ماہرین علم عروض اپنی دھاک بٹھانے کیلئے شاعروں کو عروضی معاملات میں الجھادیتے تھے

285

پروفیسرصفدر علی انشا شاعر‘ ادیب‘ صحافی اور ماہر تعلیم ہیں‘ آپ کی مزاحیہ شاعری کا مجموعہ ’’آبیل‘‘ منظر عام پر آچکا ہے‘ ان کی ایک کتاب ’’اکرام صاحب‘‘ اردو ادب میں موجود ہے‘ آپ نے مختلف کالجوں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے‘ اس کے علاوہ آپ طنز و مزاح کے شعرا میں اپنی شناخت رکھتے ہیں‘ گزشتہ ہفتے راقم الحروف نے آپ سے مکالمہ کیا جو کہ قارئین سے شیئر کیا جارہا ہے۔

جسارت میگزین: شاعری میں علم عروض کی اہمیت پر روشنی ڈالیے گا۔
صفدر علی انشاء: علم عروض ایک باقاعدہ فن ہے جس سے شاعری میں مدد لی جاتی ہے‘ یہ علم فیصلہ کرتا ہے کہ آپ کا شعر بحر میں ہے یا بے وزن ہو گیا ہے‘ ایک شاعر کے لیے اس علم کا جاننا ضروری ہے لیکن نہ جانے بغیر بھی شاعری کی جاسکتی ہے۔ علم عروض کے ماہرین اپنی دھاک بٹھانے کے لیے شاعروں کو علم عروض میں الجھا دیتے ہیں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ علم عروض سکھانے کے لیے باقاعدہ کلاسیں ہونی لازمی ہے اس کام کو آرٹس کونسل‘ پریس کلب اور اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام ہونا چاہیے۔
جسارت میگزین: نثری نظم کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
صفدر علی انشاء: آزاد نظم اور نظم معریٰ ہماری شاعری کا حصہ ہیں جہاں تک نثری نظم کا تعلق ہے تو اس میں ردیف قافیہ نہیں ہوتا اور ردھم بھی نہیں ہوتا اس لیے نثری نظم متاثر کن نہیں ہوتی نثری نظم کا کوئہی رول ماڈل نہیں ہے۔ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے لکھا ہے کہ نثری نظم اپنے ن۔م۔راشد کی تلاش میں ہے۔ بلاشبہ قمر جمیل نے بہت عمدہ نثری نظمیں کہی ہیں لیکن ان کی کسی بھی نظم کو مقبولیت کی سند نہیں ملی۔
جسارت میگزین: موجودہ عہد کے تنقیدی روّیوں کے بارے میں آپ کا کیا تجربہ ہے؟
صفدر علی انشاء: اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ تنقید بھی ادب کا اہم ستون ہے۔ تنقید سے شعور بیدار ہوتا ہے‘ اچھے برے کی پہچان ہوتی ہے لیکن موجودہ دور میں تنقید نگار اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے بلکہ ستائش باہمی کے اصولوں پر کاربند ہیں۔ اب سچی تنقید نگاری نہیں ہو رہی اب تنقید کے نام پر تبصرے لکھے جا رہے ہیں۔
جسارت میگزین: الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
صفدر علی انشاء: الیکٹرونک میڈیا اب وقت کی ضرورت ہے‘ ہمیں جدید تبدیلیوں سے روشناس کراتے ہیں‘ جدید الیکٹرونک میڈیا زندگی کے شعبوں پر اثرات مرتب کر رہا ہے اس نے زندگی کے اسٹائل بد دیے ہیں یہ میڈیا اردو ادب پر بھی عمل دخل رکھتا ہے۔ اب بے شمار ٹی وی چینلز کام کر رہے ہیں لیکن وہ ادب کے لیے مخلص نہیں ہیں اینکرز کی اردو بھی غلط تلفظ کی وجہ سے انتشار پیدا کر رہی ہے۔ ریٹنگ کے حوالے سے ان کی ترجیحات میں اردو ادب شامل نہیں ہے پرنٹ میڈیا بھی محدود ہوتا جا رہا ہے۔ فیس بک‘ واٹس ایپ اور گلوبل نے اخبارات و رسائل کا فروغ محدود کر دیا ہے‘ اب اخبارات بھی اردو ادب کے ساتھ مخلص نہیں اگر ہم نے اپنے رویے تبدیل نہیں کیے تو اردو ادب کو شدید نقصان کا احتمال ہے۔
جسارت میگزین: آپ ماہر تعلیم بھی ہیں‘ آپ موجود تعلیمی اور تدریسی نظام کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
صفدر علی انشاء: مقامِ افسوس یہ ہے کہ کسی حکومت نے بھی تعلیمی اور تدریسی نظام کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ تعلیم‘ قومی ترجیحات میں تیسرے درجے پر بھی نہیں رہی جب کہ تعلیم ہماری اوّلین ترجیح ہونا چاہیے۔ تعلیم کے لیے بجٹ میں خاطر خواہ رقم رکھی نہیں جارہی۔ ہمارے یہاں دہرا تعلیمی نظام چل رہا ہے‘ امیروں کے بچوں کے لیے الگ نصاب ہے اور غریبوں کے اسکولوں کا نصاب الگ ہے۔
جسارت میگزین: سنجیدہ شاعری اور طنز و مزاح نگاری میں کیا فرق ہے؟
صفدر علی انشاء: ہمارے سامنے ایسے شعرا بھی موجود ہیں جنہوں نے مزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح نگاری بھی کی‘ اکبر الٰہ آبادی اور نظیر اکبر آبادی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اسی طرح سید ضمیر جعفری نے بھی بہت اچھی سنجیدہ شاعری ہے‘ مزاحیہ شاعری ایک مشکل کام ہے‘ طنز مزاح لکھتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور شگفتہ انداز میں بات کہی جائے جو گراں نہ گزرے۔ لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنا مزاح نگاری ہے۔ مزاحیہ شاعری کا کرافٹ مین ہونا ضروری ہے‘ جو شاعر زیادہ سنجیدہ ہوگا اس کے ہاں مزاح بھی اونچے درجے کا ہوگا۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
صفدر علی انشاء: ادب براہِ راست زندگی سے جڑا ہوا ہے‘ اس کا سب سے بڑا موضوع انسانی زندگی اور کائنات ہے۔ ہر معاشرے پر ادب کا عکس ہوتا ہے‘ شاعر معاشرے کا نباض ہوتا ہے لیکن انسانی سوچ کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضروریات بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں لہٰذا شاعری کے موضوعات بھی بدلتے رہتے ہیں کیوں کہ شاعر تو وہی کچھ لکھتا ہے جو اس کو اپنے اردگرد نظر آتا ہے۔ ادب کسی ہدایت کے تحت نہیں لکھا جاتا۔ ادب تو زندگی سے جڑا ہوا ہے‘ زمینی حقائق سے چشم پوشی جرم ہے‘ وہ شاعری زندہ رہتی ہے جو زندگی سے جڑی ہو۔
جسارت میگزین: نعت نگاری کے بنیادی تقاضے کیا ہیں‘ کیا نعت نگاری میں تنقید کی گنجائش نکلتی ہے؟
صفدر علی انشاء: نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں تعریف یا توصیف بیان کرنا۔ لیکن اصطلاحات شاعری میں نعت کا لفظ اور صرف آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شاعری کی مختلف ہیتوں مثلاً قصیدہ‘ مثنوی‘ غزل‘ نظم‘ رباعی‘ قطعہ‘ مسدس اور مخمس وغیرہ میں نعت کہی جا رہی ہے تاہم نثر میں آنحضرتؐ کی تعریف و توصیف بیان کرنا نعت ہی کہلائے گی۔ نعت میں شمائل و فضائل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ معمولاتِ نبویؐ‘ غزواتِ نبویؐ‘ عبادات نبویؐ‘ آدابِ مجلس نبویؐ‘ پیغامات نبویؐ اور اخلاق نبویؐ کے بے شمار پہلو شامل ہیں۔ بہت سے تحقیق نگار حضرت خواجہ گیسو دراز کو اردو کا پہلا نعت گو شاعر قرار دیتے ہیں تاہم بہت سے محققین فخرالدین نظامی کی مثنوی کو برصغیر ہندو پاک کی پہلی نعت تسلیم کرتے ہیں۔ ہندوستان میں نعت نگاری کو بہت فروغ ملا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہمارے شعرائے کرام نے بھی نعتیہ ادب میں تحقیقی اور مطالعاتی کام کیا ہے۔ اب تو اردو نعت کا جدید دور شروع ہو چکا ہے‘ اب شمائل رسول کے ساتھ ساتھ دعوتِ اسلام بھی نعت کا موضوع ہے۔ نعت نگاری میں جوش کے بجائے ہوش مندی کی ضرورت ہے‘نعت میں غلو یا جھوٹ کی گنجائش نہیں ہے۔ نعت نگاری میں عبد و مبعود کا خیال رکھنا ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ نعت نگاری میں تنقید جائز ہے کیوں کہ بہت سے ناسمجھ شعرا ایسے الفاظ استعمال کر جاتی ہیں جو کہ شرک زمرے میں آجاتے ہیں۔ لہٰذا نعت کو اس سے پاک کرنا ایک اچھے نعت گو کی ذمہ داری ہے۔ عشق رسولؐ میں ڈوبے بغیر نعت نہیں ہو سکتی اب پاکستان میں نعتیہ ادب بہت ترقی کر رہا ہے اس میں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ تحقیقی کام جاری ہے‘ امید ہے کہ نعتیہ ادب کی ترویج و اشاعت جاری رہے گی۔
جسارت میگزین: آپ کے خیال میں اردو کا مستقبل کیا ہے؟
صفدر علی انشاء: اردو بڑی وسیع القلب زبان ہے‘ جو اردو ہم بول رہے ہیں اس میں دنیا کی دوسری زبانوں کے الفاظ شامل ہے اردو کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے لفظوں کو اپنے اندر اس طرح جذب کر لیتی ہے کہ وہ الفاظ اردو کا حصہ بن جاتے ہیں۔ عدالتی ریمارکس کے باوجود آج تک اردو سرکاری زبان نہیں بن سکی۔ اردو زبان اب دنیا کی چوتھی بڑی زبان کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے اب اردو سافٹ ویئر دستیاب ہے لیکن ہم اردو کو رومن انگریزی لکھ کر اردو کا قتل کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اردو رسم الخط کی تبدیلی چاہتے ہیں اس قسم کے تجربات سے اردو کو نقصان پہنچے گا۔ اردو کا کسی بھی علاقائی زبان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے صوبائی زبانوں کی ترقی سے اردو کی ترقی مشروط ہے اردو ایک بین الاقوامی زبان ہے‘ پاکستان میں رابطے کی زبان صرف اردو ہے ہر قوم‘ ہر قبیلہ اردو سمجھتا ہے اردو بولتا ہے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے‘ اردو کے نفاذ کے لیے مختلف تنظیمیں برسر عمل ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اس زبان کے نفاذ کے لیے آگے بڑھیں تاہم انگریزی سیکھنا ہماری مجبوری ہے کہ ہم اس زبان کے بغیر ساری دنیا سے کٹ جائیں گے دوسرے ممالک سے رابطے کی زبان انگریزی ہے ہم اپنے بچوں کو انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو بھی پڑھائیں یہ ہمارا قومی فریضہ ہے۔ دوسری زبانوں کی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کرکے تعلیمی اداروں میں نافذ کریں۔ اردو کا مستقبل تابناک ہے‘ اردو زبان کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔
nn

حصہ