دو کم عمر جاں باز

214

بچو! جاں باز صرف ان کو ہی نہیں کہا جاتا جو دشمنوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں، لڑ پڑیں اور ان کے دانت کھٹے کر کے رکھ دیں۔ جاں باز وہ بھی ہوتے ہیں جو ہر آزمائش کا مقابلہ بہادری کے ساتھ کرتے ہیں اور آزمائشوں میں گھرے لوگوں کی مدد فرض سمجھ کرتے ہیں خواہ اس میں ان کی اپنی جان جانے کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ حالیہ سیلابوں میں دنیا نے دیکھا کہ الخدمت کے جاں بازوں نے اپنا سارا آرام و سکون ترک کرکے لوگوں کی مدد کی، اس کاوش میں بہت سے رضا کار بیمار بھی ہوئے، زخمی بھی ہوئے اور ایک رضاکار اس کارِ خیر میں شہید بھی ہو گئے لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود ان کے خدمت کے جذبے میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی۔ ایسے ہی حالات میں آج میں دو کم عمر رضاکاروں کی جاں بازی کی کہانی سنانے والا ہوں جسے سن کر آپ کو بہت مزا بھی آئے گا اور آپ کے اندر بھی ہر قسم کے حالات کا مقابلے کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا۔
الخدمت گھرانے سے تعلق رکھنے والے یہ دو کم سن بچے سندھ کے دیہات سے تعلق رکھتے تھے۔ کم عمر ہونے کے باوجود یہ ذہنی و جسمانی طور پر عام بچوں سے زیادہ بڑے، توانا اور عقل مند نظر آتے تھے۔ ان کے والدین اوسط درجے کے لوگوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن اخلاق اور معاملات میں اتنے اچھے تھے کہ بستی کے لوگ ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ یہ دونوں بھائی جڑواں تھے۔ جس وقت والدین پنجاب کے ایک دوسرے شہر اپنے قریبی رشتے داروں سے ملنے گئے تھے اس وقت ملک کے طول و عرض میں شدید بارشیں ہو رہی تھیں لیکن کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ موسم کی یہ تبدیلی کسی بڑی آفت یا تباہی و بربادی کا سبب بن جائے گی اور ان کا کسی بھی صورت لوٹ کر آنا ناممکنات میں شمار ہو جائے۔ وہ اس بات سے تو بہت اچھی طرح آگاہ تھے کہ دیہات میں جس جگہ ان کا مکان تھا وہ سیلاب کی زد سے بچا رہے گا لیکن جب چاروں جانب پانی ہی پانی ہو گا تو بچے اپنی ضرورتوں کو کیسے پورا کریں گے۔ آخری بار جب بچوں سے بات ہوئی تو انھوں نے اتنا ہی کہا کہ امی آپ فکر نہ کریں ہم نے ایسا منصوبہ بنایا ہے کہ ہم خود بھی محفوظ رہیں گے اور اگر خدا نخواستہ سیلاب نے ہماری بستی کو اپنی لپیٹ میں لے ہی لیا تو ہم اپنے ابو کی طرح ان کو بھی اس مصیبت سے باہر نکالنے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔ اس بات چیت کے ساتھ ہی موبائل فون کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ بچے پہلے ہی آگاہ کر چکے تھے کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے فون کی بیٹری کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے۔
والدین اپنے بچوں کی صلاحیتوں سے واقف تھے اس لئے انھوں نے معاملات اللہ پر چھوڑ دیا۔ بچوں کی عمر چودہ اور پندرہ سال کے درمیان تھی لیکن ان کا حوصلہ اور صلاحیت پختہ کار جوانوں کی سی تھی۔ اطلاعات کے مطابق سیلاب بستی تک پہنچنے میں دو دن لگ سکتے تھے۔ راستے میں آنے والی بستیوں کو کود تا پھلانگتا سیلاب کا پانی نہایت خوفناکیت کے ساتھ بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ ادھر دونوں بچوں نے تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ ایک بہت چوڑا تخت جس پر پورے گھر والے بیٹھ کر تازہ ہوا کے مزے لوٹا کرتے تھے اور اسی پر سب مل کر کھانا بھی کھا لیا کرتے تھے، وہ لا کر صحن کے درمیان الٹا کر کے رکھ دیا۔ شٹرنگ میں استعمال ہونے والے چند لمبے لمبے تختے جمع کئے، گھر میں موجود جیپ کے چاروں ٹائر کھول کر جیپ کو اینٹوں پر کھڑا کیا اور منصوبے کے مطابق ضرورت کا دیگر سامان جس میں کیلیں، نٹ بولٹ، اور کھانے پینے کی ایسی اشیا جن کے دو تین دن تک خراب ہونے کے کوئی امکانات نہ ہوں، جمع کر لئے۔ کوئی اگر دیکھ رہا ہوتا تو شاید ہی کسی کو یہ بات سمجھ میں آتی کہ یہ بچے کرنے کیا جا رہے ہیں۔
دو دن کی نہایت تھکا دینے والی محنت آخر کار رنگ لے آئی اور ایک شاندار کشتی تیار ہو گئی۔ اس کو ڈوبنے سے بچانے کیلئے تخت کے نیچے جیپ کے چاروں ٹائر نٹ بولڈ کی مدد سے لگا دیئے گئے۔ شٹرنگ کے لمبے لمبے تختے کیلوں کی مدد سے مضبوطی کے ساتھ لگا دیئے گئے۔ بانسوں کی کھپچیاں بنا کر انھیں “ہڈ” کی شکل دیدی گئی تاکہ بارش سے خود بھی بچے رہیں اور کھانے پینے کی اشیا بھی محفوظ رہیں۔ دو دن کے دوران وہ حالات کا جائزہ بھی لیتے رہے۔ بستی میں ہا ہا کار مچی ہوئی تھی۔ لوگ پاگلوں کی طرح اپنا ضروری سامان اٹھائے محفوظ مقامات کی جانب جارہے تھے۔ اڑوس پڑوس کے لوگ ان سے بھی کہہ رہے تھے کہ تم بھی یہاں سے نکلو لیکن وہ ان کو مناسب سا جواب دے کر ٹال دیا کرتے تھے۔ ان کو اطلاع مل چکی تھی کہ بس اب پانی بستی کو اپنی لپیٹ میں لینے ہی والا ہے۔ اگلے ہی روز انھوں نے سیلاب کے پانی کو بستی میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا۔ پوری بستی گوکہ خالی ہو چکی تھی لیکن اب بھی درجنوں ایسے افراد جو کمزور، ضعیف، چلنے پھرنے سے معذور، بیمار یا مالی لحاظ سے اتنے وسائل نہیں رکھتے تھے، وہ اب بھی بستی میں موجود تھے اور سخت بارش میں اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر اللہ تعالیٰ کی مدد کا انتظار کر رہے تھے۔ اچانک ان کی نظر ایک عجیب و غریب کشتی پر پڑی جو کسی گھر کی بیمار اور ضعیف خواتین کو اپنی عجیب و غریب کشتی میں سوار کر رہی تھی۔ کشتی جس انداز میں بنائی گئی تھی اس میں چار پانچ افراد کو سوار کیا جا سکتا تھا۔ ایسے افراد جو اس کا نظارہ کر ہے تھے، کم عمر بچوں نے ان کی جانب اشارہ کیا کہ ہم ابھی لوٹ کر آتے ہیں۔
ان بچوں کو علم تھا کہ محفوظ مقام کافی فاصلے پر ہے۔ وہ ان کو وہاں اتار کر پلٹے تاکہ دوسروں کی مدد کر سکیں۔ انھیں دور دور تک کوئی بھی امدادی ٹیم دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ بستی والے خوش تھے کہ آج ان ہی کی بستی کے دو نو عمر بچے ان کی مدد کو نکلے ہیں۔ جب وہ دوسرے پھیرے کے بعد بستی کی جانب پلٹے تو انھیں دور سے ایسے لوگ نظر آئے جو ایسا لباس پہنے ہوئے تھے جیسا کبھی کبھی مشکل کے وقت ان کے والد صاحب پہنا کرتے تھے قریب پہنچ کر انھوں نے اس پر الخدمت لکھا ہوا بھی دیکھا۔ الخدمت کی امدادی ٹیم اس عجیب و غریب کشتی دیکھ کر حیران تھی۔ ان کے خیال میں یہ کشتی پختہ عمر والے لوگ چلا رہے ہونگے لیکن قریب آنے پر جب ایک سی شکل و صورت والے دو کم عمر بچوں پر نظر پڑی تو وہ بہت حیران ہوئے۔ اس آزمائش میں اتنا وقت کسی کے پاس نہیں تھا کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خبر لیتے۔ نہایت تھکا دینے والے پھیروں کے باوجود انھیں اس بات کی خوشی تھی کہ وہ بستی والوں کے کچھ کام تو آئے۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے الخدمت والوں کو بھی مسلسل خدمت کرتے دیکھا تو ان کے حوصلے اور جوان ہوتے گئے۔ آخری پھیرے کے بعد ان میں گھر لوٹ جانے کی ہمت نہیں رہی اور انھوں نے بھی بستی والوں کے پاس ہی ٹھیرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہاں ان کو ایک بڑی تعداد افواج پاکستان کی بھی نظر آئی۔ قریب ہی الخدمت کے رضاکاروں نے بھی ڈیرہ لگا یا ہوا تھا۔ اچانک انھوں نے دیکھا کہ الخدمت والے ان کے پاس چلے آ رہے ہیں۔ انھوں نے آکر بچوں کی رضاکارانہ صلاحیتوں کی بہت تعریف کی۔ ابھی وہ آکر بیٹھے ہی تھے کہ کچھ فوجی جوان بھی انھیں اپنی جانب آتے ہوئے دکھائی دیئے۔ جوانوں نے آکر خالص فوجی انداز میں بچوں کو سلوٹ کیا اور ان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا کہ جس قوم میں ایسے ہمت والے بچے ہوں اس قوم کو کبھی زوال نہیں آ سکتا۔
بارشیں تھم چکی تھیں، سیلابی پانی بھی اتر چکا تھا۔ کچھ سڑکیں سفر کے قابل ہو چکی تھیں۔ جہاں والدین گئے تھے ان کی واپسی ہو چکی تھی۔ سب بستی والے ان کے گھر آئے ہوئے تھے اور ان کو ان کے بچوں کے کارنامے سنا سنا کے نہال ہوئے جا رہے تھے۔ بستی کے ایک بزرگ نے کہا کہ ہم نے جن جن کو بھی ووٹ دیئے تھے وہ سب اپنی اپنی جانیں بچا کر بھاگ گئے لیکن بستی کے یہ بچے نہ بھاگے اور نہ ہی خوف زدہ ہوئے۔ شاباش ہے ایسے سپوتوں کو۔ آج سے ہم نے بھی عہد کر لیا ہے کہ ہم مر جائیں گے لیکن ایسے مخلصوں بہادروں، نیک اور دوسروں کیلئے خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کو ہی ووٹ دیا کریں گے۔ ابھی سب بستی والے نہایت جذباتی انداز میں بچوں کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے کہ ایک چیپ آکر رکی جس پر افواجِ پاکستان کے سائن لگے ہوئے تھے۔ سلام و دعا کے بعد انھوں نے بچوں کے والدین سے کہا کہ تعلیم کا نیا سیشن شروع ہونے پر وہ آپ کی اجازت سے آپ کے بچوں کو اپنے اسکول میں داخلے کے لیے لے جائیں گے۔ اپنے ہی ہاسٹل میں رکھیں گے۔ بستی والوں نے یہ سن کر افواجِ پاکستان کے حق میں نعرے لگائے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ خدمت میں ہی عظمت ہے۔

حصہ