لوگ کیوں بدل جاتے ہیں

408

اکثر ذہنوں میں یہ سوال گردش کرتا رہتا ہے کہ لوگ کیوں بدل جاتے ہیں؟ اور جب اس سوال کا جواب کھوجنے کے لیے کسی سے پوچھو تو زیادہ تر لوگ ہوا میں تیر چلاتے نظر آتے ہیں۔ میری زندگی میں بھی یہ سوال ہمیشہ سرفہرست رہا تھا کہ آخر لوگ کیوں بدل جاتے ہیں؟
سوشل میڈیا پر یہ سوال بہت اٹھتا ہے، پہلے تو میں نے بھی سوچا کہ باقیوں کی طرح میں بھی لکھوں کہ وقت اور حالات کی وجہ سے، آپ سے بہتر مل جانے کی وجہ سے، یا پھر حد سے زیادہ توجہ حاصل ہوجانے کی وجہ سے۔ میری سوچوں میں وجوہات کے انبار لگے ہوئے تھے، اور جب ہر وجہ کو اس بات سے جوڑتی تو ایک نئی بات سامنے آتی۔ میں کسی ایک وجہ پر آمادہ نہیں ہو پارہی تھی کہ آخر ان میں سے کون سی صورت لوگوں کے بدلنے کی وجہ بنتی ہے۔ اس وقت تو میں کوئی مثبت جواب نہ کھوج پائی اور باقی مصروفیات کی طرف متوجہ ہوگئی، پَر یہ سوال میری سوچوں میں جوں کا توں تھا اور مجھے اس سوال کے جواب کی جستجو بڑھنے لگی۔
بالآخر مجھے اس کا جواب ملا اور جواب بھی ایسی جگہ سے ملا جہاں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں بنتی۔
ہوا کچھ یوں کہ میں ایک کتاب پڑھ رہی تھی اور میری نظر ’’فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹھیر گئی، جس نے میرے ذہن میں گردش کرتی سوچوں کو ایک پل کے لیے ساکن کردیا۔ جب میں کچھ سوچنے کے قابل ہوئی تو وہ میرے لیے لمحۂ فکر تھا، لکھا ہوا تھا کہ ’’جو شخص بندوں کو خوش رکھنے کے لیے اللہ کو ناراض کرے گا تو اللہ اس کو انہی بندوں کے حوالے کردے گا۔‘‘
اکثر میں نے ابن ِ آدم کو یہی شکوہ اللہ سے کرتے پایا ہے کہ کیوں ہماری مخلص محبت، وقت، اہمیت، وفا، ہماری دی گئی توجہ لوگ لمحہ بھر میں بھول جاتے ہیں جبکہ ہم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، پھر بھی لوگ بدل گئے، بھول گئے، ٹھکرا گئے، چھوڑ گئے۔ یااللہ میں نے تو ہر رشتے میں ایمان داری دکھائی ہے، لیکن پھر بھی کیوں، آخر کیوں لوگ بدل گئے؟ ہمیشہ ہم یہی چاہتے ہیں کہ لوگ ہم سے راضی ہوجائیں۔ یہاں غور کرنے کی بات ہے کہ ہمارا تو اللہ یا اس کے لوگوں سے ذرہّ برابر بھی کوئی شکوہ یا شکایت بنتی ہی نہیں، جبکہ اس حدیث کی رو سے شکوہ تو اللہ کا ہم سے بنتا ہے، کیوں کہ اللہ نے کہہ دیا نا کہ تم مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو خوش رکھنا چاہتے ہو تو جاؤ پھر یہ لوگ جانیں اور تم جانو۔
اصل میں دیکھا جائے تو لوگ نہیں بدلتے، لوگ وہی رہتے ہیں، اس کے برعکس ہم خود کو لوگوں کے لیے بدل رہے ہوتے ہیں کہ وہ کس چیز میں خوش ہیں؟ کیا بات انہیں بری لگ رہی ہے؟ اگر ایسا نہ کیا تو وہ ہم سے دور ہوجائیں گے، اور ایسا کیا کریں کہ وہ ہم سے قریب ہوجائیں۔ تو یہ سب کرکے ہم اللہ کو ہی تو ناراض اور خود کو آزمائش میں مبتلا کرلیتے ہیں۔ ایک طرف تو اللہ کی رضا کو چھوڑ کر لوگوں کو راضی کرنے کی چاہ کی، تو اللہ نے آپ کو انہی کے حوالے کردیا، اور پھر بندے بھی وہ جو اللہ کی ناشکری سے گریز نہیں کرتے اور آپ سوچتے ہیں کہ وہ آپ کی قدر کرلیں گے۔
اس کی مثال ایسے جھولے کی سی ہے جس پہ ہم بیٹھتے ہیں، بالکل ایسے ہی ہم لوگوں سے ملتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ جھولا تیز ہونے لگتا ہے، تعلق بھی بڑھنے لگتا ہے۔ پھر جیسے جیسے جھولا رفتار پکڑتا ہے ہمارے آس پاس کا منظر دھندلانے لگتا ہے، ایسے ہی جب ہم لوگوں میں بالکل مگن ہوجاتے ہیں تو ہماری عقلوں پر بھی اللہ کی طرف سے پردے ڈال دیے جاتے ہیں، اور پھر آخر میں جھولے کو ایک وقت پر رکنا تو ہوتا ہے، اور جب جھولا رکتا ہے تو منظر گھومتا نظر آتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب ہم لوگوں کے قریب سے قریب تر ہوجاتے ہیں تو پھر لوگ آزماتے ہیں، اور جب آپ اُن کی دی گئی آزمائش پر پورے نہیں اترتے تو وہ لوگ جیسے اچانک آتے ہیں، ویسے ہی چپکے سے چلے بھی جاتے ہیں، اور آپ سب کے ذہنوں میں ایک سوال چھوڑ جاتے ہیں کہ ’’لوگ کیوں بدل جاتے ہیں؟‘‘

حصہ