ادبی تنقید کا ایک مقصد اصلاحِ ذوق بھی ہے۔ فن پارے کی تفہیم، اس کی معنویت کا قابل فہم تعین اور اس سے مسرت کشید کرنے کے ایسے پہلوئوں کی نشان دہی جس سے قاری پر فہم و تفہیم کے نئے دروا ہوجائیں۔ تنقید کے اس منصب سے ہی اس کی ضرورت اور جواز قابل قبول ٹھہرتے ہیں۔
ادبی تنقید کے اس فریضے میں جو چیز فن پارے اور قاری کے لیے یعنی اس تربیت یافتہ قاری کے لیے پریشان کن ہے جو فن پارے کی گہرائی اور اس کی پرکھ کے لیے تنقید سے مدد لینا چاہتا ہے، وہ ہے تعصب۔ نقاد کا، کبھی کبھی خود قاری کا۔ تعصب جس کی بنیاد ادبی اور غیر ادبی بھی ہوتی ہے۔ ایک خاص ذوق جو کبھی غالب کو میر سے اور کبھی اقبال کو غالب پر ترجیح دینے کی وجہ بن جاتا ہے۔ ادبی ذوق، مطالعہ، طبعی رجحان، شخصیت کے تشکیلی عناصر، ان میں موجود عناصر کی کش مکش اور غلبے سے پروان چڑھتا ہے۔ الم پسند طبیعت، شوخی اور طنازی سے لطف اندوزی کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہے یا المیے کو زندگی کی اصل حقیقت سے ہم آہنگ پاتی ہے۔ یوں ادبی نقاد کی پسند و ناپسند کا معاملہ اکثر عصبیت بن جاتا ہے۔ یہ تعصب کسی فن پارے کی تفہیم یا اس کے ادبی مقام کے تعین میں رکاوٹ بن جائے تو تعجب نہ ہونا چاہیے۔
عدل کی تعریف یہ ہے ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھ دیا جائے۔ ان معنوں میں ادبی نقاد سے یہ توقع بے جا نہیں کہ وہ کسی فن پارے کو پرکھتے ہوئے اپنے تعصبات سے صرف نظر کرتے ہوئے خالص جمالیاتی اور ادبی معیار کو ہی اپنی کسوٹی بنائے گا لیکن مشکل یہ درپیش ہوتی ہے کہ دیوانی یا فواجداری مقدمے میں عدل اور فن پارے کی پرکھ میں عدل کے پیمانے یکساں نہیں۔ ہر چند نقاد کا ادبی تجزیہ اور کسی نتیجے تک قاری کو پہنچانے کی کوشش کسی منصف کے فیصلے سے بظاہر بہت مختلف نہیں ہوتی کہ ہر دور میں طریقہ کار قضیے کو سلجھانے اور نتیجہ خیز بنانے کا یکساں ہی ہوتا ہے۔ کسی مقدمے میں جس طرح داخلی شہادتیں، گواہیاں، نظائر اور قانون کی شقوں سے بحث کی جاتی ہے، ادبی تنقید کا معاملہ بھی اس سے ملتا جلتا نہیں تو قریب تر تو ہوتا ہے، اور جس طرح انصاف کی بابت یہ پیش یا افتادہ بات دہرائی جاتی ہے کہ انصاف کا ہونا ہی انصاف نہیں، اسے انصاف نظر بھی آنا چاہیے۔ کچھ ایسا ہی ادب کی تنقید میں بھی ہے۔ جب احمد مشتاق جو غزل کے یقینا اچھے شاعر ہیں مگر جب ایک قابل ذکر طور پر اہم نقاد نے انھیں فراق سے بڑا شاعر قرار دیا تو اسے مسترد اسی بنا پر کیا گیا کہ نقاد موصوف کا ادبی فیصلہ مبنی برانصاف نظر نہ آیا تھا۔ اس اعلان کو نقاد موصوف کی ذاتی عصبیت پر محمول کیا جانا خود اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ نقاد کو یہ حق تو شاید ہو کہ وہ ذاتی پسند بھی رکھے لیکن کسی شاعر کے مقام کے تعین میں یہ حق اسے حاصل نہیں کہ عدل کے تقاضوں پر اپنی پسند کو ترجیح دے۔ ادبی تنقید میں عدل کا مفہوم بھی غالباً فن پارے کو اس جگہ پر رکھا جانا یا وہ مقام دیا جانا ہے جس کا وہ مستحق ہے۔
تحقیق یقینا تنقید کے مقابلے میں معتبر ہوتی ہے کہ اس میں سچائی کی تلاش اور حقیقت کی جستجو ایک متعین سائنسی اور معروضی طریقہ کار کے ذریعے کی جاتی ہے۔ تنقید کسی مخصوص اور متعین طریقہ کار کی پابند نہیں ہوتی۔ تنقید کی بہت سی قسمیں ہیں گویا تنقید میں فن پارے کی گہرائی کے سراغ کے لیے نقاد کی اپنی فکر، ذوق، تنقیدی اصولوں سے واقفیت اور فن پارے سے لطف اندوز ہونے کی فطری صلاحیت اور ادبی استعداد ہی اصل معیار بن جاتا ہے۔ دو محققوں کے ایک ہی موضوع پر تحقیقی نتائج طریقہ تحقیق کی یکسانیت کی وجہ سے قریب تر ہوسکتے ہیں۔ لیکن ایک ناول، افسانے یا ایک نظم کی معنویت، اہمیت اور اس کے ادبی مقام کی بابت دو نقادوں کی رائے کا یکساں ہونا ہرگز ضروری نہ ہوگا۔ وجہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ تخلیقی ادب، ادیب و شاعر کے باطن کی تاریکی سے روشنی میں نمود پاتا ہے۔ ’’معنی فی بطن شاعر‘‘ کا محاورہ بھی یہی مفہوم دیتا ہے کہ شعر کی معنویت بھی شاعر کے باطن یا اس کے اندر ہی رہ جاتی ہے ضروری نہیں جس سے خود شاعر باخبر ہو۔
ہمارے ہاں مشاعروں میں تقدیم و تاخیر کا تنازع یا معاصر شعرا میں کسی کے اہم، کم اہم یا غیر اہم ہونے کے جو فیصلے دیئے جاتے ہیں، ان میں ادبی عدل پر تعصب اور فیصلہ دینے والے کی پسند اور ذوق ہی کا غلبہ ہوتا ہے۔ ایسی بحثوں میں جو نظائر پیش کیے جاتے ہیں، ایک نظیر غالب کی کہ اپنے دور میں ذوق کو غالب پر ترجیح دی گئی اور یوں بحثوں کے فیصلہ کن انجام کو وقت اور مستقبل کے سپرد کرنے پر اکتفا کرلیا جاتا ہے کہ وقت ہی کھرے کو کھوٹے سے علیحدہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
کہنے کی بات یہ ہے کہ یقینا ادبی تخلیق سے لطف اندوزی یا مسرت کشیدکرنا ایک ذوقی چیز ہے لیکن تنقید کا سارا کاروبار نقاد کے ذوق کے حوالے کردیا جائے گا تو پھر بجا طور پر نقاد سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے ذوق کو جمالیاتی اور ادبی دائرے میں رہتے ہوئے سب کے لیے قابل فہم اور قابل قبول بنائے گا۔ یوں ادبی تنقید کا معاملہ محض ذوقی اور داخلی نہیں رہتا بلکہ تنقید کی کسوٹی معروضی بن جاتی ہے۔ فن پارے ادبی تخلیق کی جمالیات کی دریافت ممکن تب ہو جب نقاد اس فن پارے یا تخلیق سے اپنی روح، ذہن اور پورے وجود کو گزارنے پر قادر ہو، کوئی فن پارہ اپنی تاثیر سے ہی اپنی اہمیت و معنویت کو متعین کرتا ہے۔ لیکن تاثیر کا مسئلہ بھی کچھ کم ٹیڑھی کھیر نہیں جب کوئی نقاد نسیم حجازی کی تاریخی ناول نگاری کا قرۃ العین حیدر کے ’’آگ کے دریا‘‘ سے موازنہ کرنے بیٹھ جائے تو اس بدذوقی کا کیا علاج ہے۔ ستم ظریقی یہ بھی کہ موازنے کے نتائج بھی نسیم حجازی کے حق میں ہوں۔
ادبی تعصب کا مسئلہ صرف اردو دنیا کا نہیں، شاید دنیا کی تمام تہذیب یافتہ زبانوں کے ادب کا ہے۔ جب ٹالسٹائی کے عظیم ناول ’’جنگ و امن‘‘ کو اور اسی طرح متعدد شہرۂ آفاق تخلیقات کو نظر انداز کرکے ان سے کم تر درجے کی ادبی کتب کو دنیا کے سب سے بڑے ادبی انعام ’’نوبل پرائز‘‘ سے نوازا جائے تو اسے بھی ادبی تعصب کی بدترین شکل ہی کہا جائے گا۔ اب ادبی انعام کا معاملہ غیر ادبی سرگرمیوں سے جاکے عموماً جڑ جاتا ہے۔ سکون اور شانتی کے پیغامبر عملاً فعال اور متحرک نہ ہوتے تو ٹیگور کو یہ اعزاز ملنا کہ وہ نوبل پرائز جیتنے والے اس خطے کے اولین تخلیق کار ہیں، کیسے ممکن ہوسکتا تھا؟ اس کے برعکس اپنی شاعری میں عمل پر ابھارنے والے لیکن عالمی دنیا میں اپنی شناخت سے فکرمندی سے لاتعلق و بے گانہ رہنے والے اقبال کو اگر ’’نوبل پرائز‘‘ جیتنے کی سعادت سے محرومی رہی تویہ معاملہ ادبی کامیابی کی عملی منطق اور منصوبہ بندی کا رہ جاتا ہے۔ بڑا ادیب بڑا تخلیق کار کسی عالمی انعام سے نہیں، عالمی ادبی انعام کا اعتبار بڑے ادیب و تخلیق کار سے معتبر و باوقار ٹھہرتا ہے۔
کوئی بہت پرانی بات بھی نہیں۔ جب ہمارے ہاں گلڈ کے قیام کے بعد آدم جی اور دائود ادبی انعامات دیئے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو کتنی ہی کم اہم کتابوں کو ان انعامات کی کلغی عطا کی گئی اور اکثر انتہائی اہم کتابیں اس کلغی سے محروم رہ گئیں۔ ان ہی میں ممتاز مفتی کا ناول ’’علی پوری کا ایلی‘‘ تھا جو بقول ابن انشا اس لیے بڑا ناول کہلائے گا کہ اسے آدم جی ایوارڈ نہیں دیا گیا۔
تو تعصب اور پسند و ناپسند کے یہ ذاتی، داخلی فیصلے، ادب میں غالباً کسی ایسے عادلانہ طریقہ کار کو اختیار کیا جانا عملاً ممکن بھی نہیں کہ ایسے سارے قضیوں کا دروازہحتمی طور پر بند کیا جاسکے۔ ہاں لیکن یہ ضرور ہے کہ کسی بھی نقاد یا مبصر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی فن پارے، کسی کتاب پر قلم اٹھاتا ہے تو اسے عدل اور دیانت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ذاتی اذیت، ذاتی عملی امور و معاملات سے پیدا شدہ شکایتوں کی بنیاد پر کسی کتاب یا فن پارے کو نظر انداز کیا جانا اتنا اور ایسا ہی برا ہے جیسے کسی بے گناہ کو عدل کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے سزا دے دی جائے۔ شاید ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ نقاد یا مبصر بحیثیت انسان، شخصی طور پر کسی کجی، کسی محرومی یا اندرونی نقص کے سبب پراگندہ خیال ہوجاتے ہیں جس کا اظہار ان کے ادبی فیصلوں میں ہوتا ہے اور یوں یہ سوال لائق توجہ ٹھہرتا ہے کہ مطالعہ ادب تہذیب جذبات نہ کرسکے اور تعصب کی شدت اعتدال فکر سے محروم کردے تو مطالعہ ادب کی افادیت؟
nn