ہم کیوں مسلمان ہوئے

190

سلیمان شاہد مفسر(امریکا)
ایک دنیا جانتی ہے کہ امریکا میں سیاہ فام باشندوں نے ’’بلیک پاور‘‘ کے نام سے کیا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ تقریباً تین صدیوں تک یہ لوگ سفید فاموںکے غیر انسانی سلوک اور ظلم و تشدد کا نشانہ بننے کے بعد بالآخر ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہوئے‘ مگر بہت جلد موصوف اعتدال پسند رہنمائی سے رسی تڑوا کر مسلح اور انتہا پسندانہ سرگرمیوں پر اتر آئے اور ’’بلیک پینتھر‘‘ نامی تنظیم کے ذریعے سفید فاموں کے لیے پیغامِ اجل بن گئے۔ دونوں طرف سے تشدد‘ قتل اور لوٹ مار کی دوڑ شروع ہوگئی اور پوری امریکی قوم 1965ء سے 1968ء تک خوف ناک نسلی فسادات سے دوچار رہی جن میں انسانی خون کی ارزانی رہی اور دارالحکومت واشنگٹن میں کچھ حصے جلا کر راکھ کر دیے گئے۔
اسلام سے میرا تعارف اسی زمانے میں ہوا‘ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ دونوں قومیں ایک ہی مذہب‘ عیسائیت سے تعلق رکھتی ہیں‘ مگر سفید فام عیسائی سیاہ فام عیسائیوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور اب ردِعمل کے طور پر دوسری جانب بھی یہی کیفیت ہے۔ میں عیسائیت سے سخت بدظن ہو گیا‘ خوش قسمتی سے میری ملاقات مشہور انقلابی ملک الشہباز (میلکم ایکس) سے ہوگئی۔ موصوف اب صحیح العقیدہ مسلمان ہو چکے تھے اور نہایت خلوص اور سرگرمی سے اسلام کی تبلیغ میں مصروف تھے‘ میں ان سے بے حد متاثر ہوا اور یوں میں سوشلزم‘ کمیونزم یا کیپٹل ازم سے بال بال بچ گیا۔ جملہ مسائل کے سلسلے میں سیاہ فاموں کی نظریں ادھر بھی اٹھ رہی تھیں۔
تاہم میں میلکم ایکس کی تحریک میں شامل نہ ہوا۔ ان دنوں میں متذکرہ مسیحی فرقے (Black Panthers) میں پادری کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ عیسائیت ترک کرکے اسلام قبول کرتے ہوئے طبیعت سخت متذبذب تھی لیکن اسلام پر میرا غور و فکر برابر جاری رہا۔ دوسرے برس میں متذکرہ فرقے سے الگ ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں بے حد غیر عقلی باتیں تھیں۔ مثلاً حضرت عیسیٰؑ کی آمد کی کئی تاریخوں کا اعلان کیا گیا جسے ہر مرتبہ بدل دیا جاتا تھا۔
روحانی سکون کی خاطر میں یہودیت کے قریب بھی آیا مگر میں نے دیکھا کہ یہودی زبردست روحانی خلفشار اور عدم سکون کا شکار ہیں۔ ہر مقام پر ان کے نسلی تعصبات ابھر آتے اور مجھے یہ اندازہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ نسل پرست یورپین یہودی مجھ سیاہ فام کو ’’مذہبی بھائی‘‘ کے طور پر کبھی قبول نہیں کریں گے۔
مایوس ہو کر میں نے ہر قسم کے مذہب کا خیال دل سے نکال دیا اور ان تحریکوں میں شمولیت اختیار کر لی جو غریب و پسماندہ لوگوں کی دور افتادہ بستیوں میں انسانی خدمات انجام دیتی ہیں۔ لیکن 1967ء میں اصلاحی خدمات انجام دیتے ہوئے ضلع کولمبیا کے جیل خانوں میں میرا اسلام سے دوبارہ تعارف ہوا۔ یہاں بہت سے لوگوں نے ایک نسلی قسم کے فرقہ (Black Muslims) کو قبول کر لیا تھا۔ اگرچہ یہ اسلام کی صحیح اور سچی صورت نہیں تھی تاہم بیشتر مسیحی فرقوں کے مقابلے میں یہ لوگ بہتر شہری ثابت ہوتے تھے۔ میں نے بہت سے کالے مسلمان قیدیوں کو دیکھا وہ تمام قیدیوں کے مقابلے میں مثالی روے کے حامل تھے اور اپنے اندر شریفانہ زندگی گزارنے کا زبردست داعیہ رکھتے تھے۔
ان دنوں اصلاحی و رفاہی خدمات کے ساتھ ساتھ میں سٹاکلی کارمیکائیل کے بلیک یونائیٹڈ فرنٹ کا بھی رکن تھا اور بڑی سنجیدگی سے Blakc Panthers کے انتہا پسند گروپ میں شمولیت کا ارادہ کر رہا تھا کہ خوش قسمتی سے میری ملاقات ایک ایسے دوست سے ہوئی‘ جسے میں نے کئی برسوں سے نہیں دیکھا تھا۔ میرا یہ دوست بھی ایک زمانے میں Jehovah’s Witness میں مبلغ کی حیثیت سے کام کرتا تھا‘ مگر اب وہ نیکی اور پرہیز گاری کا مجسمہ تھا۔ گفتگو ہوئی تو اس نے زندگی پر بھرپور اور محکم یقین کا اظہار کیا‘ وہ حقیقی آزادی اور سچی خوشی کی نعمت سے مالا مال نظر آتا تھا۔ عام سیاہ فاموں کی طرح اس کے رویے یا باتوں میں دور دور تک مایوسی کا نشان تک نہ تھا۔ قدرتی طور پر میں نے اس کی رجائیت اور مسرت کا راز دریافت کیا کہ یہ نعمت تو اب عنقا ہو کے رہ گئی تھی۔
اس کا جواب تھا ’’اسلام‘‘ وہ اب راسخ العقیدہ مسلمان تھا۔ اس نے بتایا کہ اسلام قبول کرکے اللہ کی اطاعت اختیار کی جائے تو وہ سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں جو ’’بلیک پاور‘‘ کبھی حل نہیں کرسکتی۔ اس نے بڑے اعتماد سے بتایا کہ اللہ کی محبت اور رہنمائی ہر قسم کی نفرت اور تشدد کے مظاہرے سے زیادہ قوی ہے اس نے مجھے واشنگٹن کے اسلامک سینٹر میں آنے کی دعوت دی اور میں نے یہ دعوت بڑے اشتیاق سے قبول کی۔
اور وہ جمعہ کا بڑا ہی مبارک دن تھا‘ جب میں نے پہلے پہل اسلامک سینٹر میں حاضری دی۔ میں سکون اور عظمت کے اس امتزاج کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا جو اس مقدس اور بے حد پاکیزہ مقام پر چھایا ہوا تھا۔ میں جلال و جمال کے اس حسین پارۂ تعمیر سے بھی مرعوب ہوا اور قرآن کا دل نواز لحن بھی میرے دل میں اترتا چلا گیا۔ مگر جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا‘ وہ عبادت کا مسحور کن منظر اور نظم و ضبط کا شاندار مظاہرہ تھا جو آنکھوں کے راستے دل میں اتر گیا۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ مساوات کی بنیاد پر کوئی معاشرہ وجود میں آ ہی نہیں سکتا مگر یہاں کے ماحول میں میرا یہ خیال وہم بن کر اُڑ گیا۔ آنکھ کے پردوں میں نفرت کا جو احساس رچ گیا تھا‘ وہ یکسر مٹ گیا۔میں نے سیاہ و سفید‘ چینی‘ افریقی اور امریکی لوگوں کو بھائیوں کی مانند ایک خدا کے حضور میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا تو خدا اور انسانیت پر میرا اعتماد بحال ہو گیا۔ میں نے اسلام قبول کر لیا اور اس وقت سے میں دیکھ رہا ہوں کہ اسلام کا نظریۂ اخوت کوئی بے جان تصور نہیں ہے‘ بلکہ زبردست عملی قوت ہے اور مسلم سوسائٹی میں ہر جگہ مجھے اس کا تجربہ ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں‘ بلکہ اب اسلام کا ہر شعار مجھے بے حد محبوب ہے‘ میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے نسل و رنگ کے اندھیروں میں ڈوبنے سے بچا لیا۔ میری دعا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ دین ِ حق کی تبلیغ کی توفیق عطا فرمائے اور میں بنی نوع انسان کو راہِ راست کی طرف آنے کی دعوت دیتا رہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے ہر باشندے کو اسلام کی صحیح صورت دکھانے کی ضرورت ہے کہ مغرب میں اسلام کو اس کی حقیقی شکل میں نہیں دکھایا گیا۔ آج لوگ عیسائیت اور یہودیت کے بے جان مذاہب سے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں‘ مگر انہیں کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کی دعوت حکمت اور جرأت کے سے دی جائے تب یہ امر یقینی ہے کہ مغرب کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے۔

حصہ