بارش اور چوزے

194

پانچ سال کی زویا بڑی ہی چلبلی،نٹ کھٹ اور پیاری ہے۔کھلونوں میں اسے ٹیڈی بیئر بہت پسند ہے،کھانے میں ممی کے ہاتھ کا حلوہ اور موسم میں بارش۔رم جھم بارش دیکھ کر وہ خوشی سے جھوم جاتی ہے۔اس کا دل کرتا ہے کہ وہ گھنٹوں بارش ہوتے دیکھے۔
ویسے دل تو بارش میں نہانے کا بھی کرتا ہے پر ممی اس کے دل کی ہونے نہیں دیتیں۔
آج بھی بارش ہو رہی تھی۔زویا برآمدے میں آئی اور ہاتھ بڑھا کر بارش کی بوندوں کو مٹھی میں لینے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ ممی تیز لہجہ میں بولیں،زویا،جلدی سے اندر آؤ۔
بھیگ گئی تو بیمار پڑ جاؤ گی۔“
ممی کی آواز سنتے ہی زویا منہ پھلا کر برآمدے میں رکھی کرسی پر بیٹھ گئی،پر اس کا منہ زیادہ دیر پھولا نہیں رہ پایا۔پڑوس والی آنٹی نے اپنے گھر میں مرغیاں پالی ہیں۔
ان کے لان میں لگی باڑ کو پار کرتے ہوئے دو چوزے پھُدکتے ہوئے اس کے لان میں آ گئے۔
برسات کی بوندوں سے ان کے پنکھ بھی چپک گئے تھے۔پیڑ کے نیچے انہیں دبکے دیکھ کر زویا کی آنکھوں میں چمک آئی اور وہ بھاگ کر پاپا کے پاس آئی۔پاپا بڑے دھیان سے اخبار پڑھ رہے تھے۔زویا ان کا ہاتھ پکڑ کر بولی،پاپا۔پاپا…!“جلدی باہر آئیں۔
آنٹی کے گھر سے مرغی کے دو چوزے لان میں آ گئے ہیں۔“
”کوئی بات نہیں زویا،وہ جیسے آئے ہیں چلے جائیں گے۔“
”ارے وہ بھیگ رہے ہیں۔“
”ان کو ڈانٹ لگاؤ اور بولو بارش میں مت بھیگو۔“پاپا شاید کوئی ضروری خبر پڑھ رہے تھے اس لئے بنا نظر اُٹھاتے ہوئے بولے۔
زویا برآمدے میں واپس آئی اور چلا کر ان چوزوں سے بولی،”بارش میں مت بھیگو،بارش میں مت بھیگو۔“چوزوں نے اپنے پنکھ پھیلائے پر انہوں نے زویا کا کہنا نہیں مانا۔
”او فوہ،یہ تو سنتے ہی نہیں“ زویا نے پریشان ہو کر کہا اور پھر بھاگی بھاگی اپنے پاپا کے پاس آئی اور بولی،”وہ تو کہنا مان ہی نہیں رہے ہیں۔
”پاپا اس بار بھی اخبار میں نظریں گڑائے ہوئے بولے،”اچھا!ممی کو بتاؤ۔وہ ان کی بات ضرور سنیں گے۔“
زویا ممی کے کمرے میں گئی،اس سے پہلے وہ کچھ کہتی پہلے ہی ممی نے منہ پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا تو وہ دھیرے سے بولی،”آنٹی کے گھر سے دو مرغی کے چوزے آئے ہیں۔
بارش میں بھیگ رہے ہیں۔“
”بھیگنے دو۔“ممی نے آہستہ سے کہا۔”ارے،وہ بیمار ہو جائیں گے۔“زویا بھی آہستہ آواز میں بولی۔
”اچھا رُکو…!میں ابھی منے بھیا کو سُلا کر آتی ہوں،پھر انہیں کہوں گی مت بھیگو۔
اب تم جاؤ یہاں سے،نہیں تو مُنا بھیا اُٹھ جائے گا۔“ منے کو تھپکی دیتے ہوئے ممی بولیں تو زویا چپ چاپ برآمدے میں آ گئی۔بھیگتے چوزوں کو دیکھ وہ بولی،”اُف،پتا نہیں کب ممی آئیں گی۔مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا۔“زویا نے اپنا دماغ لگایا اور پھر وہ اپنے لان میں گرے پیڑ کے پتے کو اُٹھا لائی۔
پیڑ کے بڑے پتے کو دیکھ کر پہلے تو چوزے گھبرا کر اِدھر اُدھر پھُدکے پھر سہمے ہوئے چھتری جیسے پتے کے نیچے آ گئے۔اب وہ بھیگ نہیں رہے تھے اس لئے انہیں اچھا لگا اور زویا بھیگ رہی تھی اسے بھی بہت اچھا لگ رہا تھا۔
اخبار پڑھنے کے بعد پاپا کو زویا کا خیال آیا۔
انہوں نے زویا کو آواز لگائی۔جواب نہ ملنے پر وہ برامدے میں آ گئے۔اسے بھیگتے دیکھ وہ چھتری لے کر اس کے پاس آئے۔اس سے پہلے وہ کچھ کہتے،زویا نے منہ بنا کر صفائی دی،”بھیگ رہے تھے بیچارے۔“
”اور تم جو مزے سے بھیگ رہی ہو اس کا کیا؟“
”میں بیمار پڑی تو ممی دوا دے دیں گی۔
یہ بیمار ہوئے تو ان کی ممی دوا کہاں سے لائیں گی؟“
”ہاں،یہ بات تو ہے مگر مجھے بتاتی تو۔خود کیوں بھیگنے چلی آئی؟“
”بتایا تو تھا۔آپ پیپر پڑھ رہے تھے۔ممی منے بھیا کو سلا رہی تھیں۔یہ بیچارے بھیگ رہے تھے۔“
”میں سب سمجھتا ہوں۔بھیگنے کا دل تو تمہارا بھی کر رہا تھا،ہے ناں۔“پاپا مسکرائے تو وہ شرارتی ہنسی کے ساتھ بولی،”ممی سے مت کہنا،پر دل تو کر رہا تھا میرا بھی تھوڑا تھوڑا۔“
”چلو اب اندر چلو“پاپا نے کہا۔
مگر زویا بھیگتے چوزوں کو وہاں چھوڑ کر جانے کو راضی نہیں تھی۔
پاپا نے چوزوں کو ہتھیلی پر لینے کی کوشش کی کہ تبھی کک کک کی آواز سن کر وہ چونکے۔دیکھا تو ایک مرغی تیزی سے ان کی طرف بڑھی۔
”لو ان کی ممی آ گئی۔اب اس سے پہلے تمہاری ممی بھی آ جائیں اندر چلو اور کپڑے بدلو۔“
مرغی کو دیکھ چوزے پھُدکتے ہوئے مرغی کے پاس چلے گئے تو زویا نے خوشی سے تالی بجائی۔
کک کک پک پکا کک…کی تیز آواز کے ساتھ مرغی دونوں چوزوں کو پروں میں چھپاتی پڑوس کی باڑ کے پاس لے گئی۔
”پاپا مرغی کیا کہہ رہی ہے؟“زویا نے پوچھا،اس سے پہلے پاپا کچھ کہتے،برامدے میں کھڑی ممی سر سے پیر تک بھیگی زویا کو دیکھ کر حیرانی سے بولیں،”منع کیا تھا نہ باہر مت نکلنا۔
بارش میں مت بھیگنا۔بیمار پڑ گئی تو،بالکل کہنا نہیں سنتی ہو۔“
”یہی بول رہی ہے وہ ان دونوں سے۔“مرغی اور چوزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاپا مسکرا کر بولے تو زویا منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنس دی۔

حصہ