اُس نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’آپ پریشان نہ ہوں، جب تک عاصم میرے ساتھ ہے۔ مجھے کوئی خطرہ نہیں۔ ’’اُس کا نام لے کر میں بابلیون کے حاکم کے محل میں بھی داخل ہوسکتا ہوں‘‘۔
’’عاصم کہاں ہے؟‘‘۔
’’عاصم کشتی میں پڑا ہوا ہے۔ وہ بیمار ہے۔ لیکن اب باتوں کا وقت نہیں۔ آپ فوراً سفر کے لیے تیار ہوجائیں۔ ہم قسطنطنیہ جارہے ہیں‘‘۔
’’قسطنطنیہ؟‘‘۔ فرمس اور اُس کی بیٹی نے ایک زبان ہو کر پوچھا۔
’’ہاں! ہمارے لیے صرف نیل کے دہانے تک پہنچنا قدرے مشکل ہے۔ بحیرئہ روم میں داخل ہونے کے بعد ہمیں کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ ہم ایک ایسی کشتی پر سفر کررہے ہیں جس پر ایرانی جھنڈا لگا ہوا ہے۔ طیبہ کے حاکم کا تعارفی خط میرے پاس ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود اگر راستے میں کوئی مشکل پیش آئی تو ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ہم عاصم کو شام کے ساحل کے کسی صحت افزا مقام پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بحیرئہ روم میں داخل ہونے کے بعد ہمیں کوئی رومی جہاز مل جائے گا۔ ہماری کشتی شہر سے آگے کچھ فاصلے پر کھڑی ہے۔ مجھے صرف اس بات کا اندیشہ تھا کہ رات کے وقت شاید میں آپ کے گھر تک نہ پہنچ سکوں‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’اب رات کے وقت ایرانی سپاہیوں کی ٹولیاں بابلیون کی گلیوں میں گشت نہیں کرتیں اُن کی بیشتر فوج قسطنطنیہ کے محاذ کی طرف روانہ ہوچکی ہے۔ اب وہ صرف ایرانی حاکم کے محل یا فوجی مستقر پر پہرہ دیتے ہیں۔ شہر کا نظم و نسق اب مقامی لوگوں کے سپرد کردیا گیا ہے۔‘‘
کلاڈیوس نے قدرے تامل کے بعد کہا۔ اگر آپ یہاں رہنے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے تو میں آپ کو اپنے ساتھ جانے پر مجبور نہیں کروں گا‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’نہیں، بیٹا! ہم تمہارے ساتھ جائیں گے۔ اگر ہمیں تمہارا انتظار نہ ہوتا تو اب تک ہم یہاں نہ رہتے۔ بابلیون کے سیکڑوں آدمی فرار ہوچکے ہیں۔ اور سمندر میں رومی جہاز اُن کی مدد کررہے ہیں۔ لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ عاصم نے تمہارے ساتھ فرار ہونے کا فیصلہ کیسے کرلیا؟‘‘۔
’’عاصم کی یہ حالت ہے کہ اب وہ اپنے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ لیکن آپ جلدی کریں۔ مزید باتوں کے لیے ہمیں کشتی پر کافی وقت مل جائے گا۔ صرف ضروری سامان اور کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے لیجیے‘‘۔
فرمس نے انطونیہ سے کہا۔ ’’بیٹی! تم جلدی سے نوکر کو جگائو‘‘۔
انطونیہ نے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور وہ سفر کی تیاری میں مصروف ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد کلاڈیوس، فرمس، انطونیہ اور اُن کا نوکر سامان کی گٹھڑیاں اُٹھائے، ایک سنسان گلی عبور کرنے کے بعد، دریا کے کنارے گھنے درختوں میں سے گزر رہے تھے۔
فرمس نے کہا۔ ’’اب ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ ذرا ٹھہر جائو! میں بہت تھک گیا ہوں۔ تمہاری کشتی کتنی دور ہے؟‘‘۔
کلاڈیوس نے رک کر جواب دیا۔ ’’آپ کو تھوڑی دور اور چلنا پڑے گا۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر ہم نے کشتی شہر کے قریب کھڑی کی تو وہاں کئی آدمی جمع ہوجائیں گے اور اگر کسی ایرانی پہریدار نے دیکھ لیا تو ہم سے طرح طرح کے سوالات کیے جائیں گے۔ اس لیے میں کشتی کو شہر سے آگے لے گیا تھا‘‘۔
’’فرمس نے پوچھا۔ ’’تم کشتی کے ملاحوں پر اعتماد کرسکتے ہو؟‘‘۔
’’ہاں وہ سب قبطی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ دریائے نیل کے دہانے تک وہ کسی پس و پیش کے بغیر ہمارے حکم کی تعمیل کریں گے اور اس کے بعد انہیں یہ بتادینے میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا کہ ہم شام کے ساحل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ سمندر میں داخل ہونے کے بعد ہمارے لیے کشتی کا رُخ بدلنا مشکل نہ ہوگا‘‘۔
کلاڈیوس اور اُس کے ساتھی کشتی کے قریب پہنچے تو ارکموس جلدی سے نیچے اُتر کر آگےبڑھا اور بولا: ’’آپ نے بہت دیر لگائی، اب جلدی کریں، صبح ہونے والی ہے‘‘۔
کلاڈیوس نے پوچھا۔ ’’عاصم کا کیا حال ہے؟‘‘۔
ارکموس نے جواب دیا۔ ’’اُن کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تھوری دیر ہوئی انہوں نے پانی مانگا تھا اور مجھ سے کچھ دیر باتیں بھی کی تھیں لیکن ابھی تک انہیں پوری طرح ہوش نہیں آیا۔ ‘‘
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’اب تم آزاد ہو۔ اور اگر تم سے کوئی ہمارے متعلق پوچھے تو تمہیں اس سے زیادہ نہیں بتانا چاہیے کہ ہم نے تمہیں رات کے وقت بابلیون کے قریب اُتار دیا تھا‘‘۔
’’آپ فکر نہ کریں۔ میرا گھر بابلیو سے چند میل دور ہے اور وہاں پہنچ کر میں ایرانیوں کی نگاہوں سے محفوظ رہ سکوں گا‘‘۔
فرمس کانوکر سامان کی گٹھڑیاں لادنے کے بعد فارغ ہوا تو کلاڈیوس نے اُس کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’اگر بابلیون میں میری تلاش شروع ہوئی تو ممکن ہے کہ سب سے پہلے تمہارے آقا کے گھر کی تلاشی لی جائے۔ اس صورت میں انطونیہ اور ان کے والد کے متعلق تم سے پوچھا جائے گا اور تمہارا یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ وہ اسکندریہ جاچکے ہیں‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’اگر مصر کے حالات بدل گئے تو میں جلد واپس آنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن اگر میں نہ آیا تو بابلیون میں میرا گھر اور سرائے تمہاری خدمات کا صلہ ہوگا‘‘۔
’’کاش! آپ مجھے اپنے ساتھ لے جاتے‘‘۔
فرمس نے پیار سے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ ہم دوبارہ ملیں گے‘‘۔
ارکموس نے قدرے بے چین ہو کر کہا۔ ’’جناب! آپ کو دیر ہورہی ہے۔ جلدی کیجیے!‘‘۔
کلاڈیوس، انطونیہ اور فرمس کسی توقف کے بغیر کشتی میں سوار ہوگئے۔
طلوعِ سحر کے وقت کشتی بابلیون سے چند میل دُور آچکی تھی، کلاڈیوس اور انطونیہ گہری نیند سورہے تھے۔ اور فرمس عاصم کے قریب بیٹھا تھا، اُس کی نگاہیں عاصم کے نحیف و لاغر چہرے پر مرکوز تھیں۔ وہ بار بار عاصم کی نبض پر ہاتھ رکھتا اور اُس کے چہرے پر اضطراب کے آثار ظاہر ہونے لگتے۔
طلوع آفتاب کے تھوڑی دیر بعد عاصم نے کراہتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور فرمس نے اُس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’اب آپ کا بخار کم ہورہا ہے‘‘۔
’’آپ کب آئے؟ میں کہاں ہوں؟‘‘۔ عاصم نے نحیف آواز میں پوچھا۔
ہم پچھلے پہر کشتی میں سوار ہوئے تھے۔ اُس وقت آپ کا بخار بہت تیز تھا۔ ہم بابلیون سے چند میل دور آچکے ہیں‘‘۔
’’کلاڈیوس کہاں ہے؟‘‘۔
’’وہ سورہا ہے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میں اس حال میں زیادہ دور آپ کا ساتھ نہیں دے سکوں گا۔ اگر کلاڈیوس مجھے بابلیون میں چھوڑ دیتا تو اچھا ہوتا‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’آپ جانتے ہیں کہ کلاڈیوس آپ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔ اور میں بھی آپ کو اس حالت میں چھوڑنا گوارا نہ کرتا۔ آپ کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ شام کے ساحل کی خوشگوار ہوا آپ کو صحت مند کردے گی۔
عاصم کے چہرے پر ایک مغموم مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اُس نے کہا۔ ’’کلاڈیوس کے عزائم مجھ سے پوشیدہ نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے وطن لے جارہا ہے اور آپ کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ میں اب صرف مجبوری اور بے بسی کی حالت میں اُس کا ساتھ دے رہا ہوں۔ میرا شروع سے یہ ارادہ تھا کہ کلاڈیوس کسی دن اپنے گھر پہنچ جائے‘‘۔
’’مجھے اس بخار کا خاصا تجربہ ہے۔ کلاڈیوس سے آپ کی کیفیت معلوم کرنے کے بعد میں اپنے گھر سے آپ کے لیے ایک دوا لے آیا ہوں۔ آپ اسے آزما کر دیکھیے!‘‘۔ فرمس نے چمڑے کے تھیلے سے چاندی کی ایک ڈبیا نکال کر کھولی اور اُس میں سے تھوڑا سا سفوف نکال کر عاصم کی ہتھیلی پر رکھ دیا، پھر جلدی سے اُٹھ کر پیالہ پانی سے بھرا اور عاصم کو پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ یہ دوا کھا کر پانی پی لیں‘‘۔
عاصم نے اُٹھ کر دوا منہ میں ڈال لی اور پانی کے چند گھونٹ پینے کے بعد دوبارہ لیٹ گیا۔
کچھ دیر دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر فرمس نے کہا۔ ’’اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کا زخم دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’مجھے زخم سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی وہ قریباً مندمل ہوچکا ہے لیکن اس بخار نے مجھے زندگی سے مایوس کردیا ہے۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ میں مرنے سے پہلے زندگی کی تمام خواہشوں سے کنارہ کش ہوجائوں‘‘۔
’’نہیں، نہیں۔ آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ قدرت آپ سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہے آب و ہوا کی تبدیلی سے آپ کی صحت ٹھیک ہوجائے گی‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’جب میں اپنے ماضی کے متعلق سوچتا ہوں تو مجھے اپنے عزائم اور اپنی خواہشوں پر ہنسی آتی ہے۔ میں نے ہر موڑ پر اپنے لیے وہ راستہ اختیار کیا تھا جو پہلے راستے سے زیادہ غلط تھا‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’اگر ہر انسان صرف اپنی آنکھوں سے صحیح راستہ دیکھ سکتا تو آج دنیا کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ظلم و وحشت اور بربریت کے اس دور میں ہمیں کسی ایسے رہنما کی ضرورت ہے جس کی نگاہیں ہمارے فہم و ادراک کی سرحدوں سے آگے دیکھ سکتی ہوں۔ اس ظلمت کدے کے مسافر سلامتی کے راستے کے لیے ایک نئے آفتاب کے منتظر ہیں اور جب وہ آفتاب نمودار ہوگا تو آپ لوگ جن کے سینوں میں کسی برائی سے اجتناب کرنے کی جرأت اور کسی اچھائی کو قبول کرنے کی خواہش موجود ہے، ایک نئے دور کے مشعل بردار بن جائیں گے۔
عاصم نے اپنے خشک ہونٹوں پر ایک مغموم مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو یہ خیال کیسے آیا کہ میرے دل میں کسی اچھائی کو قبول کرنے کی خواہش موجود ہے۔ آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ میں حوادث کے طوفان میں ایک تنکے کی طرح بہا جارہا ہوں، یا ایک پیاسے آدمی کی طرح سراب کے پیچھے دوڑ رہا ہوں‘‘۔
فرمس نے جواب دیا۔ ’’آپ میرے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ اور ایک ایسے آدمی کو آپ کے متعلق کوئی غلط فہمی نہیں ہوسکتی جس کی گردن آپ کے احسانات کے بوجھ سے جھکی ہوئی ہے۔ آپ نے دو مرتبہ میری جان اور عزت بچائی ہے۔ اور تیسری مرتبہ آپ نے ہمیں اُس جہنم سے باہر نکالا ہے، جہاں ہم زندگی کی بجائے موت سے زیادہ قریب تھے۔ آج اگر آپ انطونیہ اور اُس کے شوہر کے دل کا حال جان سکیں تو آپ کو اپنا یہ کارنامہ کسریٰ کی سارے تعلقات سے زیادہ شاندار معلوم ہوگا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ کلاڈیوس اپنے وطن جارہا ہے۔ لیکن میرا یہ کارنامہ نہیں۔ بلکہ میں کلاڈیوس کا احسان مند ہوں کہ وہ ایک بیمار اور بے بس آدمی کو اپنے ساتھ لے جارہا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو مجھے کشتی سے اُٹھا کر دریا میں پھینک سکتا تھا‘‘۔
’’عاصم! آپ کیا کہہ رہے ہیں، اگر میں ایک درندہ ہوتا تو بھی آپ کی رفاقت مجھے انسان بنانے کے لیے کافی تھی‘‘۔
عاصم نے چونک کر دوسری طرف دیکھا۔ کلاڈیوس اور انطونیہ اس کے قریب کھڑے تھے۔ وہ بیٹھ گئے اور انطونیہ نے کہا۔ ’’ابا جان! آپ آرام کریں اب میں ان کا خیال رکھوں گی‘‘۔ پھر وہ عاصم کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’آپ کی طبیعت کیسی ہے۔ رات کے وقت آپ کو سخت بخار تھا‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’اب میں کچھ ٹھیک ہوں‘‘۔
انطونیہ کچھ دیر خاموشی سے عاصم کی طرف دیکھتی رہی اور پھر جب اُس کی خوبصورت آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے تو اُس نے کہا۔ ’’میں آپ کی شکر گزار ہوں۔ ہم سب آپ کے شکر گزار ہیں‘‘۔
کنارے کے گھنے درختوں کے پیچھے ایک بستی دکھائی دے رہی تھی، فرمس نے کلاڈیوس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’اگر آپ کشتی کو تھوڑی دیر کے لیے کنارے پر لگا سکیں تو میں عاصم کے لیے تازہ دودھ لے آئوں‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’نہیں، نہیں، آپ کو میری خاطر بستی میں جانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے‘‘۔
فرمس نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے کوئی خطرہ نہیں۔ ایران کے سپاہی اب ان بستیوں کا رُخ نہیں کرتے۔ اب وہ لگان کی وصولی کا کام بھی مقامی کارندوں کے سپرد کرچکے ہیں‘‘۔
(جاری ہے)