17 ستمبر ہفتے کا دن تھا، حضرت امام حسینؓ کے چہلم کا دن، جس کے باعث نیٹ ورک پرابلم تھا، پھر بھی یہ داد طلب بات ہے کہ پروگرام رکھا گیا اور شان دار انداز سے وقوع پذیر بھی ہوا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ’’ہمتِ مرداں، مددِ خدا۔‘‘
بس فرق یہ تھا کہ ہمت خواتین نے کی، جی ہاں یہ روداد ہے ایک ایسے پروگرام کی، جو کہ ’’یومِ حجاب‘‘ کے حوالے سے جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی نشرواشاعت (وسطی) کی ٹیم نے منعقد کیا تھا۔
پروگرام کا موضوع تھا ’’اسلامی تہذیب اور بدلتی اقدار‘‘ اور اس ثقیل موضوع پر تحریر، تقریر اور پوسٹر بنانے کے مقابلے رکھے گئے تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے کیا گیا اور حمد پیش کی گئی۔ ہم جس وقت ہانپتے کانپتے مرکزِ الفلاح پہنچے تو اے سی کی ٹھنڈک سے ہمارا موڈ خوش گوار ہوگیا۔ ہال میں پچاس کی تعداد میں لڑکیاں دریوں میں براجمان تھیں اور متعدد افراد کے لیے کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ دیواروں پر مقابلے میں حصہ لینے والی لڑکیوں کے پوسٹر چسپاں تھے جن میں حجاب کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا، سوشل ایپس (ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹا گرام وغیرہ) کے نقصانات سے آگاہ کیا گیا تھا۔ سامنے ایک پیاری سی خاتون جو کہ محترمہ نزہت منعم صاحبہ تھیں ’’معاشرے کی بدلتی اقدار‘‘ پر بہترین درس دے رہی تھیں، ان کے بہترین پوائنٹس یہ تھے کہ زمانے کی بدلتی اقدار کے بہائو میں بہہ نہ جائیں، معاشرے کے رنگ میں رنگ نہ جائیں، ان کا مشاہدہ کریں، منفی پہلوئوں کا مقابلہ کریں۔ اپنے موضوع کو واضح کرنے کے لیے انہوں نے لومڑی کی کہانی سنائی جس کی دُم کسی وجہ سے کٹ جاتی ہے اور دوسری لومڑیوں کے سامنے وہ بہت بدنما لگتی ہے لیکن وہ لومڑی اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے یہ بات دوسری لومڑیوں کے ذہن میں بٹھا دیتی ہے کہ یہی تو سب سے اعلیٰ فیشن ہے، اور تمام لومڑیاں بھی اپنی دُم کٹوا دیتی ہیں اور بعد میں پچھتاتی ہیں، مگر اب پچھتاوے کیا ہووت…
نزہت منعم نے حجاب کے حوالے سے مسکان کا ریفرنس دیا کہ معاشرے کی برائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دل گردہ چاہیے۔ سوشل میڈیا کے کارکنان کے لیے ان کے تین اہم پوائنٹس یہ تھے کہ قرآن و سنت سے جُڑ جائیں، اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں جس کے لیے علم کا حصول ضروری ہے، اور اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لیے دلیل کی قوت اپنائیں۔ لڑکیوں سے مخاطب ہونے کا انداز بہترین تھا، پوری ریسرچ کے ساتھ موضوع پر گفتگو کے بعد ان کے تعارف سے معلوم ہوا کہ وہ عثمان پبلک اسکول میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کی سینئر منیجر ہیں۔
نزہت منعم کے لیکچر کے بعد تقریری مقابلے کا آغاز ہوا۔ نشرواشاعت (وسطی) کی نگراں شہلا خضر نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ تقریری مقابلے میں لائبہ عارف‘ بریرہ اسامہ‘ اریسہ بانو‘ عبیرہ نایاب‘ رابعہ سلیم اور سدرہ سلمان نے حصہ لیا۔ تمام مقررین نے جوشیلے انداز میں تقریر کی۔ ان میں بریرہ اسامہ بہت معصوم اور چھوٹی سی بچی تھیں مگر تقریر کا انداز بہترین تھا۔ تقاریر پر تبصرے کے لیے نگراں حریم ادب عشرت زاہد کو دعوت دی گئی جنہوں نے اصلاح کی کہ تقریر ہمیشہ زبانی یاد کرکے کریں‘ لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں تاکہ بات دل سے نکلے اور لوگوں کے دل تک پہنچے، کیوں کہ تقریر کا اصل مقصد لوگوں کا دل جیتنا ہے‘ ان پر اپنا نقطہ نظر واضح کرنا ہے۔ اس کے بعد حمیرہ قریشی جو کہ دعوۃ اکیڈمی کی ریسورس پرسن ہیں، کو دعوت دی گئی کہ وہ پُراثر تقریر کرنے والوں میں انعامات تقسیم کریں۔ انہوں نے تمام مقررین کو سراہا‘ اریسہ بانو کو پہلا‘ عبیرہ نایاب کو دوسرا اور بریرہ اسامہ کو تیسرا انعام دیا۔ اس کے بعد توقیر عائشہ کو دعوت دی گئی کہ وہ تحریری مضامین‘ کہانیاں اور اشعار جو کہ ’’اسلامی تہذیب اور بدلتی اقدار‘‘ کے موضوع پر لکھے گئے تھء‘ پر انعامات تقسیم کریں۔ توقیر عائشہ نے کہا کہ موضوع بہت مشکل تھا مگر لوگوںکی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں۔ لکھنے والوں کے لیے ان کا پیغام تھا کہ مؤثر تحریر کے لیے سادہ اور مختصر انداز اپنائیں۔ پہلا انعام راحیلہ جمشید کو دیا گیا جنہوں نے موضوع پر بہترین مضمون لکھا تھا‘ دوسرا انعام نزہت ریاض کو ’’میں مجبور نہیں‘‘ اور تیسرا انعام ماہ نور شاہد کو ’’کیا ہوا بچی ہی تو ہے‘‘ کو دیا گیا۔
پوسٹر میں جیتنے والی مریم حفیظ‘ یمنیٰ انصاری اور انیلا تھیں۔ اختتام پر روبیہ نعیم جو کہ نائب وسطی ہیں، کو دعا کے لیے بلایا گیا، انہوں نے مختصر دعا کے ساتھ پروگرام کا اختتام کیا۔ لڑکیوں نے عصر کی نماز پڑھی اور ریفریشمنٹ سے لطف اندوز ہوئیں۔ حجاب اور عبایا کا اسٹال بھی لگایا گیا تھا مگر گھر جانے کی جلدی تھی اس لیے ہم نے خود کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیا کہ ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت…‘‘