتہادی فیصلہ اگر غلط بھی ہوجائے تو اس پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ انسانوں کا ٹائم فریم اور اللہ تعالیٰ کا ٹائم فریم ایک نہیں ہوتا۔ بعض فیصلوں کے ہمیں وقتی طور پر نقصانات محسوس ہوتے ہیں لیکن بعد میں ان کے دوررس فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ جب ہم کلاس لیتے تھے تو بعض خواتین کے متعلق ایک ٹائم پیریڈ کے اندر گمان کرتے تھے کہ انہیںکارکن بن جانا چاہیے لیکن وہ نہیں بن پاتی تھیں تو بڑا افسوس کرتے تھے۔ کہیں برسوں بعد علم ہوا کہ بیرونِ ملک جانے کے بعد وہاں کی تحریک سے منسلک ہوگئیں۔ نظم نے اُن کے فہم کو اتنا پایا کہ انہیں وہاں کی ناظمہ بنادیا۔ تو ہر چیز ہمارے تخمینوں کے مطابق نہیں ہوتی۔ اخلاص سے کیے گئے کسی کام کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔

جسارت میگزین: بعض سطحوں پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جماعت کے مقاصد تو صحیح ہیں لیکن پالیسی کی کمزوریوں کے باعث اب تک عوام کی کثیر تعداد جماعت کے قریب نہیں آسکی، کیا آپ اس خیال سے متفق ہیں؟

تحسین فاطمہ: جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں اُن سے پوچھنا چاہیے کہ کیا انبیاء علیہم السلام کی پالیسی میں کوئی کمی تھی جو عوام الناس اُن کے پاس نہیں آئے؟ قرآن سے علم ہوتا ہے کہ بہت سے پیغمبروں کی قوموں نے ان کا ساتھ نہیں دیا، لیکن اس سے انبیاء کی پالیسی کا غلط ہونا نہیں، بلکہ عوم الناس کی غلطی ثابت ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کا ہدف تو بندوں کو اللہ کے دین میں پورے کا پورا داخل ہونے کی دعوت دینا تھا۔ اگر ہم گزشتہ ستّر سال سے اس پر جمے ہوئے ہیں تو ہم کامیاب ہیں۔ ہمارا اصل مقصد تو رضائے الٰہی اور جنت کا حصول ہے، اس لیے ہماری کامیابی کا فیصلہ تو آخرت میں ہوگا۔ اگر دنیا میں لوگ ہماری دعوت کو قبول نہیں کرتے تو یہ ان کی ذمے داری ہے۔

جسارت میگزین: کیا آپ کو جماعت کی دعوت کے طریقہ کار صحیح ہونے پر پکا یقین ہے؟

تحسین فاطمہ: بالکل، تبلیغ تبلیغ ہے اور تحریک تحریک ہے۔ نظام کی تبدیلی تبلیغ کے ذریعے نہیں تحریک کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی کُل نظام کی تبدیلی کی بات کرتی ہے۔ دل یہ چاہتا ہے کہ اس مرحلے پر اللہ تعالیٰ اپنی غیبی مدد سے اس کے افراد اور اس کی قوت کو ضائع ہونے سے بچا لے۔ جیسا کہ بدر کے میدان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ کرامؓ کے لیے دعا کی تھی کہ ’’یا اللہ تُو ان کی مدد فرما۔‘‘ اس طرح اللہ نے ہماری خواہش پر ہمیں یہ خطۂ پاک تو عطا کردیا لیکن ہم یہاں اسلامی نظام نافذ نہ کرسکے تو اللہ کو کل کیا جواب دیں گے؟ طریقہ کار وہی درست ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ دعوت، پھر تربیت، پھر اس فرد کو اجتماعیت کی لڑی میں پرو دیا جائے۔

جسارت میگزین: اتنے برسوں کے تجربے کے بعد آپ اس وقت کیا سمجھتی ہیں کہ ہمیں کن محاذوں پر کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے؟

تحسین فاطمہ: خواتین کے لحاظ سے گھر کا محاذ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جب ہم دین کا کام کرنے گھر سے نکلے تھے تو معاشرے میں بگاڑ کی صورتیں اتنی عام نہ تھیں۔ لیکن آج کی نسل کو توجہ اور نگرانی کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر ہم ہر محاذ پر خواتین کی نمائندگی کو بڑھاتے رہے تو گھر بہت متاثر ہوگا۔ ایک عورت کے ساتھ بہت سے رشتے ہوتے ہیں۔ اسے بیوی، ماں، بہو، نند، بیٹی، بہن، بھابھی تمام رشتوں کو نبھانا چاہیے، کیوں کہ ہماری ہر رشتے کے حوالے سے ذمے داری بنتی ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جس کام کی اپنے اندر صلاحیت پاتا ہے اسے وہ کام کرنا آسان لگتا ہے، اور جب وہ اپنا پسندیدہ کام پوری لگن سے کرتا ہے اور اس میں اپنے آپ کو کامیاب پاتا ہے تو اس کے نفس میں ایک قسم کا زعم پیدا ہونے لگتا ہے۔ ہمیں اس کیفیت سے بچنا چاہیے اور اُن کاموں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے جن کی ہمارے اندر صلاحیت کم ہو لیکن وہ ہماری ذمے داری بنتے ہوں۔

جسارت میگزین: بعض مرتبہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم جماعت میں جن افراد کو دینی لحاظ سے عمل میں بہتر محسوس کرتے ہیں اجتماعی فورمز میں ان کی رائے یا فیصلوں میں ان کے فہم میں کمی لگتی ہے؟

تحسین فاطمہ: حکمت و فہم کا تعلق براہِ راست تعلق باللہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جتنا تعلق ہوگا اتنی ہی سمجھ میں اضافہ ہوگا۔ اگر ایک شخص نے تقویٰ کو سمجھ لیا ہے تو اسے استعمال بھی کرے۔ جب اپنی مرضی سے عمل کی راہ میں چلے گا تو اس کا نتیجہ کبھی صحیح نکلے گا، کبھی غلط۔ لیکن اسی سے اس کے اندر حکمت پیدا ہوگی۔ تقویٰ آئے اور حکمت نہ آئے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمانی نشوونما رک گئی۔ بڑے بڑے اصول واضح ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کی باتوں کو اپنے فہم سے ہی سمجھنا ہوتا ہے۔ جیسے ہم دو کا پہاڑا پڑھتے ہیں تو دو دونی چار واضح ہے۔ فہم یہ ہے کہ اس بات کو سمجھ لیا جائے کہ پونے دو بھی دو ہی کی قسم ہے۔ اس کے ساتھ فہم میں اضافے کے لیے قائدین کو ہمیشہ سیکھتے رہنا چاہیے۔ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا چاہیے اور جدید ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔

جسارت میگزین: ہمارے پاس محنتی اور نچلی سطح پر کام کرنے والے کارکن تو بہت ہیں لیکن مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ علوم کم ہیں جو اپنی اپنی فیلڈ میں کارکنان کی رہنمائی کرسکیں، کیوں؟

تحسین فاطمہ: ہم کوشش تو کرتے ہیں لیکن دنیا کی چمک دمک کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ ان میں سے ایک کا آجانا بھی لاکھوںکے آنے سے قیمتی ہوگا جیسا کہ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دعا کی تھی، کیوں کہ آپؐ کو ان کا وزن پتا تھا۔ ہمیں ایسے افراد کے لیے اپنے نظام میں گنجائش رکھنی ہوگی اور ان کی صلاحیتوں سے استفادے کے لیے اپنے لگے بندھے طریقے سے ہٹ کر بھی راہیں نکالنی ہوں گی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اصل امتحان میدان میں ہی ہوتا ہے، جو معرکہ کے وقت ہمارے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار نہ ہو وہ ہمارا ساتھی کیسے ہوسکتا ہے؟ ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ عموماً ہم سو افراد پر کام کرتے ہیں تو دو چار ہمارے کارکن بن جاتے ہیں۔ اس طبقے میں ہم اگر سو افراد پر کام کریں گے تو کوئی دو لوگ ہمارے ساتھ آئیں گے۔ لہٰذا ہمیں اپنے کام کے دائرے کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔

جسارت میگزین: کوئی ایسا دائرہ جہاں آپ کی خواہش ہو کہ آپ کام کرسکیں؟

تحسین فاطمہ: میری تو یہ دعا رہتی ہے کہ جہاں بھی کھڑا کردیا گیا ہے میں وہاں کی ضرورت کے مطابق کام کرسکوں۔ انسان کو سنوارنا ہی اصل کام ہے۔ دائرہ کوئی بھی ہو تعلق انسان سے ہی ہوتا ہے، اور انسان ہر دور میں، ہر جگہ ایک ہی فطرت رکھتے ہیں۔ انسانوں کو ان کے رب سے قریب کرنا ہی ہمارا ہدف ہے۔ پہلے دن سے اسی کام کا آغاز کیا اور یہی کام اِن شاء اللہ آئندہ بھی جاری رہے گا، ہاں یہ ضرور ہے کہ ’’شمع پھر زور سے جلتی ہے جب خاموش ہوتی ہے‘‘۔

جسارت میگزین: ذمے داران کے لیے آپ کا کوئی مشورہ؟

تحسین فاطمہ: میڈیا سے رابطہ رکھنے والے ذمے داران پوری ذمے داری اور احتیاط سے گفتگو کریں اور کوئی ایسی بات نہ کریں جس کی جواب دہی بعد میں کارکن کے لیے مشکل ہوجائے۔ ذمے داران مختلف شعبہ جات کو آپس میں مربوط بنائیں۔ بعض مرتبہ بہت زیادہ ذمے داریاں بھی کام کی برکت کو ختم کردیتی ہیں۔ کارکنان ہر آن اپنی نیت کا جائزہ لیتے رہیں، کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ کام کریں لیکن دل کی تنگی کے ساتھ نہ کریں، کیوں کہ ایسے کام کا اجر نہیں ہے۔ ہر لمحہ جواب دہی کے احساس کو تازہ رکھیں۔ بعض مرتبہ انسان بڑے بڑے کام کرنے کے بعد بھی پھسل جاتا ہے، اس لیے آخرت کو اپنی فکر میں تازہ رکھنا بہت ضروری ہے۔ سیدھے راستے پر قائم رہنا اور اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنا اپنے لیے سعادت سمجھیں، اور یہ کہ میرا ہر عمل تحریک کو نیک نام یا بدنام بنانے والا ہے۔ اپنے لیے بھی یہی دعا ہے کہ جماعت کو ہمارے لیے سرمایہ بنا اور ہم کو جماعت کے لیے قوت۔ اور اسی حال میں رفیقِ اعلیٰ سے ملاقات ہوجائے۔ آخرت کے پچھتاوے سے بچا دے اللہ تعالیٰ۔

تم میرے ساتھ چلے ہو تو میرے ساتھ رہو
کہ مسافر سرِ منزل بھی بھٹک جاتا ہے

جسارت میگزین: موجودہ حالات میں اسلامی نظام کی دو نکاتی حکمت عملی آپ کی نظر میں کیا ہو سکتی ہے؟

تحسین فاطمہ: جو لوگ باطل نظام سے بے زار ہیں اور حق کے غلبے کے خواہش مند ہیں ان سب کا ایک محاذ پر جمع ہوجانا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ دین پسندوں میں کمزوریاں ہیں لیکن ہمیں اس کی رعایت کرتے ہوئے مشترکات پر لوگوں کو جمع کرنا ہوگا۔ ایسی بھی مثالیں ہیں کہ کوئی ایمان لایا، ایک نماز بھی پڑھنے کا وقت نہ آیا، جہاد میں شریک ہوا اور شہید ہوکر رب کی رضا پالی۔ اپنے اندر لچک رکھتے ہوئے ایسی ترجیحات بنائی جائیں کہ اسلام پسند کرنے والے ایک طاقت بن سکیں۔

جسارت میگزین: آپ کا خواتین کے لیے کیا پیغام ہے؟

تحسین فاطمہ: وقت کی قدر کیجیے، وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا، صرف پچھتاوے چھوڑ جاتا ہے۔ آخرت میں کاش کاش کرنے سے بہتر ہے کہ ہم حتی الوسع اپنی صلاحیتوں اور وقت کو صحیح استعمال کرکے اپنے رب سے ملیں اور ایک آواز ہمارا استقبال کرے کہ اے نفس مطمئنہ چل اپنے رب کی طرف، وہ تجھ سے راضی اور تُو اس سے راضی۔
جسارت میگزین: آپ کا بہت بہت شکریہ۔

حصہ