ہم کس طرح دیکھتے ہیں‘ یہ تو انتہائی پیچیدہ‘ حیرت انگیز اور طویل عمل ہے‘ مگر اسے آسان طریقہ پر بیان کرنا چاہیں تو کیمرہ اس کی اچھی مثال ہے۔ چونکہ کیمرہ آنکھ کی ساخت کو دیکھ کر بنایا گیا ہے اور اس سے اسی طرح کا کام لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ قدرت کی بنائی ہوئی آنکھ اور انسان کے بنائے ہوئے کیمرے کا ابھی تک بھی اپنی کارکردگی کے لحاظ کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ کیمرے کو ابھی برسوں تک ترقی کی مزید منازل طے کرنی ہوں گی تب کہیں جا کر ممکن ہے کہ شاید وہ آنکھ کی ہمہ گیر قوتِ عمل تک پہنچ سکے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم محض آنکھ سے دیکھتے ہیں اور آنکھ کے کمزور یا خراب ہو جانے کی وجہ سے ہی نظر بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ حالانکہ ہم نہ صرف آنکھ بلکہ ذہن حتیٰ کہ اپنے پورے وجود سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے اکثر مریضوں میں دیکھا گیا ہے کہ جسے آنکھ کی کمزوری سمجھا جا رہا تھا وہ جذباتی مشکلات یا جسمانی افعال کی خرابی یا ہر دو کا نتیجہ ثابت ہوا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جذباتی عوامل کو آنکھوں کے بعض امراض میں فوقیت حاصل ہے۔ عام طور پر جس چیز کی کمی بصارت سے موسوم کیا جاتا ہے اس سے بہت سی علامات و شکایات وابستہ کر دی جاتی ہیں۔ مثلاً دوران سر جی متلانا‘ نیند نہ آنا‘ دردِ سر اور بھوک نہ لگنا وغیرہ جب کہ طبی اعتبار سے آنکھوں کی تھکن کی وجہ
سے اس طرح کی کسی علامت کی موجودگی ثابت نہیں ہوتی ہے جس سے انہیں منسوب کیا جاسکے۔
دراصل کمیٔ بصارت کے مریضوں کو چشموں کے رد و بدل سے زیادہ اپنے نظریات حیات میں تبدیلی درکار ہوتی ہے‘ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نظر کی ماندگی صرف تخلیلاتی چیز ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ آنکھ کے عضلات میں اس وقت بھی درد ہو سکتا ہے جب ان سے زیادہ کام لیا جائے یا وہ تھک جائیں۔ خصوصاً اس وقت جب کہ آپ کو حقیقتاً چشمے کی ضرورت ہو یا آپ غلط چشمہ استعمال کر رہے ہوں یا آپ کو کوئی دیدہ ریزی کا کام ناکافی روشنی میں کرنا پڑتا ہو۔ لیکن ان نامناسب حالات میں آنکھوں پر جو دبائو پڑتا ہے وہ صرف عضلات کو متاثر کرتا ہے اور آنکھ اس سے زیادہ مجروح نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں اگر آنکھوں کو محض آرام دیا جائے اور نا مناسب حالات کو دور کر دیا جائے تو بغیر چشمہ ہی کے آرام آجاتا ہے۔ اب یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ جب کوئی شخص ناکافی روشنی میں مطالعہ کرتا ہے تو اس کے سر میں درد ہونے لگتا ہے حالانکہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس قسم کے احساسات کا کوئی فنی جواز موجود نہیں ہے۔ اکثر طالب علم کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے سر میں درد محسوس کرتے ہیں۔ لیکن اگر حالات کا بغیر جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان کا یہ دردِ سر صرف ان مضامین کے مطالعے سے پیدا ہوتا ہے جو ناپسندیدہ ہوں اور ان کی دل چسپی کا باعث نہ ہوں۔ اگر انہیں ان کی کوئی پسندیدہ کتاب دے دی جائے تو وہ بغیر کسی دردِ سر کے رات بھر اسے پڑھ سکتے ہیں۔
بصارت کی کمی کے باعث دردِ سر‘ چشمہ تجویز ہو جانے کے بعد اکثر جاتا رہتا ہے لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے اگرچہ چشمہ بصارت کے لیے بالکل بھی معاون نہیں تھا لیکن درد سرد بہرحال جاتا رہا۔ موزوں چشمہ کے استعمال کے بعد آنکھوں میں ماندگی کا احساس اور دردِ سر اگرچہ جاتا رہتا ہے لیکن ایسا چشمہ کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ مریض کا یہ احساس کہ اس کی تکلیف کا ازالہ کر دیا گیا ہے اس کے دردِ سر کو زائل کر دیتا ہے۔
عموماً سنیما‘ ٹیلی ویژن اور سورج کی روشنی کو بصارت کے لیے مضر خیال کیا جاتا ہے اور دھوپ کے چشموں کو معاون سمجھا جاتا ہے جب کہ سنیما اور ٹیلی ویژن اگر اعتدال اور مناسب فاصلے سے دیکھے جائیں تو نظر کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں‘ اسی طرح سورج کی روشنی بھی ضرر نہیں پہنچاتی جب تک کہ سورج کی طرف براہِ راست نہ دیکھا جائے۔ دھوپ کے رنگین یا دھندلے چشمے خواہ وہ کسی رنگ کے ہوں‘ چکا چوند کر دینے والی روشنی میں تو بہتر ہو سکتے ہیں لیکن عام سورج کی روشنی میں تن درست آنکھ کے لیے قطعی غیر ضروری ہیں اور نفسیاتی تسکین یا خود نمائی کا ایک ذریعہ ہیں۔ روشنی کو کم و زیادہ کرنے کا جو کام ہم دھوپ کے چشموں سے لینا چاہتے ہیں وہ قدرت نے آنکھ میں ایک خود کار نظام کے ذریعے رکھا ہوا ہے جو کہ پتلی کے سکڑنے اور پھیلنے سے سرانجام پاتا ہے۔
آنکھ سے متعلق امراض تو بہت سے ہیں مگر براہِ راست دیکھنے سے متعلق جو بیماریاں بہت عام ہیں ان میں نظر کی کمزورجی (امیس تھی توپیا) قریب نظری (مائی اوپیا) اور بعید نظری (ہائی پرمٹروپیا) ہیں۔
پہلے مرض (نظر کی کمزوری کا اگر جائزہ لیا جائے تو تھوی دیر کام کرتے رہنے سے خصوصاً باریک کام سے آنکھیں تھک جاتی ہیں اور ان کے سامنے اندھیرا سا آجاتا ہے خصوصاً باریک حرف پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس مرض میں عموماً آنکھ کے عضلات یا اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس مرض کی پیدائش کے اسباب بہت ہیں۔ چند نمایاں اسباب دیدہ ریزی کے باریک کام کاج‘ بڑھاپا اور کثرتِ مطالعہ ہیں خصوصاً اگر یہ کام کم روشنی میں کیے جائیں۔ اس کے علاوہ ہضم کی کمزوری‘ دائمی نزلہ و زکام‘ کثرتِ تمباکو نوشی اور دائمی قبض سے بھی یہ مرض ہو جاتا ہے۔
دوسرا عام مرض ’’قریب نظری‘‘ ہے یعنی قریب کی چیزوں کا صاف نظر آنا اور دور کی چیزوں کو دیکھنے میںدقت ہونا۔ اس مرض میں ڈھیلے کا قطر آمنے سامنے کے رخ زیادہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے روشنی کی شعاعیں آنکھ کے اندر جا کر پردہ شبکیہ پر مرکوز نہیں ہو پاتیں بلکہ اس سے آگے جمع ہوتی ہیں اور پھر لوٹ کر پردہ شبکیہ پر آتی ہیں۔ اس کے اسباب بھی تقریباً وہی ہیں جو نظر کی کمزوری میں بیان کیے گئے۔ اتنا ضرور ہے کہ اگر اس مرض کے اسباب بہت شدید نہ ہوں تو چالیس سال کی عمر کے بعد بصارت اصلی حالت پر آجاتی ہے ورنہ مرض بڑھ جاتا ہے۔
تیسرا مرض جسے ’’بعید نظری‘‘ کہا جاتا ہے اس میں دور کی چیزیں تو صاف دکھائی دیتی ہیں مگر قریب کی چیزوں کو دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے اس میں ڈھیلے کے قطر آمنے سامنے کے رخ میں چھوٹا ہو جاتا ہے اور روشنی کی شعاعیں پردہ شبکیہ کے پیچھے جمع ہوتی ہیں جس کی وجہ سے شکل صحیح نہیں بن پاتی۔ یہ بھی کم روشنی میں پڑھنے اور باریک بینی کے کام کرنے سے ہوتا ہے یا کبھی کبھی پیدائشی طور پر والدین سے ورثہ میں بھی ملا کرتا ہے۔ اس کی علامات یہ ہیں کہ قریب کی چیزوںکو دیکھنے یا آنکھ کے قریب لا کر دیکھنے سے حروف یا چیزیں صاف دکھائی نہیں دیتیں۔ آنکھوں پر بوجھ پڑتا ہے‘ نظر تھک جاتی ہے۔ جب اس درجہ سے مرض بڑھ جاتا ہے تو چیزوں کو دیکھنے کے لیے آنکھوں پر زور دینا پڑتا ہے اور جب مرض اس سے بھی بڑھ جائے تو چیزیں دھندلی نظر آنے لگتی ہیں۔
نظر جب کمزور ہو ہی جائے تو اس کا یقینی علاج صرف چشمہ ہے لیکن منعکس ہونے سے بچنے کے لیے یا بڑھے ہوئے نمبروں کو کم کرنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر اور علاج کا مشورہ ذیل میں دیا جاتا ہے۔ نظر کا کمزور ہوجانا کھی عمر کے ساتھ بڑھتا ہے اور یہ بھی بڑھاپے کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے‘ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’جب بصیرت بڑھتی ہے تو بصارت ساتھ چھوڑنے لگتی ہے۔‘‘
-1 آنکھوں کی حفاظت کے لیے سب سے ضروری چیز ان کی صفائی ستھرائی ہے۔ جب بھی منہ دھوئیں ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ضرور آنکھوں میں ماریے اس کے لیے آئی گلاس بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اپنے ہاتھ اور انگلیوں کو ہرگز آنکھوں سے نہ لگایئے جب تک یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ وہ بالکل پاک و صاف ہیں۔ استعمال کیے ہوئے رومال یا دوسرے کپڑوں سے بھی آنکھوں کو صاف نہیں کرنا چاہیے۔
-2 پڑھتے یا نظر کا کام کرتے وقت روشنی کا مناسب انتظام ہونا چاہیے‘ اس کے لیے صرف پر روشنی کا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ پورا کمرہ اچھی طرح روشن ہو۔ روشنی براہ راست آنکھوں پر نہ پڑے بلکہ اوپر یا پیچھے سے کتاب پر پڑے۔ تیز اور چکاچوند کر دینے والی روشنی مثلاً فلیش گن یا ویلڈنگ کی روشنی نظر کے لیے نقصان دہ ہے۔
-3 نظر کا کام کرتے وقت اپنی آنکھوں کو جھپکاتے رہیے تاکہ آنکھ کا دوران خون درست رہ سکے‘ اس کے علاوہ آنکھوںکو خوب کس کر بند کرنا اور پھر یکایک کھول دینا بھی اچھی ورزش ہے۔
-4 اپنی صحت کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ آپ اسی قسم کے امراض میں تو مبتلا نہیں جو کہ آنکھوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً دائمی قبض و نزلہ‘ ہاضمے کی خرابی‘ نیند نہ آنا‘ ذیابیطس اور ذہن کو پراگندہ رکھنے والے امراض ضعفِ دماغ و اعصاب اس کا بڑا سبب ہیں‘ ان کی تقویت کا خیال رکھا جائے اور ان تمام باتوں سے بچا جائے جو عام صحت کو خراب کرتی ہیں۔
-5 غذا متوازن استعمال کی جائے‘ خصوصاً ایسی غذا لی جائے جس میں حیاتین اے موجود ہو‘ اس کے لیے مغزیات کے حریرے‘ گاجر کا رس‘ سونف‘ شلغم وغیرہ مفید ہیں۔ اگر یہ حریرہ بناکر پیا جائے تو تقویت بصر کے لیے مفید ہے۔
مغز بادام چھلکا اترا ہوا 25 گرام‘ مغز تخم کدو شیریں 7 گرام‘ مغز پنبہ دانہ (کپاس کے بیج کا مغز) 9 گرام‘ تخم خشخاش سفید 9 گرام‘ کشنیز خشک 5 گرام‘ چاول بغیر پالش کیے ہوئے 12 گرام‘ ہد مصری یا شکر 25 گرام‘ مغزیات چاول اور دھنیے کو پانی میں خوب پیس چھان کر شکر ملا کر نوش کیا جائے۔ مکھن یا خالص گھی گرم کے الائچی کا بگھار دے کر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
گاجر‘ شلغم‘ سبز ترکاریاں‘ انڈا‘ دودھ‘ بالائی وغیرہ غذا میں شامل رکھیے‘ کھانے کے بعد سونف کا استعمال بھی مفید ہے۔ مگر ان سب تدابیر سے پہلے آنکھوں کا معائنہ کروا کر صحیح نمبروں کی عینک ضرور لے لیجیے تاکہ آپ کی نظر مزید کمزور ہونے سے محفوظ ہو جائے۔
آنکھوں کے بیان کے ذیل میں سرمہ کی اہمیت و افادیت کا جائزہ بھی لے لینا چاہیے۔ یہ مسئلہ اکثر زیر بحث رہتا ہے کہ سرمہ آنکھ کے لیے مضر ہے یا مفید‘ اس لیے بہتر ہے کہ ہم سرمہ کے افعال و خواص کا جائزہ لیں۔ یہ مانع عفونت سے یعنی جراثیم سے محفوظ رکھتا ہے۔ انفکیشن پیدا نہیں ہونے دیتا۔ حابس خون ہے یعنی خون کو بہنے سے روکتا ہے۔ محفف ہے یعنی آنکھوں کے میل کچیل کو کاٹ کر باہر نکالتا ہے۔ قابض ہے یعنی اعضا میں سکڑن پیدا کرتا ہے اور یہ سب خصوصیات صرف آنکھ کے لیے نہیں ہیں بلکہ بیرونی طور پر لگانے سے جسم کے ہر حصے میں مفید ہوتی ہیں اس کے علاوہ سرمے کا ایک فائدہ یہ لکھا گیا ہے کہ یہ مقویٔ چشم یعنی آنکھوں کو طاقت دینے والا ہے۔
اب ہم ذرا آنکھوںکے چند امراض کا جائزہ لیں۔ بنیادی طور پر آنکھوں کی صفائی ستھرائی کو بڑی اہمیت حاصل ہے چونکہ وہ کھلی فضا میں رہتی ہیں اس لیے ہر طرح کے جراثیم آنکھوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اب اگر وہاں کوئی چیز موجود جو کہ جراثیم کش ہے تو یقینا وہ آنکھوں میں انفکیشن نہیں ہونے دے گی۔ سرمہ کی پہلی صفت مانع عفونت ہی ہے۔ دوسرے آنکھوں میں گرد و غبار پڑ کر پپوٹوں کی اندرونی سطح اور آنکھ کے ڈھیلے میں خراش پیدا ہو جاتی ہے اور یہی بڑھ کر زخم بن جاتے ہیں جن سے جریانِ خون بھی ہو سکتا ہے۔ سرمہ کی دوسری صفت زخموں کو بھرنا اور خون کے بہنے کو روکنا ہے۔ مجفف ہونے کی وجہ سے آنکھوں میں جو میل کچیل اکٹھا ہو جاتا ہے سمیٹ کر گوشۂ چشم میں لے آتا ہے جہاں سے اسے با آسانی صاف کر دیا جاتا ہے۔ آخری فائدہ جو کہ سرمہ کا بیان ہوا ہے وہ مقوی ٔ چشم ہے۔ اب خود ہی خیال فرمایئے کہ جو چیز آنکھوں میں جراثیم کشی کر رہی ہو اور اسے کھلے ہوئے زخموں میں تبدیل نہ ہونے دے رہی ہو اور جو چیز آنکھ کے میل کچیل کو کاٹ کر خارج کر رہی ہو کیا وہ آنکھوں کے لیے ایک تندرست ماحول پیدا کرنے میں معاون و مددگار ثابت نہیں ہوگی اور یہی تندرست ماحول آنکھوں کو تقویت نہیں بخشے گا؟
ہاں اتنا ضرور ہے کہ سرمہ کے فوائد کے ساتھ بھی مبالغہ شامل ہو گیا ہے اور اتائیوں نے طرح طرح کے کراماتی سرمے ایجاد کر لیے ہیں اور آنکھ کے ہر مرض کا علاج انہیں سمجھا جانے لگا ہے مثلاً موتیا بند کے لیے سرمہ استعمال کرایا جاتا ہے جب کہ آنکھ کے ڈھیلے کے اندر جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ان پر سرمہ براہِ راست کوئی اثر نہیں ڈال سکتا۔
اگر سرمہ کو آنکھوں کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ قدرت کا بے مثل تحفہ ہے۔ سرمۂ سیاہ جو کہ مکہ مکرمہ سے آتا ہے‘ اسے اگر پوری صفائی کے ساتھ نہایت باریک کھرل کر لیا جائے تو یہ یقینا فائدہ منت ہوگا۔ موٹا پسا ہوا سرمیہ بجائے فائدہ کے خود آنکھوں میں خراش پیدا کرتا ہے اور امراض کا سبب بن جاتا ہے۔ سرمہ کے استعمال میں ایک بات کا خیال لازمی ہے وہ یہ کہ اگر زیادہ مقدار میں حلق میں چلا جائے تو صحت کے لیے مضر ہے اور آنکھوں میں لگائی یا ڈالی جانے والی دوا کا کچھ حصہ حلق تک پہنچ جاتا ہے اس لیے اتنی زیادہ مقدار میں نہ لگایا جائے خصوصاً کم سن معصوم بچوں کے معاملے میں خاص طور پر احتیاط برتنا چاہیے تاکہ ان کے جسم کی نشوونما سرمہ کے مضر اثرات سے متاثر نہ ہو۔