دادی نانی کے درمیان

296

ایک دفعہ کیا ہوا میں اپنی دادی اماں کے پاس بیٹھا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی دادی اماں تھوڑا اونچا سنتی ہیں انہیں آواز نہ آ ئی میں کھولنے جانے لگا تو بولیں ’’کہاں جاتے ہو بیٹا‘‘۔’’ میں نے کہا اماں دروازے کھولنے کہنے لگیں ’’کیا دروازے توڑنے دروازہ توڑے گا؟‘‘ ٹہر جا۔‘‘ اس سے پہلے وہ چپل اٹھاتیں میں دروازہ کھولنے بھاگا۔ کھولا تو دیکھا کہ عمیر کی نانی جان آئی ہیں۔ اتفاق سے وہ بھی اونچا سنتی ہیں۔ میں دروازہ کھولتے ہی اندر آگیا کہ وہ بات نہ کرنے لگ جائیں۔
وہ بھی اندر آگئیں بولیں ’’ارے دیکھو تو لڑکے کو کیسے بھاگ کے اندر کو بھاگا جیسے میں تو کاٹ لوں گی۔ ‘‘
میری دادی کہنے لگیں کیا کہا ’’گھوڑے نے کاٹا کس کو‘‘؟ میری ہنسی چھوٹ گئی میں ان کی باتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہیں بیٹھ گیا۔
نانی بولیں کیا کہا چانٹا نہیں نہیں میں کیوں لگاؤں گی چانٹا۔
دادی: ’’کیا بولیں تم کانٹا ارے کانٹا چبھ گیا کس کو؟‘‘
نانی:’’ ارے کیا بانٹا تم نے ہمارے گھر تو نہیں آیا کچھ ہم کیا دشمن ہیں۔‘‘
دادی: ’’کیا ہیں چمن ہاں ٹھیک کہتی ہو کانٹے تو ہوتے ہیں چمن کے پھولوں میں۔‘‘
نانی:’’ارے چائے پانی نہیں پلاؤ گی؟ ‘‘
دادی : ’’کیا کہا نانی ہاں مجھے معلوم ہے تم نانی ہو عمیر کی۔‘‘
نانی: ’’سمیر ہاں سمیر نام رکھا ہےناں رضیہ کے بیٹے کا۔‘‘
دادی: کام؟ کیا کام اچھا تم کام سے آئ ہو بولو۔
نانی: ’’کھولوں؟ کیا کھولوں؟ ارے کیا دل کا حال کھولوں بس کرم ہے مالک کا ۔ پان نہیں ملتے اپنے گوگے کے پاس۔‘‘
کیا کہا؟ ’’نا ن؟ ارے ہاں دیکھ بیٹا غفران نان منگوانے کا کہہ کر گئی ہے تیری ماں جا میرا لال۔‘‘
دادی نے مجھ سے کہا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی کھڑا ہو گیا۔
جاتے جاتے بھی کان میں آواز آئ ۔
نانی: ’’کیا کال پڑ گیا ہے ہاں نہ شکریہ بہن تم نے پان منگوالیے میرے لیے ۔‘‘
نانی بول رہی تھیں اور میں نے سوچا وہ پان کی آس میں بیٹھی ہیں میں نان لے کر جائوں گا تو کیا ہوگا۔
ذرا سوچ کر رکھیں میں نان لے کر آیا ۔

حصہ