بچپن کی یادیں

196

بچو! آپ کو بھی اپنے بچپن کی بہت ساری باتیں یاد آتی تو ضرور ہونگی تو کیوں نہ میں آپ سے اپنے بچپن کی کچھ یادیں شیئر کروں اور امید رکھوں کہ آپ بھی اپنی پیاری پیاری یادیں میرے ساتھ اور بہت سارے ان بچوں کے ساتھ جو کہانیاں پڑھنے کے شوقین ہیں، شیئر کریں گے۔
شاید بہت سارے بچے ایسے بھی ہوتے ہوں جو کتوں کو دیکھ کر خوف زدہ نہیں ہوتے ہوں لیکن میں جب چھوٹا تھا تو میں کتوں سے بہت ہی ڈرا کرتا تھا۔ میرے والد صاحب یہ تو نہیں کہتے تھے کہ کتے خطرناک نہیں ہوتے البتہ وہ یہ ضرور تلقین کیا کرتے تھے کہ اگر سامنا ہو ہی جائے تو بجائے ڈرنے یا خوف زدہ ہونے کے ذہنی اور جسمانی طور پر مقابلے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ ان کا سمجھانا اپنی جگہ لیکن جو ڈر قدرتی طور پر دل میں بیٹھ جائے وہ مشکل سے ہی نکلتا ہے۔ مجھے کیونکہ کتوں کی شکل دیکھ کر ہی ڈر لگنا شروع ہو جاتا تھا اس لیے اپنے حساب سے میں اکثر یہ سوچا کرتا تھا کہ والد صاحب ممکن ہے مجھے بہادر بنانے کے لیے ایسا کہتے ہوں لیکن وہ بھی ایسے خطرناک موقعوں پر خوف زدہ ہو جاتے ہوں۔
برسوں پہلے کی بات ہے جب میری عمر ساڑھے آٹھ برس کی رہی ہوگی۔ ایک دن میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ گھر کی جانب لوٹ رہا تھا کہ ایک کتے نے اپنے مکان سے باہر آکر نہایت گرجدار انداز میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ گھر کا فاصلہ کوئی فرلانگ کے قریب باقی رہ گیا تھا اس کی پہلی ہی بھونک کے ساتھ میں والد صاحب سے ہاتھ چھڑا کر گھر کی جانب بھاگ کھڑا ہوا۔ بھاگتا جاتا اور مڑ مڑ کر والد صاحب کو دیکھتا بھی جاتا۔ کتا بھونکتا جاتا اور والد صاحب کے قریب آتا جاتا۔ ایک بات جو میرا حوصلہ بڑھا رہی تھی وہ یہ تھی کہ والد صاحب نہایت اطمینان کے ساتھ آگے آگے بڑھتے چلے آ رہے تھے۔ میرا دل اس وقت دھک سے رہ گیا جب کتے اور والد صاحب کا فاصلہ بہت کم رہ گیا۔ قریب تھا کہ وہ میرے والد صاحب کی ٹانگ اپنے مضبوط اور خونخوار جبڑوں میں جکڑ لیتا والد صاحب نے نہایت چابک دستی کے ساتھ کسی پرکار کی طرح گھومتے ہوئے اپنا داہنا پیر ٹھیک اس کے منہ پر اس زور سے دے مارا کہ وہ چوندھیائے ہوئے انداز میں اپنے گھر کی جانب بھاگ نکلا۔ اس دن مجھے یقین آ گیا کہ میرے والد صاحب واقعی کتوں سے بالکل بھی نہیں ڈر تے تھے۔
والد صاحب تو واقعی نہیں ڈرتے تھے لیکن میں ان کی بہادری دیکھنے کے باوجود اپنے دل سے کتے کا ڈر کبھی نہیں نکال سکا۔ بے شک بڑا ہو کر بچپن کی طرح بچاؤ بچاؤ کا شور تو نہیں مچاتا لیکن یہ میرا دل ہی جانتا ہے کہ گلیوں میں گھومنے پھرنے والے آوارہ کتوں کو دیکھ کر اب بھی میری جان نکلنے لگتی ہے۔
ایک مرتبہ میری بڑی بہن مجھے اپنی ایک سہیلی کے گھر لیکر گئیں۔ ان کے گھر “رشین” کتا تھا۔ بالکل سفید، بڑے بڑے بال والا یہ کتا بلی سے ذرا ہی بڑا رہا ہوگا۔ یہ کتے عام طور پر بے ضرر ہی ہوا کرتے ہیں اور چھوٹوں بڑوں سے مانوس ہو جایا کرتے ہیں۔ میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے دیکھ کر وہ دم ہلاتا بہت تیزی سے میری جانب لپکا تو میں دبک کر صوفے پر دونوں پاؤں اٹھا کر بیٹھ گیا اور اس وقت تک اسی طرح بیٹھا رہا جب تک وہ واپس گھر کے کسی اور کونے میں نہیں چلا گیا۔ وہ چلا تو گیا لیکن میں دم سادھے مسلسل دروازے کی جانب ہی تکتا رہا کہ کہیں وہ بلا پھر واپس نہ آ جائے۔
کچھ دنوں بعد میری بڑی بہن پھر مجھے ان ہی کے گھر لے گئیں۔ میں کسی قیمت پر جانا نہیں چاہتا تھا لیکن نہ جانے کی وجہ مارے شرم باجی کو بتانا بھی نہیں چاہتا تھا اس لیے زیادہ شدت کے ساتھ اصرار کرنے پر با دلِ ناخواستہ جانا ہی پڑ گیا۔ ایک مرتبہ پھر ڈرائنگ روم میں بیٹھنا پڑا لیکن خوشی ہوئی کہ وہ ننھا منا سا کتا مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ میں صوفے پر پاؤں سمیٹ کر بیٹھنے کی بجائے آرام سے ٹانگیں لٹکاکر بیٹھ گیا۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ بھوں کی آواز کے ساتھ ہی کسی نے جیسے میری ٹانگ پر منہ رکھ دیا ہو۔ بڑی مشکل سے ڈری ڈری چیخ کو روک کر نہایت پھرتی کے ساتھ میں ایک مرتبہ پھر اپنے پاؤں سمیٹ کر صوفے کے اوپر بیٹھ گیا۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔ ڈر کے مارے صوفے کے نیچے جھانکنے کی ہمت تک نہیں ہو رہی تھی۔ میں دل ہی دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ کاش باجی جلدی آجائیں۔ کچھ دیر کے بعد صوفے کے نیچے ہلچل سی مچتی محسوس ہوئی تو میں ڈر گیا کہ اب یہ منحوس باہر بھی ضرور آئے گا۔ جب ہلچل باہر نکل کر آئی تو وہ ایک تین سالہ بچہ تھا جس نے ڈرا کر میری جان ہی نکال دی تھی۔
ٹھیک اسی رات میں گہری نیند سو رہا تھا کہ خواب ہی خواب میں، میں نے دیکھا کہ میں اپنے دوست سے ملنے اس کے گھر جا رہا ہوں۔ ابھی میں اپنے دوست کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا کہ نہ جانے کس سمت سے ایک کتا نکل کر سامنے آ کھڑا ہوا۔ اب کیا کیا جا سکتا تھا۔ مجھے والد صاحب کا وہ جملہ یاد آگیا کہ سامنا ہو ہی جائے تو دل مضبوط کرکے مقابلہ کرنا چاہیے۔ میں نے دل مضبوط کیا اور اس کے قریب سے گزر بھی گیا۔ لیکن ہوا یہ کہ وہ کتا جو مجھے بہت بھلا سا لگ رہا تھا، میرے گزرجانے کے بعد پیچھے سے حملہ آور ہو گیا اور میری ٹانگ زور سے پکڑ لی۔ کتے سے اپنی ٹانگ چھڑانے کے لیے میں نے پورا زور لگایا مگر اس نے میری ٹانگ کو بہت زور سے پکڑا ہوا تھا۔ ڈر اور خوف کے مارے میں اتنے زور سے چیخا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میری چیخ سن کر گھر والے دوڑے چلے آئے۔ میں ابھی تک پوری طرح بیدار نہیں ہوا تھا اور کہے جا رہا تھا کہ کتے سے میری ٹانگ چھڑاؤ ارے کتے سے میری ٹانگ چھڑاؤ۔ اچانک امی کی آواز کان میں گونجی۔ انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ شاید تم خواب دیکھ رہے ہو۔ اٹھو ذرا دیکھو کہ تمہاری ٹانگ کسی کتے نے نہیں جکڑی ہوئی۔ میں نے اٹھ کر جو منظر دیکھا وہ آج تک یاد ہے۔ میری ٹانگ کسی کتے کے جبڑے میں جکڑی ہوئی ہونے کی بجائے پلنگ کی پائینتی (پلنگ کا وہ حصہ جو پیروں کے رخ پر ہوتا ہے) میں پھنسی ہوئی تھی۔ سب گھر والے میرے یوں خوفزدہ ہونے پر ہنس رہے تھے اور میں مارے شرم، سر کو جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔
nn

حصہ