علامہ محمد اقبال
اے روحِ محمدؐ
شیرازہ ہوا ملتِ مرحوم کا ابتر
اب تُو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!
وہ لذتِ آشوب نہیں بحرِ عرب میں
پوشیدہ ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے!
ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد
اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے!
اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدؐ!
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے!
فیض احمد فیض
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا
مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
و ہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن ، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
اُ دھر ایک حرف کے کشتنی ، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو ہنس کے اُڑا دیا ، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار، ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا
چراغ حسن حسرتؔ
آؤ حُسنِ یار کی باتیں کریں
زُلف کی رخسار کی باتیں کریں
زُلفِ عنبر بار کے قصے سنائیں
طرۂ طرار کی باتیں کریں
پھول برسائیں بساطِ عیش پر
روز وصلِ یار کی باتیں کریں
نقدِ جاں لے کر چلیں اس بزم میں
مصر کے بازار کی باتیں کریں
اُن کے کوچے میں جو گزری ہے کہیں
سایۂ دیوار کی باتیں کریں
آخری ساعت شبِ رخصت کی ہے
آؤ اب تو پیار کی باتیں کریں
ناصر کاظمی
کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچہ دلبر ہی لے چلیں
یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
مجید امجد
روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول ارغواں گُلاب کے پھول
افق افق پہ زمانوں کی دھند سے ابھرے
طیور، نغمے، ندی، تتلیاں، گلاب کے پھول
کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروسِ گُل بہ قبائے جہاں، گلاب کے پھول
جہانِ گریۂ شبنم سے کس غرور کے ساتھ
گزر رہے ہیں، تبسّم کناں، گلاب کے پھول
یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ ردائے بہار
یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول
کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز
گندھے ہوئے بہ خمِ گیسواں، گلاب کے پھول
خیالِ یار، ترے سلسلے نشوں کی رُتیں
جمالِ یار، تری جھلکیاں گلاب کے پھول
مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دِلوں کا دھواں، گلاب کے پھول
سلگتے جاتے ہیں چُپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرۂ پیغمبراں گلاب کے پھول
یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں باہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
منیر نیازی
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اِک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اِک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اِک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
شہزاد احمد
جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو
میں پیمبر تو نہیں میرا کہا کیسے ہو
دل کے ہر ذرے پہ ہے نقش محبت اس کی
نور آنکھوں کا ہے آنکھوں سے جدا کیسے ہو
جس کو جانا ہی نہیں اس کو خدا کیوں مانیں
اور جسے جان چکے ہیں وہ خدا کیسے ہو
عمر ساری تو اندھیرے میں نہیں کٹ سکتی
ہم اگر دل نہ جلائیں تو ضیا کیسے ہو
جس سے دو روز بھی کھل کر نہ ملاقات ہوئی
مدتوں بعد ملے بھی تو گلا کیسے ہو
دور سے دیکھ کے میں نے اسے پہچان لیا
اُس نے اتنا بھی نہیں مجھ سے کہا کیسے ہو
وہ بھی اک دور تھا جب میں نے تجھے چاہا تھا
دل کا دروازہ ہے ہر وقت کھلا کیسے ہو
جب کوئی داد وفا چاہنے والا نہ رہا
کون انصاف کرے حشر بپا کیسے ہو
آئینے میں بھی نظر آتی ہے صورت تیری
کوئی مقصود نظر تیرے سوا کیسے ہو
کن نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہوں شہزادؔ
مجھ کو معلوم نہیں اس کو پتا کیسے ہو
نظر فاطمی
ہم اپنی محبت کا اثر دیکھ رہے ہیں
بے تاب بہت ان کی نظر دیکھ رہے ہیں
افتاد پڑی کیسی، بھلا صحن چمن میں!!!
بکھرے ہوئے سب برگ و ثمر دیکھ رہے ہیں
کل تک تھا وہی جلوۂ فگن بزم طرب میں
ہم آج جسے خاک بسر دیکھ رہے ہیں
بدلے ہوئے اس رنگ میں پایا ہے تمہیں آج
پلکوں پہ جو اشکوں کے گہر دیکھ رہے ہیں
دلکش تو بہت ہوتے ہیں، یہ وصل کے لمحات
کیوں آپ اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں
وہ جلوۂ فگن آج ہوئے ہیں سر محفل
’’ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں‘‘
وہ لوگ جو کل تک تھے دل و جان ہمارے
آنکھوں میں نظر ان کی شر دیکھ رہے ہیں
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
مرزا غالب