امت رسومات میں کھو گئی ہے

293

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد سے تفصیلی تبادلہ خیال

(ساتویں قسط)
س: برصغیر میں اقبال جیسی شخصیت پیدا ہوئی، جنہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ اُن کی شاعری غیر معمولی ہے۔ اقبال بظاہر ہمارے نصاب میں بھی نظر آتے ہیں، ہمارے اخبارات میں بھی اُن کا موقع محل کی مناسبت سے ذکر ہوجاتا ہے، ٹیلی ویژن سے بھی شاعری سننے کو مل جاتی ہے۔ لیکن اقبال کے جو تصّورات ہیں ان کا ہماری زندگی سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ اقبال ہمیں اپنی عملی زندگی میں کہیں بھی نظر نہیں آتے، اس کا کیا سبب ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:میں سمجھتا ہوں کہ ہماری امت رسومات میں کھو گئی ہے۔ ہم رسومات کے قائل ہیں، ہم کسی چیز کو سمجھنے کے قابل نہیں رہے۔ ہم رسمی طور پر نماز پڑھتے ہیں، رسمی طور پر اللہ کے رسولؐ سے عشق کا اظہار کرتے ہیں،اقبال کو بھی یوم ولادت اور یوم وفات پر یاد کرتے ہیں، رسمی طور پر خوشی مناتے ہیں بہت سے مواقع پر۔ رسم کا مطلب یہ ہے کہ سال میں ایک مرتبہ ایک چیز کرلیں تو ایک رسم پوری ہوگئی۔ جبکہ دین مطالبہ کرتا ہے مکمل زندگی کو ایک رخ پر لگانے کا، اور اقبال بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ ہوسکتا تھا اگر ہم اقبال کو اپنے نصاب کا حصہ بناتے، اگر ہمارا شعری مجموعہ جو ہم پڑھاتے ہیں پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک وہ اقبال کے کلام کے ان ارتقائی مدارج کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا۔ اقبال نے آخر مکڑی پر، جگنو پر بھی لکھا ہے وہ کس کے لیے ہے؟ یہ بچوں کے لیے کہا ہے۔ایسے ہی و وہ بات کرتے ہیںشاہین کی بھی، یہ کس کے لیے کہا ہے؟ظاہر ہے نوجوان کے لیے۔ ہم اقبال کو بھی سال میں ایک مرتبہ محض رسماًخراج عقیدت پیش کر تے ہیں۔عملاً ہم نے اقبال کو بھلا دیاہے۔ اگر ہم اقبال کو صحیح طور پراپنے تعلیم و تربیت کے عمل میں شامل کرتے تو ہمارے ہاں ترقی ہوتی علم وفن کے اندر، سیرت و کردار کے اندر، معاشرت کے اندر، ہر جگہ ترقی ہوتی، کیونکہ وہ قرآن کریم کے مضامین کو اپنے اشعار میں پیش کرتے ہیں اور ترقی کا راز قرآن کریم کی تعلیمات کو اختیار کرنے میں ہے۔
س: ہمارے ہاں قحط الرجال ہے، نہ کوئی بڑا ادیب پیدا ہورہا ہے، نہ اچھی شاعری میں کوئی نام ہے، باقی چیزوں کی بھی صورت حال ایسی ہی ہے۔ کتابیں ہمارے ہاں پہلے دو ہزار چھپتی تھیں، وہ ہزار پر آئیں، اب پانچ سو چھپنے لگی ہیں۔ یہی صورت حال رہی تو اس سے بھی کم تعداد میں چھپیں گی۔ اس صورت حال کو آپ کیسے دیکھتے ہیں اور اس میں کیسے بہتری آسکتی ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: علمی ترقی ہوتی ہے اُس وقت جب آپ علم کو ترجیحات میں اولین مقام دیں۔ اگر علم کو معلومات سمجھ لیا جائے تو وہ علم نہیں رہتا۔ ہم نے بجائے علم کے، معلومات کو بنیاد بنالیا ہے۔ یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مطلب ہم نے یہ لے لیا ہے کہ معلومات تیزی کے ساتھ جتنی زیادہ مل جائیں اتنی ہی اچھی بات ہے۔ لیکن ان معلومات میں علم کہاں ہے؟ حکمت کہاں ہیں؟ نتائج کہاں ہیں؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارے برقی ابلاغ عامہ کے ذرائع ہیں، ان کو اصل فکر ہوتی ہے ریٹنگ کی، یہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ کیا پیغام دے رہے ہیں، وہی طریقہ ہم نے علم کے حصول میں اختیار کرلیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے اوپر ایک ہوّا طاری کرلیا ہے کہ چونکہ یہ برقی دور ہے اس لیے ہر چیز برقی ہونی چاہیے۔ کتاب بھی برقی ہو، پیغام بھی برقی ہو، بجائے اس کے کہ میں ہاتھ سے کوئی نوٹ لکھوں، وہ میں رومن میں اپنے موبائل پر ٹائپ کرکے بھیج دوں۔ جب آپ رومن میں کوئی چیز لکھیں گے تو وہ شخص جس کی آنکھیں اردو پڑھنے کی عادی ہیں وہ پڑھ نہیں سکے گا۔ کم از کم میں تو نہیں پڑھ سکتا۔ میرے ایک قریبی دوست بھی ہیں، عزیز بھی ہیں، بڑی نامور شخصیت ہیں، وہ تقریباً روزانہ مجھے ایک پیغام بھیجتے ہیں جو ہوتا ہے اردو میں، وہ میں پڑھ لیتا ہوں۔ جو رومن میں ہوتا ہے میں نہیں پڑھتا، کیوں کہ میں پڑھ ہی نہیں سکتا۔ لیکن اب مشکل یہ ہے کہ آپ آگئے ہیں ای بُک پر، اور آئندہ وہ بھی مختصر ہوکر کوئی اور شکل بن جائے گی، کتاب سے دوری علم سے دوری ہے۔کتاب کی جگہ برقی ذرائع کا استعمال ہمارے اندر سے رہے سہے صبر اور تفکر کو بھی ختم کر دے گا۔اگر ہم ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں کتاب کو مرکزی مقام دینا ہو گا۔
س: اس طرح سے کاغذ کی اہمیت ختم ہوجائے گی؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:لازمی طور پر، جس رفتار سے کام ہورہا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا علمی زوال ہوگا۔ اور جب تک دوبارہ کتاب کو زندہ نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک علم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بعض روایتی چیزوں کو زندہ کرنا ہوگا جن میں کتاب بھی شامل ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ عالمی طور پر جوتحقیقات برقی ذرائع معلومات کے استعمال پر کی گئی ہیں وہ ظاہر کرتی ہیں کہ اسکرین چاہے موبائل کاہو یاآئی پیڈ کا، انسانی ذہن پر منشیاتی اثر پیدا کرتا ہے اور اس کا زیادہ استعمال پورے نظام اعصاب کو گڈ مڈکر دیتا ہے۔
س: کیا ڈیجیٹل اسکرین سے واپس کاغذ کی طرف آنا ہوگا؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: میری رائے میں ایسا کرنا لازمی ہے اگر آپ ترقی چاہتے ہیں۔ لیکن اگر آپ تماشا دکھانا چاہتے ہیں تو وہ اسکرین پر بڑا اچھا ہوجاتا ہے، ایک سیکنڈ میں بٹن دبایا اور تماشا شروع۔علم جس گہرائی اور فکر کو پیدا کرتا ہے، ڈیجٹل سکرین سے وہ کام نہیں ہو سکتا۔
س: ہماری ریاست نے اپنی تمام ذمہ داریوں سے دامن چھڑا لیا ہے، وہ نہ تعلیم دے رہی ہے، نہ صحت کی سہولت فراہم کررہی ہے، ہماری موجودہ حکومت کے ایک وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ روزگار کی فراہمی ریاست کا کام نہیں، حکومت روزگار فراہم نہیںکرسکتی۔ آخر ہماری زندگی میں حکومت اور ریاست کی کیا معنویت باقی رہ گئی ہے! اور یہ کتنی اسلام کے خلاف بات ہے، کیونکہ جو اسلامی ریاست ہے وہ روحانی معنوں میں بھی اور مادی معنوں میں بھی فلاحی ریاست ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:آپ نے بہت اہم سوال اٹھایا جو بہت تفصیل طلب ہے۔ ریاست ذمہ داریوں سے کیوں بھاگ رہی ہے اور ریاست کا پھر کام کیا رہ جاتا ہے؟ یہ تو سوال پوچھنا چاہیے ذمہ داران سے جویہ کام کررہے ہیں، لیکن جو عقل کہتی ہے وہ یہ کہ ریاست کی ذمہ داریوں میں اوّلین بات یہ شامل ہے کہ اس کے شہریوں کے جان، مال اور عزت کا تحفظ، تعلیم اور صحت کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آپ کسی سڑک پر نکل جائیے، جگہ جگہ آپ کو کسی بھی مکان کے باہر سیکورٹی والوں کا ایک کھوکھا ملے گا، اس کے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ صاحب مکان کوکوئی خطرہ ہے جو اس نے ایک ذاتی محافظ رکھا۔ ہر وہ گاڑی جو زمین سے ذرا بلندہوتی ہے اور چار پہیوں میںقوت رکھتی ہے، اس میں جھانک کر دیکھیے تو پیچھے ایک بندوق بردار بیٹھا نظر آئے گا، کس خوشی میں؟ کہ جو صاحب اس قیمتی گاڑی میں سفر کر رہے ہیں، جس کی قیمت ایک مکان کے برابر ہے، ان کی جان کو خطرہ ہے۔ تو ریاست کا پہلا کام تحفظ فراہم کرنا ہے، تاکہ ایک عام شہری بغیر کسی خطرے کے جہاں چاہے جاسکے۔ دوسری چیز اس کا رزق اور تعلیم ہے جو اس کی ذمہ داری ہے۔ تعلیم کی ذمہ داری اس لیے ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر مسلمان کو تعلیم کا حصول زندگی کا مقصد بنانا چاہیے، وہ کہتا ہے کہ یہ دعا کرو کہ اللہ میرے علم میں اضافہ کرے۔ یہ اضافہ کیسے ہوگا؟ یہ اضافہ ایسے ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آتے ہی ایک ادارہ تعمیر کیا، وہ تھا صفہ کا، جہاں پر تعلیم ہوتی تھی اور ذمہ داری ریاست کی تھی۔ ایسے ہی معاملہ تھا روزگار کا۔ اگر لوگ فاقے سے مررہے ہیں یا ان کے پاس روزگار نہیں ہے تو یہ ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ ایسا معاشی نظام متعارف کرائے جس میں تقسیمِ زر اور پیداوارِ زر ان ذرائع سے ہو جو اسلام نے بتائے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انسان نہیں ایک حیوان بھی میری ریاست میں بھوکا مرتا ہے تو میں ذمہ دار ہوں گا۔ تو جو سینکڑوں ہزاروں سڑکوں پر، گلیوں میں فاقہ کش پڑے ہوئے ہیں کیا اُن کی ذمہ داری حکومت کی نہیں بنتی؟ گویا اسلامی ریاست جس چیز کا نام ہے اور جو مدینہ منورہ میں قائم کی گئی اُس کے بنیادی وظائف میں یہ بات شامل ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم، دینی رہنمائی، جان کا تحفظ، مال کا تحفظ،دین کا تحفظ،صحت اور عزت کا تحفظ فراہم کرے۔
یہی وہ چیزیں ہیں جن کو فقہائے امت نے مقاصدِ شریعت کہا ہے۔ شریعت کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شریعت جو جان کا، مال کا، عقل کا، عزت کا تحفظ دیتی ہے۔ تو قرآنی حیثیت سے بھی اور مدینہ منورہ کی روایت کو سامنے رکھتے ہوئے بھی یہ ذمہ داری ریاست کی بنتی ہے کہ وہ یہ سارے کام کرے۔ اسی بنا پر آپ دیکھیے کہ قائداعظم نے تصورِ پاکستان پیش کرتے ہوئے بارہا یہ بات کہی کہ ہم پاکستان کو ایک ویلفیئر اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں، اور یہ بات بھی کہی کہ ہمارے سامنے تیرہ سوسال پہلے مدینہ منورہ کا نمونہ ہے۔ گویا آج اگر کوئی فلاحی اسٹیٹ بن سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کے اصولوں پر قائم کرنے سے ہی بن سکتی ہے جس میں تعلیم، صحت، دفاع، تحفظ دین، ان سب کو اسٹیٹ کو اپنے وظائف کے طور پر ادا کرنا ہوگا۔ اگر یہ نہ کیا جائے تو اسٹیٹ کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے! اپنا دفاع بھی آپ خود کررہے ہیں، معیشت آپ کی اپنی ہے، تعلیم بھی جہاں جاکر آپ چاہیںحاصل کر لیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ چند افراد جو یہ کرسکتے ہیں کہ اپنے خرچے پر اپنی سیکورٹی، اپنے خرچے پر تعلیم اور سب کچھ کرسکیں، ان کو یہاں رہنے کا حق ہے جب کہ زندگی کا حق ہر شخص کو ہے اور اسلام چاہتا ہے کہ وہ ریاست قائم ہو جواسلامی رفاہی ریاست ہو۔
س: مدینہ کی ریاست کی عملی تصویر یہی ہوگی آج کے دور میں کہ جو ریاست ہے وہ روزگار، تعلیم اور صحت ایک عام آدمی کو فراہم کرے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:دین سب سے پہلے، اس کے بعد یہ سب چیزیں ہیں۔ یہ سب چیزیں اسی لیے ہیں کہ شریعت کے مقاصد ہیں۔ اس کا مطلب ہے شریعت کا نفاذ۔ شریعت کے نفاذ کا مطلب کیاہے ان افراد کار کی کردار سازی جو قرآن و سنت پر عامل ہوں، کیوں کہ وہی اس امانت اور ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کر سکتے ہیں۔
س: ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں ایک طرح سے سیکولرازم اور لبرل ازم کی تعلیم دی جارہی ہے اور ایسا ماحول بھی فراہم کیا جارہا ہے، اور اس معاملے میں ریاست کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کیا معاشرے کو اس بارے میں نہیں سوچنا چاہیے؟ اور یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی اور اس کے تدارک کی کیا صورت ہوگی؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: اس بارے میں تین باتیں ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ والدین کو پتا نہیں کہ اداروں میں کیا ہورہا ہے۔ اگر ایک بچہ یا بچی صبح ساڑھے سات بجے یا سات بجے گھر سے نکلتی ہے، وہ خود جاتی ہے یا اس کے والدین اس کو پہنچاتے ہیں وہاں تک، اور پھر اسے شام کو اٹھاتے ہیں یا وہ خود آتی ہے، تو جو کچھ دن میں ہوا ہے کیا والدین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ شام کو کھانے پر پوچھیںکہ آج آپ نے کیا کیا؟ اگر وہ جاننا چاہتے ہیں تو جان سکتے ہیں۔ کیا والدین پر پابندی ہے کہ وہ کبھی دن کے اوقات میں یونیورسٹی میں، کالج میں جاکر یہ دیکھیں کہ ان کا بچہ یا بچی کیاکررہے ہیں؟ وہ کلاس میں ہیں یا نہیں۔ کیمپس میں ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر والدین اپنے فرائض بھول جائیں اور یہ سمجھیں کہ ہمارا کام صرف ہر کالج یا یونی ورسٹی تک چھوڑنا اور اٹھانا ہے، فیس دینا ہے اور ڈگری حاصل کرنا ہے تو یہ بہت ناقص تصور تعلیم ہے جس میں والدین برابر کے شریک ہیں۔ رہا اداروں کا معاملہ، تو ادارے چاہے سرکاری ہوں یا نجی، اگر وہ چاہیں تو بے شمار کام کرسکتے ہیں۔ میرے علم میں سرکاری ادارے ہیں جہاں پر اگر یہ پابندی ہے کہ آپ کو یونیفارم پہننا ہے تو وہاں پہنا جاتا ہے۔ آرمی میڈیکل کالج ہمارے پڑوس میں مثال ہے اس کی ہر طالبہ اور طالب علم یونیفارم پہنتا ہے اور یہ سرکاری ادارہ ہے۔ ہم نے رفاہ میں آغاز سے یہ کیا کہ طلبہ کے لیے الگ، طالبات کے لیے الگ یونیفارم کا اہتمام کیا، اور یہ بات لکھ دی ہے کہ طالبات اسکارف استعمال کریں کہ ان کے بال ڈھکے ہوئے ہوں گے، قمیص پوری آستین کی ہوگی، قمیص کی تراش خراش ایسی نہیں ہوگی کہ جسم کے ابھار نظر آئیں، بلکہ ڈھیلی ہوگی، چاک نیچے ہوگا۔ جو چیزیں ہمارے خیال میں ایک اچھے مہذب فرد کو کرنی چاہئیں ہم نے وہ لکھ دی ہیں اور ان پر 1996ء سے عمل کر رہے ہیں، اگر کوئی نہیں کرتا تو ہم کہتے ہیں کہ آپ واپس جائیے اور اپنا لباس ٹھیک کرکے آئیے۔ ہمارے ہاں جوگرزکی اجازت نہیں ہے۔ ہمارے ہاںمخلوط سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔ بچوں کے الگ لان ہیں، بچیوں کے الگ لان ہیں۔ لیب کے اندر طالبات اور طالب علموں کے لیے الگ الگ عملہ ہے۔
(جاری ہے)

حصہ