مخبر کی خبر

255

مخبر نے اطلاع دی ہے کہ ملک میں ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد آل پاکستان کچرا ایسوسی ایشن کا اہم اجلاس طلب کیا گیا جس میں ملک بھر کے تمام اضلاع سے آئے ہوئے نمائندگان نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی اپنی آرا پیش کیں۔ اس اجلاس کی صدارت کچرا رانی نے کی۔ اپنے خطاب کے دوران کچرا رانی نے اُن صوبائی حکومتوں کو جہاں صفائی کے بہتر اقدامات کیے جارہے ہیں، آڑے ہاتھوں لیا۔ اس دوران شاپر نے احتجاج کرتے ہوئے بتایا کہ جہاں جہاں بھی صفائی کی گئی ہے وہاں ہم سے کھلی فضاؤں میں اڑنے کا حق چھین لیا گیا ہے، جس کے بعد خاصی گرما گرمی دیکھنے کو ملی۔ خاصی دیر جاری رہنے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر فوری طور پر کارروائی عمل میں نہ لائی گئی تو مستقبل میں کوڑا کرکٹ کو بچانا ممکن نہیں رہے گا، لہٰذا اگر جینا ہے تو اپنی بقاء کی جنگ لڑنی ہوگی، اگر لڑ نہیں سکتے تو کسی ایسے علاقے کی جانب کوچ کرنا ہوگا جہاں بلاخوف وخطر رہا جاسکے۔ اُن صوبائی حکومتوں کو جہاں صفائی کے بہتر اقدامات کیے جارہے ہیں، کچرا رانی نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اقدامات کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ کچرا لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے، مثلاً اگر کچرے کے جگہ جگہ ڈھیر لگے ہوں تو ان سے اٹھنے والے تعفن سے مختلف جراثیم پیدا ہوتے ہیں جو بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، جب لوگ بیمار ہوں گے تبھی اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھے گی، جتنے زیادہ لوگ بیمار ہوں گے ڈاکٹروں کو اتنا ہی فائدہ ہوگا، اس طرح بے روزگار بیٹھے طبیبوں کا بھلا ہوگا، یعنی جتنی تعداد میں مریضوں کا اضافہ ہوگا ڈاکٹروں کا کاروبار اتنا ہی ترقی کرے گا، اس طرح نہ صرف ڈاکٹر خوش حال ہوں گے بلکہ لکھی جانے والی ادویہ کی فروخت میں بھی تیزی آئے گی جس سے دوا ساز اداروں سے منسلک ورکرز کے گھروں میں بھی خوشحالی آئے گی۔ ملک میں اگر کہیں صفائی ستھرائی کے اقدامات کیے جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف کچرے کو کریش کیا جاتا ہے بلکہ لوگوں کو بے روزگار تک کردیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب کسی کو کریش کرنے کی کوشش کی گئی وہ سودمند ثابت نہیں ہوئی۔ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہتی ہے تو اس اجلاس میں ہمیں بھی اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
اجلاس کے دوران کراچی کی نمائندگی کرنے والے نے کچرا رانی کو مشورہ دے کر تمام مسائل ہی حل کرڈالے۔ اس کی تجویز کے مطابق اگر کہیں صفائی ہوتی ہے تو ان حالات میں گھبرانے کی ضرورت نہیں، تمام شرکاء کو یہ ہدایت دی جائے کہ وہ کوڑا کرکٹ سے لدے شہر کراچی کا رخ کریں، کیونکہ ابھی مون سون کی بارشوں میں جتنے مزے کراچی کے کچرے نے کیے ہیں شاید ہی ملک کے کسی اور کوڑے دان میں پڑے کچرے نے کیے ہوں، کراچی کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جسے گندگی بری لگتی ہو، نہ ایسا محکمہ ہے جو کوڑا اٹھا سکے، اگر کبھی صفائی مہم چلائی جاتی ہے تو وہ بھی برائے نام ہوتی ہے، نمائشی طور پر کاغذ کے چند ٹکڑے اٹھانے کے لیے لمبے لمبے اشتہارات چھپوا کر کروڑوں روپے کا فنڈ ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔ اس شہر میں کچرے کے کئی پہاڑ ہیں جہاں بلا خوف وخطر رہا جا سکتا ہے، جہاں کی گلیاں اور سڑکیں کچرے سے آٹی پڑی ہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ صوبائی اور بلدیاتی اداروں کے درمیان ہونے والی اختیارات کی جنگ کی وجہ سے ہماری جانب کوئی نہیں دیکھتا، یہی وجہ ہے کہ جو آزادی ہمیں کراچی میں میسر ہے کسی اور خطے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اجلاس کے آخر میں متفقہ طور پر یہ قرارداد منظور کی گئی کہ اڑتے کاغذوں اور شاپروں کے ذریعے ملک بھر میں یہ پیغام پہنچا دیا جائے کہ تمام کوڑا کرکٹ ہوا کے دوش پر سوار ہوکر کراچی کا رخ کرے، یہ آئیڈیل جگہ ہے جو ہماری بقاء کے لیے ضروری بھی ہے۔ ظاہر ہے جسے دنیا کے گندے ترین شہر کا لقب ملا ہو ہمارے لیے اُس سے بہتر ٹھکانہ اور کہاں ہوسکتا ہے! لہٰذا جلد سے جلد کراچی پہنچ کر اسے مزید گندا کیا جائے، وہاں پہنچ کر جراثیم کی افزائشِ نسل کو تیز کیا جائے تاکہ گندگی کے باعث ترقی پانے والے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرسکیں۔
مخبر کی بتائی ہوئی خبر پر کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے، یہاں کچرے سمیت کوئی بھی شخص یا انجمن اپنے مطالبات منوانے یا اپنی بنیادی سہولیات کے حصول کے سلسلے میں آواز بلند کرسکتی ہے، بلکہ کسی اجلاس یا کانفرنس کا انعقاد بھی کرسکتی ہے۔ میرے مخبر نے جو رپورٹ دی اس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ سوائے کراچی کے ملک بھر میں گندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ کراچی ہی نہیں بلکہ پورے صوبہ سندھ کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ صوبہ سندھ کی گلیاں اور سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں، جبکہ ملک کے دیگر شہروں کی صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ راولپنڈی، اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر کرکے دیکھ لیجیے، آپ کو سڑک کے دونوں طرف کچرا نام کی کوئی شے نظر نہیں آئے گی، وہاں کی گلیاں اور سڑکیں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس پر صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ جس صوبے کے حکمران نسلی سیاست کرتے ہوں، جہاں تیرے میرے کی لڑائی ہوتی ہو وہاں عوام کے بنیادی مسائل پر کوئی بات نہیں کرسکتا۔ آپ کراچی شہر کی کسی بھی مصروف ترین سڑک کا سفر کرکے دیکھ لیجیے، برائے نام بنائی جانے والی فٹ پاتھوں کے ساتھ گندگی کے ڈھیر دیکھنے کو ملیں گے۔ یہاں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کے دوران آپ کے ساتھ خدا کے آسرے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں بسنے والے اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ یہ اس ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں تعمیراتی ترقی کے بجائے کرپشن نے ترقی کی۔ حال ہی میں ہونے والی برسات کے نتیجے میں یہاں کے پارکوں میں دلکش نکھار آنے کے بجائے سڑکوں اور محلوں میں غلاظت کے ڈھیر تیرتے نظر آئے، ہر طرف سیلابی کیفیت تھی، میدان اور اہم شاہراہیں تالاب کا منظر پیش کررہی تھیں، تمام پوش علاقے زیر آب تھے، جبکہ غریب آبادیوں میں رہنے والوں نے راتیں جاگ کر گزاریں۔ بارش کیا ہوئی کہ سارا شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔ حکمرانوں کی جانب سے ترقی کے دعووں کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کے نشیبی علاقے تو رہے ایک طرف.. وزیراعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس سمیت سندھ اسمبلی کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا جس نے نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ بلدیاتی اداروں کی جانب سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ یہاں ایک دوسرے سے بڑھ کر مال بنانے کو تو ترجیح دی گئی لیکن غریبوں کے لیے پینے کے ایک گیلن صاف پانی کا بندوبست نہ کیا گیا، عوام کو دیہی اور شہری بنیاد پر تو تقسیم کیا گیا لیکن کبھی یکساں نظام کی بات نہ کی گئی۔ لسانیت، تعصب اور اقربا پروری کی سیاست کا ایسا بیج بویا گیا جس نے ہمیں نفرت کی ایک ایسی بند گلی میں داخل کردیا جہاں سے نکلنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ تیس برس سے ہونے والی اس سیاست نے صوبہ سندھ کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی طور پر تباہ کر ڈالا۔ متعصب حکمرانوں نے اردو سندھی زبان کے نام پر عوام کے درمیان اس قدر دوریاں پیدا کردیں کہ آج کرپشن اور لوٹ مار میں ملوث سیاست دانوں سے اپنی بنیادی سہولیات کے حصول کے لیے بھی کوئی سوال نہیں کرتا۔ محکموں میں چن چن کر کرپٹ افسران کی تعیناتی کی گئی، اہلیت کے بجائے زر کی بنیاد پر عہدے تقسیم کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی ادارہ یا اہم عہدے پر فائز شخص اپنے فرائض ایمان داری سے ادا کرنے کو تیار نہیں، یعنی جو جتنا بڑا کرپٹ، اُسے اتنی ہی بڑی اور اہم پوسٹ پر بٹھاکر اداروں کو گھر کی لونڈی بنا لیا گیا۔
میرے نزدیک اگر بدترین طرزِ حکمرانی ہے تو اس میں کچھ قصور عوام کا بھی ہے۔ بجائے یہ دیکھنے کے کہ یہ ڈراما آخر کب تک چلتا رہے گا، یا یہ سوچ رکھنا کہ یہ ظلم و جبر کا نظام آخر کب تک برقرار رہے گا.. ہمیں خود اپنے لیے اٹھنا پڑے گا، یہ بات یاد رکھنی ہو گی کہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا، اسے عقل دی اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا، اس لیے اندھی تقلید کرنے کے بجائے اپنی ان صلاحیتوں کے مطابق فیصلے کیے جائیں، اس نظام کے خلاف منظم ہوکر جدوجہد کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کیا جائے، جن کے سامنے جابر و ظالم حکمران بھی نہیں ٹھیر سکتے۔ ہمیں چاہیے کہ آپس کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قدم سے قدم ملا کر سارے ملک خصوصاً صوبہ سندھ سے لسانیت کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کا خاتمہ کردیں جو ہر آنے والے دن کے ساتھ نفرتوں میں اضافے کا باعث بنتی جارہی ہے۔ پوری قوم کو مل کر ناانصافی، کرپشن اور اقربا پروری جیسی لعنتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ اگر ہم یہ کرسکتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا وہی کامیاب رہیں، اور کامیاب قومیں ہی دنیا پر حکمرانی کیا کرتی ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان بنے تقریباً 75 برس ہوچکے ہیں اور ہم عوام کو بنیادی سہولیات تک نہ دے سکے۔ اب ہماری تیسری نسل جوان ہوچکی ہے۔ سوچ سمجھ کر عقل سے فیصلے کیے جائیں گے تو خدا کی مدد نصیب ہوگی، ورنہ در در کی غلامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ خدارا آنے والی نسلوں کے لیے کچھ کر جائیے۔ یاد رکھیے قرآن کا اعلان ہے کہ ”ہم نے ایسے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے کہ ان کے دل ایسے ہیں جو نہیں سمجھتے اور ان کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے، اور کان تو ہیں مگر نہیں سنتے۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ، یہی لوگ غافل ہیں۔“

حصہ