آئی ایس پی آر ،ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس،آزادی مارچ
سیاسی منظر نامہ نت نئے رخ اختیار کررہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی چیف کی پریس کانفرنس اور پھر فیصل مسجد جنازے کی وڈیوز تاریخی طور پر یاد رکھی جائے گی اور سوشل میڈیا پر آئیندہ کئی دنوں تک اس کا چرچا رہے گا،عمران کے خوف کی کامیابی ہی کہلائےگی ناں۔مطلب ملک کی اہم ترین خفیہ ایجنسی کا چیف منظر پر آگیا،سیاست میں حصہ نہ لینےکا بیانیہ جس پر آج بھی یقیقن مشکل سے کرپارہے ہیں.اسی طرح ترتیب نوٹ کریں عمران خان کی ضمنی انتخابات میں کامیابی، الیکشن کمیشن کے خلاف ریفرنس، الیکشن کمیشن کا نا اہلی فیصلہ ،توشہ خانہ موضوع بن گیا،لانگ مارچ کی دھمکی چلی ۔اسکے بعد اچانک کینیا میں ارشد شریف کے قتل کی واردات ،ساری نااہلی ، توشہ خانے پر چھاگئی۔اتنی محنت سے اتنے سال بعد ، الیکشن کمیشن نے کئی ضمنی الیکشن کامیاب کرانے کے بعد محفوظ شدہ فیصلہ سنا کر تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کو نا اہل قرار دیا ،مگر ارشد جاتے جاتے بھی عمران خان کے لیے مزید حمایت، مزید محبت، مزید وابستگی،مزید ہمدردی کے نئے رستے کھول گیا۔ اپوزیشن نے زور لگا دیا سوشل میڈیا پر عمران خان کو سرٹیفائیڈ چور ثابت کرنے پر اور کم از کم نواز شریف و زرداری کے برابر لانے پر ،مگر یقین مانیں ارشد شریف کی اچانک ،پراسرار موت نے سب دھو ڈالا۔وہ کہتے ہیں نہ خون رنگ لائیگا تو وہ لے آیا۔عمران خان نے اپنے طویل ٹوئیٹ میں عدلیہ کو خوب آڑے ہاتھ لیا ، جبکہ پاکستانی عدلیہ کا کینیا میں کوئی کردار نہیں ،”ارشدشریف کےقتل نےملک بھرمیں شدید صدمے کی لہر کوجنم دیاہے۔اس قتل نے اربابِ اختیار سے سوال پوچھنے یا انہیں ہدفِ تنقید بنانے کی جسارت کرنے والے ہر فرد کو نشانہ بنائے جانے کے رواں سلسلےکو پھر سےاجاگر کیاہے۔کو آئین کے تحت میسر بنیادی حقوق کی فراہمی اور انہیں ریاستی و حکومتی زیادتیوں سے بچانے اور محفوظ رکھنے کیلئے ہماری اعلیٰ عدلیہ کب حرکت میں آئے گی؟ ”
بات یہاں تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا ،مگر کیا کہیں سوشل میڈیا کا معاملہ ہی الگ ہے۔مریم نواز برطانیہ سے کود پڑیں اور ایک ری ٹوئیٹ کر دیا ، یہ بھی لکھا کہ نہیں کرنا تھا مگر انسان اپنی موت کو نہ بھولے اس لیے کر رہی ہوں۔ یہ ٹوئیٹ لائن پار کر گیا۔مطلب ارشد شریف اپنی زندگی میں تو کمٹڈ تھا ، اس کی موت بھی عمران خان کے لیے انعام بنی ، تدفین کے لیے جسد خاکی کی آمد بھی کام کر گئی۔ اکثر کوئی صحیح بات غلط موقع پر بیک فائر کر جاتی ہے۔ ارشد شریف کی بیرون ملک میں پر اسرار قتل پر ہر جگہ ہمدردی موجود تھی۔ سب اپنے تجزیے کر رہے تھے، پاک فوج نے بھی سنجیدہ لے لیا، تحقیقات کے لیے حکومت کو خط لکھ دیا۔ مریم نواز نے عوامی رد عمل دیکھ کر ٹوئیٹ ڈیلیٹ کر دی اور وضاحت کی کہ ’’ہدف کسی کا مذاق اڑانا نہیں‘ ماضی سےسبق سیکھنے سے متعلق تھا۔‘‘ کہنے کو تو یہ سب چند گھنٹوں میں ہو گیا مگر اس کے اثرات سارے سوشل میڈیا پر منڈلاتے رہے۔ بات ختم نہ ہوئی عمران نے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا تو جھٹ اگلا کارڈ نکل آیا۔ ارشد کی موت پر بننے والی عوامی حمایت اور لانگ مار چ کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے اب کی بار اہم کارڈ کھیل ڈالا۔ تحریک انصاف کے ایک اہم مرکزی رکن فیصل واوڈا نے پارٹی کے خلاف عجیب پریس کانفرنس کر ڈالی۔ یوں سوشل میڈیا پر ایسے ٹرینڈ چل گئے کہ پی ٹی وی کیوں لائیو دکھا رہا ہے؟ #فیصل واوڈا رانگ نمبر۔ ایسے کمنٹس چلے کہ ’’اہل انصاف کی جانب سے واڈا کو گالیاں دینے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔‘‘ اسی طرح ’’بات اتنی سی ہے جنہوں نے پی ٹی آئی میں فٹ کرایا وہ کہیں اور بھی ایڈجسٹ کرسکتے ہیں۔‘‘ بات ختم نہیں ہوئی، فیصل واوڈا اکیلا نہیں تھا کیونکہ فیصل کے بیانیے کے حق میں الگ ٹرینڈ بھی لسٹ میں نظر آئے۔ اب آگے بات خود سمجھ جائیں۔ اس ہفتہ علی زیدی اور شہباز گل کی جانب سے مریم نواز کے خلاف تنقید کی گئی۔
23 اکتوبر کو پاک بھارت دلچسپ میچ کے اختتام پر پاکستان کی شکست اور بھارتی کرکٹر ویرات کوہلی کی بیٹنگ کی سب تعریفیں کرتے رہے۔اس میں اہم بات پاکستانی بالر محمد نواز کی جانب سے ایک نو بال اور کوہلی کے فری ہٹ پر بولڈ ہونے کے بعد رنز بنانے کے معاملے پر پاکستانی سمیت غیر ملکی کرکٹرز نے تحفظات کا اظہار کیا ، جو سوشل میڈیا پر فوراً ٹرینڈ کر گیا۔سارے ایک سے ایک ماہرین جمع ہوگئے ، انتہائی دلچسپ صورتحال ہوگئی۔کھیل وہ بھی کرکٹ کا ذکر کرنے میں یوں مزابھی آتا ہے کہ کھلاڑی میدان اور پچ پر کس دھن میں ، کس دباو میں ہوتا ہے ، یہ وہی جانتا ہے ۔اس سے لاکھوں میل دور ٹھنڈے کمروں پر میں بیٹھ کر اپنے دور میں ٹائم پاس کھلاڑی ایسے ایسے تجزیے کر رہے ہوتےہیں کہ کرکٹ جانتا ہوتوہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوجائےکہ یہ یہاں بیٹھ کر کیسے یہ تجزیے کرتے ہیں ؟
اس ہفتہ شو بز کی جھوٹی دنیا سے جڑا ،حقیقی شادی شدہ جوڑے کی طلاق کا اور اس کے بعد شوہر کی جانب سے تشددکا کیس سامنے آیا۔مہینوں سے ٹرانس جینڈر ایشو میں مقید فیمنسٹوں کوذراتازہ سی ہوا ملی۔جس دن یہ کیس آیا اس سے ایک دن قبل کراچی ، عبد اللہ شاہ غازی کے مزار سے ایک 10سالہ یتیم بچی کے ساتھ زیادتی کا کیس سامنے آیا ،مگر مجال ہے جوکسی نے معصوم بچی اور اسکی ماں کی کوئی داد رسی کی ہو۔یہ تضاد نام نہاد انسانیت پرستوں کو لے ڈوبے گا، خواہ وہ کسی لبادے میں کیوں نہ ہوں۔سوشل میڈیا پر شوبز اداکار فیروز خان اور علیزے سلطان نے گزشتہ ماہ 21 ستمبر کو طلاق کی تصدیق کی تھی، دونوں نے 2018 میں شادی کی تھی، 2بچے بھی ہیں۔علیزے نے طلاق کے وقت شوہر پر جسمانی تشدد کا الزام عائد کیا تھا۔اب چونکہ بچوں کی حوالگی کے لیے عدالت میں کیس چل رہا ہے تو اپنی بات ثابت کرنے کے لیے 2020 کے کچھ دستاویزی و تصویری ثبوت متعلقہ عدالت اور ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر عوام کی عدالت میں جمع کرائے۔علیزے سلطان پر تشدد کی تصاویر سامنے آنے کے بعد متعد شخصیات نے ان کا ساتھ دیتے ہوئے فیروز خان کو آڑے ہاتھوں لیا۔مگر یقین کریں جو جو لوگ کمنٹ کر رہے تھے،کسی کویہ نہیں معلوم تھا کہ یہ تصاویر 2 سال پرانی ہیں، جب وہ اس کی بیوی تھی۔
لبرل بطن سے جنم لینے والا ایک اور’’تخم خبیثہ‘‘ یہ ’’فیمن ازم‘‘ ہے جس نے مزید آگے جینڈر تقسیم کو جنم دے کر ’’ایل جی بی ٹی کیو پلس ‘‘ کے رستے نکالے۔ کہنے کو تو یہ ایسا ہے کہ فیمن ازم اپنے پیدا کردہ اس نئے تخم خبیثہ میں ضم ہوجائے گا جیسا مغرب میں شروع ہو چکا ہے مگر ابھی اس کو کچھ وقت لگے گا۔ اس دوران پہلی سیڑھی یعنی فیمن ازم پر سب کوچڑھائےگا تاکہ دوسری سیڑھی با آسانی چڑھائی جا سکے۔میں قرآن مجید، احادیث مبارکہ دیکھتا ہوں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے جس جس چیز پر تنبیہ، ہدایت، اشارے دیے ہیں وہی کام شیطان انتہائی قوت سے خوشنما بنا کرانجام دیتا ہے تاکہ جھانسے میں لوگ آسانی سے آسکیں۔قرآن مجید میں عورت کو فتنہ قراردینا، جہنم میں کثرت، عورت کی گواہی آدھی کرنا،وراثت میں حصہ نصف کرنا، ناقص العقل قرار دینابلاشبہ ہمارے خالق ومالک کا فیصلہ ہے ۔وہ حکیم ہے اس لیے وہی بہتر جانتا ہے کہ خواتین پر رخصتیںاورذمہ داریاںکیوں کم کی ہیں۔ وہ خالق ہے تو یہ اسی کی پالیسی ہے کہ فرق رکھا ۔ہم سب تو ہیں غلام تو غلام کادائرہ کار یا ایسا کام ہی نہیں کہ اپنے مالک کے فیصلوں پر الگ سے دماغ خرچ کرے کیونکہ وہ یہاں مالک کا امتحان دینے آیا ہے۔مالک نے ہدایات اور پرچہ میں ایسا کوئی سوال ہی نہیں رکھا کہ اس کے احکامات پر عمل کے بجائے وجوہات ڈھونڈتا پھرے۔اس لیے اپنی حیثیت کو ہمیشہ یاد رکھنا ہی عافیت کا رستہ کھولتا ہے۔قرآن مجید میں مخصوص حالت میں شوہر کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی صاف اجازت دی گئی ہے، ہو سکتا ہے کہ شوہر نے ترتیب آگے پیچھے کردی ہو، اپنے فہم کے مطابق مگر میاں بیوی کے نجی معاملات کو ظاہر میں لا کر ایسے پیش کرنا ازخود بدترین عمل ہے۔سوشل میڈیا جس مشن پر گامزن ہے اس میں لبرل اقدار اولین مقام رکھتی ہیں،اس کی پہلی شکل اپنے ہر نج کو ظاہر میں لانا اور اس پر آنے والے ریسپانس سے تسکین پانا ہے۔اس ریسپانس کی بنیاد پر تعلقات کی استواری ہے۔ یہ خالص لبرل تصور معاشرت ہے جو امپرسنل بنیادوں پر کھڑا ہے۔
بہرحال واپس آتے ہیں، موضوع کی دوسری کڑی ’’اینڈریو بابا“ کی جانب۔ جی ہاں اینڈریو ٹیٹ، 35 سالہ امریکی عیسائی باکسر اور سوشل میڈیا انفلوئینسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انفلوئینسر کی اصطلاح سوشل میڈیا میں ان لوگوں کےلیے استعمال ہوتی ہے جن کے فالوورز یا چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہو اور وہ انتہائی فعال رہتے ہوئے مختلف امور میں اپنی رائے بھی دیتے ہوں۔ اینڈریو سماجی میڈیا پر یو ٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹا گرام، فیس بک پر اپنی زبردست شہرت رکھتے تھے۔ انسٹا گرام پر کوئی 47 لاکھ فالوورز تھے، جو ایک جھٹکے میں تمام کے تمام ختم کر دیے گئے۔ یو ٹیوب پر ساڑھے سات لاکھ سبسکرائبر تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیا کہہ دیا ہوگا اینڈریو نے؟ جی تو نوٹ کرلیں پہلی بار 2017 میں اینڈریو نے فیمنسٹ خواتین کی اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ جنسی زیادتیوں کو عام کرنے کی مہم ’’می ٹو‘‘ پر خوب تنقید کی۔ اس کے بیانیہ کے مطابق ’’عورت کا اصل مقام گھر ہے، وہ ڈرائیو نہیں کر سکتی، وہ مرد کی ملکیت ہے۔‘‘ اس کے علاوہ یوں کہہ لیں کہ بعد میں اینڈریو نے صرف خواتین کا مذاق اڑایا تھا جسے فیمن ازم کے دائرے میں ڈال کر اس کے مزاحیہ جملوں کو توہین کا عنوان بنا دیا گیا۔ اینڈریو صفائیاں دیتا رہا مگر دونوں پلیٹ فارمز ٹک ٹاک، فیس بک نے متفقہ فیصلہ کیا۔یہ بات ہے اگست 2022 کی، اب اکتوبر 2022 میں کہ اچانک کچھ ویری فائڈ اکاونٹس سے اور اینڈریو نے اپنے نئے بنائے گئے اکاؤنٹس پر قبول اسلام کا اعلان کردیا۔ نماز کی ادائیگی کی وڈیو ڈال دی جو ہفتہ بھر میں کوئی 15 لاکھ بار دیکھ لی گئی۔ اس نے سورۃ روم کی آخری آیت کا ترجمہ لکھا کہ ’’اس لیے میں مسلمان ہوں۔ کوئی بھی عیسائی جو اچھائی پر یقین رکھتا ہے اور باطل کے خلاف حقیقی جنگ کو سمجھتا ہے اسے تبدیل ہونا چاہیے۔ پس صبر کرو، بے شک اللہ کا وعدہ سچا قرآن ہے۔ٗ‘‘
بہرحال پوری دنیا کو اس کے قبول اسلام کی اطلاع مل گئی، مبارک بادیں اور حمایت بھی خوب آئیں۔ اب یہ نوٹ کریں کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے بند ہونے پر اپنی مکمل وضاحت دے چکا تھا کہ وہ خواتین کے خلاف نہیں ہے۔ اس کو بظاہر سزا بھی مل گئی تھی برسوں سے بنائے گئے اکاؤنٹس و فالوورز کے نقصان کی صورت مگر یقین مانیں لوگوں نے اُسے نہیں بخشا۔ اس پر مجھے سورۃ حجر کی یہ آیت صورت حال پر بہت مناسب محسوس ہوئی۔ ’’مجرمین کے دلوں میں تو ہم اِس ذکر کو اِسی طرح سلاخ کے مانند گزارتے ہیں۔‘‘ جس خدا پر اینڈریو ایمان لایا ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتا اس لیے ان کو وہ توہین معنی نہیں رکھتی (جو بظاہر وہ قبول اسلام سے قبل کی حالت میں تھا) عورت چونکہ ایک مکمل اور مجرد مادی وجود ہے۔ پھر اب اس نئی عورت کو لگتا ہے کہ ہزارہا سال سے وہ مرد کے ہاتھوں اتنے “مظالم“ کا شکار ہے کہ اپنے کتھارسس کےلیے باقاعدہ ایک گالی نما اصطلاح ایجاد کر دی گئی مزوجنسٹ“ کے نام سے ۔ اب سارا میڈیا؛ عرب ہو کہ پاکستانی،یورپ ہو کہ امریکی؛سب کے سب اینڈریو کے ساتھ؛یہی اصطلاح لگا رہے ہیں جبکہ اس نے اپنی زندگی میں اس پر وضاحت کردی، سزا بھی لے لی۔ اب یہی اصطلاح سے اسکی پہچان بنا رہے ہیں تاکہ ضرب اسلام کی قبولیت کے عمل پر لگائی جا سکے۔مگر اینڈریوکے لیے ہم دعاگو ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ رب کریم اس باطل فیمنسٹ تحریک کے خاتمے کا تیر بنا کر اس سے ہی وہ کام لے لے۔