’’اب وقت آگیا ہے کہ اللہ اپنے دین کا کام انگریزی تعلیم یافتہ طبقے سے لے گا‘‘
اپنی مختصر سی صحافتی زندگی میں علم و ادب کی دنیا کے تین مشاہیر کے انٹرویو میںنے اس بے خبری کی حالت میں کیے کہ جب میں ان کے خیالات جاننے کے لیے سوالات کر رہا تھا تو علمی دنیا میں ان مشاہیر کی خدمات اور ان کی امتیازی حیثیت سے قطعی ناواقف تھا۔ قرآنی عمرانیات کے اوّلین ماہر ڈاکٹر بشارت علی‘ اردو صحافت کے بے مثل مورخ امداد صابری اور مصنف و محقق اور قدیم و جدید علوم کے امتزاج کے حامل عالم دین مولانا سعید احمد اکبر آبادی۔ اس ناواقفیت اور بے خبری کا نقصان یہ ہوا کہ جو باتیں بحث طلب ھیں‘ جو سوالات موضوع پر بہت گہرائی سے کیے جانے تھے‘ وہ نہ کرسکا۔ ڈاکٹر بشارت علی کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں پڑھاتے تھے۔ قرآن حکیم کے عمیق مطالعے سے جو عمرانی علم انہوں نے اخذ و استنباط کیا تھا‘ اُس کی روشنی میں وہ قرآن عمرانیات کا ایک نیا مضمون متعارف کرانے کی جستجو میں تھے۔ تقلیدِ جامد کا شکار اور نئے خیال کی روشنی سے بھاگنے والے معاشرے میں بھلا انہیں کہاں سے پزیرائی ملتجی اور کون ان کی سنتا۔ا یک دن حادثے کا شکار ہو کر اسپتال میں داخل ہوئے تو مدیر محترم محمد صلاح الدین صاحب کی ہدایت پر پرائیویٹ وارڈ میں ان کا انٹرویو کیا جو رنگین تصاویر کے ساتھ اخبار کے پورے صفحے پر شائع ہوا۔ تب میں قرآنی عمرانیات کے علم سے آگاہ تھا نہ ڈاکٹر صاحب کی مساعی بلیغ سے‘ سو مبتدیانہ سوالات پوچھ کر لوٹ آیا۔ ام داد صابری مرحوم سے ناآشنائی کا قلق تو یوں بھی ہے کہ انٹرویو کرنے کے برسوں بعد جب درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو کر اردو صحافت کی تاریخ نویسی کا بیڑہ اٹھایا اور اسی ضرورت سے صابری مرحوم کی ’’تاریخ صحافت اردو‘‘ کی پانچ جلدیں توجہ اور تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملا تو مجھ پر کھلا کہ وہ واقعی محسنِِ صحافتِ اردو تھے۔وہ دنیا سے جا چکے ہیں تو سوچتا ہوں کہ اب ملتے تو یہ پوچھا‘ وہ پوچھتا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مولانا سعید اکبر آبادی کا ہے۔ قصہ یہ تھا کہ شہر میں کوئی بھی علمی‘ دینی شخصیت وارد ہوتی‘ صلاح الدین صاحب کی نگاہِ انتخاب انٹرویو کے لیے اس خاکسار پر پڑتی۔ ڈاکٹر بشارت علی اور امداد صابری کی طرح مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے پاس بھی انٹرویو کے لیے مجھے انہوںنے ہی بھیجا تھا۔ اب اسے میں اپنا شرمیلا پن کہوں یا اسے اپنی لا علمی چھپانے کی ہوشیاری پر محمول کروں کہ تینوں شخصیات کی بابت ہر بار ان سے یہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ مدیر محترمِ! جس علمی شخصیت کے پاس بھیج رہے ہیں اس کا حدود اربعہ‘ علمی خدمات‘ دینی کارنامے اور کچھ تصانیف وغیرہ سے تو متعارف کرا دیجیے تاکہ سوالات اسی روشنی میں مرتب کرکے جائوں۔ چناں چہ یہ تینوں انٹرویو ہر چند معلومات سے مزین تو ہوئیں لیکن اِدھر اُدھر کی جستہ جستہ اچٹتی معلومات کو میں انٹرویو کے لیے کافی نہیں سمجھتا۔ انٹرویو تو ایک مربوط مکالمے کا نام ہے‘ جس میں انٹرویو دینے اور لینے والا ہی نہیں‘ پڑھنے والے بھی پوری توجہ‘ انہماک اور دل چپسی سے شریک ہوں اور ان پر فکر و خیال اور جذبات و احساسات کے نئے در کھلیں۔ قاری کو لگے کہ ایک شخصیت سے بھرپور زندہ ملاقات ہوئی۔ مذکورہ تینوں انٹرویو پر میری بے اطمینانی اور تشنگی کا احساس اپنی جگہ مگر ستم ظریفی تو یہ ہے کہ تینوں انٹرویو ان نو آموز محققین کے لیے فراہمیٔ معلومات کا ابتدائی اور شاید قیمتی ذریعہ بن گئے ہیں جو سرکاری جامعات میں پی ایچ ڈی کی سند کے لیے داخلہ لے کر ان دنوں مصروفِ تحقیق ہیں۔
مولانا سعید احمد اکبر آبادی جن کی تصانیف سے سالہا سال بعد میں میں نے کسبِ فیض کیا‘ ستمبر 1981ء میں پندرہویں صدی ہجری کے آغاز کی تقریبات کے موقع پر صدر جنرل محمد ضیا الحق کی خصوصیت پر بھارت سے پاکستان تشریف لائے تھے۔ جنرل صاحب جن دنون سینٹ اسٹیفن کالج‘ دہلی میں طالب علم تھے‘ مولانا وہاںدینیات کی تدریس پر مامور تھے۔ مولانا کی قدیم و جدید علوم پر یکساں‘ نہایت گہری نظر تھی۔ جب علما ان کے علم کے خوشہ چیں تھے تو طلبہ پر ان کا کیسا اور کتنا رعب نہ ہوگا۔ اور جنرل ضیا تو مطالعے کے بہت شوقین تھے‘ علم سے زمانۂ طالب علمی ہی سے گہرا لگائوں تھا۔ بہ حیثیت حکم راں جنرل ضیا کی پالیسیوں میں ہزار عیوب ہوں گے بلکہ یقینا تھے کہ ان کے تخریبی نتائج آج تک عوام بھگت رہے ہیں لیکن انسانی اور اخلاقی طور پر اپنی ذاتی زندگی میں اُن جیسے اوصاف ماضی کے حکمرانوں میں خال خال ہی پائے جاتھے۔ انکسار و تواضع‘ عاجزی و فروتنی‘ خوش خلقی و فیاضی‘ تحمل و برداشت کی ان خوبیوں کو ان کے حامی و مخالف‘ دشمن و دوست سبھی مانتے ہیں۔ ان ماننے والوں میں وہ لوگ یقینا شامل نہیں ہیں جو مخالفت میں اندھے ہو کر دشمن کی واقعی کسی خوبی کا اعتراف و اقرار تو کیا کریں گے کہ تعصب و دشمنی سے آنکھوں پر ایسا پردہ پڑ جاتا ہے کہ نیک و بد اور حق و ناحق کی تمیز تک مٹ جاتی ہے اور انصاف کی کوئی بات کہنے کی توفیق تک سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ جنرل ضیا کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اساتذہ کرام جن سے زمانۂ طالب علمی میں انہوںنے پڑھا تھا‘ ان کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ ایک جلسے میں دیکھا کہ حاضرین کی صف میں سینٹ اسٹیفن کالج ہی کے ان کے استاد‘ سابق وائس چانسلر کراسچی یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی تشریف فرما ہیں تو جنرل صاحب اسٹیج سے نیچے اتر آئے۔ بعد میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب ہی تجویز پر مقتدرہ قومی زبان قائم کیا اور پہلا صدر نشیں انہی کو مقرر کیا۔ ڈاکٹر صاحب گفتگو کرتے تھے تو جنرل ضیا ادب سے ہاتھ باندھے‘ نظریں نیچی کیے سنتے رہتے تھے۔ تو جب مجھے معلوم ہوا کہ مولانا سعید احمد اکبر آبادی صاحب بھی ان کے استاد رہے چکے ہیں تو دوران گفتگو استفسار کیا:
’’مولانا! کچھ یاد ہے جنرل ضیا طالب علم کیسے تھے؟‘‘ مولانا کچھ دیر سوچتے رہے جیسے حافظے پر زور دے رہے ہوں‘ یادداشت کو ٹٹول رہے ہوں۔ پھر نہایت صاف گوئی سے فرمایا ’’قطعی یاد نہیں آرہا۔‘‘
مولانا کوئنز روڈ پر جو سمندر کے نزدیک واقع بیچ لگژری ہوٹل کو جاتی ہے ‘ اپنی بیٹی و داماد کے فلیٹ پر ٹھہرے تھے۔ ان کی خدمت میں حاضری کے لیے جاتے ہوئے ذہن میں تصور روایتی علما کا تھا کہ عمامہ باندھے‘ خوش پوشاکی کے ساتھ کسی اونچی کرسی پر تشریف فرما ہوں گے‘ کثرتِ خوراکی سے پیٹ بھی ذرا سا آگے کو نکلا ہوا ہوگا۔ اپنی اہمیت و امتیازی حیثیت کا احساس بھی بات چیت سے چھلک چھلک پڑے گا۔ مگر کال بیل پر دروازہ کھولنے والی نہایت مہذہب سیج خاتون نے جو یقینا ان کی صاحب زادی رہی ہوں گی کمرے میں پہنچایا تو وہاں جو منظر تھا اس نے میرے سارے وہم و گمان پر پانی پھیر دیا۔ ایک ضعیف العمر بزرگ ننگے سر بنیان پہنے بے تکلفی سے بستر پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ چہرہ خوب چوڑا چکلا رنگت سیاہی ماہل بلکہ تقریباً توے کی طرح سیاہ‘ چہرے پر پھیلی ہوئی سفید داڑھی‘ گھٹا ہوا بدن‘ ہاتھ پائوں کے خوب مضبوط البتہ آنکھیں بڑی بڑی خوب روشن۔
’’آیئے تشریف رکھیے۔‘‘
بے تکلفانہ لہجے میں انہوں نے کہا کہجس میںکسی قدر شفقت کی بھی آمیزش تھی۔ میں ان کی ہدایت پر بیٹھ تو گیا لیکن جیسا کہ عرض کر آیا ہوں ان کے علمی کام اور دنیائے علم میں ان کے مقام سے قطعی ناواقف تھا‘ اس لیے روایتی سے سوالات کرکے اور ان کے جوابوں کے نکات نوٹ کرکے لوٹ آیا۔ ادھر دفتر پہنچا تو وہاں ایک حشر کا سماں تھا‘ قیامت اس لیے برپا تھا کہ اخبار کے ہر دل عزیز جواں سال کامرس رپورٹر منصور شیخ کہ جن کے دم سے رپورٹنگ رومِ کی رونقیں تھیں‘ ایک بے رحم ٹرک کے پہیوں تلے آکر زندگی کی بازی ہار گئے تھے‘ نعش ان کی جناح اسپتال کے مردہ خانے میں دھری تھی اور ادھر دفتر جسارت میں ماتم بپا تھا۔ ایسے میں بے بسی سے ایک دوسرے کو تسلی دینے کے سوا چارہ بھی کیا تھا۔ ہفتہ دس دن بعد جب نظروں کے سامنے سے زندگی کی بے معنویت اور موت کا سفاک چہرہ دھندلا پڑ گیا اور معمولاتِ زندگی بحال ہوئے تو ایک دن ناگاہ مولانا سعید احمد صاحب کا انٹرویو یاد آیا۔ انج کے ہاں جانا اور ان کی صحبت میں گھنٹہ ڈیڑھ بیٹھنا یاد آیا۔ جو نوٹس لییتھے‘ ڈھونڈآ تو مل کر نہ دیے۔ موتگ کے ہنگام میںخدا جانے کہاں گم ہو گئے کہ سراغ ہی نہ ملا۔ ایک دن صلاحالدین صاحب سے دفتر کی راہ داری میں ملاقات ہو گئی۔ سلام و دعا کے بعد چلتے چلتے انہوں نے پوچھ لیا:
’’بھئی وہ مولانا کا انٹرویو؟‘‘
صفائی سے ساری رام کہانی سنا دی۔ سن کر خاموش ہوگئے۔ یہی ان کا انداز تھا۔ کبھی برہم ہوتے‘ آپے سے باہر ہوتے‘ کسی کو نالائقی پر بھی سخت سست کہتے کبھی دیکھا نہ سنا۔ کچھ عرصے بعد‘ کتنے بعد اب یاد نہیں‘ ایک دن صلاح الدین صاحب نے یاد فرمایا۔ گیا تو زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے:
’’مولانا سعید احمد آئے ہوئے ہیں۔‘‘ رُکے‘ ان کی زیر لب مسکراہٹ کچھ کہہ رہی تھی‘ میں نے اس مسکراہٹ سے خود کو ذرا بے آرام پایا تو جلدی سے کہا:
’’آپ فرمائیں تو دوبارہ انٹرویو کر لیتا ہوں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔‘‘
اور یوں صلاح الدین صاحب کے ہمراہ ایک بار پھری اسی فلیٹ پر یہ خاکسار مولانا کے سامنے تھا۔ اب کے کرسی پر‘ سادی سی عام سی کرسی پر عام آدمی طرح تشریف فرما تھے‘ سفید قمیص اور غالباً پاجامے میں ملبوس۔ مجھے اندیشہ سا تھا کہ کہیں مولانا پچھلے انٹرویو کی بابت نہ پوچھ لیں۔ لیکن ان کی یادداشت کو داد دوں کہ عالیٰ ظرفی کو‘ پوچھنا تو درکنار کسی ایک بات سے بھی یہ تاثر نہ دیا کہ کوئی انٹرویو ان کا پہلے بھی ہو چکا ہے جو تاحال اشاعت سے محروم ہے۔ ان کی بے گانگی یا لاتعلقی سے ایک ہی حقیقت واشگاف تھی کہ انٹرویو وغیرہ ان کی نہیں‘ اخبار کی ضرورت ہے۔ اخبار نویسی سے چند سالہ وابستگی میں میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہر طبقۂ فکر کی ’’ممتاز شخصیات‘‘ اپنا انٹرویو چھپوانے میں خصوصیت سے دل چسپی رکھتی ہیں۔ ممکن ہے کہ معاشرے میں ’’مزید ممتاز‘‘ ہونے میں انٹرویو کی مع تصاویر اشاعت کا بھی کوئی حصہ ہو۔ بے شک مولانا سعید احمد کو علمی دنیا میں جو امتیاز حاصل تھا‘ وہ ان کی بلند پایہ علمی و دینی کتابوں کے سبب سے تھا۔ کتابیں جن میں جان ہو تو صدیوں تک زندہ رہ جاتی ہیں‘ رہا اخبار تو صبح کا اخبار دوپہر میں دستر خوان بن جاتا ہے اور شام کو اس میں لپصیٹ کر پکوڑے اور جلیبیاں فروخت ہوتی ہیں۔
مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے کوائف یہ ہیں:
آپ نومبر 1908ء میں اکبر آباد (آگرہ) میں صبحِ صداق کو پیدا ہوئے۔ پیدائش سے ایک رات قبل مولانا کے والد ڈاکٹر محمد ابرار حسین کو خواب میں بشارت ہوئی تھی کہ دارالعلوم دیو بند کے دو جید علما مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے گھر آکر انہیں بیٹے کی پیدائش کی خوش خبری دی ہے۔ مولانا اکبر آبادی بچپن ہی سے اپنی ذہانت‘ حافظہ اور صحت کے اعتبار سے عام بچوں سے مختلف تھے۔ شعر و ادب سے شغف کا حال یہ تھا کہ آٹھ برس کی عمر میں مشکل سے مشکل اشعار کے معنی بتا دیتے تھے۔ والد کا رجحان ڈاکٹر ہونے کے ساتھ مذہبی تھا‘ چنانچہ بیٹے کی ابتدائی تعلیم فارسی اور عربی کے اساتذہ رکھ کر انہوں نے گھر پر دلائی پھر اپنے باصلاحیت اور ذہین بیٹے کو مرادآباد کے مدرسہ امدادیہ اور پھر دارالعلوم دیو بند میں داخل کر دیا۔ جہاں انہوں نے ہندوستان کے بڑے بڑے علما سے کسبِ علم کیا۔ انمیں علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ‘ علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ قابل ذکر ہیں۔ دارالعلوم دیو بند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پرائیویٹ بی اے اور سینٹ اسٹفن کالج دہلی سے عربی میں ایم اے کی سند حاصل کی۔
مولانا اکبر آبادی نے ابتدائی طور پر مدرسوں میں پڑھایا اور پھر دہلی یونیورسٹی میں عربی‘ فارسی اور اردو تینوں شعبوں کے سربراہ مقرر کر دیے گئے۔ تقسیم کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دینیات (سنی) کے شعبے کے صدر اور فیکلٹی آف تھیالوجی کے ڈین کا عہدہ سنبھالا جہاں انہوں نے 1959ء سے 1972 تک اپنی ذمہ داریاں نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پہلے ’’ہمدرد‘‘ کے تحقیقی ادارے اور بعدازاں دارالعلوم دیو بندی کی ’’شیخ الہند اکادمی‘‘ میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
مولانا نے دینی‘ تاریخی‘ ادبی اور صحافتی موضوعات پر تقریباً 18 کتابیں تصنیف کیں ان میں صدیق اکبرؓ، عثمان ذوالنورینؓ، غلامانِ اسلام‘ اسلام میں غلامی کی حقیقت‘ مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے ناقد‘ مسلمانوں کا عروج و زوال‘ وحی ٔالٰہی‘ فہم القرآن‘ خطبات اقبال‘ ہندوستان کی شرعی حیثیت کے علاوہ درجنوں تحقیقی مقالات شامل ہیں۔ طویل عرصے تک ندوۃ المصنفین کے ماہانہ مجلہ ’’برہان‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں جمہوریہ ہند کے صدر نے عربی میںسند اعزاز عطا کیا۔
مولانا کا انتقال 24 مئی 1985ء کو کراچی میں ہوا‘ تدفین دارالعلوم کورنگی میں مفتی محمد شفیعؒ کے احاطہ قبور میں ہوئی۔
مولانا مرحوم اس زمانے میں پاکستان تشریف لائے تھے جب صدر جنرل محمد ضیا الحق کی ہدایت پر ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ چنانچہ گفتگو کا آغاز اسی موضو ع سے ہوا۔
طاہر مسعود: مولانا! پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا جو تجربہ کیا جارہا ہے‘ اس حوالے سے علمائے کرام کی ذمہ داریوں کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
مولانا سعید احمد: پاکستان میں اسلام کے نام کو ایکسپلائٹ زیادہ کیا گیا ہے۔ ذرا مجھے بتایئے کہ یہاں برسر اقتدار آنے والی کتنی حکومتوں کو قرآن اور اسلام سے دل چسپی تھی؟ حکومتوں سے قطع نظر خود علمائے کرام کو دیکھ لیں کہ اس معاملے میں انہوں نے اپنی ذمہ داریاں کس حد تک پوری کیں؟ میں تو ان سے کہتا ہوں کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے عمل سے اب تک اسلام کو اس طرح پیش ہی نہیں کیا کہ عوام متاثر ہوں۔ آج بھی عوام علما کو نماز کی امامت اور قرآن خوانی و فاتحہ خوانی سے زیادہ کوئی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ خصوصاً زندگی کے معاشی معاملات میں انہیں علما کی اہلیت پر شبہ ہے جب کہ خود علما بھی اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے رودار نہیں ہیں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بڑے بڑے چندے وصول کرتے ہیں اور اس معاملے میں حرام و حلال کی تمیز بھی نہیں کرتے۔ اسمگلنگ اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والے بھی مذہب کے نام پر کوئی بھاری رقم انہیں دینا چاہیں تو وہ اسے بہ صد شوق قبول کر لیتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر یہاں اسلامی نظام کامیاب ہو گیا تو وہ سرمایہ دارانہ طز کا ہوگا۔ حالانکہ سیرتِ طیبہ پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی عوامی زندگی تھی۔ ایک اسلامی ریاست کا سربراہ ہونے کے باوجود نچلے اور غریب طبقے کی زندگی سے کبھی الگ نہیں ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے اپنا ذاتی مکان تک نہیں بنایا۔ کوئی سائل آیا تو سارا کھانا اسے دے دیا‘ خود بھوکے رہ گئے۔ آپؐ قرآن حکیم کے عمل کی جیتی جاگتی تصویر تھے اور یہی وہ صفات تھیں جن سے لوگ متاثر ہوئے۔ آج کیا حال ہے؟ اگر دیکھنے والے یہ دیکھیں کہ میں منبر پر بیٹھ کر یوں تو بڑی دھواں دھار تقریریں کرتا ہوں‘ اسلام کے حوالے سے اصلاح کی نصیحتیں بھی کر رہا ہوں تو ظاہر ہے میرے باریمیں عوام کی رائے کیا ہو گی؟ میں نے یہ باتیں بعض علما سے گفتگو کے دوران صاف صاف لفظوں میں کہہ دی ہیں۔ وہ میری تلخ باتیں سن کر خاموش ہو گئے۔
طاہر مسعود: مولانا! جب علما کا حال یہ ہے تو اب نفاذِ دین کے حوالے سے کس سے توقعات باندھی جائیں؟
مولانا سعید احمد: میں نے ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں کسی نہ کسی طبقے سے کام لیتا رہا ہے۔ کبھی اس نے اسلام کی بقا اور اس کے فروغ کے لیے علمائے کرام سے کام لیا ہے‘ کبھی بادشاہوں سے اور کبھی فوجیوںسے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اللہ اپنے دین کے لیے انگریزی تعلیم یافتہ طبقے سے کام لے گا کیوں کہ ہمارے علمائے کرام کا ایک بڑا طبقہ تو آج بھی حضورؐ کے نور یا بشر ہونے پر مباحثے میں مصْروف ہے حالانکہ یہ وہ معاملہ ہے کہ اگر اسے طے نہ بھی کیا جائے تو آخرت میں کوئی پوچھ گچھ نہ ہوگی۔ انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ جن میں بالخصوص نوجوان شامل ہیں‘ ان کے دلوں میں دین سے ہمدردی کا جذبہ ہم سے زیادہ موجود ہے اور یہی وہ طبقہ ہے جسے اگر دین کا کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تو پھر مستقبل کے امکانات از خود معدوم ہو جائیں گے۔
طاہر مسعود: مولانا! بھارت سے اطلاعات ملی ہیں کہ وہاں ہریجن تیزی سے اسلام قبول کر رہے ہیں۔ اصل صورت حال کیا ہے؟
مولانا سعید احمد: یہ ایک تاریخی عمل کا نتیجہ ہے کیوں کہ ڈاکٹر امبیدکر نے تو تقسیم سے سے قبل ہی ہندو دھرم چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔ تاہم یہ فیصلہ ہونا باقی تھا کہ اسلام اور عیسائیت میں کسے ترجیح دیں گے‘ پھر برصغیر تقسیم ہو گیا اور یہ معاملہ عارضی طور پر پسِ پشت چلا گیا۔ تقسیم نے بغض و عناد اور خوف و اندیشے کی فضا پیدا کر دی تھی اور ہریجن سوچتے تھے کہ اس موقع پر قبول اسلام کا مطلب براہِ راست ہندوئوں کی مخالفت کو دعوت دینا ہے اس لیے وہ خاموش رہے لیکن اب مناسب حالات دیکھتے ہوئے وہ اپنی ذلت آمیز زندگی سے نجات حاصل کرکے جوق در جوق اسلام قبول کر رہے ہیں۔ اس قبولِ اسلام کِو پہلے مختلف معنی پہنانے کی کوشش کی گئی۔ پارلیمنٹ میں شور مچا اور واجپائی صاحب نے شدید اعتراضات کیے۔ اس وقت تصور یہ تھا کہ اسلام صرف غریب اور نچلے طبقے میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ لیکن تحقیقات کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ مسلمان ہونے والوں میں ڈاکٹروں‘ انجینئروں اور ال علم طبقہ کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ واجپائی صاحب نے تحقیقات کے بعد ایک زور دار بیان دیا جس میں خود ہندوئوں کو بری طرح لتاڑا اور کہا کہ ہندوئوں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے مذہب کی اصلاح کریں کیوں کہ خود ان کا مذہب شدید تنگ نظری کا شکار ہے۔
سائوتھ انڈیا کے باشندوں میں جدید اور روایتی تعلیم کے گہرے شعور کے ساتھ ساتھ دین کا خاص ذوق بھی پایا جاتا ہے۔ یہاں کے مسلمان دولت مند ہیں اور ان کی اپنی سوسائٹیاں قائم ہیں جن میں ایک آل سدرن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی نے خصوصاً اپنے نوجوانوں کو ڈاکٹری اور انجینئرینگ کی تعلیم دلانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کا طریقۂ کار یہ ہے کہ جو طلبا یا طالبات علم حاصل کرنا چاہیں سوسائٹی انہیں قرضِ حسنہ دیتی ہے اور اپنے خرچ پر انہیں تعلیم دلاتی ہے۔ وہاں کے مسلمان اپنے تعلیم یافتہ لڑکوں کا رشتہ ہریجنوں کی لڑکیوں کے لیے پیش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک طرف معاشرے میں انہیں گری ہوئی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور دوسری طرف مسلمان طبقہ انہیں عزت بخشنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو تو حیرت کی کون سی بات ہے؟
طاہر مسعود: لیکن اس کے باوجود پورا ہندوستان اس تحریک سے خائف ہے اور یوپی‘ آگرہ وغیرہ میں تو اس سلسلے میں گرفتاریاںبھی ہوئی ہیں۔
مولانا سعید احمد: حق کو پھیلنے سے کون روک سکتا ہے‘ یہ خود بہ خود بلند ہو جاتا ہے۔
طاہر مسعود: پہلے بھارتی مسلمانوں میں تنہا اور الگ تھلگ رہنے کا احساس تھا۔ کیا یہ احساس ختم ہوا یا پہلے ہی جیسا ہے؟
مولانا سعید احمد: اب ان میں خود اعتمادی پیدا ہو گئی ہے‘ ویسے خود اعتمادی کے مختلف معنی ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی خود اعتمادی‘ انانیت پسندی اور دوسروںکو چیلنج کرنے کے معنوں میں نہیں ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ بھارت میں آج تک ایک بھی مسلمان پاکستان کی جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار نہیں ہوا‘ جتنے بھی پکڑے گئے وہ سب ہندو تھے۔
طاہر مسعود: مولانا! کیا ہریجنوں کے علاوہ بھارت کے اہل ِ ثروت طبقے میں بھی اسلام سے دل چسپی پیدا ہوئی ہے؟
مولانا سعید احمد: ابھی عملی طور پر تو کوئی شواہد سامنے نہیں آئے ہیں‘ البتہ پڑھے لکھے ہندو علمی طور پر اسلام سے دلچسپی لیتے ہیں۔ پندرہویں صدی ہجری کی تقریبات میں ایک ہندو بیرسٹر نے اسلامی قانون پر انتہائی عمدہ مقالہ پڑھا۔ اس نے مقالے میں کھل کر کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلامی قانون اس وقت دنیا کے تمام قوانین کے مقابلے میں سب سے بہتر قانون ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی موضوعات پر منعقد ہونے والے سیمیناروں میں ہندو اور سکھ حضرات بھی حصہ لیتے ہیں۔ پٹیالہ یونیورسٹی میں ’’آل ورلڈ ریلیجن سوسائٹی‘‘ قائم ہوئی ہے‘ وہاں ایک سیمینار میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ وہاں ایک سکھ لڑکے سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو میں اسے جماعت اسلامی کا حامی پایا۔ میں نے محض اسے جانچنے کے لیے جماعت اسلامی پر اعتراضات کیے۔ اس لڑکے نے میرے اعتراضات کا مسکت جواب دیا اور مجھے قائل کرنے کی کوشش کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیر مسلموں میں بھی اسلام کے بارے میں مطالعے کا ذوق پیدا ہو رہا ہے۔
طاہر مسعود: کیا خود مسلمانوں میں بھی اسلام کو سمجھنے اور سیکھنے کا ذوق پیدا ہو رہا ہے؟
مولانا سعید احمد: یہ جذبہ وہاں صرف نوجوانوں میں ملے گا۔ زیادہ عمر کے لوگ تو مسجد میں چلے گئے‘ سجدہ کر لیا اور سمجھا کہ فرض ادا ہو گیا۔ پندرہویں صدی ہجری کے موقع پر وہاں اسلامک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی ایک شاخ نے تقریبات منعقد کیں جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
طاہر مسعود: دینی مدارس میں کام کرنے والے حضرات کے ذہن میں مستقبل کے لیے کیا تصور ہے؟
مولانا سعید احمد: (افسردگی سے) وہ پہلے اپنے معاملات نمٹا لیں اس کے بعد ہی مستقبل کے بارے میں کچھ سوچنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ صرف دیو بندی ہی میں کتنے اختلافات ہیں۔ وہاں سوائے مولانا ابوالحسن علی ندوی کے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس سے نیک توقعات وابستہ کی جائیں۔
طاہر مسعود: کیا مسلمانوں کی صفوں میں اس انتشار کو دور کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی؟
مولانا سعید احمد: اتحاد سے مایوس ہو جائیں‘ جب عہدِ صحابہ میں اتحاد نہیں ہوا تو اب کیا ہوگا؟ اب اس کے سوا کوئی صورت باقی نہیں رہی کہ جو جماعت خود کو جماعتِ حق سمجھتی ہے وہ آگے بڑھ کر اسلام کو پیش کرے اور اپنے گرد نیک اور صالح مسلمانوں کو جمع کرکے مستقبل کی صورت گری کرے۔
طاہر مسعود: مولانا مودودیؒ کی دین خدمات اور ان کے کام کے بارے میں ایک طبقہ مختلف رائے رکھتا ہے‘ آپ کے خیال میں اس نوعیت کی آرا میں کتنا وزن ہے؟ اور کس حد تک یہ آرا غلط یا صحیح ہیں؟
مولانا سعید احمد: مولانا مودودیؒ نے بہت سے موضوعات پر کام کیا ہے۔ ان سے اختلاف تو ممکن ہے مثلاً انہوں نے تفہیم القرآن میں اصحابِ کہف کے بارے میں جو کچھ لکھا اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان اختلافات کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ اصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مولانا نے مسلمانوں کے بارے بے داری‘ خود اعتمادی اور اسلام کو بہ حیثیت نظامِ زندگی پیش کرکے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔ انہوں نے نوجوانوں کے طبقے دین سے غافل ہونے سے بچا لیا کیوں کہ نوجوانوں کو انگریزی کتابوں کے ذریعے اسلام کے بارے میں جو معلومات مل رہی تھیں وہ خطرناک تھیں۔ مولانا نے نہ صرف یہ کہ اس بڑے طبقے کو اسلام سے آگاہ کیا بلکہ اسلام کی مخالف قوتوں کے سامنے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے لا کھڑا کیا۔
طاہر مسعود: مولانا مودودیؒ کے اعتراضات تین طرح کے ہیں‘ ان کی ذات کے بارے میں‘ گھریلو زندگی کے حوالے سے‘ تاریخی شعور کے بارے میں جس کا اظہار انہوں نے ’’خلافت و ملوکیت‘‘ یا ’’تجدید احیائے دین‘‘ وغیرہ میں کیا ہے۔ ظاہر ہے ان باتوں کا براہِ راست تعلق دین سے نہیں ہے۔ آپ یہ فرمایئے کہ مولانا سے دین کو عام آدمی تک پہنچانے کے معاملے میں لغزش تو نہیں ہوئی؟
مولانا سعید احمد: مولانا مودودیؒ کے بے حد قریب رہا ہوں‘ ان سے ہمارے گھریلو تعلقات تھے‘ میں انہیں اس زمانے سے جانتا ہوں جب ان کی داڑھی بھی نہیں تھی اور وہ ایک خوش پوش‘ خوش رُو‘ سلک کی شیروانی پہنے انگریزی طرز کے بال کٹائے ہاتھ میںکالی اسٹک لیے خوش مزاج نوجوان تھے۔ اس وقت بھی وہ موٹی موٹی کتابیں بغل میں دبائے مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی جیسے علما کے پاس پڑھنے جاتے تھے۔ اس وقت بھی انہیںلالچ دی گئی لیکن ان کے ذہن میں ایک مشن اور ایک مقصد تھا‘ جس کے لیے وہ کام کرنا اور قربانیاں دینا چاہتے تھے‘ دین کو پہنچانے کے معاملے میں مولانا مودودیؒ کی حسنِ نیت اور اخلاص پر ہرگز شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے علم کے بارے میں ان کے ایک بڑے مخالف کی رائے آپ کو بتاتا ہوں۔ مولانا منظور نعمانی ان کے سب سے بڑے مخالف تھے‘ ان سے میں نے ایک بار تنہائی میں پوچھا کہ ’’یہ بتایئے کہ آپ اتنے دن مولانا کے ساتھ رہے‘ ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ مولانا منظور نعمانی کہنے لگے ’’آپ اندازہ نہیں کرسکتے وہ علم کا سمندر ہیں ۔‘‘
طاہر مسعود: اردو ڈائجسٹ میں قدرت اللہ شہاب نے مولانا مودودیؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ مولانا نے اقتدار میں آنے کے لیے صالحیت کی شرط لگائی ہے جب کہ اسلام میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔ اسی طرح ان خیال ہے کہ نفاذِ اسلام کے لیے جماعت سازی بھی ضروری نہیں ہے۔
مولانا سعید احمد: اسلام کا اصل مقصد عدل قائم کرنا ہے۔ عدل کا مطلب ہے اپنے آپ سے انصاف کرنا اور انصاف وہی کرسکتا ہے جو صالح ہو اور جہاں تک جماعت سازی کا تعلق ہے تو بھائی دین کا اتنا بڑا کام جماعت سازی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر مولانا بھی دوسروں کی طرح محض کتابیں لکھتے رہتے تو جو حشر دوسرے مصنفوں کا ہوا ہے وہی ان کا بھی ہوتا۔
طاہر مسعود: یہ بتایئے کہ عالمِ اسلام کے بیش تر ممالک مثلاً ترکی‘ انڈونیشیا‘ لیبیا‘ مصر‘ بنگلہ دیش وغیرہ کے حالات تقریباً ملتے جلتے ہیں کہ ایک طرف وہاں کی جماعتیں غلبۂ اسلام چاہتی ہیں جب کہ وہاں عملاً اقتدار پر فوجی قابض ہیں۔ ان میں سے بعض فوجیوں کو اسلام سے ذاتی لگائو بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی جماعتوں اور فوجی حکومتوں کی یہ کشمکش مستقبل میں کس نہج پر پہنچے گی؟
مولانا سعید احمد: اگر مسلم قومیں اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب نہیں رہیں تو پھر وہ سب کچھ لے ڈوبیں گی۔ بعض دولت مند مسلم ممالک تبلیغ اسلام کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں لیکن مجھے شدید خطرہ ہے کہ کہیں یہی ممالک اسلام کو لے نہ ڈوبیں۔ دولت خدا کی اضافی نعمت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس نعمت کا استعمال کس طرح ہو رہا ہے۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ ہم جب کسی قوم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو اس میں Affluence (مال داری) پیدا کر دیتے ہیں تاکہ اس کی پکڑ مضبوط ہو سکے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم فقیر ہو تو مجھے ڈر نہیں ہے لیکن اگر تم پر دنیا میں خزانے کے دروازے کھل گئے تو جس طرح دوسری قوموں پر تباہی آئی تم بھی انہی قوموں کی طرح تباہ ہو جائو گے۔‘‘ یہ قول کتنا سچا ہے۔ گبن کی معروف کتاب پڑھ لیں تو پتا چل جائے گا کہ روم کیوں تباہ ہوا؟ نپولین اور مسوپوٹامیا کیسے برباد ہوئے؟ آج عرب ممالک بھی انہی راستوں پر جا رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک ملک کا حال یہ ہے کہ آپ وہاں وعظ نہیں کہہ سکتے۔ حرم میں نماز پڑھنے جائیں تو تلاشی ہوتی ہے۔ رمضان میں جو لوگ افطاری لے جاتے ہیں اسے بھی چیک کیا جاتا ہے حالانکہ یہ امن کی جگہ قرار دی گئی تھی۔ انہی کا ایک تجارتی وفد بھارت کے دورے کے لیے آیا اور کلکتہ (کول کتہ) میں گرینڈ ہوٹل میں ٹھہرا۔ اس وفد کو مسلم چیمبرز آف کامرس (تقسیم کے بعد اس میں سے مسلم کا لفظ نکال دیا گیا ہے) کی طرف سے ایک استقبالیہ دیا گیا۔ منتظمین نے یہ سوچ کر کہ یہ وفد یقینا عصر کی نماز ادا کرے گا۔ جاے نماز وغیرہ بچھانے کا بھی اہتمام کیا۔ لیکن سب لوگ حیرت و افسوس سے ششدر رہ گئے کہ جب اذان ہوئی اور نماز کے لیے سب کھڑے ہوئے تو وفد کے سات اراکین میں سے ایک بھی نماز کے لیے نہیں اٹھا۔ وہ سب بیٹھے سگریٹ کے کش لیتے رہے۔ تقریب کے بعد ایک صاحب نے بتایا کہ انہوں نے یہاں تو صرف نماز نہیں پڑھی لیکن ہوٹل میں جانے کیا کیا حرکتیں کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اخلاقیات کی اس گراوٹ کے بعد اگر ایک چھوٹا سا ملک بیت المقدس پر قبضہ کرکے بیٹھ جائے اور اسے آزاد نہ کرایا جاسکے تو حیرت کی کون سی بات ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوء صد فی صد درست ہو رہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ حج کے لیے تجار‘ تجارت کرنے اور غریب پیسہ کمانے کے لیے‘ لیکن علما سیر و تفریح کو جائیں گے اور یہی بدترین زمانہ ہوگا۔ آج ہم اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ بیس لاکھ افراد پر حج پر چلے گئے۔ بمبئی (ممبئی) میں تو حاجیوں کو پولیس والے چور کہہ کر پکارتے ہیں اور ہمارا دل ان حاجیوں کو دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے۔
(روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی۔ ستمبر 1981ء)