بزمِ ادب دوست کے زیر اہتمام مشاعرہ

125

بزم ادب دوست ایک شان دار ڈنر مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدارت ظہورالاسلام جاوید نے کی۔ فیروز ناطق خسرو مہمان خصوصی تھے۔ راشد نور اور راقم الحروف ڈاکٹغر نثار مہمانان اعزازی تھے۔ افتخار حیدر نے نظامت کے فرائض بہ حسن و خوبی ادا کیے۔ بزم ادب دوست کی چیئرپرسن گل افشاں نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ کراچی ایک بہت بڑا شہر ہے‘ کورونا کے بعد اب شہر میں ادبی محفلیں بحال ہو گئی ہیں اب یہاں ایک دن ایک ہی وقت میں کئی کئی مشاعرے ہو رہے ہیں یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ شاعری کی ترویج و اشاعت جاری ہے‘ زبان و ادب کی ترقی میں مشاعرہ بھی ایک اہم کردار ہے۔ مشاعرہ ہمارا کلچر ہے ہر زمانے میں مشاعرے ہماری ضرورت ہیںدبستان کردار میں نوجوان نسل شعرا بھی بہت اچھا کلام کہہ رہے ہیں اس طرح شاعری میں نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں جو کہ ایک اچھی علامت ہے۔ شاہ فہد نے کلمات تشکر ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے ہم شعرائے کرام کے شکر گزار ہیں کہ وہ معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں امید ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی بہت جلد خوش حال ہوگا۔ لائف ٹائم ایوارڈ یافتہ شاعر اور ابوظہبی میں متعدد عالمی مشاعروں کے آرگنائزر ظہور الاسلام جاوید نے اپنے خطاب میں کہا کہ شاعری اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جو شعرا زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں وہ کامیاب شاعر نہیں ہو سکتے۔ ہر شاعر اپنے معاشرے کا آئنہ بردار ہے وہ اپنے ماحول کو نظم کرتا ہے شاعر بہت حساس ہوتا ہے وہ معاشرتی خرابیوں اور خوبیوں پر قلم اٹھاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔ فیروز ناطق خسرو نے کہا کہ اردو ادب کے لیے گروہ بندیاں بھی نقصان دہ ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ ہر زمانے میں گروہ بندیوں کا رواج رہا ہے لیکن فی زمانہ یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہو گیا ہے۔ راشد نور نے کہا کہ عدالتی احکامات کے باوجود اردو زبان ابھی تک سرکاری طور پر نافذ العمل نہیں ہوسکی ہے اس کی ترقی کی راہیں روکی جارہی ہیں‘ ہم اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں اردو زبان پاکستان کی سب سے اہم زبان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو شاعری بہت آگے بڑھ چکی ہے اب غزل میں بھی غزل کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید لفظیات لکھی جا رہی ہیں۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ ناہید عزمی‘ گل افشاں‘ ضیا حیدر زیدی‘ عشرت حبیب‘ ڈاکر نزہت رئیس‘ شاہدہ عروج‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ عینی میر عینی‘ شاہ فہد اور تاجور شکیل نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ