مس فٹ کون

218

محبوب برحق وحدہ لاشریک لہ کتنا حسین ہے جواب نہیں۔
وہ سب سے زیادہ حجابوں میں ہے۔
دنیا کے ہر حسن میں اس کی جھلک ،اس کی گواہی ہے،
اس کی تلاش ہے۔
جس میں متلاشی اس کو اپناتے ہیں اور غافل مسلسل شک میں مان کر بھی نہیں مان رہے ہوتے ہیں ۔
یقین جب سلامت نہیں رہتا پھر ہر دائرے میں ترتیب بگڑجاتی ہے
بندے کا رب سے اور اسی حوالے سے بندے کا بندے سے تعلق ایک آپس کی بات ہی تو ہے۔
رازونیاز کے معاملے ہیں توحجاب لازم ٹہرانا!
زمانہء طالب علمی میں استاد محترم کے ذھن نشین کرائے ہوئے انمول موتی کی طرح لیکچرز آج بھی احتیاط سے نوٹ تھے، رُمیصاء کے لیے یہ ساری حیات کے لیے روشن راہنمائی تھی یا راہنما روشنی، متا کتنی تھی اس میں سرمائے کی طرح قیمتی۔
زندہ یادوں کی بچت جیسی پیاری اور عزیز سنہری یادیں اچانک اس کا موبائل بجا تو وہ جیسے خواب سے جاگ گئی ۔
فون پہ احمر تھا۔
“رُمیصاء یار گفٹ کے لیے کراکری ٹھیک رہے گی نا” وہ مشورہ ضرور کرتا تھا۔
جی بالکل بس ذرا جلدی آئیے گا”
اکثر احمر گفٹ وغیرہ کی خریداری خود ہی کرتا تھا یہ بات رُمیصاء کے لیے بہت اطمینان بخش تھی۔
ورنہ آج کل کے ماحول میں وہ اپنی اور بچوں کی خریداری کے علاوہ بازار جانے سے گریز کرتی تھی۔
اس نے بہرحال شادی میں جانے کے لیے کپڑے نکالے عید کے کپڑے سب کے لیے مناسب لگے اور کوئی خاص تیاری تو نہیں تھی وہ جلدی سے کپڑے پریس کرنے لگی کہ کہیں برق اپنی رفتار نہ دکھا جائے۔
یہ ان لوگوں کے پرانے ملنے والوں کی تقریب تھی اس لیے شرکت بھی ضروری تھی۔
شادی ہال میں گلیمر اور شیطانیت بھرپور رچے ہوئے تھے۔
ادھورے لباس، پرفیوم کی مہک، ڈیک پہ شور مچاتی بے ہودہ فلمی گانے، اور مخلوط محفل کے شو ۔
سب کچھ انڈین فلموں کی ایک تقلید تھی۔
بڑی تلاش کے بعد ایک گوشہء فراغت ملا یہاں عبایا،اسکارف، اور چادر میں ملفوف خواتین بیٹھی تھیں۔
“شکر ہے یہاں کوئی بندہ نہیں ”
دھیرے سے کہتے ہوئے اس نے شکر ادا کیا۔
ادھر دلہن کی بھابی ادھورے بلاؤز اور انڈین ساڑھی میں ملبوس آتی دکھائی دیں رُمیصاء نے بڑھ کر سلام اور مبارک باد کے ساتھ گفٹ دیا۔
“ارے رُمیصاء یہ تم ہو یہ عبایا تو اتارو میں پہچان نہیں سکی تھی”۔
“ارے نہیں بھابی اتنے مرد ہیں یہاں بےپردگی ہورہی ہے “۔
اس نے ہمت کرکے صاف جواب دیا۔
“ارے بابا ایسا بھی کیا پردہ، خوشی کی محفل ہے سب چلتا ہے ایسے میں اتارو اسے”۔
وہ کھلی بانہوں کو لہراتے ہوئے آگے بڑھیں لہجے اور آنکھوں میں بڑی حقارت تھی ۔
وہ خاموش رہی۔
“ان لوگوں کو درمیان میں پردہ رکھنا چاہیے عورتوں اور مردوں کی محفل الگ ہی ٹھیک رہتی ہے”۔
رُمیصاء نے خواہش کا اظہارکرہی دیا ۔
بھئی جب تک بہشت نصیب ماں زندہ رہیں ایسا ہی پردہ رہا مگر اب تو سمجھو قیامت آئی کہ آئی سب ہی کھلتا جارہا ہے ایک بزرگ خاتون نے چادر کا پلو سنبھالتے ہوئے ناگواری سے کہا۔
“امی ہم لوگ کتنے اجنبی لگ رہے ہیں نا”۔
اسکارف سے سر ڈھانپے پوری آستین کے لباس میں ایک سولہ سالہ بچی تحقیر آمیز رویوں اور نظروں سے افسردہ ہو کر بولی۔
“نہیں بیٹا خدا کا حکم ہے کہ ملامت کرنے والوں کی ملامت سے خوف مت کھاؤ یہ ہمارا حجاب ہمارا حق ہے پاکیزہ ماحول میں خوشی کا سواد ہی الگ ہے جان اللہ کی نافرمانی پہ شرمندہ ان کو ہونا چاہیے ” بچی کی باحجاب ماں نے بڑے پریم سے سمجھایا جس سے رُمیصاء کو بھی سہارا ملا۔
ادھر اسٹیج پہ دولہا دلہن بے باکانہ انداز سے مووی میکر کے آگے لہراتے ہوئے اظہار یک جہتی کررہے تھے ۔
نوجوان لڑکے لڑکیاں نظارے اور نظربازی کی ساری غلاظتوں کو انجوائے کررہے تھے سیٹیاں تالیاں لچرگانوں پہ رقص دلدل میں دھنسانے لگتے۔
اور بزرگ بھی کیا کریں آج کل یہی چل رہا ہے کہہ کر تماشا دیکھ کر مجرمانہ خاموشی کے مرتکب تھے۔
ایسےمیں شیطان کی خوب چلتی جاتی ہے۔
ایسے ماحول میں حجاب کو کم یا زیادہ برقرار رکھنے والے نشانہ بنتے ہیں ۔
ادھر دلہن کی چھوٹی بہن ۔
ثمن جوبغیر آستین کی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے کچھ زیادہ ترنگ میں تھی ان کے ٹیبل کی طرف آئی اور رُمیصاء کو سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی دوست سے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ’’اونہہ مس فٹ لوگ‘‘۔
اس نے زور سے الفاظ ان کی طرف یہ الفاظ پھینکے ایک اور نیم عریاں لباس میں ملبوس لڑکی قہقہہ مار کر ہنسنے لگی۔
“پردہ ہے بھئی پردہ ہے ” جیسے سب کورس میں ان کی تذلیل کر رہے تھے۔
اور پھر دوبارہ اسٹیج پہ عکس بندی کے لیے چلے گئے۔
ظاہر ہے ایسے مواقع کہاں ملتے ہیں ۔
واہ بھائی مہمانوں کی اتنی عزت افزائی کا پروگرام بنایا ہوا ہے یہ خاتون غصے سے بھری نہیں باجی آپ کو نشانہ بنا رہے ہیں یہ شاید اس طرح ہمارا ایک گروپ بن کے بیٹھ جانا ان کو کھل رہا ہے ورنہ ہماری ان سے کوئی دشمنی تو نہیں ہے رُمیصاء نے ڈٹ کر کہا ۔
اتناحوصلہ کچھ ساتھیوں کی وجہ سے تھا کسی برے ماحول میں ایک اچھے ماحول کا گوشہ کتنی قوت لگتا ہے پھروَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لآَئِمٍ کے فہم اور ورد نے ان کو تقویت دی تھی۔
ان کو چاہیے تھا کارڈ پر لکھ دیتے کہ ہماری پسند کے حلیے میں آئیں ورنہ نہ آئیں۔
ایک اور باحجاب خاتون نے اظہار ناراضی کیا۔
مما گھر کب چلیں گے ۔
’’ہاں بیٹا کھانے کے بعد فوراً نکل چلیں گے‘‘بچی کے سوال کا جواب یہی تھا مگر سوال میں ایک فطری بیزاری تھی معصوم ذہن کی جس پہ وہ شکر گذار تھی۔
بہرحال ماحول میں بڑی بے ہودگی تھی۔
او یار وہ لڑکی کیا غضب ڈھا رہی ہے ایک من چلے نے دوست سے کہا۔
ہاں یار لڑکی تو قیامت ہے قیامت ایمان لے لے گی یا دل بازاری سڑک چھاپ عاشقانہ تبصرے ثمن کے لیے کیے جارہے تھے جس نے اپنی دوست کے ساتھ مل کر انھیں مس فٹ کا خطاب دیا تھا۔
شاید یہی ادھورا لباس فٹنس کا معیار تھا۔
مزید بے ہودہ گانوں کے بول ہیجان پیدا کررہے تھے۔
کیا حسن خوشی اور تفریح شیطانیت کے راستوں میں ملتے ہیں؟
حالانکہ دعائیں، مرادیں،اورخوشیاں تو رب سے مانگی جاتی ہیں۔
اور شیطان تو انسان کے دل سے خوشی کی ہر رمق ختم کرکے سرشار رہتا ہے۔
یہ سب خواتین یہی باتیں کررہی تھیں کہ اچانک اسٹیج سے عجیب شور اٹھا جو جھگڑے کارخ اختیار کررہا تھا۔
’’حد میں رہو‘‘۔
ایک نازک آواز میں کوئی دھاڑا۔
کوئی دل پھینک مستی میں غرق ہوکر حد سے آگے بڑھنے لگا تھا۔
مگر اداکاری، رقص اور عکس بندی میں ایسا تو ہوتا ہے نا۔
مگر کبھی اداکاری میں حقیقت بھی آہی جاتی ہے۔
مگر یہ کیا جانیں کہ حد کیا ہے ؟
’’ بڑی آئی حدوالی ‘‘۔
اس بےحد جانے والے نے جیسے تھوک دیا۔
کمرشل کا کوئی فیشن ڈیزائنر کوئی رقاص کوئی عکس بند،اور کوئی حجاب پہ ہنسنے والا اس سوال کا جواب آج تک ٹھیک سے دے نہ سکا کہ یہ حد ہے کیا چیز ؟
کیمرے وقتی طور پہ آف ہوئے مگر حقیقت کیا تھی اس سین کافیصلہ خدا کے کیمرے میں محفوظ ہوچکا تھا۔
مہمان متجسس تھے کچھ نمٹ کر جانے کو بےتاب کہ ہونے کو دنیا میں کیا نہیں ہورہا ہے۔
بہرحال بڑوں نے معاملہ ٹھنڈا کیا کہ چلو اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میںتھوڑی دیر پہلے مس فٹ ہونے کا طعنہ دینے والی عجیب انداز سے فٹ بیٹھی تھیں۔
اور یہ ثمن ہی کا گروپ تھا مستی میں بے باک فضاء مکدر سی ہوگئی سرگوشیاں تبصرے،توبہ توبہ کی آوازیں عجیب ہی ماحول تھا۔
خدا خدا کرکے کھانا لگا رُمیصاء جیسے تیسے کھانے سے نمٹ کر عنیزہ کے ساتھ باہر آئی۔
جیسے محاذ سے نکلی ہو۔
احمر اشعر کے ساتھ لان کے دروازے پہ ان کا منتظر تھا۔
“شکر ہے معرکہ سر ہوگیا، خیریت رہی پھر بھی”۔
عنیزہ کو اعتراض تھا کہ جب موبائل میں یا ٹی وی پہ یہ سب دیکھنا بہت برا ہے تو ایسی شادیوں میں آتے ہی کیوں ہیں۔
یہ معصوم ذھن کا فطری سوال تھا کیوں …!
اس کا بڑوں کے پاس تسلی بخش جواب نہیں تھا۔
آخر بچوں کو کہاں تک اور کیسے مطمئن کریں والدین بڑی کشمکش میں پڑجاتے ہیں۔
“شکر کرو کل چھٹی ہے “۔
احمر نے سب کو ریلیکس کرتے ہوئے موضوع بدلا اور بائیک سٹارٹ کرتے ہوئے گھر واپسی کی راہ لی۔
پتا نہیں ہمارے بچے کن حالات میں بڑے ہوں گے بے ہودگی کتنی بڑھ رہی ہے کسی تقریب میں جانے کو دل نہیں کرتا اب دوسرے دن صبح ناشتے کی ٹیبل پہ یہی سوالات زیر بحث رہے۔
“احمر آخر لوگ خوشی میں جامے سے باہر کیوں ہوجاتے ہیں؟ حد تھی کل تو”۔
“شاید یہ بھی جامہ تلاشی کرنے والوں کی سازش ہو”۔
احمر اس کو پریشانی سے نکالنے کو ہنسانے کی کوشش کرنے لگا۔
” کل آپ لوگ ہم سے الگ تھلگ ہوکر بیٹھے تھے نا”۔
“جیسے باحجاب ہوکر آپ نے اس برے ماحول سے لاتعلقی کا اعلان کیا ویسے ہمارا الگ بیٹھنا آپ سے اظہار یک جہتی تھا سیدھی سی بات ہے آپ اتنی فکرمند ہوکر یہ بھول گئیں”۔
رُمیصاء کی نگاہوں میں بے شمار تشکر تھا۔
دیکھو یار ایک پاکیزہ ماحول کی آرزو جب آلودگی کے آگے ڈٹ جاتی ہے اور ایک منظم کوشش جاری رہتی ہے نا تو تطہیر کا عمل ہوتا رہتا ہے پھر کیا مایوس ہونا اور کیوں ؟؟”
اس نے رُمیصاء کا ہاتھ تھام کر دلاسہ دینے کی کوشش کی جو آنے والے وقت سے خائف تھی : پھر چند دن بعد ہی آنے والی فرح کی کال ایک بریکنگ نیوز تھی۔
یا خدا کی طرف سے فٹنس کا ایک واضح فیصلہ۔
فرح اس تقریب میں باحجاب ان لوگوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔
بات کچھ اچھی نہیں تھی مگر بری حرکتوں کا برا نتیجہ ضرور تھی اس کے حجاب پہ ہنسنے والی ثمن کو خوار تو اسی وقت ہونا پڑا تھا جگ ہنسائی کی اذیت دیکھنی پڑی مگر فرح نے بتایا کہ چھ ماہ سے اس کی طے شدہ رشتے کی بات ختم ہوگئی صرف اس لیے کہ ایسی بے ہودہ اور آزاد خیال لڑکی گھر نہیں بناسکتی حالانکہ خاصے آزاد خیال لوگ تھے وہ” ایسا تو نہیں کرنا چاہیے نا “۔
فرح نے افسوس کے ساتھ اطلاع دیتے ہوئے اس سے سوال کرڈالا۔
” ہاں فرح بات تو افسوس کی ہے مگر سوچو نا نیم عریاں لباس میں لڑکی کا لڑکوں کے سامنے بے ہودہ گانوں پہ تھرکنا اور لڑکے کا خرمستی کرنا کسی کو پسند آئے گا؟”
رُمیصاء نے سچائی واضح کرتے ہوئے کہا۔
وہ سوچ رہی تھی واقعی ایسی لڑکیاں شوبز کے تماشوں کے لیے ایک دم فٹ ہوں گی مگر گھروں میں اجالا نہیں کرسکتیں اس لیے مس فٹ ٹہرتی ہیں ۔
بے حجابی پرائیویسی پہ حملہ ہے جسے کوئی برداشت نہیں کرسکتا….. کوئی بھی نہیں ۔
حجاب اب بھی پرایک کے لیے پرکشش ہے۔
دلوں کے آنگن سے گھروں کے آنگن تک۔
اب فٹنس کی سند حجاب کو مل چکی تھی اس پہ ہنسنے والے مس فٹ ہوگئے تھے
فیصلہ ہوچکا۔
لایخافون لومتہ لائم
( اور وہ ملامت کرنے والوں کی،ملامت سے خوف زدہ مت ہو)

حصہ