کلاڈیوس نے جو راستے میں قبطی ملاحوں کی زبان کے چند جملے سیکھ چکا تھا، ملاحوں کو کشتی کنارے لگانے کا حکم دیا۔ اور تھوڑی دیر بعد فرمس لکڑی کا ایک ڈول ہاتھ میں لیے کشتی سے اُترا اور بستی کی طرف چل دیا۔ ایک ساعت بعد وہ واپس آیا تو اُس کے ساتھ بستی کا ایک نوجوان دودھ سے بھرا ہوا ڈول اُٹھائے ہوئے تھا۔
شام کے وقت عاصم کا چہرہ قدرے بشاش نظر آتا تھا۔ انطونیہ جس نے سارے دن اُس کی تیمارداری کی تھی، اب کشتی کے ایک کونے میں گہری نیند سو رہی تھی اور کلاڈیوس اور فرمس اُس کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔
عاصم نے کہا۔ ’’مجھے معلوم نہیں کہ آپ کی دوائی کا کمال ہے یا تازہ دودھ کا اثر، بہرحال میں ایک مدت کے بعد کچھ تازگی محسوس کررہا ہوں‘‘۔
فرمس نے جواب دیا۔ ’’آپ کو دونوں چیزوں سے فائدہ ہوا ہے‘‘۔
ایک دن عاصم کی کشتی اسکندریہ سے پچاس میل مشرق کی طرف دریا کی ایک شاخ سے نکل کر سمندر میں داخل ہوچکی تھی۔ طیبہ کے پانچ ملاحوں میں سے چار ایسے تھے جنہوں نے ابھی تک بابلیوں سے آگے سفر نہیں کیا تھا، اور وہ آگے بڑھنے میں پس و پیش کررہے تھے۔ پانچواں ملاح چند مرتبہ اسکندریہ تک سفر کرچکا تھا، لیکن کشتی کو ساحل سے دور لے جانے کے لیے وہ بھی تیار نہ تھا۔ قبطی زبان کے جو چند الفاظ کلاڈیوس نے سیکھے تھے وہ ان پر بے اثر ثابت ہورہے تھے، فرمس نے انہیں بغاوت پر آمادہ دیکھ کر انتہائی ملائمت سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب اُسے بھی مایوسی ہونے لگی تو کلاڈیوس نے اچانک عاصم کی تلوار اُٹھالی اور گرجتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’اگر تم صرف حکم ماننے کے عادی ہو تو کان کھول کر سن لو کہ میرے لیے تمہیں تلوار سے ہانکنا مشکل نہیں‘‘۔
کلاڈیوس کے طرزِ عمل میں اچانک یہ تبدیلی اُن کے لیے غیر متوقع تھی، اور وہ کچھ دیر پریشانی و اضطراب کی حالت میں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ بالآخر اُن میں سے ایک معمر آدمی نے قدرے جرأت سے دیتے ہوئے کہا۔ ’’ہم نے آپ کو ساحل تک پہنچانے کا ذمہ لیا تھا۔ اگر آپ سمندر عبور کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صرف صورت یہ ہے کہ ہم آپ کو اسکندریہ پہنچادیں، وہاں سے آپ کو شام کی بندرگاہوں کے جہاز مل جائیں گے‘‘۔
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’ہم شام کی بجائے قبرص یا یونان کی طرف جانا چاہتے ہیں اور آج کل اسکندریہ ؟؟ جہاز اُس طرف کا رُخ نہیں کرتے‘‘۔
ملاح نے اور زیادہ پریشان ہو کر کہا۔ ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ قبرص یا یونان کے راستے میں آپ کو قدم قدم پر روم کے جنگی جہازوں کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’ہمارا مقصد ہی کسی رومی جہاز کو تلاش کرنا ہے۔ اور جب ہماری یہ خواہش پوری ہو جائے گی تو تمہیں اس کشتی سمیت واپس بھیج دیا جائے گا‘‘۔ اب میرا وقت ضائع مت کرو۔ اگر یہاں ہمیں کوئی خطرہ پیش آیا تو میں اُس کا مقابلہ کرنے سے پہلے تمہارے ساتھ نپٹنے کی کوشش کروں گا‘‘۔
’’جناب جب تک اس کشتی پر ایرانی جھنڈا نصب ہے آپ کو مصر کے ساحل کے آس پاس کوئی خطرہ پیش نہیں آسکتا‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’تم میرے رومی ہونے پر شک کرتے ہو؟‘‘۔
’’نہیں، جناب! ہم آپ کے رومی ہونے پر شک نہیں کرتے لیکن آپ کے آقا رومی نہیں ہیں اور ہمیں طیبہ کے حاکم نے صرف ان کا کہنا ماننے کا حکم دیا تھا‘‘۔
’’تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں اپنے آقا کی خواہش کے خلاف تمہیں اپنا ساتھ دینے پر مجبور کررہا ہوں۔ تم ان سے پوچھ سکتے ہو کہ یہ کہاں جانا چاہتے ہیں‘‘۔
ملاح پریشان ہو کر عاصم کی طرف دیکھنے لگے۔ اُس کی حالت پہلے سے کہیں بہتر معلوم ہوتی تھی، اور فرمس اُسے اس گفتگو کا مطلب سمجھا رہا تھا۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’عاصم! انہیں تسلی دیجیے، ان کا خیال ہے کہ میں آپ کو زبردستی اپنے ساتھ لے جارہا ہوں‘‘۔
عاصم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’انہیں تسلی دینے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک رومی کے ہاتھ میں تلوار دیکھ چکے ہیں‘‘۔ پھر اُس نے ملاحوں سے مخاطب ہو کر کہا۔ میں ان کے ساتھ اپنی خوشی سے جا رہا ہوں اور تمہیں اگر اپنی مرضی سے نہیں تو بحالت مجبوری ہمارا ساتھ دینا پڑے گا۔ تمہیں اس بات کا ڈر ہوسکتا ہے کہ جب تم واپس جائو گے تو طیبہ میں تم سے باز پرس کی جائے گی، لیکن تم وہاں کے حاکم کو مطمئن کرنے کے لیے یہ کہہ سکتے ہو کہ ایک بیمار آدمی نے راستے میں اپنا سفر ختم کردیا تھا۔ اور اس کا ساتھی، بزورِ شمشیر تمہیں نیل کے دہانے تک لے گیا تھا۔ اِس کے بعد وہ کشتی سے اُتر کر کہیں روپوش ہوگیا تھا۔ میں تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر راستے میں ہمیں کوئی روم کا جہاز مل گیا تو تمہیں واپس بھجی دیا جائے گا۔ اور میری یہ کوشش بھی ہوگی کہ تمہیں اس خدمت کا اتنا معاوضہ مل جائے کہ تم اپنی باقی زندگی آرام سے گزار سکو۔ ممکن ہے کہ ایک معقول انعام حاصل کرنے کے بعد تمہیں طیبہ واپس جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو‘‘۔
فرمس نے ملاحوں سے عاصم کا مفہوم بیان کرنے کے بعد اپنی جیب سے سونے کے چند سکے نکال کر ایک ملاح کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تمہارا انعام ہے۔ کاش! میں تمہیں اس سے زیادہ دے سکتا‘‘۔
ملاح نے یہ سکے اپنے ساتھیوں کو دکھا دیے اور انہوں نے اِس مسئلے پر مزیدگفتگو کی ضرورت محسوس نہ کی۔
چند گھنٹے بعد عاصم مصر کے ساحل کی آخری جھلک دیکھ رہا تھا۔ ہوا موافق تھی اور کشتی سمندر کی لہروں کے تھپیڑے کھاتی ہوئی کسی دور افتادہ ساحل کا رُخ کررہی تھی۔ غروب آفتاب کے قریب جنوبی اُفق پر ایک سرمئی لکیر اُس کی نگاہوں سے روپوش ہوچکی تھی اور آسمان کی چھت کے جھکے ہوئے کنارے چاروں طرف نیلگوں سمندر کی سطح سے مل چکے تھے۔ آفتاب مغرب کی سمت بادل کے چند ٹکڑوں پر سرخ اور سنہری رنگوں کے خزانے لٹانے کے بعد روپوش ہوگیا اور کائنات کے سیاہ آنچل پرستاروں کے موتی جھلملانے لگے۔ یہ ستارے وہی تھے جو اُس نے عرب اور شام کے آسمان پر دیکھے تھے اور جن کے ساتھ اُس کے ماضی کی ناقابل فراموش داستانیں وابستہ تھیں۔ ان حوصلوں اور ولولوں کی داستانیں جو اُس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے اور اُن مسکراہٹوں اور آنسوئوں کی داستانیں، جن کے خزانے ایک اندوہناک ماضی کے آغوش میں دفن ہوچکے تھے۔ عاصم اپنی کتاب زندگی کا ایک اور ورق اُلٹ چکا تھا۔ لیکن اب وہ اُن موہوم اُمیدوں سے بھی خالی تھا جو ایک لٹے ہوئے مسافر کے لیے آخری سہارے کا کام دیتی ہیں۔ اسے منزل اور راستے کے الفاظ بے معنی معلوم ہوتے تھے۔ اُسے صرف اس بات کا احساس تھا کہ وہ زندہ ہے اور زندہ رہنا چاہتا ہے۔ ایک مدت کے بعد یہ پہلی شام تھی جب وہ بخار سے نڈھال ہو کر لیٹنے کی بجائے بیٹھا ہوا تھا۔ سمندر کی خوشگوار ہوا کے جھونکوں سے اُسے تازگی محسوس ہورہی تھی۔
کلاڈیوس نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میرے خیال میں اب تمہیں لیٹ جانا چاہیے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میں اپنے ساتھی کا انتظار کررہا ہوں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اب اُس نے مستقل طور پر میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے‘‘۔
انطونیہ نے چونک کر پوچھا۔ ’’کون سا ساتھی؟‘‘۔
’’بخار‘‘۔ عاصم نے جواب دیا۔
انطونیہ ہنس پڑی۔
عاصم نے قدرے توقف کے بعد کلاڈیوس سے سوال کیا۔ ’’آپ کو یقین ہے کہ ہمیں راستے میں کوئی جہاز مل جائے گا‘‘۔
’’مجھے یقین ہے، لیکن اگر قدرت نے ہماری مدد نہ کی تو بھی ہمارے پاس کھانے پینے کا اتنا سامان ہے کہ ہم باآسانی قبرص پہنچ سکیں۔ وہاں ہمیں کوئی جہاز مل جائیں گے۔ مجھے صرف اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ کشتی کسی طوفان کا مقابلہ نہیں کرسے گی؟‘‘
آٹھ دن بعد طلوع سحر کے ساتھ عاصم اور اُس کے ساتھی شمال مشرق کی طرف تین جہاز دیکھ رہے تھے۔ سمندر کی ہوا جس نے سات دن اُن کا ساتھ دیا تھا اچانک تھم چکی تھی اور کشتی کی رفتار بہت سست ہوچکی تھی۔ کلاڈیوس جہازوں کا رخ پہچانتے ہی ملاحوں کی طرف متوجہ ہو کر چلایا۔ ’’اب تم لوگ فوراً کشتی کے چپو سنبھال لو۔ اگر ہم ان جہازوں کے راستے سے دور رہے تو ان کے ملاح ہماری طرف توجہ دیے بغیر آگے نکل جائیں گے‘‘۔
ملاحوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ لیکن جب کشتی کی رفتار تیز ہونے لگی تو فرمس نے کہا۔ ’’مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ جہاز ایرانی نہ ہوں، اس لیے تمہیں آگے بڑھنے سے پہلے اچھی طرح اطمینان کرلینا چاہیے۔
کلاڈیوس نے جلدی سے ایرانی پرچم اُتارتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ وہ جہاز رومی ہیں، ایرانی جہاز ساحل سے اتنی دور نہیں آتے‘‘۔ کچھ دیر بعد اُسے جہازوں پر رومی پرچم دکھائی دینے لگے اور اُس نے خوشی سے اُچھلتے ہوئے کہا۔ ’’میرا خیال درست نکلا۔ وہ رومی ہیں، وہ رومی ہیں۔ انہوں نے ہمیں دیکھ لیا ہے۔ دیکھیے اُن کا رخ ہماری طرف تبدیل ہورہا ہے۔‘‘
ایک ساعت بعد تینوں جہاز لنگر انداز ہوچکے تھے، اور اُن کے ملاح کلاڈیوس کے اشاروں کا جواب دے رہے تھے۔ کشتی سب سے اگلے جہاز کے ساتھ لگی۔ اور اُس کے کپتان نے اُوپر سے جھک کر کلاڈیوس کی طرف دیکھا اور بلند آواز میں پوچھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘۔ کلاڈیوس نے صرف اپنا نام بتادینا ناکافی سمجھتے ہوئے مختصراً اپنے باپ اور چچا کا ذکر کردیا۔ کپتان کلاڈیوس سے ناواقف تھا، لیکن اُس نے کے لیے روم کی سینٹ کے ایک معزز رکن اور اسکندریہ کے سابق گورنر کی شخصیتیں اجنبی نہ تھیں۔ چنانچہ اس نے کسی توقف کے بغیر ملاحوں کو رسیوں کی سیڑھی پھینکنے کا حکم دیا۔ کلادیوس اور اُس کے ساتھی یکے بعد دیگرے سیڑھی کی مدد سے جہاز پر پہنچنے اور ملاح اُن کے گرد جمع ہوگئے۔ کپتان کے سوالات کے جواب میں کلاڈیوس اپنی سرگزشت سنا رہا تھا کہ باقی دو جہازوں کے کپتان بھی وہاں پہنچ گئے۔ ان میں سے ایک ولیریس تھا۔ وہ کلاڈیوس کو دیکھتے ہی بھاگتا ہوا آگے بڑھا اور اُس سے لپٹ گیا۔
’’ہم تمہارے متعلق مایوس ہوچکے تھے کلاڈیوس، تم اتنی مدت کہاں رہے؟‘‘۔
’’میں ایرانیوں کی قید میں تھا‘‘۔ کلاڈیوس نے جواب دیا۔
’’اور یہ کون ہیں؟‘‘
یہ میری بیوی ہے، یہ ان کے والد ہیں اور یہ وہ دوست ہے جس کی بدولت میں آج تمہارے سامنے زندہ کھڑا ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ آج تم مل گئے ورنہ تمہارے ساتھی مجھے سادی دشمن کا جاسوس سمجھ رہے تھے۔ عاصم! یہ میرا بچپن کا دوست ہے۔ ولیریس نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ عاصم سے مصافحہ کیا اور کہا۔ ’’اگر آپ نے کلاڈیوس کی مدد کی ہے تو ہم سب آپ کے شکر گزار ہیں‘‘۔ پھر وہ، کلاڈیوس سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’آپ کی سرگزشت سننے سے پہلے میں آپ کے گلے سے یہ طوق اتروانا چاہتا ہوں‘‘۔
کلاڈیوس مسکرایا۔ ’’نہیں اب یہ مجھے تکلیف نہیں دیتا، میں اس کا عادی ہو چکا ہوں، پہلے مجھے یہ بتائو کہ تم کہاں سے آئے ہو اور کہاں جارہے ہو؟‘‘۔
’’ہم قبرص سے آئے ہیں اور قرطاجنہ جارہے ہیں‘‘۔
’’میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ہمارے لیے تمہاری مدد سے قسطنطنیہ پہنچنے کے امکانات کیا ہیں؟‘‘۔
’’ہمیں قبرص کے لیے قرطاجنہ سے اناج مہیا کرنے کی خدمت سونپی گئی ہے‘‘۔
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب مجھے آپ کے ساتھ قرطاجنہ جانا پڑے گا۔ میرا خیال تھا کہ اگر قبرص کے راستے میں کوئی جہاز مل گیا تو میں کسی تاخیر کے بغیر قسطنطنیہ پہنچ سکوں گا‘‘۔
ولیریس نے کہا۔ ’’ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ آپ کا قسطنطنیہ پہنچنا کتنا ضروری ہے۔ وہاں آپ کا پتا دینے والے کے لیے بھاری انعام کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں یہ خدمت اپنے ذمے لینے کو تیار ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ واپسی پر میں یونان کی کسی بندرگاہ سے غلہ حاصل کرسکوں گا۔ موجودہ حالات میں قسطنطنیہ کو آپ کی سخت ضرورت ہے‘‘۔
(جاری ہے)