اس سفر میں دریائے نیلم ہمارے ساتھ ساتھ چل رہاتھا۔ دریائے جہلم اور نیلم کے پلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزر گیا ہے۔
1948ء کا وہ وقت جب آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفر آباد منتقل ہوا تھا۔ مورخ نے لکھا ہے کہ ’’بے سرو سامانی اپنے عروج پر تھی۔ دنیا کا انوکھا دارالحکومت جہاں کابینہ کے وزیر خیموں میں دفاتر جما کر بیٹھتے تھے، وزیروں کے پرائیوٹ سیکریٹری اور عملہ ٹاٹ پر بیٹھتا تھا۔ ایک جذبہ تھا جس کے ہاتھوں مجبور حکومت کے یہ کارکنان برسر عمل تھے۔ ایک عزم تھا جوان وزیروں، مشیروں کو سرگرم عمل رکھتا تھا عوام تھے کہ ولولوں سے لبریز رہتے تھے۔ آزادی کی خاطر ہر قربانی دینے کو بے تاب و بے قرار… وزارت مذہبی امور میں چھپرنما مسجد میں قائم تھی۔ بارشوں کے دوران وہاں نماز پڑھنا ممکن نہ رہتا، سارا پانی اندر آجاتا تھا۔لوہے کی کچھ چادر عطیہ کے طور پر آئیں تو میں نے بیرسٹر محمد ابراہیم خان سے مسجد کے لیے کچھ چادریں طلب کیں۔ انہوں نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔ ’’یہاں مسجد کس لیے، کس کے لیے بنائیں گے۔ یہاں کس نے رہنا ہے کچھ دن گزارتے ہیں کہ ہم سری نگر میں ہوں گے۔ وہاں شاندار دارالحکومت منظم کریں گے عارضی دارالحکومت میں تعمیرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم آزادی لے کر رہیں گے۔ ان شاء اللہ مسجدیں بھی بنیں گی اور سیکرٹریٹ بھی لیکن صرف سری نگر میں‘‘۔
پچھلے ہفتے جب ہم مظفر آباد کی ان ہی فضائوں میں تھے تو ایک سوال ذہن میں بار بار آتا تھا کہ یہ تو تحریک آزادی کا ’’بیس کیمپ ‘‘ تھا۔ آج یہاں اقتدار کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اب یہاں چھپروں اور خیموں کی جگہ عالی شان سیکریٹریٹ ہیں۔ صراط مستقیم کا سفر کب اور کیسے دائروں کا سفر بن گیا؟ کیا چناروں کے اس پار وہ اس لیے لہو دے رہے ہیں کہ دریائے نیلم کے اس پار عالی شان محلات بنیں۔ قیمتی پجیرو اور مرسڈیز گاڑیاں سڑکیوں پر دوڑیں۔ اللہ کے نبیؐ اس بات کی طرف بار بار متوجہ کیا ہے کہ اس وقت سے ڈرو جب دنیا تم پر وسیع کر دی جائے گی۔‘‘ دنیا کا عیش و عشرت اتنی خطرناک چیز ہے کہ فرد ہو یا قوم مقصد زندگی بھول جاتا ہے!
وادیٔ نیلم میں دریا کے اس پار بھارت کے ترنگے پرچم اور مقبوضہ کشمیر کے فلک شگاف پہاڑوں کو دیکھ کر بار بار بغداد کی یاد آئی۔ قومیں ڈوبتی بھی ہیں اور ابھرتی بھی ہیں۔ قومیں بیدار ہو جائیں تو تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیتی ہیں بصورتِ دیگر قوموں کی سزائیں صدیوں پر محیط ہو جاتی ہیں۔
مقبوضہ وادی میں سید علی گیلانی جدوجہد کا استعارہ تھے۔ جن کی ولولہ انگیز قیادت نے آزادی کی امنگ کو ایک پرجوش تحریک میں بدل دیا۔
حلقہ خواتین جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر نے سید علی گیلانی کی پہلی برسی کے موقع پر مظفر آباد اور وادیٔ نیلم میں خواتین کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ پاکستان سے حلقۂ خواتین جماعت اسلامی پاکستان کی جنرل سیکریٹری محترمہ دردانہ صدیقی نے ان کانفرنسوں سے خطاب کیا۔ آزاد جموں و کشمیر کی قیمہ محترمہ نصرت ارشد نے قوم پرستی کے مضمرات پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام رنگ و نسل کے بت توڑنے کے لیے آیا ہے۔ پاکستان سے ہمارا رشتہ صرف لا الہٰ الا اللہ کا رشتہ ہے۔ سید علی گیلانی کا نعرہ ہی ہر کشمیری کا نعرہ ہے کہ ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے۔ ہم نے لہراتی اور بل کھاتی پہاڑیوں پر یہ طویل سفر سید علی گیلانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہی کیا تھا۔ خواتین کی عظیم الشان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ دردانہ صدیقی صاحبہ نے کہا ’’سید گیلانی جن کی پاٹ دار آواز مردہ دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن کرتی تھی وہ جن کی طویل عمر کا ہر دن جذبوں اور ولولوں کی ایک تازہ کہانی ہے کشمیر کے مردِ حر جودشمن کے لیے لوہے کی چٹان ثابت ہوئے جنہوں نے یہ تاریخی جملہ تین نسلوں کی پیشانی پر درج کر دیا کہ ’’کشمیر کے پہاڑوں پر کالی برف بھی پڑنے لگے تب بھی ہم شہیدوں کے لہو سے غداری نہیں کریں گے۔ ہم اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں‘‘۔ ان کے نقوش پا پر چل کر ہی آزادی کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے‘‘۔ سچ ہے کہ وہ مرد حق آگاہ، گرمیٔ گفتار اور اولوالعزی کا استعارہ تھے جو بھارتی سورمائوں کو ببانگ دہل للکارتے تھے کہ ’’میں باغی ہوں، ہاں مجھے سولی پر چڑھا دو، پھانسی کے پھندے کو چومنا میرے لیے شہادت ہے‘‘
انہوں نے ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ کا تاریخی نعرہ ہی کشمیر ی نسلوں کو نہیں دیابلکہ ان کی نسلوں میں آزادی کی روح پھونکنے کے لیے ریاست جموں و کشمیر میں چار سو سے زائد ماڈل اسکول قائم کیے۔
آج ہم اس مجاہد اعظم کی برسی کے موقع پر اس کی یادوں سے اپنے من میں اجالا کر رہے ہیں جس نے ایک ہزار سے زائد مثالی بستیاں قائم کرکے مائوں کو درس دیا کہ انہیں شیر مادر کے ساتھ اپنے بچوں میں جذبۂ حریت منتقل کرنا ہے۔ سلام ہے اس قائد کو جس کی ولولہ انگیز قیادت نے تین نسلیں بھارتی غلامی کے خلاف صف آرا کر رکھی ہیں۔
مظفر آباد اقتدار کے پجاریوں کا ’’ریس کیمپ‘‘ بن گیا جبکہ سید علی گیلانی نے بھارت کی سابق وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی کی جانب سے صدر بننے کی پیشکش یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دی تھی کہ ’’مادام گاندھی! اب کشمیر میں کوئی شیخ عبداللہ نہیں رہا جو کرسی کی خاطر دین و ملک سے غداری کرے۔‘‘
ہم پاکستان سے ان کے لیے سپاس گزار دل لے کر گئے تھے کہ انہوں نے ساری زندگی اہل پاکستان کی تمنائوں کو توقیر بخشی، ان کی لاج رکھی۔ انہوں نے تکمیل پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے اپنی سیاسی زندگی کا ہر دوسرا دن جیل میں گزارا۔ برصغیر میں طویل ترین سیاسی اسیری ان کا اعزاز بنی جو ان کے پائے استقلال میں لمحہ بھر کو بھی جنبش نہ لا سکی۔
یکم ستمبر 2021ء ملت اسلامیہ کے لیے ایک سانحہ کا دن ہے۔ سید علی گیلانی ایک شخص کا نام نہیں وہ ایک تاریخی جدوجہد کا عنوان ہیں۔