سستی اورکاہلی ،ایک تعارف ،ایک جائزہ

688

آپ نے وہ واقعہ ضرور سنا ہوگا کہ ایک بچے نے انسان کی تصویر درست جوڑ کردنیا کا بگڑا ہوا نقشہ ٹھیک کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان جہاں کہیں بھی ہو، اور جس قسم کی بھی اصلاح چاہتا ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کرے اور اپنی ذات کی تنظیم کی طرف توجہ دے۔ ہمارے گھروں کا، ہمارے دفتروں کا، ہمارے محلوں اور علاقوںکا، ہمارے معاشرے کا اور زندگی کے جن جن معاملات سے ہمارا تعلق ہے، وہاں کا نقشہ بگڑا ہوا ہے۔ اس نقشے کی درستی کے لیے ضروری ہے کہ ہم انسان کی تصویر کو ٹھیک کریں۔ یہ انسان کی تصویر درحقیقت میری اور آپ کی تصویر ہے۔ یہ بکھری پڑی ہے، اسے جوڑنا ضروری ہے۔ ہم اپنے ماحول کی اصلاح اور حالات کی درستی کی کوشش کرتے ہیں تاکہ نقشہ ٹھیک ہوجائے لیکن ہم کامیاب نہیں ہوتے۔ معلوم ہوتا ہے، تصویر بکھری ہوئی ہے۔ تصویر اس لیے بکھری ہوئی ہے کہ:
٭ ہمارے ارادے اور عزائم ضعیف ہوچکے ہیں، ٭ ہماری طبیعت میں سستی اور کاہلی آگئی ہے، ٭ ہمارے معاملات میں تساہل پیدا ہوگیا ہے، ٭ ہم آج کے کام کو کل پر ٹالتے ہیں، ٭ ہم ’’پھر کبھی‘‘ کا شکار ہیں، ٭ فیصلوں میں اتنی تاخیر ہوتی ہے کہ بس نکل جاتی ہے، ٹرین چھوٹ جاتی اور فلائٹ بند ہوجاتی ہے، ٭ ہم اتنے ڈرپوک ہوگئے ہیں کہ قسمت کامیابی کے دروازے پر دستک دیتی ہے اور ہم اسے کھولتے تک نہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں سستی اور کاہلی آگئی ہے اور ہم نے ’’کل‘‘ پر بھروسہ کیا ہوا ہے۔
ہمارے دشمن:
یہ ’’تساہل‘‘، ’’سست روی‘‘، ’’ٹال مٹول‘‘، ’’تاخیر‘‘ اور ’’پھر کبھی‘‘ ہمارے دشمن ہیں، ہمارے اور ہمارے مستقبل کے لیے انتہائی تباہ کن ہیں۔ یہ نشہ آور چیزوں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔ جو شخص نشہ کرتا ہے وہ معاشرے سے کافی حد تک کٹ جاتا ہے مگر تساہل اور سست روی کا شکار فرد معاشرے میں شامل رہ کر معاشرے کو نقصان پہنچاتا ہے۔
امام عبدالرحمن ابن جوزیؒ (511۔ 597ھ) نے اپنی کتاب منہاج القاصدین میں توبہ کے باب میں تسویف (آئندہ کرلوں گا) کے بارے میں لکھا ہے:
’’آئندہ پر ٹالنے والے بالعموم ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک ہی جیسی دو چیزوں میں فرق کر جاتے ہیں۔ آئندہ پر ٹالنے والے کی مثال اس آدمی کی سی ہے جسے ایک درخت اکھاڑنا ہو۔ وہ دیکھے کہ درخت بہت مضبوط ہے، شدید مشقت سے اکھڑے گا تو وہ کہے کہ میں ایک سال کے بعد اس کو اکھاڑنے کے لیے آئوں گا۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ درخت جتنی مدت باقی رہے گا، مضبوط ہوتا جائے گا اور خود اس کی جتنی عمر گزرتی جائے گی، وہ کمزور ہوتا جائے گا۔ جب وہ طاقتور ہونے کے باوجود درخت کی کمزوری کی حالت میں اسے نہیں اکھاڑ سکتا تو جب وہ کمزور ہوجائے گا اور درخت زیادہ طاقتور، تو پھر اس پر کیسے غالب آسکے گا‘‘۔
تساہل کیا ہے؟
مزاج اور رویے کے باعث اہم چیزوں کو غیر اہم امور کے مقابلے میں مؤخر کرنے کے عمل کو ہم تساہل یا ٹال مٹول کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے کے لیے Procrastination استعمال ہوتا ہے۔ ہم بعض اہم کاموں کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیںکہ انھیں کرنے کا موڈ نہیں ہوتا، بعض اوقات اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ انھیں کرنے کے لیے مناسب وقت اور سکون میسر نہیںہوتا اور بعض اوقات اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ کرنے کے لیے ابھی کافی وقت اور عمر باقی ہے۔ ہم اللہ کی نعمت ’’وقت‘‘ کو رائیگاں کرتے رہتے ہیں۔ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جوںہی آنے والے دن کو پو پھٹتی ہے تو وہ آواز لگاتا ہے: اے آدم کی اولاد! میں اللہ کی نئی تخلیق ہوں اور تمہارے اعمال کا گواہ، اس لیے مجھ سے جتنا زیادہ زاد راہ لے سکتے ہو لے لو، میں پھر بھی لوٹ کر نہیں آئوں گا‘‘۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ مومن کو دو دھڑکے لگے رہتے ہیں، ایک اس کا ماضی جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اللہ اس کے کیا نتائج ظاہر کرے گا اور دوسرا اس کا مستقبل جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق کیا فیصلہ کر رکھا ہے۔ اس لیے آدمی کو اپنی جان کی خاطر اپنی جان کو، آخرت کی خاطر دنیا کو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو اور موت سے پہلے زندگی کو کام میں لانا چاہیے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ٹال مٹول شیطان کا شعار ہے جس کو وہ مسلمانوں کے دلوں میں بٹھاتا ہے۔ امام ابن جوزیؒ فرماتے ہیںکہ عمر کے سانسوں میں سے ہر سانس ایک نفیس جوہر ہے جس کا معاوضہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔
کل:
ہماری زندگی میں ’’کل‘‘ کا لفظ بھی ایک دھوکا ہے جو انسان کو وقت ضائع کرنے کی شرم اور افسوس سے بچاتا رہتا ہے۔ انسان کی زبان میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو ’’کل‘‘ کے لفظ کی طرح اتنے گناہوں، اتنی حماقتوں، اتنی وعدہ خلافیوں، اتنی بے جا امیدوں، اتنی غفلتوں، اتنی بے پروائیوں اور اتنی برباد ہونے والی زندگی کے لیے جواب دہ ہو۔ کیونکہ اس کی آنے والی ’’کل‘‘ یعنی ’’فردا‘‘ کبھی نہیں آتی۔ وقت ایک دفعہ گزر گیا، مرگیا۔ تو س کو پڑا رہنے دو۔ اب اس کے ساتھ اور کچھ نہیں کرنا ہے سوائے اس کے کہ اس کی قبر پر آنسو بہائو۔ آج کی طرف لوٹ آئو مگر لوگ اس کی طرف نہیں لوٹتے اور عملاً ’’فردا‘‘ کو کبھی ’’امروز‘‘ نہیں ہونے دیتے۔
دانائوں کے رجسٹروں میں ’’کل‘‘ کا لفظ کہیں نہیں ملتا، البتہ بے وقوفوں کی جنتریوں میں یہ بکثرت مل سکتا ہے۔ یہ تو محض بچوں کا بہلائو ہے کہ فلاں کھلونا تم کو کل دے دیا جائے گا۔ کل کا لفظ تو ایسے لوگوں کے لیے ہے جو صبح سے شام تک خیالی پلائو پکاتے رہتے ہیں اور شام سے صبح تک خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ کامیابی کی شاہراہ پر بے شمار اپاہج سسکتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنی تمام عمر ’’کل‘‘ کا تعاقب کرتے ہوئے کھودی اور اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودی۔ ہم اسی دھوکے میں ہاتھ پیر دھرے بیٹھے رہے کہ ’’کل‘‘ ہمارے لیے اچھی اچھی نعمتیں اور فائدہ مند اشیا لائے گا مگر وہ تو آتا ہی نہیں۔ اسی طرح ’’پھر کبھی‘‘ ہے جو کام مکمل ہوسکتا ہے وہ آج کیوں کریں اور آنے والا ’’کل‘‘ خود کام کے لیے سازگار حالات پیدا کرے گا۔ یہ رویہ یقینا ہم لوگوں کے لیے بحیثیت فرد، بحیثیت قوم اور بحیثیت امت نقصان دہ ہے۔
ہم اہم اور ضروری نوعیت کے کام جن کی تکمیل سے ہمارا ذاتی، معاشی، معاشرتی اور قومی مفاد وابستہ ہے، خوامخواہ ملتوی کرلیتے ہیں اور ان کی بجائے ایسے کام کرنے لگتے ہیں جن کی بہت ضرورت نہیں ہوتی۔ بس ہم اس لیے دوسرے کام کرنے لگتے ہیں کہ اس میں لذت ملتی ہے، طبیعت کے تساہل کو عذر فراہم ہوجاتا ہے، اور اپنی ذات کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ مل جاتا ہے۔
امام ابن جوزیؒ اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ اگر صفرا کی زیادتی کا مریض سکنجبین پینے کے بجائے سکنجبین بنانے کی ترکیب سیکھنے میں عمر برباد کردے تو وہ یقینا دھوکے میں مبتلا ہے۔ آگے فرمایا: ’’خوش قسمت وہ ہے، جو اپنی اہم ضرورت کو حاصل کرے، دوسری کو چھوڑ دے، عمل کی طرف توجہ کرے اور اسی کو مقصود اصل جانے‘‘۔
تساہل کے اثرات:
تساہل ایک غیر محسوس بیماری ہے اور خوشبودار نشہ ہے۔ اس سے انسان لذت لیتا ہے۔ یہ انفرادی مرض بھی ہے، معاشرتی بھی اور قومی بھی۔ اس کے اثرات بھی سخت ہیں۔ ذیل میں اس موضوع کے دو ماہرین جین بی برکا اور لینور ایم یو آن کی کتاب Procrastination سے ان اثرات کی فہرست دی جارہی ہے۔
ممکنہ خارجہ اثرات:
٭اعتماد اور عزت میں کمی، ٭ دوستوں اور اہل خاندان کے ساتھ تنازعات، ٭ ساتھیوں اور ہم عصر افراد سے اختلاف و ناراضی، ٭ افسر بالا سے اختلاف و ناراضی، ٭ ملازمت کا نقصان یا بے دخلی، ٭سرکاری جرمانے، ٭ مالیاتی نقصان، ٭ حادثات یا جسمانی تکلیف۔
ممکنہ داخلی اثرات:
٭احساس کمتری، ٭شرمندگی اور پشیمانی،٭پریشانی، ٭یکسوئی کا نہ ہونا، ٭سرگرمیوں میں شریک نہ ہونا، ٭ خود ملامتی، ٭ اضطراب، ٭گھٹن، ٭جسمانی تکلیف یا بیماری، ٭تنہائی پسندی۔
جاگتے کو جگانا ہے:
ہم تساہل کی اس بیماری کے باعث اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے۔ نہ آخرت کی تیاری کرتے ہیں اور نہ دنیا بناتے ہیں۔ زندگی میں ناکامی زنجیروں کی طرح پیروں کو جکڑلیتی ہے اور حسرت اور ملامتیں مستقبل کا سامان بن جاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سوتے کو جگانا آسان اور جاگتے کو جگانا مشکل ہے۔ ہم اور آپ جاگ رہے ہیں مگر بستر سے اٹھ نہیں رہے۔ ہمیں جاگنا ہے اور مقصد حیات کے حصول کے لیے کام کرنا ہے۔ دنیا میں دو چیزوں کے وقت کا پتا نہیں چلتا ہے۔ ایک تو یہ کہ رات کو نیند کب آئی۔ دوسرے کسی قوم کا زوال کب شروع ہوا۔ یہ اس قوم کو پتا نہیں چلتا البتہ اس کے نقصانات آئندہ نسلوں کو پہنچتے ہیں۔ ہمارے زوال اور انحطاط کی بہت بڑی وجہ یہ تساہل اور کاہلی ہے، نااہلی ہے، عدم توجہی ہے، مقصد کے شعور کی کمی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ گھر کے معاملات سے لے کر قومی معاملات تک میں الجھائو ہے اور منٹوں کے کام مہینوں میں بھی نہیں ہوتے اور ہم خوار ہوکر رہ گئے ہیں۔
اپنی ذات کا جائزہ لیجیے، پھر اپنے گھر کا، پھر اپنے ادارے، معاشرے، بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی حکومت کا، ہر سطح پر آپ کو تساہل اور سست روی کا سامنا ہے۔ یہ قومی بیماری نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ زوال کی علامت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ بیماری اور نشہ ہیروئن اور افیون سے کچھ کم نہیں ہے۔
انتظار مت کیجیے:
ذرا اپنا جائزہ لیجیے کہ ماضی میں آپ کتنا وقت صرف فرصت و فراغت کے، اور حالات کی درستی کے انتظار میں گزارتے رہے ہیں۔ ایک فہرست تو بنایئے کہ آج تک آپ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے اور اب تک کیا کچھ حاصل کرچکے ہیں۔ جو حاصل نہیں کرسکے اس کی قابل قبول وجوہات تھیں یا محض اپنی نفس پرستی، سستی،کاہلی اور خوف خدا کی کمی۔ تو پھر آیئے آج ہم اپنے نفس کو غفلت سے پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تھوڑا سخت حساب کتاب کرلیں اور اپنے نفس اور ذہن و جسم کی حرکات و سکنات اور اس کے رجحانات پر کڑی نگاہ رکھیں۔
امام ابن جوزیؒ فرماتے ہیں: ’’جب بندہ حج کے فریضے سے فارغ ہوجائے تو چاہیے کہ کچھ دیر اپنے دل کو فارغ کرے اور اپنے نفس سے شرائط طیٖ کرے اور کہے: اے نفس! میرے پاس سرمایہ صرف زندگی ہے۔ اگر میرا یہ سرمایہ فنا ہوگیا تو تجارت اور منافع سے مایوسی ہوجائے گی۔ یہ ایک نیا دن ہے جس میں اللہ نے مجھے مہلت دی ہے اور میری موت کو مؤخر کرکے مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر وہ مجھے دنیا سے اٹھالیتا تو میں تمنا کرتا کہ زندگی کی کچھ مہلت اور عطا کردے تاکہ میں کوئی نیک عمل کرلوں۔ تو اے نفس! یہی سمجھ کہ تو فوت ہوچکا ہے اور پھر تجھے واپس کیا گیا ہے۔ اس دن کو ضائع کرنے سے بچ جا اور جان لے کہ دن رات میں چوبیس گھنٹے ہیں اور یوں سمجھ لے کہ بندے کے لیے ہر روز چوبیس الماریاں قطار در قطار رکھی ہیں۔ قیامت کے دن یہ الماریاں کھولی جائیں گی اور اللہ ہر گھنٹے میں کمائی ہوئی نیکیوں کو دیکھے گا۔ اگر یہ نیکیوں کے نور سے بھری ہوں گی تو اسے اتنی خوشی ہوگی کہ اگر وہ دوزخیوں پر تقسیم کی جائے تو حیرانی کی وجہ سے ان کو آگ کی تکلیف کا احساس نہ رہے۔ اگر بدقسمتی سے صورت حال دوسری ہوئی یعنی کوئی شخص نیکیوں کی بجائے برائیوں میں پھنسا رہا، تو نور کی جگہ اندھیرا ہوگا اور تعفن پھیلے گا اور وہ گھنٹہ جس میں اس نے اللہ کی نافرمانی کی ہوگی، اسے عذاب الیم سے ہمکنار کردے گا۔ اسے اتنی گھبراہٹ اور ذلت محسوس ہوگی کہ اگر وہ تمام جنتیوں پر تقسیم کردی جائے تو ان کی نعمتیں مکدر ہوجائیں۔
بے عمل لوگوں کے لیے ایک اور خزانہ کھولا جائے گا جو خالی ہوگا۔ نہ اس میں کوئی خوشی کی بات ہوگی، نہ غمی کی۔ یہ وہ گھنٹہ ہوگا جس میں یہ لوگ سوئے رہے تھے (یعنی وقت ضائع کررہے تھے) ان میں سے ہر شخص اس کے خالی ہونے پر افسوس کرے گا اور اسے ایسا دکھ ہوگا جیسا کہ اس آدمی کو جو بہت سا منافع حاصل کرنے پر قادر تھا لیکن موقع ضائع کرکے اس سے محروم ہوگیا۔
ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے نفس سے کہے: ’’آج کے دن کوشش کرکے ہر الماری کو نیک اعمال سے بھر، ایک کو بھی خالی نہ چھوڑ۔ ایسا نہ ہوکہ تیرے علیین کے درجات ضائع ہوجائیں اور دوسرے ان کو حاصل کرلیں‘‘۔
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عقل مند وہ آدمی ہے جو اپنے نفس کو اپنے تابع رکھے اور موت کے بعد کام آنے والے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کے پیچھے لگ جائے اور اللہ سے بھلائی کی امید رکھے‘‘۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’قیامت کا حساب ہونے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرو اور اعمال کا وزن ہونے سے پہلے ان کو تولو اور بڑی پیشی کے لیے تیاری کرو۔ سورہ ہاقہ میں ہے اس دن تم پیش کیے جائوگے تم سے کوئی چیز مخفی نہ رہے گی(منہاج القاصدین)
صورتیں اور وجوہات
اپنی زندگی سے سستی اور کاہلی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے یہ تشخیص کریں کہ یہ مرض کن کن صورتوں میں ہمارے معمولات میں داخل ہے۔ جین بی برکا اور لینورا ایم یو آن کی کتاب میں ان کی ایک فہرست دی گئی ہے۔ یہ فہرست آپ کو اپنی ذات کا جائزہ لینے کا موقع دے گی کہ آپ کن معاملات میں تساہل کا شکار ہیں اور کن معاملات میں مستعد۔ فہرست درج ذیل ہے:
گھریلو امور:
٭چھوٹے چھوٹے کام کاج اور مرمت کے کام، ٭مزدور اور مستری کو بلانا، ٭خراب اور غیر ضروری سامان کی واپسی، ٭گھر کے بڑے کام، ٭گاڑی کی دیکھ بھال اور مرمت، ٭ گھریلو ضروریات اور سہولیات کے بلوں کی ادائیگی، ٭سازو سامان کی خرید، ٭ بیوی بچوں کے ضروری کام کاج کرنا۔
دفتری امور:
٭دفتر وقت پر پہنچنا، ٭میٹنگ کے لیے وقت کی پابندی سے پہنچنا، ٭کاروباری فون باقاعدگی سے کرنا، ٭فیصلے کرنا، ٭ کاغذی امور بہتر طریقے سے نمٹانا، ٭ رپورٹس وغیرہ تحریر کرنا، ٭ افراد کے مسائل پر گفتگو کرنا، ٭ اچھی کارکردگی پر افراد کی حوصلہ افزائی کرنا، ٭ تخلیقی خیالات اور تجاویز کو قابل عمل بنانا، ٭ اپنے گاہکوں کو اپنے خدمات اور تجارت کے بل بھیجنا، ٭اپنے لیے تنخواہ میں اضافہ اور ترقی کے لیے بات کرنا، ٭اپنے افسر کے ساتھ معاملات پر گفتگو کے لیے میٹنگ کرنا۔
اپنی ذات کے لیے:
٭جسمانی ورزش کرنا، ٭وزن کم کرنے کے طریقے اپنانا، ٭سگریٹ یا نشہ آور چیزوں کو ترک کرنا، ٭طبی مشورے کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا، ٭حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنا، ٭بال بنانا، ٭ذاتی دلچسپی کے حوالے سے مطالعہ کرنا، ٭مشاغل اور دلچسپی کے امور کو انجام دینے کی کوشش کرنا، ٭ذاتی دلچسپی کے معاملے میں مختلف کورسز میں شرکت کرنا۔
سماجی تعلقات:
٭دوستوں سے ملاقات کرنا یا فون کرنا، ٭خط و کتابت کرنا، ٭افراد کو مدعو کرانا، ٭رشتے داروں کے ہاں ملاقات کی غرض سے جانا، ٭ رشتے داروں سے خط و کتابت یا فون پر رابطہ، ٭مختلف امور میں ہدیہ تبریک پیش کرنا، ٭تحفے اور کارڈز بھیجنا، ٭سماجی اور معاشرتی امور کے لیے وقت پر پہنچنا، ٭مدد اور استعانت کے لیے درخواست کرنا، ٭ افراد کو یہ بتانا کہ آپ غصے میں ہیں یا ناراض ہیں، ٭غیر مفید تعلقات کو ختم کرنا۔
مالیاتی امور:
٭انکم ٹیکس کے گوشوارے تاخیر سے بھرنا، ٭آمدو خرچ کا مناسب حساب رکھنا، ٭ اپنے وسائل کا بجٹ بنانا، ٭بچت کی سرمایہ کاری کرنا، ٭بینک سے گوشوارے یا دیگرمتعلقہ امور کے سلسلے میں رابطہ کرنا، ٭ مختلف قسم کے بلوں کی ادائیگی، ٭ مختلف اداروں کے قرضوں کی واپسی، ٭ذاتی قرضہ جات کی واپسی، ٭ مختلف قرض داروں سے رقم جمع کرنا اور یاد دہانی کرانا، ٭ریڈیو، ٹی وی، گاڑی اور متعلقہ واجبات ادا کرنا، ٭ اپنی چیک بک کا جائزہ لینا۔
ان کے علاوہ بھی چند امور ایسے ہیں جن کی ہمارے معاشرے کے تناظر میں بڑی اہمیت ہے:
٭معاملات میں اگر غلطی یا زیادتی ہوجائے تو معافی مانگ لینا، ٭رشتے داروں کے ساتھ مختلف تنازعات کو نمٹانا، ٭ دوستوں اور احباب سے ادھار مانگی ہوئی چیزوں کی واپسی، ٭حقوق اللہ کے معاملے میں کوتاہیوں کے سلسلے میں معافی اور توجہ، ٭افراد سے تعزیت کرنا، ٭ مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کرنا، ٭اپنے معاملات کے سہولت کے لیے دعا کرنا، ٭ احباب سے کیے گئے وعدے کو ایفا کرنا۔
تساہل کی چند مزید صورتیں:
ہماری عمومی زندگی میں تساہل چند مزید صورتوں میں آموجود ہوتا ہے، جیسے:
٭ ہمارے عمومی کام اہم کاموں کے آگے آجاتے ہیں اور ہم ترجیحات کے معاملے میں اپنی ضرورت کا خیال نہیں رکھتے۔
٭ قومی ڈسپلن کی کمی کے باعث انتہائی اہم کاموں سے فرار کے لیے ہمیں ہزاروں بہانے مل جاتے ہیں۔ ہم اپنے فرار اور ناکامی کا بوجھ خارجی وجوہات پر ڈالتے ہیں۔
٭ہم زندگی کے اپنے مقرر کردہ اہداف تک اپنی اسی قسم کی کوتاہیوں کے باعث نہیں پہنچ سکتے۔ نتیجتاً ہم ذہنی دبائو کا شکار ہوتے ہیں جس سے ہماری استعداد کار متاثر ہوتی ہے۔
٭چونکہ ہماری قومی زندگی میں بنیادی فلسفہ، تصور حیات، پالیسی، متعلقہ منصوبہ بندی اور افراد کار کے بہتر استعمال کی صلاحیت کی کمی ہے لہٰذا قومی مزاج ہنگامی اور ایڈہاک ازم کا شکار ہوگیا ہے۔ حکومتیں اور ادارے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اجتماعی قومی نقصان کو نظر اندز کرکے اہم اقدامات کرلیتے ہیں جو ان کے وجود کو تو فوری طور پر برقرار رکھ لیتے ہیں مگر بحیثیت قوم ہم اپنی بنیادوں ہی کو دائنامائیٹ کرتے ہیں۔
٭ہمارا مزاج یہ ہے کہ جس کام کے لیے کوئی آخری تاریخ ہوتی ہے، ہم اسے آخری تاریخ کو ہی کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کئی مواقع ایسے آتے ہیں جن میں اس کام کی نہ صرف منصوبہ بندی بلکہ اصل کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔
٭ہمارا مزاج اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ موسم برسات میں جب پانی جمع ہوتا ہے تو ہم پتھر رکھ کر راستہ بناتے ہیں حالانکہ اس معاملے میں انفرادی اور بلدیاتی کوششیں پہلے بھی ہوسکتی ہیں۔
٭امتحانات کے دنوں میں وقفہ کرنے کے لیے چند گھنٹے تک فلمیں دیکھ لی جاتی ہیں یا دوستوں کی محفل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ وقت چاہے چند منٹ کا ہی کیوں نہ ہو، بہت قیمتی ہے۔ ہم اخبار پڑھنے لگتے ہیں، ناول پر وقت گزار لیتے ہیں۔ اتوار کے دن گھر کے سودا سلف کی ضرورت ہوتی ہے مگر اخبارات کو سودا سلف پر ترجیح دیتے ہیں نتیجتاً گھر کے لیے بچی کچھی چیزیں آتی ہیں حالانکہ اخبارات تو سودا سلف کے بعد بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔
انگور کھٹے تھے:
ہم تساہل کے معاملے میں اپنے آپ کو مندرجہ ذیل عذرات سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ انسان عموماً اپنی غلطیوں کو تسلیم کرلینے کے باوجود اپنے آپ کو پھر بھی حق پر سمجھتا ہے۔
’’کام کرنے کے لیے مناسب سازوسامان نہیں ہے۔ تحریری کام تو عموماً نیلے رنگ کی روشنائی سے کرتے ہیں۔ میرے پاس تو سیاہ رنگ کی تھی اس لیے کام نہیں ہوسکا‘‘۔
’’منی بس میں تو جانوروں کی طرح بٹھاتے ہیں جب کہ رکشہ ٹیکسی کی ہڑتال تھی اس لیے کام نہیں ہوسکا‘‘۔
’’کافی دیر سے کام کررہا ہوں بس اب آرام کی ضرورت ہے‘‘۔
’’قوت محرکہ کی ضرورت ہے، اس کے بغیر کام نہیں کرسکتا‘‘۔
’’یہ تو ہفتے کے آخری ایام ہیں اب اس ہفتے میں کام کی ابتدا کا کیا فائدہ!‘‘۔
’’پوچھا کیوں جائے حالانکہ جواب تو ہمیں پتا ہے ’’نہ‘‘ ہی میں ہوگا‘‘۔
دو چھوٹے سے واقعات ہیں جن سے تساہل سے گریز کرنے والے ذمے دار افراد کا کردار سامنے آتا ہے۔
٭دفتر میں شام کے اوقات میں اچانک ٹیلی فون کا ایک پیغام تحریر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ وہ صاحب پنسل یا قلم ڈھونڈتے رہے، نہیں ملی۔ اب وہ پیغام سن کر یادداشت کے ذریعے دوسرے روز کہہ سکتے ہیں مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ ٹائپسٹ کی میز پر کاربن پڑا ہوا تھا۔ ردی کی ٹوکری سے کاغذ اٹھایا اور ماچس کی تیلی سے کاربن پر تحریر کیا جس کا اثر کاغذ پر آگیا۔ درحقیقت یہ ذہانت، احساس ذمہ داری اور تساہل سے گریز کی علامت ہے۔
٭ایک صاحب اپنے نئے فلیٹ میں منتقل ہوئے۔ دوسرے روز صبح سویرے اخبار والے نے دروازے پر دستک دی: ’’آپ اخبار لیں گے‘‘۔ ان صاحب نے اخبار والے سے پوچھا: ’’آپ کو پتا کیسے چلا کہ ہم رہنے کے لیے آگئے ہیں‘‘۔ جواب دیا: ’’آپ کی بالکنی میں کپڑے لٹک رہے تھے‘‘۔ ان صاحب کو اس کے اس احساس کی قدر ہوئی اور اخبارات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اخبار والا یہ بھی کرسکتا تھا کہ آج تو پہلا ہی دن ہے ’’کل‘‘ پوچھ لیں گے۔ نئے نئے آئے ہیں تھکے ہوئے ہوں گے۔ ایسی صورت میں یقینا اخبار کا سلسلہ کہیں اور سے شروع ہوجاتا۔
ہمارے یہاں یقینا اس کردار کی کمی نہیں ہے لیکن ایسا کردار بہت کم ملتا ہے۔ عملی زندگی میں تساہل سے گریز کی چند مزید صورتیں یہ ہیں:
’’ممکن ہے کہ کام کے اچھے نتائج نہ ہوں۔ مگر ذمہ داری دی گئی ہے لہٰذا پورا کرلیا جائے۔ کل کا انتظار کیوں کروں۔ آج ہی کرلوں‘‘۔
٭آج تو بہت تھکا ہوا ہوں۔ بس آدھے گھنٹے تک یہ کام کرکے اچھی نیند کرلوں گا۔
٭اوہ! آج تو ٹی وی پر میری پسند کا پروگرام ہے۔ ابھی پندرہ منٹ ہیں۔ پھر پانچ منٹ کے اشتہار۔ چلو ان بیس منٹوں میں یہ چھوٹے چھوٹے کام نمٹالوں۔
٭کام کے لیے سازوسامان نہیں۔ دیکھیں کسی اور ترکیب سے بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔
٭آج تو ہفتے کا آخری دن ہے۔ اب یہ کام اس ہفتے میں تو نہیں ہوتا۔ چلیں ابتدا تو کرلیں۔
وجوہات:
ہم تساہل کیوں کرتے ہیں۔ ہمارے اجتماعی مزاج میں تساہل کی وجوہات اور عناصر کے جائزے کی ضرورت ہے۔
٭ہمارے عمومی کام جو کہ بعض وجوہات کی بنا پر فوری نوعیت کے ہوجاتے ہیں جن کے باعث ہمارے اہم کام متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں ترجیحات متعین کرنے کا شعور نہیں ہے۔
٭تساہل کی ایک بہت بڑی وجہ ناکامی کا خوف ہے۔ ہم دوسروں کے سامنے شرمندہ ہونے کے خوف سے اپنے اہم امور کو ٹالتے ہیں۔ ایسی ہی مثال ہے کہ کسی طالب علم نے یہ سوچ لیا ہو کہ اسے میٹرک کے امتحان میں پہلی پوزیشن لینی ہے۔ بس یہ خوف کہ وہ امتحان کی ایسی تیاری نہیں کرسکا لہٰذا پہلی پوزیشن نہیں آسکتی۔ نتیجتاً وہ امتحان ہی نہ دے۔ یہ خوف تو ہمیں تباہ کردے گا۔ زندگی تو ایک عظیم مقابلہ ہے جس میں کروڑوں افراد ہم سے بہتر ہیں اور ہم کروڑوں افراد سے بہتر ہیں۔ مقابلے سے فرار کیوں اختیار کریں۔ اتنی تو جرأت ہونی چاہیے کہ ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرلیں۔ کامیاب فرد کو مبارکباد دے دیں۔ پھر اتنا حوصلہ بھی ہونا چاہیے کہ ہم اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں اور صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں۔
٭اپنے بارے میں بہت اعلیٰ تصور قائم کرلینا اور کام اس لحاظ سے ملتوی کرنا کہ اس تصور سے اس کا تناسب نہیں۔
٭اپنے آپ کو فرشتہ صفت انسان سمجھنا اور غلطیوں سے مبرا محسوس کرنا۔ بغیر غلطیوں کے کام کرنے کا عزم رکھنا۔ اس صورت میں تو پھر آپ کوئی بھی کام نہیں کرسکیں گے۔
٭ہم ہر کام خود کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ناگزیر ہیں۔ جب تک کام خود نہیںکریں گے، کام نہیں ہوگا۔ یہ تصور غلط ہے۔ ہمیں اپنے ماتحت افراد کو تیار کرنا ہوگا۔ ہم اپنے اداروں کے معاملے میں اداروں اور اپنے ساتھیوں کے مقروض ہیں۔ تربیت ہی یہ قرض ادا کراسکتی ہے۔
٭غصہ اور ناراضگی کا اظہار پشیمانی پیدا کرتا ہے۔ پھر ہم احساس ندامت کے باعث کم از کم اس دن اور اس فرد کے لیے کام کرنے سے عاجز ہوجاتے ہیں۔
٭صلاحیتوں کی کمی بھی تساہل پیدا کرتی ہے۔ اپنی صلاحیتوں اور ادارے کی ضروریات میں توازن ہونا چاہیے۔
٭جب پہیہ ایجاد ہوچکا ہے تو اس سے فائدہ اٹھایئے۔اپنے طور پر اس پہیے کو بنانے کے لیے تحقیق میں وقت صرف مت کیجیے۔ جو کام ہوچکے ہیں انھیں رد مت کیجیے بلکہ بھرپور فائدہ اٹھایئے۔
٭تساہل کی بہت بڑی وجہ جس کا شعور ہوجائے تو ہم اس عادت کا علاج بھی کرسکیں گے۔ وہ زندگی کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شعور، وقت ہی کو زندگی سمجھنا اور اس معاملے میں خوف خدا رکھنا اور آخرت میں جواب دہی کا احساس رکھنا کہ یقینا ہم سے، ہمارے وقت کا، ہماری صلاحیتوں کا، ہمارے مال و دولت کا، ہمارے اہل و عیال کا ضرور سوال ہوگا۔ اس احساس کے ساتھ دیکھیے زندگی کتنی آسان ہوجاتی ہے۔

حصہ