چال بنائو ۔۔۔مال کمائو ،کراچی کی قبضہ مافیا

265

یہ اسکول کے زمانے کی بات ہے جب ماسٹر صاحب کہا کرتے تھے ’’کل کٹنگ کروا کر آنا۔‘‘ یہ جملہ سنتے ہی میرا دھیان اپنے سر کی طرف جاتا یعنی مجھے اندازہ ہو جاتا کہ اب بالوں کی ’’کٹنگ‘‘ کروانی ضروری ہے لہٰذا چھٹی کے بعد مجھ پر لازم ہوتا کہ کسی حجام کے پاس جا کر اپنے بالوں کی کٹنگ کروا لو۔
اس زمانے میں لفظ ’’کٹنگ‘‘کا مطلب میرے نزدیک حجامت بنوانے سے زیادہ نہ تھا یا پھر کبھی والد صاحب گھر کے مالی سے کہتے کہ ’’آج کٹنگ کر کے جانا…‘‘ جس پر مالی شام تک پودوں کی تراش خراش کرتا دکھائی دیتا۔ لہٰذا اُس وقت میں ’’کٹنگ‘‘ کے بارے میں جو کچھ بھی جانتا تھا اس سے مراد پودوں کی ترش خراش اور اپنے سر کے بالوں کو منڈوانا تھا۔
وقت کے ساتھ سب کچھ بدلنے لگا‘ دنیا میں جدت آنے لگی‘ ترقی کا رحجان بڑھنے لگا۔ کچھ ممالک ترقی یافتہ تو کچھ ترقی پذیر کہلانے لگے۔ ہر ملک اپنے تئیں اس دوڑ میں شامل ہونے لگا۔ ایسا ہی ہمارا پڑوسی ملک چین بھی ہے جس نے ترقی کی دوڑ میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی یعنی انتہائی کم وقت میں عالمی مارکیٹ میں اپنا ایسا سکہ جمایا کہ سارے جہان کو حیران کر ڈالا۔ میرے نزدیک اس کامیابی کا راز اس کے سوا کچھ نہیں کہ چائنا کی جانب سے تیار کردہ تمام اشیا انتہائی کم قیمت ہونے کے باعث ہر گھر کی زینت بن گئیں یہی وجہ ہے کہ آج کم لاگت کے باعث چین سے درآمد شدہ مال بازاروں میں نفع کا سودا شمار کیا جاتا ہے چین کی تیزی سے ترقی کو دیکھتے ہوئے کوئی متاثر ہوا ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات سچ ہے کہ ہمارے شہر کا قبضہ مافیا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور انہوں نے بڑی تیزی سے سرکاری زمینوں پر قبضے کرنا شروع کردیے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اتنی جلدی اور سستے داموں سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ ہوتے دیکھ کر کسی منچلے نے اس کاروبار کو ’’چائنا کٹنگ‘‘ کا نام دے دیا ہو۔ خیر یہ نام جیسے بھی رکھا گیا ہو‘ میرے سامنے اس لفظ ’’کٹنگ‘‘ کے ایک اور معنی آگئے۔ اب تو میں کٹنگ کے فرسٹ فام سیکنڈ فام اور تھرڈ فام سے اچھی طرح واقف ہو چکا ہوں کیوں کہ اس آگاہی سے قبل میں نے ملک بھر میں جہاں بھی زمینوں اور جائدادوں کی خرید و فروخت دیکھی یا سنی وہ رائج قوانین کے مطابق مربوں، گزوں یا پھر ایکڑوں میں ہوا کرتی تھی اور آج بھی اسی کلیے کے تحت کی جاتی ہے۔ لیکن چائنا کٹنگ کے تحت کراچی میں پلاٹوں کی فروخت اتنی مشہور اور کامیاب ہوئی کہ یہاں کا رہنے والا ہر فرد اس ’’کٹنگ‘‘ سے واقف ہوگیا۔ اب تو اسٹیٹ ایجنسی والے بھی جائداد کا لین دین یہ کہہ کیا کرتے ہیں کہ ’’جناب! پلاٹ کے ڈی اے والا چاہیے یا پھر چائنا کٹنگ کا؟‘‘ اب یہ خریدار پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کیا پسند کرتا ہے۔
میری معلومات کے مطابق چائنا کٹنگ گی مانگ میں اضافے کی وجہ سے لوگ اب کٹنگ کے پلاٹ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بات بھی ٹھیک ہی ہے۔ سڑک کنارے فرنٹ لوکیشن پر ہوا دار کارنر پلاٹ لینا ہر شخص کی تمنا ہوا کرتی ہے اور یہ ساری خوبیاں تو اسی اسکیم یعنی ’’چائنا کٹنگ‘‘ کے تحت ہی مل سکتی‘ اور تو اور 70 سے 80 لاکھ روپے دے کر الاٹ شدہ مکان لینے سے بہتر نہیں کہ صرف 15 سے 20 لاکھ روپے ادا کرکے پاک چین دوستی سے منسوب سستے رہائشی علاقے کے مکین بن جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مکان کے کاغذات ہوں یا نہ ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ بس ایک پلاٹ خریدیں‘ اس پر جیسے تیسے مکان تعمیر کریں۔ بجلی کے لیے کنڈا لگا لیں‘ سڑک کے ساتھ جاتی 16 سے 18 قطر انچ کی لائن سے کنکشن لگا کر پانی لے لیا جائے… اور ٹھاٹھ سے زندگی بسر کی جائے۔ اب اس سے زیادہ پُر سکون اور خوش حال زندگی بھلا کس کی ہو گی؟
چائنا کٹنگ منصوبہ اے کے تحت کاٹے گئے پلاٹوں کی خاصیت یہ بھی ہے کہ ہر پلاٹ سڑک کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تعمیر کیے گئے مکانوں کی یہ اہمیت بھی ہوتی ہے کہ مکین کسی بھی کاروباری نکتۂ نظر کے مطابق مین روڈ کے ساتھ دکانیں بھی بنا سکتا ہے اور یہ بات بھی ہر خاص و عام کے ذہن میں ہے کہ اس اسکیم تحت آباد کیے جانے والے علاقوں میں پلاٹ ’’پہلے آئیے ‘پہلے پائیے‘‘ کی بنیاد پر حاصل کیے جاتے ہیں۔
کراچی کی سڑکوں کے کنارے اور سرکاری زمینوں پر قبضے کی صورت میں ہونے والا یہ کاروبار ہر آنے والے دن کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے۔ شاید کسی اور کاروبار میں اتنی جلدی ترقی نہ ہو جتنی چائنا کٹنگ کے نتیجے میں ہو رہی ہے۔ اس مافیا کی کارروائیوں کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ قبضہ مافیا کو اس بات کا پورا ادراک ہے کہ جس طرح ملک عوام کا ہوا کرتا ہے اسی طرح یہ شہر اور اس کی زمین پر بھی عوام کا پورا حق ہے‘ ان کے نزدیک جب یہ شہر اپنا ہے تو اپنی زمین فروخت کرنے میں کیا حرج؟ بس اسی کلیے پر عمل کرتے ہوئے اس شہر کے نام نہاد بیٹے شہرِ کراچی کا چپہ چپہ فروخت کیے جارہے ہیں۔
ماضی میں کی جانے والی چائنا کٹنگ کی بات چھوڑیے‘ آج کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ مافیا ایک مرتبہ پھر سرگرم ہوچکا ہے۔ مختلف علاقوں میں سرکاری زمینوں پر ہونے والی غیر قانونی تعمیرات بتا رہی ہیں کہ اس مافیا نے کچھ عرصے آرام کے بعد تازہ دم ہو کر پھر سے انٹری مار دی ہے یعنی قبضہ مافیا پہلے سے زیادہ طاقتور اور توانا ہو کر ایک مرتبہ پھر شہر کے رفاہی پلاٹوں اور کھیل کے میدانوں پر اپنے پنجے گاڑنے میں مصروف ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ انہیں کسی ادارے کا ڈر ہے نہ قانون کی کوئی پروا‘ شاید وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ قانون ان کے سامنے بے بس بھی ہے اور لاچار بھی… اور یہی سچ بھی ہے کیوں کہ حکومت اور انتظامیہ کی ناک کے نیچے ہونے والے اس جرم پر اداروں کی خاموشی دیکھ کر تو یہی لگتا ہے ہمارے حکمران نہ صرف اس مافیا کے سامنے کمزور ہیں بلکہ اس سارے کھیل کے حصے دار بھی ہیں اور قبضہ مافیا کو ان کا مکمل آشیرباد بھی حاصل ہے۔
میں خود ایسے کئی علاقوں کا سروے کر چکا ہوں جہاں نہ صرف سرکاری زمینوں پر قبضہ کیا گیا بلکہ برساتی نالوں سمیت مرکزی گزرگاہوں پر بھی کیبن خوانچے لگا دیے گئے۔ اسی طرح کی ایک سڑک جہاں یہ کھیل کھیلا گیا‘ لانڈھی 36-B ڈبل روڈ ہے جہاں قبضہ مافیا کی سرپرستی میں برساتی نالے اور گرین بیلٹ پر غیر قانونی تعمیرات کی جارہی ہیں۔ لینڈ مافیا نے سڑک کے دونوں طرف باقاعدہ رکشہ اسٹینڈ بنا رکھا ہے جہاں چوکیداری کی مد میں فی گاڑی پچاس روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرین بیلٹ پر لگائے جانے والے ٹھیلوں اور کھڑی کی جانے والی گاڑیوں سے بھی بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ اس گھیراؤ کے باعث علاقے کی جانب جاتی یہ سڑک نہ صرف انتہائی تنگ ہوگئی ہے بلکہ کسی کباڑ خانے کا منظر بھی پیش کرتی ہے۔
اسی طرح کا ایک گھیراؤ کورنگی نمبر ایک پر بھی کیا جا رہا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ مین کورنگی نمبر ایک پر پیٹرول پمپ کے ساتھ واقع رفاہی پلاٹ پر کیا جانے والا قبضہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سیکٹر R اور S کے درمیان قائم مسجد ربانی سے متصل رفاہی پلاٹ پر میئر عبد الستار افغانی کے زمانے میں یہاں سے منتخب ہونے والے کونسلر مختار گوہر کی کاوشوں کے نتیجے میں ایک پارک تعمیر گیا تھا جس کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔ اس رفاہی پلاٹ پر کی جانے والی چائنا کٹنگ جس چالاکی اور ہوشیاری سے کی جارہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً تین ایکڑ پر محیط اس پلاٹ کو پہلے کچرے کے لیے مختص کیا گیا پھر چار دیواری تعمیر کر کے اسے ’’مرکزی کچرے دان‘‘ کا نام دے دیا گیا اور اب اسی ’’کچرا دان‘‘ یا ’’کوڑے دان‘‘ کے لیے اٹھائی جانے والی دیواروں کے درمیان 80 اور ایک بیس گز کے پلاٹوں کی کٹنگ کی پوری تیاری کر لی گئی ہے جبکہ پیٹرول پمپ کی عقبی دیوار کے ساتھ ایک دیوار اور اٹھا کر اسے بھی قبضے میں لینے کی راہ ہموار کر لی گئی ہے۔ یوں کورنگی نمبر ایک پیٹرول پمپ کے ساتھ موجود اربوں روپے کے سرکاری رفاہی پلاٹ کو کوڑیوں کے مول فروخت کرنے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ علاقہ مکینوں کے مطابق اس گھیراؤ کے پیچھے کورنگی ٹاؤن کا با اختیار عملہ سہولت کار بنا ہوا ہے جو رشوت کے عوض انتہائی قیمتی زمین کوڑیوں کے دام فروخت کروانے کے در پہ ہے۔
نا جائز تعمیرات پر کی جانے والی بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اب تو انویسٹر کٹنگ بھی خاصی شہرت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس واردات کی زد میں سو اور ایک سو بیس گز کے کارنر مکانات آرہے ہیں یعنی گلی کے نکڑ والے مکانات کو مارکیٹ ویلیو سے زیادہ رقم ادا کر کے خرید لیا جاتا ہے اور پھر اسے پانچ ٹکڑوں میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ یوں ایک سے ڈیڑھ کروڑ کی رقم لگا کر دگنا مال کمایا جاتا ہے جس سے نہ صرف پانی بجلی اور گیس کی کمی جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں بلکہ چند گز پر دو سے تین منزلہ مکانات تک کی تعمیرات کی جارہی ہیں جو انتہائی خطرناک ہیں۔ ظاہر ہے تیس سے چالیس گز کی جگہ پر کی جانے والی تعمیرات کسی صورت بھی قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس ساری صورت حال میں رشوت کے چند سکوں کے عوض سندھ بلڈنگ اتھارٹی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ کراچی کی ابتر ہوتی صورت حال پر اگر کوئی پریشان ہے تو کراچی کے وہ مکین ہیں جو اس شہر کے اصل وارث ہیں‘ جہنوں نے اسے آباد کیا‘ جن کی ماضی اس شہر کی گلیوں‘ محلوں اور چمچماتی سڑکوں سے جڑا ہے۔ وہ جنہوں نے رات دن اس شہر کی خدمت کی‘ وہ جن کے دل میں آج بھی اس شہر کا درد ہے۔ کراچی کو سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھنے والوں کو اس کے بڑھتے ہوئے مسائل اور تباہی سے کیا غرض‘ ان کے نزدیک یہ شہر چال بناؤ‘ مال کماؤ سے زیادہ کچھ نہیں۔
میں پھر کہتا ہوں کہ کراچی میں ہونے والی اس تباہی سے جتنا نقصان قانونی طور پر بسائی جانے والی آبادیوں کو ہوا ہے اتنا شاید ہی کسی اور کارروائی کے نتیجے میں ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج کراچی کی وہ بستیاں جنہیں کے ڈی اے کے تحت بسایا گیا‘ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
آخر میں حکمرانوں سے اتنا ہی کہوں گا کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور اس مافیا کے خلاف بھر پورا کارروائی عمل میں لائیں۔ اگر حکومت نے فوری طور پر اس عذاب سے دو دو ہاتھ کرنے کی کوشش نہ کی تو یقین جائیے کہ لوگ اپنے بنیادی سہولیات کے حصول کی خاطر ایسے راستے کا انتخاب پر مجبور ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں آنے والے انقلاب کا راستہ روکنا حکمرانوں کے بس کی بات نہیں لہٰذا اس سے پہلے کہ انقلاب دستک دے حکمرانوں خصوصاً سندھ حکومت اپنا قبلہ درست کر لے۔

حصہ