کراچی: کچرا کون اٹھائے گا؟

227

ترقی یافتہ ممالک میں عوام کی بنیادی سہولتوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ صحت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ بلدیاتی محکموں پر حکمرانوں کی خاص نظر ہوتی ہے۔ ہمارے ایک دوست تقریباً 20 سال لندن کے ایک مضافاتی علاقے میں مقیم رہے، وہ اکثر ہم سے وہاں کی حکومت کی جانب سے عوام کو دی جانے والی سہولیات پر بات کرتے رہتے ہیں۔ بیس سال دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود وطن کی محبت انہیں واپس پاکستان کھینچ لائی۔ گو کہ ان کی پرورش کراچی میں ہوئی لیکن ایک عرصہ ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے ان کی طبیعت میں کچھ تبدیلی ضرور آئی۔ وہاں ہر ادارے کو اپنے دائرئہ کار میں کام کرتے دیکھ کر انہیں حقیقی جمہوریت کو سمجھنے کا موقع ملا، کیونکہ وہاں کی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کا تعلق عوام کی روزمرہ زندگی سے ہوتا ہے اس لیے ہمیں بھی اپنے دوست سے ہر بار ایک لمبی تقریر سننے کو ملتی ہے، اور ہم اُن کی باتیں سن کر خاموش رہتے ہیں لیکن یہ سوچنے پر مجبور ضرور ہوجاتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کے ایک مضافاتی علاقے کے رہنے والے کو اگر اس قدر سہولیات میسر ہیں تو اس ملک کے جدید ترین مرکزی شہروں کے رہنے والوں کو کس معیار کی سہولیات میسر ہوں گی۔ وہاں کے بارے میں جو باتیں میں نے اپنے دوست سے سنی، ان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں کا شہری کس قدر بے فکر اور مطمئن ہوگا۔ مجھے تو اپنے دوست کی باتوں میں ایک ایسے آئیڈیل ماحول کی جھلک دکھائی دیتی ہے جس میں زندگی بسر کرنے کی ہر کوئی خواہش رکھتا ہے۔ بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تو بات چھوڑیے، ضلعی سطح پر کی جانے والی صفائی اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ کار جو وہاں نافذ ہے اُس کا ذکر سن کر ہی انسان تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مثلاً گلیوں، محلوں اور عوامی مقامات پر بلدیاتی عملہ مستقل اپنے کام میں مصروف رہتا ہے، رہائشی مقامات کے باہر رکھے کچرے سے بھرے بڑے بڑے شاپنگ بیگ اٹھانے کے لیے دن میں دو مرتبہ بلدیہ کی گاڑیاں آتی ہیں، جگہ جگہ لگائے گئے کچرے کے ڈبوں کے گرد کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ وہاں کے بلدیاتی اداروں کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جبکہ دوسری جانب ہمارے ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی جو ایشیا کا سب سے بڑا صنعتی سیکٹر بھی ہے اور جسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے، اس کا ہر محلہ، ہر گلی اور ادارہ اپنی ایک کہانی سناتا دکھائی دیتا ہے۔
بے شک ہم ان ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکتے جن کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے، لیکن یہاں مقابلہ کسی عسکری، سائنسی ترقی کا نہیں بلکہ اس کچرے کی صفائی کا ہے جس کو اٹھانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی اس کام کے لیے کوئی تھنک ٹینک ناگزیر ہے جہاں سے ایسے ذہین لوگ پیدا کیے جاسکیں جو ہمیں کچرے کو غائب کرنے کے جدید طریقے بتائیں۔ بات بڑی سیدھی سی ہے کہ کراچی کی گلیوں، محلوں اور بازاروں کے ساتھ ساتھ سڑکوں کے کنارے موجود کچرے کے پہاڑوں کو حکومت کو ہی ختم کرنا ہے، کسی غیبی مدد کے انتظار کے بجائے یہ کام نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے، بصورتِ دیگر ان پہاڑوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اگر حقائق کو دیکھا جائے تو یہ کام واقعی ناممکن ہے، کیونکہ ہمارے ہاں بلدیاتی اداروں کی جانب سے گھروں سے کچرا اٹھانے کے لیے انتظامات تو دور کی بات، مرکزی کچرا کنڈیوں تک گاڑیوں کی آمد ورفت بھی ممکن نہیں۔ اس بدترین صورت حال میں عوام جائیں تو جائیں کہاں! لہٰذا گھروں میں کچرے کی موجودگی اور گلیوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت کچرا اٹھانے والے لگا لیے ہیں، اور اب تو یہ حالات ہیں کہ کراچی کا شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں ماہانہ طے شدہ رقم کے عوض کچرا اٹھانے والے نہ ہوں۔ یعنی حکومت کی طرف سے دی جانے والی اس اذیت کے نتیجے میں عوام پرائیویٹ خاکروب رکھنے پر مجبور ہیں۔ ظاہر ہے جب حکمران ہی بے حس ہوجائیں تو عوام کے پاس اس کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا۔
خیر، جہاں کراچی کا ہر محلہ اور ہر گھر کچرے کے ڈھیروں کی وجہ سے پریشان ہو وہاں ہمارا محلہ بھلا کیسے صاف رہ سکتا ہے! بس اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے محلے والوں نے بھی اس غلاظت کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری دتہ نامی شخص کو سونپ دی۔ دتہ چونکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ملازم ہے اس لیے پہلے پہل تو وہ اس ذمہ داری کو قبول کرنے پر راضی نہ ہوا، لیکن سمجھانے پر اس نے سرکاری ڈیوٹی کے اوقاتِ کار کے بعد ہمارے گھروں سے کچرا اٹھانے کی ہامی بھر لی۔ یوں دتہ ہر دوسرے دن ہمارے گھروں سے کچرا اٹھانے لگا اور یہ سلسلہ لمبے عرصے تک چلتا رہا۔ اس طرح اُسے سو سے ڈیڑھ سو گھروں کا کچرا اٹھانے پر اچھی خاصی رقم ملنے لگی جس سے اُسے خاصا مالی فائدہ ہونے لگا۔ ظاہر ہے فی گھر دو سو روپے سے یہ رقم ہزاروں روپے بن جاتی ہے۔ کسی بھی غریب شخص کی ماہانہ آمدنی میں اگر اتنی رقم کا اضافہ ہوجائے تو مہنگائی کے اس دور میں اسے اچھا خاصا ریلیف مل جائے گا جو خوش آئند بات ہے۔ وقت گزرتا گیا اور ہمیں کچرے سے نجات ملنے لگی۔ ایک جانب اگر ہمارے محلے سے کچرا صاف ہونے لگا تو دوسری طرف دتہ کے پاس بھی اتنی رقم آنے لگی جس سے وہ گھر کی ضروریات کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات بھی پوری کرنے لگا، اس سے یہ بات عیاں ہوئی کہ ایک دوسرے کے ساتھ روابط بڑھانے، یا مل کر کام کرنے سے گھریلو حالات میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ خیر، دتہ کام کرتا رہا، وہ ایک عرصے تک پابندی سے آتا رہا، لیکن پھر وہ وقت آیا جب دتہ ایک دم منظر سے غائب ہوگیا۔ اُس کے اِس طرح غائب ہوجانے پر محلے کا ہر شخص پریشان ہوگیا، کیونکہ اس سے پہلے وہ جب بھی کہیں جاتا تو بتاکر جایا کرتا تھا، اور کبھی چھٹیاں کرتا تب بھی کسی نہ کسی کے علم میں لاکر غیر حاضر ہوتا۔ لیکن اِس مرتبہ اُس کے بارے میں ہر شخص لاعلم تھا۔ خوشی، غمی ہر انسان کے ساتھ ہوتی ہے، یہ زندگی کا حصہ ہے، کسی بھی شخص کا یوں بغیر اطلاع دیے اس طرح غائب ہوجانا فکر کی بات ہوتی ہے، اور پھر دتہ تو برسوں سے ہمارے محلے میں کچرا اٹھانے کا کام کررہا تھا، اس لیے یہ انتہائی پریشان کن بات تھی۔ دتہ کی گمشدگی ہمارے لیے کسی چیلنج سے کم نہ تھی۔ لوگ اپنے اپنے تئیں مختلف ذرائع سے اُس کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے۔ میں نے بھی اُس علاقے سے جہاں وہ سرکاری طور پر کام کرتا تھا، معلومات لینا شروع کردیں۔ تمام کوششوں کے باوجود ہمیں ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملتا کہ دتہ چھٹیوں پر ہے۔ ایک دن میں اسے ڈھونڈتا ہوا اس کے گھر جا پہنچا، لیکن دتہ وہاں بھی نہ ملا۔ میرا مطلب ہے کہ وہ اس گھر کو بھی جہاں وہ کرایہ دار تھا، چھوڑ کر جا چکا تھا۔ اب ایک طرف اگر اس کے گم ہوجانے کی تشویش تھی تو دوسری جانب گھروں میں جمع ہونے والا کچرا بھی دتہ کی راہ تکنے پر مجبور تھا۔ اس دوران ہمارے محلے میں دو افغانی بچے آئے اور گھروں سے کچرا اٹھانے لگے۔ دوسرے دن ان بچوں نے بتایا کہ دتہ بیمار ہے، اسے ڈینگی ہوگیا ہے اس لیے وہ نہیں آرہا، علاج میں کئی ہفتے لگیں گے لہٰذا وہ اب نہیں آئے گا، ہمیں علاقے میں موجود پارٹی والوں نے اُس کی جگہ یہ کام دیا ہے، اب ہم مستقل یہ کام کریں گے، ہم بھی اتنے ہی پیسے لے کر کچرا اٹھانے کا کام کرتے رہیں گے جتنے دتہ لیا کرتا تھا۔
اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں… اس طرح سارے محلے نے ان افغانی بچوں سے بات طے کرلی۔ دتہ ایک دن چھوڑ کر آتا تھا جبکہ افغانی بچے ہفتے میں دو روز ہی کچرا اٹھاتے۔ لوگ مجبور تھے اس لیے سب کچھ برداشت کرتے رہے، لیکن میں مستقل دتہ کی کھوج میں لگا رہا۔ میں اسی چکر میں رہا کہ کہیں سے کوئی سرا ملے جس کے ذریعے میں دتہ تک پہنچ سکوں۔ بالآخر میری کوششیں رنگ لائیں اور وہ دن آیا جب مجھے علاقے کی مرکزی سڑک پر جاتے ہوئے گمشدہ دتہ کا دیدار ہوگیا۔ نظر پڑتے ہی میں اُس پر چڑھ دوڑا۔ اس سے پہلے کہ میں اُس سے اُس کی غائب ہونے والی حرکت پر یا اُس کی طبیعت سے متعلق کوئی سوال کرتا، میرے مزاج کو بھانپتے ہوئے مسکراتے ہوئے اُس نے کہا:
”میرے بارے میں پھیلائی جانے والی ساری خبریں جھوٹ ہیں، مجھے ڈینگی نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی بیماری ہے، میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے، میں چھٹی پر گیا ہوا تھا، واپس آگیا ہوں۔ میرے اوپر پابندی عائد کردی گئی ہے، چند نوجوانوں نے مجھے گھروں سے کچرا اٹھانے سے روک دیا ہے، اس لیے اب تمہارے علاقے میں کام نہیں کرسکتا، غریب آدمی ہوں کسی سے جھگڑا نہیں کرسکتا، اس لیے میں نے اپنا تبادلہ دوسرے دفتر میں کروا لیا ہے، اب صرف دفتر میں ہی جھاڑو لگاتا ہوں، اس کے سوا دوسرا کوئی کام نہیں کرتا، بڑا خراب دور ہے، مجھ پر پابندی لگا کر سارا علاقہ افغانی بچوں کے حوالے کردیا گیا ہے، ان بچوں کو ماہانہ تنخواہ پر رکھا گیا ہے، پورے علاقے سے یہی بچے کچرا اٹھا رہے ہیں، تقریباً ایک ہزار مکانات سے دو سو روپے کے حساب سے دو لاکھ روپے وصول کیے جارہے ہیں جس میں سے چالیس ہزار روپے ان بچوں کو دے کر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے ماہوار کی بھتہ خوری کی جارہی ہے۔ اتنے زیادہ گھروں کا کچرا اٹھانا مشکل کام ہے، اس لیے وہ کبھی کبھی آتے ہیں، جب آتے ہیں تو کچرا کوڑے دان کے بجائے کسی میدان یا سڑک کے کنارے ڈال کر اس میں سے کاغذ اور پلاسٹک چننے لگتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، علاقے کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے اور سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، سب کو ان کے حصے کے مطابق رقم مل جاتی ہے اس لیے کسی کو کوئی غرض نہیں، ہر کام میں دادا گیری چل رہی ہے۔ پہلے کراچی کی زمینوں کو فروخت کیا گیا، اور اب ہم جیسے غریبوں کا روزگار بھی ختم کیا جارہا ہے۔ کل تک جو کچرے کے قریب سے بھی نہ گزرتے تھے آج کوڑا اٹھانے میں بھی شرم محسوس نہیں کررہے۔ یہ تو بات کچرا اٹھانے کی ہے، اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے محکمے میں کئی افراد خاکروب اور کنڈی مین تک بھرتی کروا رکھے ہیں، وہ یہ کام نہیں کرسکتے، لہٰذا سارا کام ہمیں ہی کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے تو اپنی طاقت کے زور پر اپنے لوگوں کو نوکریاں دلوا دیں، لیکن نوکری حاصل کرنے والوں کو اس بات کی کوئی شرم نہیں کہ وہ جس پوسٹ پر بھرتی ہوئے ہیں وہ کسی برادری کی حق تلفی ہے جو ناانصافی کے ساتھ ساتھ اخلاقی طور پر بھی بڑا جرم ہے۔ شکر ہے ان کا رزق پر بس نہیں چلتا، اگر ان کے ہاتھ میں روزی روٹی ہوتی تو یہ ہم جیسوں کو بھوکا مار دیتے۔ اس سب کے باوجود ہم اپنا خون جلا کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ آپ کے محلے والے بہت اچھے لوگ ہیں، مجھے آپ سے اور ان سے کوئی گلہ نہیں، سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کراچی کے حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے، اگر کچھ لوگ خراب ہیں تو ان سے بھی چھٹکارا مل جائے گا۔ جب کبھی حالات اچھے ہوئے تو ضرور آپ کے محلے میں ہی کام کروں گا۔ کراچی بہتر ہوتا جا رہا ہے، ایسی چھوٹی چھوٹی حرکتیں کرنے والوں سے بھی نجات مل جائے گی۔ میں اب اِسی علاقے میں ہوتا ہوں، کسی کو ملنا ہو یا کوئی بات کرنی ہو تو یہیں ملوں گا۔“
دتہ کی باتیں سن کر میں نے کہا: ”جن افغانی بچوں کا تم ذکر کررہے ہو وہ تو حکومتِ سندھ کی جانب سے کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کے ساتھ لگائے گئے ہیں جو ٹھیکے دار کے ملازم ہیں، جبکہ بجلی کے بلوں میں صفائی ٹیکس کے نام سے وصول کی جانے والی رقم اسی مد میں لی جارہی ہے۔“
میری بات سن کر اس نے کہا: ”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، ہر علاقے میں ایسا نہیں ہورہا، بجلی کے بل پر صفائی ٹیکس تو لگا دیا گیا ہے لیکن ہر جگہ کچرا اٹھانے والی گاڑیاں نہیں جارہیں، اور بعض علاقوں میں تو یہ مین روڈ تک ہی محدود ہیں۔ اس لیے جو حالات میں نے بتائے یعنی بھتہ خوری کی وصولی بھی مستقل جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علاقے کے لوگ بھی اب ہم سے پوچھتے ہیں کہ کچرا کون اٹھائے گا۔“
دتہ اپنی روداد سنا کر چلا گیا، اور اُسے ڈینگی بھی نہیں ہوا، لیکن اُس کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کو کچرے کے حوالے کرنے کے پیچھے یہاں کی بے حس حکومت ہے، جبکہ کراچی کو صاف ستھرا رکھنے کے دعوے کرنے والوں کو لفاظی کے بجائے عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔ یہ ذمہ داری حکمرانوں کی ہوتی ہے کہ اگر کسی پر کوئی الزام لگے تو اس کی تحقیقات کی جائیں۔ لہٰذا دتہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر تو یہ کہ جو کام جس کا ہوتا ہے وہی اسے بہتر طور پر کرسکتا ہے۔ اگر فوری طور پر اس کی تحقیقات نہ کی گئیں اور یہ سلسلے بند نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں شہر کی صورت حال مزید خراب ہونے کے سو فیصد خدشات موجود ہیں۔

حصہ